آج کی خلائی سائنس تسلیم کر رہی ہے کہ آسمان میں دروازے ہیں۔ میرے حضورؐ پر جو آخری الہام آیا‘ اس نے چودہ سو سال قبل بتا دیا کہ آسمان میں دروازے ہیں۔ یہ آسمان ‘جو ہم انسانوں کو خلا (SPACE)‘ یعنی خالی خالی دکھائی دیتا ہے۔ یہ خالی نہیں ہے‘ بلکہ اللہ تعالیٰ کے بے شمار عجائبات سے بھرا پڑا ہے۔ اس میں دروازے بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ''وہ اس (قرآن) پر ایمان نہیں لاتے۔ گزرے ہوئے پہلے منکروں کا بھی طریقہ اسی طرح کا تھا‘ اگر ہم ان پر آسمان سے کوئی دروازہ کھول دیں‘ پھر وہ اس میں لگاتار چڑھتے رہیں (تب بھی ایمان نہیں لائیں گے) ‘‘(الحجر:14-13)
قارئین کرام! یہاں دو باتوں کا انکشاف ہو رہا ہے ؛پہلی یہ کہ آسمان میں دروازے ہیں۔ اگلی بات یہ ہے کہ آنے والے زمانے میں لوگ آسمان کی جانب چڑھیں گے۔ ''یعرجون‘‘ کے لفظ میں دو زمانے موجود ہیں۔ حال بھی ہے اور مستقبل بھی۔ آج چودہ سو سال قبل کا مستقبل ہمارے لئے زمانہ حال بن چکا ہے۔ زمین پر خلائی اڈے بن چکے ہیں‘ جہاں سے خلائی شٹلز آسمان پر جاتی ہیں اور واپس آتی ہیں‘ یعنی یہ کام مسلسل ہو رہا ہے۔ قرآن نے واضح کیا کہ یہ کام مسلسل اور متواتر ہوگا۔ جی ہاں! آج کی خلائی حقیقت حضرت محمد کریمؐ نے ساڑھے چودہ سو سال قبل بتائی تو جس نے بنائی‘ وہ کائنات کا خالق ہے اور جس کے ذریعے بتائی وہ خالقِ کائنات کے سچے رسولؐ ہیں اور جس کتاب میں بتائی‘ وہ کتاب؛ قرآن ہے اور اللہ کا سچا الہامی پیغام ہے‘ جو قیامت کے دن تک رہنما ہے۔
مندرجہ بالا دو آیات بار بار پڑھئے‘ ان کے ترجمہ کو ملاحظہ کیجئے اور ربیع الاول کے بہار آفریں مہینے میں اللہ تعالیٰ کے محبوب ترین رسول حضرت محمد کریمؐ پر درود و سلام بھیجئے کہ جو قرآن کا معجزہ لے کر تشریف لائے۔عرب دنیا میں شام کے ایک عالم ہیں؛منصور کیانی ‘ان کا نام ہے۔ یہ سائنسدان بھی ہیں۔ اِدلب کے رہنے والے ہیں۔ کہتے ہیں کہ خلاء کی سیر کرنے والے مسلمانوں میں سعودی عرب کے شہزادے سلطان بن سلمان اور شام کے محمد فارس سرفہرست ہیں۔ محمد فارس بھی ادلب شہر کے رہنے والے ہیں اور میرے دوست ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ روس ایک بہت بڑا ملک ہے‘ اس کا زمین سے خلاء کو جانے والا سٹیشن قازقستان کے علاقے بیکانیر میں ہے۔ وہ قازقستان کو اپنے خلائی پروگراموں کا کرایہ بھی دیتا ہے اور سفری خرچہ بھی برداشت کرتا ہے تو وہ ماسکو کے قریب ایسا سٹیشن کیوں نہیں بناتا؟ اس پر محمد فارس نے بتایا کہ آسمان میں دروازے ہیں‘ لہٰذا زمین سے خلاء کی جانب جاتے ہوئے دروازوں کو سامنے رکھنا لازم ہے۔ روس کے اوپر آسمانی دروازہ کوئی نہیں۔ یہ قازقستان میں بیکانیر کے اوپر ہے‘ اسی طرح براعظم یورپ کے اوپر بھی دروازہ نہیں ‘لہٰذا یورپین سپیس ایجنسی خلائی پروگرام ارجنٹائن میں جا کر بروئے کار لاتی ہے‘ کیونکہ ارجنٹائن کے اوپر آسمانی دروازہ ہے‘ اسی طرح امریکہ (USA) کے اوپر بھی دروازہ نہیں اور امریکہ بھی اپنے خلائی پروگرام بحر اوقیانوس کے ایک جزیرے میریٹ پر کرتا ہے۔ امریکیوں سے کہا گیا کہ آپ کے صحرائے نیواڈا میں موسم صاف ہوتا ہے۔ بادل بھی نہیں ہوتے‘ لہٰذا آپ وہاں سٹیشن کیوں نہیں بناتے تو انہوں نے کہا کہ وہاں کے آسمان پر دروازہ نہیں ہے۔
