وزیراعظم عمران خان نے دنیا بھر کے لوگوں کو باور کروا دیا کہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشمیر کا مسئلہ فلیش پوائنٹ‘ یعنی دھماکہ خیز حیثیت حاصل کر چکا ۔ صدر ٹرمپ نے عمران خان کی مذکورہ بات سے اتفاق کر لیا اور کشمیر کی صورتحال کو دھماکہ خیز قرار دے دیا۔ انڈین وزیر دفاع کی ایٹمی دھمکی نے بھی عمران خان کے موقف کو تقویت سے ہمکنار کر دیا؛ چنانچہ گزشتہ چند دنوں میں صدر ٹرمپ نے ایک بار نریندر مودی سے اور دو بار عمران خان سے کشمیر کے مسئلہ پر بات کی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا؛ ٹرمپ ہماری امید سے زیادہ ہمارے موقف کی حمایت کر رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ 24اگست کو نریندر مودی سے کشمیر کے مسئلہ پر فرانس میں بھی بات کریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت عالمی سطح پر سب سے بڑا مسئلہ کشمیر بن چکا۔ حکومت ِ پاکستان اس پر خراجِ تحسین کی مستحق ہے۔ اس موقعے پر میں نے بھی انسانیت کی بھلائی کی خاطر اپنا حصہ ڈالنے کا پروگرام بنایا‘ کیونکہ ایٹمی لڑائی تو دنیا بھر کی انسانیت کی تباہی ہے؛ چنانچہ میں نے صدر ٹرمپ ‘وزیراعظم عمران خان اور نریندر مودی سے تصوراتی(سائنسی) رابطہ کرنا شروع کر دیا۔
صدر ٹرمپ سے میرا رابطہ ہوا تو میں نے ان سے عرض کرتے ہوئے کہا؛ اللہ تعالیٰ کی زمین پر آپ کا ملک سپر پاور ہے‘ اسی طرح خلائی تسخیر میں بھی آپ کا ادارہ ''ناسا‘‘ دنیا کے تمام خلائی اداروں میں سپر ادارہ ہے۔ 20مارچ 2019ء کو اس ادارے کے 14سائنسدانوں نے ایک سائنسی سفر کیا ہے۔ درجنوں دیگر سائنسدانوں نے اس سفر کی تیاری میں تعاون کیا ہے۔ اس سفر کو (A JOURNEY TO THE END OF TIME)کا نام دیا گیا ہے۔ آپ تھوڑا سا ٹائم اس سفر کے لیے نکالیں۔ جناب عمران خان اور نریندر مودی کو ہمراہ لے لیں۔ مجھے امید ہے کہ اس سفر سے کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔ اگر مجھے بھی اس سائنسی سفر میں اپنی ہمراہی کا موقع دے دیں تو میری شرکت سے بھی انشاء اللہ تعالیٰ فائدہ ہو گا۔ قارئین کرام! صدر ٹرمپ کا شکریہ کہ انہوں نے میری گزارش کو قبول کر لیا؛ چنانچہ ہم چاروں ایک سائنسی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ اس گاڑی کی رفتار روشنی کی رفتار سے زیادہ تھی‘ مگر وقت کی رفتار سے قدرے کم تھی۔ فیصلہ یہ ہوا کہ پائلٹ میری ہدایات کے مطابق چلے گا؛ چنانچہ میں نے پائلٹ سے کہا: واشنگٹن سے سیدھے سرینگر چلو اور شہر سے اوپر 300 میٹر بلندی پر ذرا ٹھہرو۔ اب میں نے تینوں سربراہوں سے گزارش کی کہ سرینگر اور ارد گرد کی بستیوں میں اہل ِکشمیر کا حال دیکھیں۔ ہم چاروں نے دوربین سے دیکھنا شروع کیا تو ہر طرف انڈین فوج کا ظلم نظر آیا۔ آر ایس ایس کے مسلح کارندے بھی نظر آئے۔ ان کے ہاتھوں میں نیزے اور ترشول تھے۔ کشمیری بعض جگہوں پر ہاتھوں میں پتھر اٹھائے احتجاج کرتے نظر آئے۔ نوجوانوں کی گرفتاریاں دھڑا دھڑ نظر آئیں۔ بچے دودھ اور خوراک کو ترستے اورر وتے دکھائی دیئے۔ خواتین کی چیخ و پکار سنی نہ جاتی تھی۔ زخمیوں کا بہتا خون دیکھا نہ جاتا تھا۔ بہت سارے لوگوں کی آنکھوں پر پٹیاں تھیں‘ وہ بینائی کے خطرے سے دوچار تھے۔ عمران خان نے یہ مناظر دیکھے تو ان کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔ آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات کا آغاز ہوا۔ ہچکیاں لینے لگ گئے۔ صدر ٹرمپ کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے وہ عمران خان کو دلاسا دینے لگ گئے۔ نریندر مودی نے آنکھوں پر دونوں ہاتھ رکھے اور شرمندہ ہو کر سر نیچے جھکا لیا۔ میں نے پائلٹ کو پرواز کا کہا۔ اب ہم مقبوضہ کشمیر سے دس کلو میٹر اوپر تھے۔ یہاں سے ہم چاروں نے نیچے دیکھا تو یہاں سے سرینگر شہر اور وادی کے تمام شہر نکتے دکھائی دیئے۔ میں نے کہا :ان نکتوں کی خاطر کشمیری انساینت پر ظلم ختم ہونا چاہیے۔ نریندر مودی نے سر شرم سے پھر جھکا لیا۔ ٹرمپ اور عمران خان نے مودی کو دیکھا تو ایک معنی خیز مسکراہٹ کا آپس میں تبادلہ کیا۔ اب ہم 100کلو میٹر اوپر تھے۔ یہاں ہندوستان‘ پاکستان اور بنگلہ دیش دیکھے جا رہے تھے۔ پانچ سو کلو میٹر اوپر گئے تو یہاں امریکہ‘ یورپ‘ ایشیا‘ افریقہ اور آسٹریلیا کے براعظم دیکھے جا سکتے تھے۔ ممالک نظر نہیں آ رہے تھے۔ میں نے تینوں سے کہا: جن ملکوں کے آپ سربراہ ہو۔ اب آپ ان ملکوں کو دیکھ نہیں سکتے۔ یہ آپ کی سربراہی کی بے بسی اور بے کسی ہے۔ عمران خان نے فوراً ''اللہ اکبر اور سبحان اللہ‘‘ کہا۔ ٹرمپ نے "GOD IS GREAT"کہا۔ مودی نے ''جے ہند‘‘ کہا اور ہم سب کی ہنسی چھوٹ گئی۔ ٹرمپ نے کہا: مسٹر مودی! یہاں ہند کہاں نظر آیا۔ ذرا مجھے دکھاؤ؟ مودی نے ٹھنڈی آہ بھری اور سر کو دونوں گھٹنوں میں چھپا لیا۔
