امریکہ کے صدر کلنٹن کی صدارت کے صرف چھ مہینے باقی رہ گئے تھے کہ ''نیشنل ہیومین جینوم ریسرچ انسٹیٹیوٹ‘‘ کے ڈائریکٹر فرانسس کولنز اور ادارے کے دیگر سائنسدانوں نے ایک اہم ترین سائنسی خوشخبری سنائی۔ انہوں نے کہا؛ ہم نے انسانی جین پر لگا ہوا تالہ کھول لیا ہے۔ وہاں کی زبان پڑھنے میں ایک حد تک کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ اتنی بڑی کامیابی تھی کہ صدر کلنٹن نے سائنس دانوں سے کہا کہ اس کامیابی کا اعلان وائٹ ہاؤس میں ہوگا؛ چنانچہ پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ۔فرانسیس کولنز نے جارج بیڈل کی زبان میں کہا:
DNA code has revealed a language as old as life itself, A language that is the most living language of all.
ڈی این اے کوڈ نے ایک ایسی زبان کا انکشاف کیا ہے کہ جو اس قدر پرانی زبان ہے کہ جس قدر زندگی پرانی ہے۔ ایسی زبان جو انتہائی زندہ زبان ہے اور سب کی ہے۔ قارئین کرام! فرانسس کولنز نے جینوم پر لکھی ہوئی تحریر کو (BOOK OF LIFE) بھی کہا اور اسے ایک درسی کتاب بھی کہا۔ ایک ایسی کتاب کہ جسے لکھنے والے نے مکمل ارادے (پروگرام) کے تحت لکھا ہے۔ یہ تحریر وقت کے ذریعے انسانی جینوم میں سفر کرتی رہی۔ اس میں ایک پیغام ہے اور اس پیغام کا مقصد یہ تھا کہ اسے پڑھا جائے۔ اس پیغام کی تفسیر کی جائے ‘مگر اس پیغام کا مصنف کون ہے؟۔
جی ہاں! جب مصنف کا سوال سامنے آیا تو فرانسس کولنز نے وہائٹ ہاؤس کے اس سائنسی ایوینٹ میں فوراً جواب دیا:
"Our own instruction book previously known only to God."
(وہ اللہ ہے‘ جو جینوم پر لکھی ہوئی تحریر سے بھی پہلے سب کچھ جانتا ہے)۔ قارئین کرام! اس پر اس وقت کے امریکی صدر کلنٹن نے سائنسدانوں کی تعریف کی اور کہا:
"Today we are learning the language which created life."
آج ہم ایسی زبان حاصل کر رہے ہیں‘ جس میں زندگی کو پیدا کیا گیا۔ قارئین کرام! چھ ماہ بعد ‘یعنی جنوری 2001ء میں صدر بل کلنٹن ریٹائر ہو گئے اور بش جونیئر برسر اقتدار آ گئے۔ اب مسٹر فرانسس کولنز نے مزید کہا؛ انسانی زندگی ایک معجزہ ہے۔ اس کی زندگی کا پیغام خدا کی طرف سے لکھا گیا ہے۔ اگر ہم اس عقیدے (یعنی اللہ کی توحید) کے ماننے والے بن جائیں تو یہ پیغام بتلائے گا کہ اللہ تعالیٰ واقعی انسانی جین کے ذریعے ہم سے باتیں کر رہے ہیں ‘اس تمام تر صورت حال میںسائنسدان‘ اللہ اور سارے انسانوں کے درمیان (Mediator) ‘یعنی ثالث ہوں گے۔
قارئین کرام! 19سال بعد آج میں سائنسدانوں کے سامنے قرآن مجید کی ایک آیت کا ترجمہ پیش کرتا ہوں اور صاحبِ قرآن حضرت محمد کریمؐ کی ایک حدیث بھی پیش کرتا ہوں اور سائنسدانوں کو ثالث بنا کر گزارش کرتا ہوں اور آگاہ کرتا ہوں کہ جس تحریر کا آپ لوگوں نے انکشاف کیا ہے۔ وہ قرآن میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ مولا کریم فرماتے ہیں: ''اور جب آپؐ کے رب نے اولادِ آدمؑ کی پشتوں سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان لوگوں کو خود انہی پر گواہ بنا کر پوچھا؛ کیا میں تمہارا رب نہیں؟ وہ کہنے لگے؛ کیوں نہیں۔ ہم اس کی گواہی دیتے ہیں۔ (عہد لینے کا مقصد یہ تھا) کہ کہیں قیامت کے دن تم کہنے نہ لگ جاؤ کہ ہم تو اس سے بالکل بے خبر تھے یا پھر کہیں یہ بھی نہ کہنے لگ جاؤ کہ شرک کا آغاز تو ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا نے کیا تھا۔ ہم تو ان کے بعد ان کی اولاد بنے تھے؛ چنانچہ اب آپ ہم لوگوں کو اس جرم میں برباد کریں گے جو باطل پرستوں نے کیا تھا۔ دیکھو! ہم یہ نشانات واضح طور پر پیش کر رہے ہیں‘ تاکہ یہ لوگ (میری توحید اور آخرت کو ماننے کی طرف) واپس پلٹ جائیں‘‘۔ (سورہ الاعراف: 172تا 174)