قارئین کرام! آپ کو بتاتا چلوں کہ اس وقت خلاء میں جو سپیس سٹیشن ہے۔ یہ تیرہ برسوں میں بنا ہے۔ 2011ء میں مکمل ہوا ہے۔ اس کے لیے خلاء میں سامان مذکورہ خلائی زمینی سٹیشنوں سے خلاء میں جاتا رہا۔ امریکہ‘ روس اور یورپی یونین نے اربوں ڈالر کا خرچہ کیا۔ جاپان اور کینیڈا بھی خرچے میں شامل ہیں۔ یہ سٹیشن فٹ بال گراؤنڈ جتنا بڑا ہے۔ اس کا وزن تین لاکھ اکانوے ہزار کلو گرام ہے۔ اس میں پانچ بیڈ رومز ہیں۔ جِم کی سہولت موجود ہے۔ اسے ٹکڑوں کی صورت میں خلاء میں جوڑا گیا ہے۔ اگلی منزلوں پر جانے اور خلائی تحقیق کرنے کے لیے خلاء میں یہ پہلا پڑاؤ ہے۔ یہ زمین سے چار سو کلو میٹر کی بلندی پر زمین کے گرد محو پرواز ہے‘ اس کی رفتار 28 ہزار کیلو میٹر فی گھنٹہ ہے۔ یہ بھی بتا دوں کہ اگلا خلائی سٹیشن 2024ء سے 2028 ء کے درمیان بنا کر لانچ کرنے کا کام جاری ہے۔ اس خلائی سٹیشن پر جانے والے خلانوردوں نے بتایا ہے کہ وہاں خلاء میں ایک گھنٹے کے دوران ہزاروں شہابیوں کی بارش نہیں ہوتی۔ وہ آسمان کے دروازوں کی سیدھ میں راستے ہیں۔ محمد فارس خلاء نورد نے مزید بتایا کہ شہابیے بالکل تیاری کی حالت میں ہوتے ہیں۔ لوگو...! یہ شہابیے بے مقصد نہیں ہیں۔ وہاں فرشتوں اور شہابیوں کے ذریعے سکیورٹی کا ایک نظام قائم کیا گیا ہے اور یہ کس کے لئے کیا ہے؟ آئیے! ملاحظہ کرتے ہیں:۔
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ‘حدیث کا اختصار کے ساتھ مفہوم اس طرح ہے:شیاطین آسمان کی جانب گئے تو ان پر شہابیے پھینکے گئے۔ وہ واپس زمین پر آئے۔ مجلس کا انعقاد ہوا اور شیطانوں کی ڈیوٹی لگی کہ یہ جو فرشتوں کی باتیں سننے سے روک دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ زمین میں تلاش کرو۔ ایک دستہ نخلہ میں گیا تو وہاں اس وقت حضرت محمد کریمؐ اپنے صحابہ کو فجر کی نماز پڑھا رہے تھے۔ ان شیطانوں نے قرآن سنا اور فوراً واپس جا کر اپنے بڑوں کو بتایا۔ انہوں نے جو گفتگو کی۔ اللہ تعالیٰ نے وہ گفتگو حضرت محمد کریمؐ کو یوں بتائی:
''کہہ دو! مجھے وحی کے ذریعے آگاہ کیا گیا ہے کہ جنات کے ایک دستے نے (ہماری تلاوت کو) غور سے سنا اور واپس جا کر بتایا کہ ہم نے ایک عجیب کلام سنا۔ یہ تو بھلائی کی جانب رہنمائی فرماتا ہے ؛چنانچہ ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں۔ اب ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گے‘‘ (الجن:2,1)۔ قارئین کرام! یہ جنات اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے مزید کہتے ہیں ''ہم نے آسمان کو ٹچ کیا تو کیا دیکھا کہ اسے تو سخت ترین سکیورٹی اور تیز ترین شعلوں (انرجی میزائلوں) سے بھر دیا گیا ہے۔ ہمارے لئے وہاں کئی ٹھکانے تھے‘ جہاں ہم (فرشتوں کی باتیں) سننے کے لیے بیٹھا کرتے تھے‘ مگر اب جو خفیہ طور پر سننے کی کوشش کرتا ہے‘ وہ اپنے لیے گھات میں لگا ہوا شہاب (انرجی میزائل) پاتا ہے‘‘ (الجن: 9,8)۔ اللہ اللہ! یہ سارا بندوبست حضرت محمد کریمؐ کی جانب آنے والی وحی کی حفاظت کے لیے کیا گیا ہے۔ قرآن کے لیے آسمانوں میںبھی حفاظتی نظام اور زمین پر بھی حضرت محمد کریمؐ کے قرآن کے لیے حفاظتی نظام۔ قرآن کی شرح محمد کریمؐ کی حدیث اور سنّت کی صورت میں ہوئی۔اس کی حفاظت کا بھی نظام۔ ایک بار یہ نظام قائم ہو گیا‘ تو اب یہ قیامت کے دن تک قائم رہے گا‘ تاکہ خلائی سائنس آسمان میں نظارے کرے تو دنیا میں بھی قرآن کی آیتوں کو دیکھ کر وہی منظر پڑھے ‘جو اس نے آسمان میں دیکھے۔ جی ہاں! شیطانوں کے لیے پابندی ہے۔ انسان کے لیے کوئی پابندی نہیں۔ وہ آگے بڑھے اور آفاق میں میرے حضورؐ کے الہام اور وحی کے نظام کو دیکھے۔ قرآن کی حقانیت کے مناظر دیکھے۔ قارئین کرام! ایک وقت وہ آنے والا ہے جب ہماری روحید فرشتوں کے ہاتھوں میں آسمان کے دروازوں پر جائیں گی۔ دروازے کھلیں گے اور ساتویں آسمان پر جا کر اللہ کا دیدار کریں گے۔ رہے ایمان سے محروم تو ان کیلئے میرے پیارے رسول گرامیؐ پر یوں رب کا الہام آیا ''وہ لوگ‘ جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلا دیا اور انہیں نہ مان کر تکبر کا اظہار کیا‘ ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے‘ نہ ہی وہ جنت میں داخل ہوں گے‘‘ (الاعراف:40)۔