آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک چین ہے۔ دوسرے نمبرپر انڈیا ہے‘ جس کی آبادی کوئی ایک ارب 35 کروڑ ہے۔ اب‘ چونکہ چین ایک جمہوری ملک نہیں ہے‘ جبکہ انڈیا میں پچھلے 72سال سے تسلسل کے ساتھ انتخابی جمہوری نظام قائم چلا آ رہا ہے۔ اس لحاظ سے انڈیا اپنے آپ کو دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک قرار دیتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل میں واہگہ بارڈر پر جھنڈا اتارنے کی تقریب دیکھنے گیا تو وہاں دیکھا کہ انڈیا نے اپنے علاقے میں ایک بڑا سا بورڈ لگا رکھا تھا‘ جس پر اس نے لکھ رکھا تھا ''دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک‘‘ مذکورہ بورڈ اس نے ہر اس جگہ پر لگا رکھا ہے‘ جہاں سے غیر ملکی لوگ انڈیا میں داخل ہوتے ہیں۔ ہوائی اڈہو‘ سمندری بندر گاہو یا زمینی گزرگاہ ہو‘ پر اس نے مذکورہ سلوگن کے ساتھ اپنا تعارف کروا رکھا ہے۔ دنیا بھر میں اس کے سفارتخانے کے لوگ بھی لٹریچر اور تقریبات کے اندر مذکورہ دعویٰ پیش کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اور یہ کام کرتے ہوئے انہیں پون صدی ہو چکی ہے۔ جمہوری سیاسی نظام کا اوّلین تقاضا ریاست میں بسنے والے تمام انسانوں کے انسانی حقوق کا تحفظ ہے۔ انڈیا نے اس مقصد کی خاطر انڈیا کو سیکولر ملک قرار دیا‘ یعنی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ میں ہندوؤں کی نچلی ذاتوں‘ مسلمانوں‘ سکھوں اور مسیحیوں وغیرہ کو بلاامتیاز انسانی میرٹ کی اساس پر تمام حقوق بغیر کسی تعصب کے حاصل ہیں۔ مذکورہ دعوے کو انہوں نے اپنے آئین کا بھی حصہ بنا دیا اور پھر دنیا بھر میں اس کا پراپیگنڈہ شروع کر دیا۔ اس پراپیگنڈے کی عملی دلیل بھی انہوں نے فراہم کر دی۔ ہندوستان کا سب سے بڑا عہدہ صدر کا ہے۔ انہوں نے اپنے بعد سب سے اکثریت 30کروڑ کے قریب مسلمانوں میں سے ذاکر حسین‘ فخر الدین احمد‘ محمد ہدایت اللہ اور عبدالکلام کو صدر بنا دیا۔ ایک سکھ گیانی ذیل سنگھ کو بھی صدر بنا دیا۔ کانگریس نے تو ایک سکھ منموہن سنگھ کو وزیراعظم بھی بنا دیا۔ اندرا گاندھی کے زمانے میں اور اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوں کا جو قتل عام ہوا اور زندہ جلا دیئے گئے۔ اس کے بعد ضروری ہو گیا تھا کہ ایک بے ضرر سے شریف النفس سکھ کو وزیراعظم بنا کر سکھوں کے زخموں پر مرہم رکھا جائے‘ یعنی کانگریس کے ہندو حکمران مسلمانوں سکھوں اور عیسائیوں کو مارتے بھی تھے۔ فسادات بھی ہوتے تھے۔ ان کے حقوق غصب بھی ہوتے تھے ‘مگر اس کے ساتھ ہلکی پھلکی مرہم پٹی بھی کر دیا کرتے تھے۔ وہ دنیا بھر کو اپنا سیکولر چہرہ ہی دکھاتے تھے۔ کہیں سے کوئی زخم سامنے آ جاتے تو وہ یہی کہتے کہ مختلف مذاہب کا اتنا بڑا ملک ہے۔ واقعات ہو جاتے ہیں‘ مگر وہاں تو مسلمان اور سکھ حکمران بھی بنتے ہیں؛ حالانکہ صدر صرف ایک آئینی اور نمائشی عہدہ رکھتا ہے ۔بہرحال‘ انہوں نے اس کو ڈھال بنا رکھا تھا۔ جی ہاں! جیسا بھی یہ نظام تھا ہمیں بھی کسی حد تک قابل قبول تھا‘ لہٰذا حکومت پاکستان بھی اس پر دنیا کو انڈیا کا اصل چہرہ دکھانے میں تساہل سے کام لیتی رہی۔ کشمیر کے مسئلے کو بھی جارحانہ سفارتکاری کے ساتھ پیش نہ کر سکے۔ یوں چالاک بنیے نے اپنا چہرہ ایسا بنا لیا کہ امریکہ‘ یورپ اور عرب و عجم کے لوگ انڈیا کو ایک ایسا جمہوری ملک سمجھنے لگ گئے جیسا کہ یورپ کے جمہوری معاشروں میں انسانی قدروں کے وقار کا خیال اوّلین ترجیح ہوتی ہے۔