قارئین کرام! ایک اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس تحقیق کا سہرا اہل کتاب کے سر ہے۔ اس تحقیق میں کوئی یہودی ہے اور کوئی مسیحی ہے۔ ہم نے قرآن کی جو مندرجہ بالا آیات پیش کی ہیں۔ ان سے پہلے والی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ''ان (بنو اسرائیل) کو کیا وہ وقت بھی یاد ہے کہ جب ہم نے پہاڑ کو ہلا کر ان کے اوپر اس طرح لٹکا دیا تھا‘ جیسے سائبان ہو اور یہ سمجھ رہے تھے کہ ان پر بس گرنے ہی والا ہے۔ ہم نے ان سے کہا؛ یہ جو کتاب (تورات) ہم تمہیں دے رہے ہیں۔ اسے مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو اور جو کچھ اس میں موجود ہے‘ اسے یاد رکھو۔ ایسا کرنے سے امید یہی ہے کہ تم گمراہی سے بچے رہو گے‘‘۔ (سورہ الاعراف:171)
یاد رہے! طورسینا کے نیچے بنو اسرائیل کے کھڑے ہونے کا تذکرہ اور پہاڑ کے ہلنے کا ذکر تورات کی کتاب خروج 18-17:19 میں موجود ہے۔ جی ہاں! نسل بعد نسل انسانی جینوم میں اپنے خالق کی توحید کو ماننے اور شرک سے بچنے کا تذکرہ صرف قرآن میں ہے اور آج اس کا انکشاف یہودی اور مسیحی سائنسدانوں سے ہو رہا ہے تو سورہ اعراف کی آیات بھی اشارہ کر رہی ہیں کہ انکشاف تو یہی لوگ کریں گے‘ مگر کیا ایمان بھی لائیں گے؟ کیا وہ ایماندارانہ اور دیانتدارانہ ثالثی کریں گے؟ ویسے ہارورڈ یونیورسٹی کے ترجمان میگزین The Harvard Gazette نے یکم فروری 2013ء کو انسانی جینوم کے بارے میں اپنی مزید تحقیق کے بعد چارلس واٹسن کے حوالے سے لکھا کہ جین کے ایک حصے میں اللہ کا پیغام ہی دریافت ہوا ہے ‘جو ڈی این میں موجود ہے۔ یہ پیغام ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی طرف سے چارلس واٹسن نے تو کیا ہی تھا۔ ساتھ ہی اس نے یہ بھی اعلان کر دیا کہ اس انکشاف سے پہلے میں ملحد تھا۔ اب میں ایک ایمان والا مسیحی ہوں۔ ڈی این کے ثبوت نے میرے شکوک ختم کر دیئے ہیں۔ امریکن میگزین میں بھی مسٹر واٹسن کے الفاظ شائع ہوئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے جینوم کی تحریر کے ذریعے ہم سے باتیں کر رہے ہیں۔
مسٹر واٹسن اور ان جیسے سائنسدانوں سے عرض کروں گا کہ علم اور تحقیق کا سفر تو جاری ہے۔ یہی زبان عنقریب تم لوگوں کو بتائے گی کہ اللہ کو ایک مانو۔ کسی کو اس کا شریک اور بیٹا نہ بناؤ۔ کامل صورت میں یہ پیغام حضرت محمد کریمؐ کے قرآن اور حدیث کے فرمان سے ملے گا۔ اب ‘حدیث پیش کر کے باقی باتیں آئندہ کے لئے چھوڑتا ہوں۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے (مذکورہ عہد) عرفات کے میدان میں لیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کی تمام اولاد کو ‘جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمانا تھا۔ ان کی پشت سے نکالا اور آدمؑ کے سامنے ذرّات کی مثل انتہائی چھوٹی چھوٹی چیونٹیوں کی شکل میں پھیلا دیا ‘پھر ان کو مخاطب کر کے اپنی توحید کا عہد لیا‘‘۔ (مسند احمد: 2455) امام حاکم بھی حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے ہی مذکورہ حدیث لائے ہیں۔ اس میں یہ الفاظ بھی ہیں؛ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کی پشت سے جتنی اولاد پیدا فرمانا تھی‘ وہ نکالی اور ان کے آگے بکھیر دی‘ پھر ان کے آمنے سامنے بات کی اور پوچھا: میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے کہا: کیوں نہیں۔ ہم گواہی دیتے ہیں‘‘۔ (مستدرک حاکم: 4000)
یاد رہے! سند کے اعتبار سے حدیث صحیح ہے۔ امام حاکم اور امام ذہبی نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب سب انسانوں کی فطرت میں توحید ہے‘ پھر گمراہ کیوں ہیں؟ اس پر آئندہ سہی۔ (ان شاء اللہ تبارک و تعالیٰ)
ڈی این اے کوڈ نے ایک ایسی زبان کا انکشاف کیا ہے کہ وہ زبان اس قدر پرانی ہے کہ جس قدر زندگی پرانی ہے۔ ایسی زبان‘ جو انتہائی زندہ زبان ہے اور تمام انسانوں زبان ہے۔فرانسس کولنز نے جینوم پر لکھی ہوئی تحریر کو ''بُک آف لائف‘‘ بھی کہا اور اسے ایک درسی کتاب بھی کہا‘ ایک ایسی کتاب کہ جسے لکھنے والے نے مکمل ارادے (پروگرام) کے تحت لکھا ہے۔ یہ تحریر وقت کے ذریعے انسانی جینوم میں سفر کرتی آرہی ہے۔