دنیا میں قرآن ایک ایسی واحد اور اکلوتی الہامی کتاب ہے‘ جو حضرت محمد کریمؐ کے زمانے سے ایک چلی آ رہی ہے اور ساڑھے چودہ سو سال بعد بھی وہی ہے۔ حضرت عثمانؓ نے سات نقول تیار فرمائی تھیں‘ ان میں سے ایک نقل تاشقند میں موجود ہے۔ میں نے اس کو اپنی آنکھوں سے 1992ء میں دیکھا ہے۔ دوسری نقل توپ کاپی عجائب گھر استنبول میں ہے۔ مجھے اس نقل کو ترکی میں دیکھنے کا اللہ تعالیٰ نے موقع عطا فرمایا۔ اس کی ایک نقل تیونس میں ہے۔ برمنگھم جو برطانیہ کا شہر ہے‘ وہاں قرآن کے صفحات 1370سال پرانے ہیں۔ کاربن ٹیکنالوجی کے ذریعے خود برطانوی ماہرین نے 1370سال پرانا اور قدیم ہونے کی تصدیق کی۔ جرمنی کے شہر برلن میں صدیوں سال پرانے قرآنی مخطوطات موجود ہیں۔ امریکہ کے شہر ورجینیا میں موجود ہیں۔ یہ سارے مخطوطات ایک ہیں۔ ان سب میں ایک لفظ کا بھی کہیں کوئی فرق نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا قرآن میں فرمان ہے ''ہم ہی اس ذکر (قرآن) کو نازل کرنے والے ہیں اور ہی اس کی حفاظت کرنے ولے ہیں‘‘ ۔جی ہاں! یہ فرمان ساڑھے چودہ سو سال سے ہر قرآنی نسخے میں آج تک موجود ہے۔ بسم اللہ اور الحمد للہ سے لیکر والناس تک آج بھی قرآن ایک ہے۔ مادی صورت میں یہ ایک ایسی نعمت ہے‘ جس پر مسلمانوں کو فخر ہے۔ اسی فخر پر اسلام دشمنوں کو حسد ہے۔ یہ حسد تنقیدی صورت میں ان کی زبان پر آیا تو دلیل کے میدان میں ناکام ہوئے۔ تحریری صورت میں سامنے آیا تو تب بھی بری طرح شکست سے دوچار ہوئے۔ اس کے بعد اس حسد نے انتہائی گھٹیا صورت اختیار کر لی۔ گوانتا ناموبے کی جیلوں میں قید مسلمانوں کو ایمانی اذیت دینے کیلئے قرآنی اوراق کو گٹر میں بہایا گیا۔ امریکہ کے پادری ٹیری جونز نے قرآن کے 100نسخوں کو جلانے کا اعلان کیا اور مذموم حرکت پر عمل کیا۔ اب‘ ناروے میں ''سیان‘‘ نامی اسلام دشمن تنظیم کے ایک ملعون نے لوگوں کو اکٹھا کر کے قرآن کو جلانے کی کوشش کی تو شام کے رہنے والے نارویجن نوجوان الیاس عمر اور اس کے چند ساتھیوں نے اس کوشش کو ناکام بنایا۔ الیاس چیتے کی طرح جھپٹا اور ملعون کی مذموم حرکت کو راکھ بنا دیا۔
قرآن کے ساتھ حسد کی دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ دنیا کی واحد کتاب ہے کہ جس کے پہلے حافظ خود حضرت محمد کریمؐ تھے کہ جن پر یہ کتاب نازل ہوئی۔ آپؐ کے زمانے میں قرآن کے حافظوں کی تعداد سینکڑوں میں تھی۔ 70حافظ تو حضورؐ کے زمانے میں صرف بئرمعونہ کے حادثے میں شہید ہوئے تھے۔ حضرت صدیق اکبرؓ خلیفہ اوّل کے زمانے میں یہ تعداد مزید بڑھ گئی۔ مسیلمہ کذّاب کے خلاف ختم نبوت کے معرکے میں سینکڑوں حافظ شہید ہوئے ‘لہٰذا قرآن کا ایک نسخہ مرتب کیا گیا اور پھر عہد فاروقی کے بعد عہد عثمانی میں سات نسخے مرتب ہوئے۔ آج دنیا میں مکمل قرآن کے لاکھوں حافظ موجود ہیں۔ جزوی طور پر تعداد کروڑوں میں ہے۔ تورات‘ انجیل‘ زبور اور دیگر صحائف‘ جن کے مجموعے کو بائبل کہا جاتا ہے۔ ایک تو ان میں باہم اختلاف اور تحریف ہے۔ دوسرا یہ کہ دنیا میں ان کا ایک حافظ بھی نہیں ملے گا؛ حالانکہ تعداد میں مسیحی لوگ مسلمانوں سے زیادہ ہیں۔ حسد کی مذکورہ تیسری وجہ کے بعد چوتھی وجہ یہ ہے کہ قرآن میں چیلنج کہ جو لوگ قرآن کے الہامی ہونے میں شک کا شکار ہیں‘ وہ قرآن کی ایک سو چودہ سورتوں میں سے کسی ایک سورت جیسی صورت بنا کر دکھا دیں پھر یہ بھی چیلنج دے دیا کہ نہ کوئی عرب میں ایسا کر سکا ہے اور نہ آئندہ کر سکے گا۔ کئی یہودیوں‘ عیسائیوں اور ملحدوں کی مادی زبان بھی عربی ہے۔ آج دنیا میں دو سو ملکوں کی خارجہ وزارتوں میں عربی کے ماہرین ہیں۔ یونیورسٹیوں میں عربی زبان کے شعبے ہیں۔ عربی زبان کے بڑے بڑے سکالرز غیر مسلم موجود ہیں‘ مگر سب سے چھوٹی سورت کوثر جو صرف تین آیات پر مشتمل ہے ‘اس کا مقابلہ کرنے سے بھی قاصر ہیں۔
حسد میں مبتلا ہونے کی پانچویں وجہ یہ ہے کہ قرآن نے ایک اور چیلنج دیا ہے۔ فرمایا ''اگر یہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی جانب سے ہوتا تو لوگ اس میں باہم بہت سارا تضاد پاتے‘‘۔ قارئین کرام! غور فرمائیے! دنیا میں اس وقت جس قدر بھی کتابیں موجود ہیں‘ ان میں تضادات اور غلطیاں موجود ہیں۔ یہ غلطیاں انسانی زندگی کے ہر شعبے میں ہیں۔ تاریخ ہو۔ جغرافیہ ہو یا سائنس کا کوئی شعبہ۔ غلطیاں موجود ہیں؛ حتیٰ کہ آج کے زمانے کے ماہرین کی ٹیموں نے انسائیکلوپیڈیاز وغیرہ مرتب کیے ‘ان میں بھی علمی غلطیاں موجود ہیں ‘مگر قرآن میں نہ کوئی غلطی نکلی ہے۔ نہ نکل سکے گی۔ قرآن ایسی کتاب ہے کہ جس کے آغاز ہی میں بھیجنے والا اللہ کریم دعویٰ کرتا ہے کہ اس کتاب میں کوئی شک نہیں۔ دنیا میں ایسی کوئی دوسری کتاب موجود نہیں‘ جس میں یہ دعویٰ موجود ہو۔ حسد میں گرنے کی چھٹی وجہ یہ ہے کہ بائبل میں حضرت نوح علیہ السلام‘ حضرت لوط علیہ السلام‘ حضرت داؤد علیہ السلام‘ حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت مریم علیہما السلام کی کردار کشی کی گئی ہے۔ ایسی کردار کشی کہ بیان نہیں کی جا سکتی۔ دیگر انبیاء کے بارے میں بھی عجیب وغریب قسم کے الزامات ہیں۔ اس کے برعکس قرآن تمام انبیاء کی زندگیوں کو پاکیزگی کے ساتھ اس قدر عالیشان انداز سے بیان کرتا ہے کہ دل عش عش کر اٹھتا ہے اور آنکھیں ان کے تقدس آمیز واقعات کے تحت آنسوؤں کی جھڑی لگا دیتی ہیں۔ الحمد للہ! میں نے ایسے واقعات بیان کر کے قرآن اور بائبل کا موازنہ پیش کیا اور کتاب کا نام رکھا ''میں نے بائبل سے پوچھا ؛قرآن کیوں جلے‘‘ اس کا انگریزی اور عربی میں ترجمہ کروا کر بھی میں نے کتابیں شائع کیں۔ اس کتاب کو پڑھ کر دنیا بھر میں کئی لوگ مسلمان ہو چکے ہیں۔ کوئی سات آٹھ سال قبل جب میں مدینہ منورہ گیا تو مسجد قباء کے امام صاحب جو میری کتاب پڑھ چکے تھے۔ انہیں میری موجودگی کا پتا چلا تو ضیافت کر دی۔ میں اپنی اہلیہ بشریٰ امیر اور احباب کے ہمراہ دعوت میں حاضر ہوا۔ امام صاحب نے مجھے خراج تحسین پیش کیا اور عالمِ اسلام کی طرف سے میری کوشش کو کفارہ قرار دیا۔ یقینا یہ میرے لئے ایک عظیم اعزاز ہے۔ اللہ تعالیٰ قبر اور حشر میں قرآن کو ہمارا سفارشی بنائے۔