قارئین کرام! اب ہم ایک لاکھ کلو میٹر اوپر پہنچ گئے ہیں۔ یہاں زمین چھوٹا سا گیند دکھائی دے رہی ہے۔ ایک ملین‘ یعنی دس لاکھ کلو میٹر کے فاصلے پر زمین ایک نکتہ نظر آنے لگی ہے۔ دس ملین کلو میٹر کے فاصلے پر اپنے مدار میں زمین باریک ترین نکتہ دکھائی دیتی ہے۔ میں نے تینوں سے کہا: اس نکتے میں اپنے ملک اور اپنا اقتدار دیکھ لو۔ یہ نکتہ بھی غائب ہونے والا ہے اور پھر 100ملین کلو میٹر پر یہ نکتہ بھی غائب ہو گیا۔ عمران خان سے رہا نہ گیا فوراً بولے: اتنی دور سے کوئی ہٹلر ظلم کی ہدایات کیسے دے گا۔ ایٹمی بٹن کیسے چلائے گا۔ میں نے کہا: وقت آنے والا ہے‘ ہر ظالم اس سے بھی کہیں دور اپنے خالق کے سامنے کھڑا ہو کر ہر انسان پر کیسے ظلم کا جواب دینے والا ہے۔ ٹرمپ نے عمران خان کو ہاتھ کے اشارے سے صبر کرنے کو کہا اور مجھے ذرا گھور کر دیکھا۔ میں نے بات بدلتے ہوئے فوراً کہا: لو جی! اس وقت ہم ایک بلین کلو میٹر کے فاصلے پر ہیں‘ یہاں نظام شمسی کے 9سیاروں کے صرف مدار دکھائی دیتے ہیں۔ صرف ایک چھوٹی سی گیند کی شکل میں سورج نظر آ رہا ہے۔ لیجئے! اب ہم ایک ٹریلین ‘یعنی ایک ہزار ارب کلو میٹر اوپر چلے گئے ہیں۔ یہاں ہم آسمان کی ایسی وسعت میں پہنچ گئے ہیں کہ یہاں بے شمار سورج ہیں اور ان میں ہمارا سورج بھی ایک نکتہ دکھائی دے رہا ہے۔ کلو میٹرز کا پیمانہ اب ختم ہوا۔ آگے نوری سال کا پیمانہ چلے گا۔ اس پر عمران خان پھر بولے: ٹرمپ صاحب! مسٹر مودی کو یہاں اتار دو۔ ہمارے اہل زمین کو ایٹمی حملے سے نہ ڈرائے یہاں سورجوں کی جتنی زمینوں پر چاہے قبضہ کر لے۔ مودی نے کہا: میں یہاں اکیلا کیا کروں گا؟ ٹرمپ بولے: زمین پر بھی اکیلے ہی ہو۔ نہ تمہاری بیوی ہے اور نہ اولاد ہے۔ مودی بولے: اور انسان تو ہیں نا؟----میںبولا: پھر کشمیر اور ہند کے انسانوں کی قدر کرو۔ مودی کچھ بولنے لگے کہ اتنی دیر میں ٹرمپ بول پڑے‘ کہنے لگے: امیر حمزہ! چپ رہو۔ صرف کمنٹری کرو۔ میں نے کہا: جی سر۔
ایک نوری سال کا فاصلہ طے کر کے آگے ہم دس نوری سال کی مسافت پر پہنچے تو نظام شمسی ہمارا غائب ہو گیا۔ اب تو اس سے کہیں بڑے بڑے بے شمار شمسی نظاموں سے آسمان بھرا پڑا تھا۔ عجب خوبصورت منظر تھا۔ بہرحال! دیکھتے ہی دیکھتے ہم ایک سو نوری سال کا فاصلہ طے کرتے ہوئے جب ایک ہزار نوری برسوں کا فاصلہ طے کر چکے تو حیران تھے کہ ہم تو ابھی اپنی ملکی وے کہکشاں کے اندر ہی ہیں؛ البتہ یہاں سے ملکی وے کا بارڈر دیکھا جا سکتا ہے۔ دس لاکھ نوری برسوں سے ہم نے دیکھا کہ ملکی وے اور دوسری گلیکسیوں کو ہم دیکھ رہے ہیں۔ دس ملین نوری برسوں کے فاصلے سے بے شمار گلیکسیاں چھوٹے چھوٹے نکتے دکھائی دیتے تھے۔ ہم چاروں یہ مناظر دیکھ کر اپنے خالق کی تعریف کر رہے تھے۔ عمران خان پھر بولے: انسان ہمارے خالق و مالک کا شاہکار ہے۔ ہمیں پورے سفر میں کہیں انسان نظر نہیں آیا۔ زمین کے سات ارب انسان کس قدر قیمتی ہیں۔ صدر ٹرمپ نے عمران خان کی ہاں میں ہاں ملا کر کہا: میرا ضمیر مجھے جھنجھوڑ رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر اور جموں کے انسان کو اس حق سے ہمیں محروم نہیں رکھنا چاہیے۔ نریندر مودی سوچ میں پڑ گئے۔ قارئین کرام! اب ہمارا سفر بہت تیز ہو گیا تھا۔ اتنا تیز کہ ٹائم کی رفتار کے قریب پہنچ گیا تھا۔ یہاں مجھے ''ناسا‘‘ کے ایک سائنسدان کی بات یاد آ گئی جو یہ سفر کر چکا۔ اس نے کہا: ایک مقام پر کائنات اس طرح نظر آتی ہے‘ جیسے ماں میں پیٹ میں بچہ ہو۔ اس پر پھر عمران خان بولے؛ جس خالق نے یہ کائنات بنائی‘ اسی نے ماں کے پیٹ میں بچہ بنایا۔ اور اب کائنات ایسی ہی اس مقام پر نظر آ رہی تھی۔ صدر ٹرمپ نے کہا؛ مجھے کشمیر کے دودھ پیتے بچے یاد آ رہے ہیں۔ مسٹر مودی! ان کا خیال کرو۔ کرفیو ختم کرو۔ عمران خان بولے؛ ان کا حق دو۔ مودی سر ہلا کر خاموش ہو گئے۔
ہم آگے بڑھے تو ایک ایسے بلیک ہول کے سامنے آ گئے کہ جو اربوں کھربوں گلیکسیوں کو اپنے اندر لقمہ بنا کر عدم سے دوچار کر دیتا ہے۔ ہم بھی اس میں جا داخل ہوئے۔ یہاں ٹائم ختم ہو گیا۔ ہم جھٹ سے اس کے اگلے کنارے پر چلے گئے‘ پھر ہم نے عجب منظر دیکھا کہ یہ بلیک ہول بھی ختم ہو گیا۔ ہر جانب اندھیرا تھا۔ ٹھنڈ تھی۔ نریندر مودی موت کے ڈر سے رونے لگ گئے۔ عمران خان نے کہا: ''لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ پڑھ لو۔ مر گئے تو سیدھے جنت میں چلے جاؤ گے۔ ڈرتے کیوں ہو؟ یہاں ڈارک انرجی کا تھوڑا سا نظارہ ہوا۔ یہ اندھیرا ہمیں نظر آتا ہے۔ اصل میں یہ انتہائی حسین و جمیل رنگا رنگا متبادل کائناتیں ہیں۔ ناسا کے سائنسدانوں نے یہاں سے پیغام دیا تھا (PEACE AND LOVE) میں نے یہ پیغام یہاں سنا دیا اور کہا کہ حضرت محمد کریمؐ رحمۃ للعالمین ہیں۔ آپ جب چاند کو دیکھتے تو اللہ رحمان سے عرض کرتے: اے اللہ! اس چاند کو ہم پر امن‘ ایمان اور سلامتی و اسلام کے ساتھ روش کر۔ اے چاند میرا اور تیرا رب ‘اللہ ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑ کا پیغام بھی امن ہے۔ سچے سادھو کا دھرم بھی امن ہے۔ نریندر مودی نے وعدہ کیا کہ میں امن کیلئے کام کروں گا۔ حقدار کو اس کا حق ادا کروں گا۔ ٹرمپ نے کہا: میں ضامن ہو۔ عمران خان نے کہا :میں خوش ہوں۔ ہم واپس آ گئے ہیں۔ واشنگٹن میں ناسا کے سائنسدانوں نے استقبال کیا اور نعرہ لگایا۔ ''امن اور محبت‘‘۔ عمران خان نے کہا: زندہ باد!