اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ''رحمان‘‘ ایسا نام ہے کہ کسی انسان کو عبدالرحمان کہا جا سکتا ہے ‘مگر رحمان نہیں کہا جا سکتا۔ اسی طرح حضورؐ کے فرمان کے مطابق ‘عبداللہ اور عبدالرحمان دو ایسے نام ہیں ‘جو اللہ تعالیٰ کو تمام ناموں سے بڑھ کر محبوب اور پسند ہیں۔ یاد رہے! اللہ تعالیٰ کا ذاتی نام ''اللہ‘‘ ہے۔
قرآن کی 114سورتوں میں سے ایک سورت بھی اللہ تعالیٰ کے نام سے منسوب نہیں ہے۔ رحمان وہ صفاتی نام ہے کہ اس سے ایک سورت کا نام ''الرحمان‘‘ ہے‘ پھر اس صورت کی پہلی آیت ''الرحمان‘‘ ہے۔ دوسری آیت کا ترجمہ یوں ہے ''جس نے قرآن کی تعلیم دی‘‘ تیسری آیت کا ترجمہ اس طرح ہے۔ ''جس نے انسان کو پیدا کیا‘‘۔ اب‘ ہم دیکھتے ہیں۔ انسان کے بارے میں قرآن کی تعلیم کیا ہے؟ مولا کریم تمام انسانوں کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں ''یاایھا النّاس! اے انسانو! اپنے رب سے ڈر جاؤ۔ وہ رب کہ جس نے تم کو پیدا کیا ایک جان (آدمؑ) سے پیدا کیا۔‘پھر اسی جان سے اس کا جوڑا (حوّا) کو پیدا کیا‘ پھر ان دونوں سے کثیر تعداد میں مرد اور خواتین کو (زمین) پر پھیلا دیا۔ اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حقوق طلب کرتے ہو۔ رشتوں ناتوں (کے حقوق کی پامالی سے) بچ جاؤ۔ یقینی حیثیت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری نگرانی کر رہا ہے‘‘( النساء:1)۔
قارئین کرام! النساء کا معنی ''خواتین‘‘ ہے۔ مذکورہ سورت کی پہلی آیت کا ترجمہ ہم نے لکھ دیا۔ اسے بار بار پڑھیں اور غور کریں کہ تمام انسان مختلف ماؤں کے پیٹوں سے پیدا ہوئے ہیں۔ اس لئے سورت کا مترجم نام ''خواتین‘‘ ہے‘ جبکہ تمام خواتین کی ماں ایک ہے۔ سورت ''النّساء‘‘ کی آیت نمبر1کا یہی پیغام ہے۔
جی ہاں! یہ ہے تمام انسانیت کو ایک لڑی میں پرونے والی آفاقی تعلیم جو قرآن دے رہا ہے؛ چنانچہ سورت ''الرحمان‘‘ کی پہلی تین آیات اور سورت ''النساء‘‘ کی پہلی آیت پڑھیں کہ ساڑھے چودہ سو سال قبل نازل ہونے والاسدا بہار پیغام ہر زمانے کے انسانوں کے لیے ہے۔
حضرت محمد کریمؐ پر نازل ہونے والے پیغام کے ذریعے ہر مذہب کے پیروکاروں کو بھی مخاطب کیا گیا کہ زمین پر جس قدر بھی لوگ ہیں۔ سب انسان ہیں۔ کالے‘ گورے‘ سرخ اور گندمی رنگ سب انسان ہیں۔ قرآن کہتا ہے ان کی مختلف بولیاں رب کا نشان ہیں۔ قرآن یہ بھی کہتا ہے۔ کوئی انسان جونسا مذہب بھی اختیار کرے اس میں کسی پر جبر نہیں کیا جا سکتا‘ یعنی مذہب اور عقیدے کی آزادی ہے۔ جی ہاں! مختلف مذہب رکھنے والے سارے انسان ہیں۔ سب انسان ‘جو ایک زمین پر رہتے ہیں۔ ایک ماں کے بیٹے ہیں۔ ایک باپ کے جگر گوشے ہیں اور ایک رب کے بندے ہیں‘ جو انتہائی مہربان ہے‘ اسی لئے اس نے ا پنا ایک نام رحمان رکھا ہے۔ لوگو! ماں کے پیٹ کی وہ تھیلی‘ جس میں بچہ پرورش پاتا ہے ‘اس کو عربی میں ''رحم‘‘ کہا جاتا ہے۔ مسند امام احمد میں حدیث ہے۔ ہمارے پیارے حضورؐ فرماتے ہیں کہ یہ(رحم‘ یعنی رشتہ) رحمان سے جڑا ہوا ہے۔ جو اسے ملا کر رکھے گا‘ میں اسے ملا کر رکھوں گا‘ جو اسے توڑے گا‘ میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا۔ اے ہندوستان کے حکمرانو! اللہ کے ہاتھوں اپنے ٹکڑے ٹکڑے کروانے سے قبل رب سے ڈر جاؤ۔
مسلمان تو توحید‘ یعنی ایک اللہ کو ماننے کی دعوت دیتے ہیں۔ یہودی بھی ایک اللہ کو مانتے ہیں۔ مسیحی لوگ تثلیث کے قائل ہیں‘ مگر بالآخر ایک اللہ ہی کی بات کرتے ہیں۔ انڈیا کے معروف اور بزرگ صحافی ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک نریندر مودی کے استاد ہیں۔ روزنامہ '' دنیا‘‘ میں بھی ان کا کالم چھپتا ہے۔ میں بھی روزنامہ'' دنیا‘‘ سے وابستہ ہوں۔ یوں میں اور ڈاکٹر وید پرتاپ آپس میں کولیگ ہیں۔ ایک انسانی رشتہ ہے اور دوسرا روزنامہ ''دنیا ‘‘کے حوالے سے صحافت کا رشتہ ہے۔ میں روزنامہ ''دنیا‘‘کے حوالے سے ان سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے شاگرد نریندر مودی کو سمجھائیں کہ وہ انسانی رشتوں کے حوالے سے خالق سے ڈریں۔
کشمیر کے کمزوروں کے حقوق جو کئی ماہ سے کرفیو کی حالت میں ہیں۔ ہندوستان کے کمزور مسلمانوں کے حقوق مانگتے ہیں کہ جن کی شہریت کو آسام سے ختم کیا گیا اور اب لوک سبھا سے ایک بل پاس کروا کر درحقیقت مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری اور پھر انڈیا بدر کرنے کا پروگرام واضح کر دیا گیا ہے۔
گزشتہ دنوں بھارت کی پارلیمنٹ میں بی جے پی کے ممبران نے واضح کیا کہ 1947ء میں پاکستان بن گیا ؛چنانچہ ہندوستان کے مسلمانوں کو پاکستان میں چلے جانا چاہیے۔ جی ہاں!ان کے مستقبل کے ارادے واضح ہو گئے ہیں۔
اے آر ایس ایس اور بی جے پی کے حکمرانو ''زمین ایک ہے‘ مگر اس کی تقسیم ایک قدرتی اور فطری عمل ہے۔ اس عمل میں غیر انسانی عمل دخل سے فساد پیدا ہوتا ہے۔ ایک زمین کے سات براعظم ہیں۔ آگے کوئی دو سو کے قریب ملک ہیں۔ ہر ملک کے صوبے اور ریاستیں ہیں‘ پھر اضلاع‘ تحصیلیں‘ تھانے‘ دیہات‘ محلے‘ گلیاں اور گھر ہیں۔ ہر گھر کی چار دیواری محترم ہے۔ سب امن سے رہیں گے‘ اگر قانون اور معاہدوں کی دستاویزات کے مطابق چلیں گے‘ اگر کوئی طاقتور قانون اور معاہدے کو نہیں مانتا تو پھر آخری چارا‘ اللہ کا واسطہ ہے۔ میں تمہیں ایک اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے بارے میں اور برصغیر کی اقلیتوں کے بارے میں لیاقت نہرو معاہدے کو پورا کرو۔ تمہاری سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا؛ بابری مسجد کو گرانا غیر قانونی تھا۔ ساتھ ہی کہا ‘مگر یہاں مندر بننا چاہیے۔ جی ہاں! عدل کا گلا مت گھونٹو۔ عدل یہی ہے کہ مسجد بناؤ۔ اور‘ اگر تم عدل نہیں دے سکتے تو ہندوستان میں انسان کے احترام کو پامال کر کے سوالیہ نشان نہ بناؤ۔ جب حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوّا علیہ السلام کے بیٹے بیٹیاں پھیلتے ہوئے برصغیر میں آئے تھے۔
آج کے ہندوستانی مسلمان اتنے ہی پرانے ہیں۔ انہی کی اولادیں ہیں۔ ہمارے قائداعظمؒ بھی ابتداء میں کانگریس میں تھے۔ ایک ہندوستان میں مل جل کر رہنے کے قائل تھے‘ مگر تم نے دھکے دیئے تو انہوں نے انگریزوں اور تم سے قانونی جنگ لڑی اور اپنا گھر پاکستان کے نام سے الگ بنا لیا۔ آج پاکستان میں ہندو‘ سکھ اور مسیحی وغیرہ آزادانہ خوشی کے ساتھ اپنے سارے حقوق کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ گزشتہ 72برسوں سے نہ کسی نے کہا کہ تم کہیں اور جاؤ۔ نہ کہنے کی جرأت کر سکتا ہے۔ کرے گا تو ریاست پاکستان اس کی زبان گدّی سے کھینچ لے گی۔ اس کے برعکس تمہاری حکمرانی ایسی نسل پرستانہ اور ظالم حکمرانی ہے‘ جو مسلمانوں کو ہندوستان سے نکل جانے کا کہتی ہے تو پھر اس کا قدرتی اور فطری طریقہ یہ ہے کہ ایک باپ اور ماں جب اپنے بچوں کے ساتھ نہیں رہ سکتے تو گھر میں دیواریں بنا کر اس کے حصے کر لیتے ہیں۔
میں آپ کو ایک اللہ‘ ایک اوم اور ایکGod کا واسطہ دے کر گزارش کرتا ہوں کہ 25کروڑ مسلمانوں کے لیے ایک دیوار اور بنا دیں۔ محبت پیار سے بنا دیں۔ زندگی گزارنے کے لیے حصے کا سامان بھی دے دیں۔ چارپائیاں‘ برتن‘ کچھ زیور اور نقدی بھی عنایت کر دیں‘ تاکہ ہم برصغیر کے سارے انسان امن اور بھائی چارے کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔ یاد رکھیں! اللہ کے بندوں پر ظلم نہ رکا۔ دیوار کر کے ان کو ان کا حق بھی نہ دیا‘ تو وہ اپنا فیصلہ بہرحال کرے گا۔
نوٹ: اوم کا تصور صرف وید میں تحریر تک محدود ہے۔ عملاً بت پرستی ہی ہندوؤں کا مذہب ہے۔مسیحی بھی بائبل میں ایک اللہ کی تحریر کے باوجود عملاً تین معبوں کے عبادت گزار ہیں۔الغرض جب تک کوئی حضرت محمد کریم ﷺ کو آخری رسول نہ مانے گا‘ اللہ کی توحید کو پہچان نہیں سکتا؛ چنانچہ نجات ناممکن ہے۔
کشمیر کے کمزوروں کے حقوق جو کئی ماہ سے کرفیو کی حالت میں ہیں۔ ہندوستان کے کمزور مسلمانوں کے حقوق مانگتے ہیں کہ جن کی شہریت کو آسام سے ختم کیا گیا اور اب لوک سبھا سے ایک بل پاس کروا کر درحقیقت مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری اور پھر انڈیا بدر کرنے کا پروگرام واضح کر دیا گیا ہے۔