حسد کی ساتویں اور آخری وجہ یہ ہے کہ قرآن جو بنیادی طور پر انسانوں کیلئے ہدایت کی کتاب ہے۔ اس نے ساڑھے چودہ سو سال قبل جو تاریخی جغرافیائی‘ سائنسی اور مابعد الطبیعات باتیں بتا دی ہیں۔ ان میں سے بعض حقائق تک سائنس آج پہنچی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ سائنس قرآن سے بہت پیچھے ہے۔ یہ قیامت تک انکشافات کرتی چلی جائے گی۔ فلکیات‘ یعنی سپیس کا شعبہ دیکھیں ‘تو حبل دُوربین نے انکشاف کیا کہ ستارے‘ سیّارے اور کہکشائیں ایک دوسرے سے دور بھاگے جا رہے ہیں۔ قرآن نے کہا ''ہم نے ہاتھ سے خلاء کو بنایا ہے اور اسے وسیع کرتے جا رہے ہیں‘‘ قرآن نے کہا ''سورج اپنے ٹھکانے کی طرف بھاگا جا رہا ہے‘‘۔ مزید فرمایا ''سب اجرام فلکی اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں‘‘۔ سٹیفن ہاکنگ اپنی کتاب ''یونیورس اِن نَٹ شیل‘‘ میں خلاء کی جالی بناتا ہے اور کہتا ہے کہ خلاء جالی دار ہے۔ قرآن فرماتا ہے''آسمان (خلاء) کی قسم جو جالی دار ہے‘‘ ۔
فرانس کا گائیناکالوجسٹ ڈاکٹر موریس بکائی کوئی چالیس سال پہلے الٹرا ساؤنڈ میں بچے کی پیدائش کے مرحلے دیکھتا ہے اور سورۃ حج اور المومنون میں مرحلے ملاحظہ کرتا ہے تو مسلمان ہو جاتا ہے کہ ساڑھے چودہ سو سال قبل حضرت محمد کریمؐ کو یہ حقیقت کس نے بتلائی کہ جس کا ہمیں آج 20ویں صدی میں معلوم ہوا۔ اللہ اللہ! حضورؐ تو لکھنا پڑھنا جانتے ہی نہ تھے۔ مکہ اور عرب کا سارا معاشرہ ہی ایسا تھا۔ یقینا وہ اللہ کے رسولؐ ہیں۔ جی ہاں! جو الہام ہوا‘ وہ 23سال میں وحی کے کاتبوں کو لکھوا دیا۔ خود تو پڑھ نہ سکتے تھے۔ تحریر کی اصلاح کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ 23سال میں قرآن مکمل ہوا ‘مگر تضاد نہیں۔ اختلاف نہیں۔ اس سے بڑا معجزہ کوئی نہیں۔ آہ! حاسد لوگ اس کے سامنے بے بس ہوتے ہیں تو ماننے کے بجائے توہین کرتے ہیں۔ یہ اپنی انسانیت کو قتل کرتے ہیں اور عملی ڈائیلاگ کو جھٹلا کر دراصل اپنا ہی منہ کالا کرتے ہیں۔ امریکہ‘ یورپ‘ جاپان اور انڈیا وغیرہ کے ان لاکھوں سائنسدانوں اور پڑھے لکھے لوگوں کو سلام...! جنہوں نے قرآن پڑھ کر ایمان کا اعلان کیا۔
ناروے واقعہ کے بعد ان اعلانوں میں اور اضافہ ہو گا۔ حسد کی آگ میں حاسد جلتا رہے گا۔ قسمت اپنی اپنی۔ قرآن۔ زندہ باد! اب‘ ناروے میں ''سیان‘‘ نامی اسلام دشمن تنظیم کے ایک ملعون نے لوگوں کو اکٹھا کر کے قرآن کو جلانے کی کوشش کی تو شام کے رہنے والے نارویجن نوجوان الیاس عمر اور اس کے چند ساتھیوں نے اس کوشش کو ناکام بنایا۔ الیاس چیتے کی طرح جھپٹا اور ملعون کی مذموم حرکت کو راکھ بنا دیا۔