آر ایس ایس ''راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ‘‘ کی بنیاد 1925ء میں رکھ دی گئی تھی۔ جب پاکستان اور انڈیا معرضِ وجود میں آئے‘اس کی عمر 23سال تھی۔ یہ تنظیم اپنے لڑکپن میں بھی شدھی کے نام سے تحریک چلا چکی تھی‘ جس کا مطلب تھا کہ ہندوستان کو دوسرے مذاہب سے شدھ یعنی پاک کرنا ہے‘ پھر جب مہاتما گاندھی جیسے مذہبی اور سیاسی ہندو لیڈر نے نہرو پر زور دے کر پاکستان کا روکا ہوا پیسہ لیاقت علی خان شہید ؒ کو واپس دلوایا تو آر ایس ایس کے کارکن نے مہاتما گاندھی کو اس جرم کی پاداش میں قتل کر دیا۔ کانگریس اس پر خاموش رہی۔ آر ایس ایس نے جوانی میں یہ حملہ کیا۔ آر ایس ایس نے قائداعظم ؒ پر بھی قاتلانہ حملے کا پروگرام بنایا تھا کہ کراچی میں جب وہ پاکستان کے پہلے سربراہ کے طور پر کھلی جیپ میں عوام کے درمیان سے گزریں گے تو وہ ان پر حملہ کریں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا انعام تھا کہ قائداعظمؒ پر حملہ کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ نے ایسی دہشت طاری کی کہ وہ حملہ نہ کر سکے۔ بہرحال‘ آر ایس ایس ہندوستان میں مسلمانوں‘ سکھوں اور عیسائیوں پر حملے کرتی رہی۔ ان کی عبادتگاہوں کو مندروں میں تبدیل کرتی رہی۔ کانگریس معمولی رشک شوئی کرتی رہی۔ یہ آگے بڑھتے رہے۔ عسکری تربیت حاصل کرتے رہے۔ دہشت گردی کرتے رہے۔ بابری مسجد اور دیگر سینکڑوں مسجدیں شہید کرتے رہے۔ آسٹریلیا کے ڈاکٹر ٹیموتھی ‘جیسے مسیحا کو ان کے سات سالہ معصوم بچے سمیت گاڑی میں جلا کر خوش ہوتے رہے۔ کانگریس چشم پوشی کرتی رہی۔ نہ ان کو دہشت گرد قرار دیا۔ نہ ان کو کالعدم قرار دیا۔ نہ ان کے اثاثے منجمد قرار دیئے۔ انہوں نے اپنا سیاسی ونگ بھارتیہ جنتا پارٹی بنا رکھا تھا۔ واجپائی اس دور میں وزیراعظم بنے۔ مودی نے گجرات میں وزیراعلیٰ کی حیثیت سے مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ دو ہزار کو زندہ جلا دیا‘ اسی بنیاد پر وہ ہندوستان کا وزیراعظم بن گیا۔یوں بھارت بھر میں اقلیتوں پر زمین تنگ ہوتی چلی گئی۔ ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم نے ان کا حقیقی چہرہ دنیا کو نہیں دکھلایا۔ ہم اپنے آپ کو دھوکہ دے کر جھوٹی امیدیں ہی لگاتے رہے کہ مسائل اپنی جگہ پر ہی رہیں گے اور ہم مناسب وقت پر حل کر لیں گے‘ مگر ہوا یہ ہے کہ آر ایس ایس اب 85سالہ پاپی دہشت گرد بن گیا ہے۔
نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ آر ایس ایس کے عسکری شعبے کے تربیت یافتہ دہشت گردوں کی تعداد چھ لاکھ تک پہنچ چکی ہے‘ یعنی جتنی تعداد پاک فوج کے ہمارے شیر دل جوانوں کی ہے تقریباً اتنی ہی تعداد میں موجودہ انڈین حکمرانی کے سول دہشت گردوں کی ہے‘ جنہیں اعلانیہ طورپر سٹیٹ کی مکمل حمایت اور مدد حاصل ہے۔ غور فرمائیے‘ قارئین کرام! دنیا کے سب سے بڑے نام نہاد جمہوری اور سیکولر ملک کا سربراہ نریندر مودی ہے‘ جس کے ہاتھ اقلیتوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ وہ برہمچاری ہے ‘یعنی آر ایس ایس کا تربیت یافتہ عسکری جنگجو ہے۔ نہ اس کی بیوی ہے۔ نہ بچے ہیں۔ وہ وقف شدہ ہندو برہمچاری ہے۔ وہ وزیراعظم ہے۔ ہندوستان میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست اتر پردیش (UP) ہے۔ اس ریاست کی آبادی پاکستان کی آبادی کے برابر 20یا 22کروڑ کے قریب ہے۔ اس کا وزیراعلیٰ مندر کا پروہت ہے۔ آدتیہ ناتھ کی نگرانی میں آر ایس ایس کے تربیت یافتہ دہشت گرد پورے صوبے میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ناک میں دم کیے ہوئے ہیں۔ مسلمان عورتوں کو اٹھا کر زبردستی ہندوؤں کے ساتھ شادیاں کرتے ہیں۔ شری رام کے نعرے جبر کے ساتھ مسلمانوں سے لگواتے ہیں ‘جو نہ لگائے اسی طرح سرعام پیٹتے ہیں۔ ہڈیاں اور دانت توڑتے ہیں ‘جس طرح مکہ کے بازاروں میں حضرت بلالؓ اور دیگر کمزور مسلمانوں کو مارا پیٹا جاتا تھا۔ یہ ہے آج کا ہندوستان۔ اس میں سب سے مشکل وقت اہلِ کشمیر پر ہے۔
1947ء میں جب جموں کی مسلمان اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا گیا تھا کہ ہندو راجہ کی فوج کے ساتھ آر ایس ایس کے دہشت گرد بھی شامل تھے۔ اڑھائی لاکھ مسلمان قتل ہو گئے۔ اس سے زیادہ تعداد میں سیالکوٹ اور گرد و نواح میں مہاجر بن کر آ گئے۔ آج مقبوضہ وادی میں یہی پروگرام ہے۔ کرفیو کوو ہاں مہینہ ہونے کو ہے۔ ہمارے پاس وقت زیادہ نہیں ہے۔ جس طرح ہٹلر منتخب ہو کر فرعون بنا تھا‘ اسی طرح آج مودی منتخب ہو کر ہٹلر اور فرعون بن چکا ہے۔
میں نے آج سے تقریباً 20سال پہلے کتاب لکھی۔ نام اس کا ''ہندو کا ہمدرد‘‘ رکھا۔ دعوتی کتاب ہے ‘مگر اس میں رامائن‘ مہا بھارت ہندوؤں کے معبودوں اور آر ایس ایس کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں؛ میں اہل کشمیر کا سفیر ہوں۔ وہ آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی بھی بیان کرتے ہیں۔ ہر سفارتخانے میں کشمیر ڈیسک بھی بنا دیا گیا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ دنیا اہل کشمیر کے ساتھ کھڑی ہو رہی ہے۔ میرا مشورہ اور گزارش یہ ہے کہ اس کام کو اور تیز کیا جائے۔ آر ایس ایس کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے رکھا جائے کہ وہاں اب نہ جمہوریت ہے اور نہ سیکولر ازم ہے‘ بلکہ نازی ازم اور فرعونیت ہے۔ جب ہم فرعونیت کا لفظ بولتے ہیں تو اسرائیل کو بھی اک پیغام دیتے ہیں کہ ہم تو فرعونیت بول کر مصر میں غلام اسرائیلیوں کے ساتھ آج بھی ہمدردی اور حمایت کا عزم کرتے ہیں اور یہ ہمارا عقیدہ اور ایمان ہے کہ قرآن ہمیں اس کا حکم دیتا ہے‘ مگر تم انڈیا کے ساتھ مل کر غلام کشمیریوں کے ساتھ کیا کر رہے ہو۔ یقینا آج کے فرعون کا ساتھ دے رہے ہو۔ الغرض! دنیا کی کس قوم کو کیسے پیغام دینا ہے کہ مودی ہٹلر اور فرعون ہے بابا۔ اس پر تفصیل پھر سہی۔