اللہ کے رسولؐ کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اتاری کہ جس کی دوائی پیدا نہیں فرمائی۔ اس دوائی کا علم جس نے حاصل کرلیا‘ اس نے کرلیا اور جو اس دوائی کے جاننے سے بے خبر رہا وہ بے خبر رہا‘ ہاں! سام کی کوئی دوائی نہیں۔ صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ یہ سام کیا ہے؟ فرمایا: یہ موت ہے۔ (صحیحہ: 1650حاکم: 8220)
ابو داؤد اور ابن ماجہ میں اللہ کے رسولؐ کا یہ بھی فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کی دوا بنائی ہے‘ اسی ضمن میں ایک اور حدیث ملاحظہ ہو؛ حضورؐ نے فرمایا ''اللہ تعالیٰ کے بعض ایسے بھی (ریسرچرز) بندے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر انعام کر کے انہیں خصوصی حیثیت سے نواز دیا ہے‘ تاکہ وہ (اپنی علمی دریافتوں کے ذریعہ) انسانیت کو فائدہ پہچانے والے بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو مخلوق میں اس وقت تک مقام دیئے رکھتا ہے ‘جب تک وہ انسانی فلاحی منصوبوں کو بروئے کار لاتے رہتے ہیں‘ پھر جب وہ لوگ (انسانی فلاح) سے ہٹ جاتے ہیں‘ تو اللہ تعالیٰ ان سے اس نعمت کو چھین لیتے ہیں اور اسے دوسرے لوگوں اور قوموں کی طرف منتقل کر دیتے ہیں (کہ جن سے انسانیت کو فائدہ پہنچنا ہوتا ہے‘‘۔ (صحیحہ: 1692طبرانی اوسط: 5262)
قارئین کرام! قرآن ِپاک نے تو واضح اصول دے دیا کہ ''وہ چیز جو انسانیت کے لیے نفع بخش ہوتی ہے‘ زمین پر وہی ٹھہرتی ہے‘‘ (رعد:17)‘ یعنی جو لوگ بیمار انسانیت کے علاج کے لیے تحقیقات پر سرمایہ خرچ کرتے ہیں۔ بیماریوں اور وبائی امراض کی ویکسی نیشن سامنے لاتے ہیں‘ وہ انسانیت کے محسن ہیں۔
اللہ تعالیٰ ‘رب العالمین ہیں اور قرآن ِپاک‘ جو آخری کتاب ہے‘ وہ ذکرِ اللعالمین ہے اور جن پر یہ کتاب نازل ہوئی‘ وہ رحمۃ للعالمین ہیں‘ لہٰذا صرف مسلمانوں کی بات نہیں ‘بلکہ انسانیت کی بات کی ہے۔ سارے جہانوں کی خیر اور فلاح کی بات کی ہے۔ تمام جانداروں کی خیر اور فلاح کی بات کی ہے۔
آج چین میں کوروناوائرس پھیلا ہے۔ پوری دنیا کے طبی ماہرین اس کے علاج سے بے بس ہیں۔ کسی کے پاس اس مہلک مرض اور وباء کا کوئی علاج نہیں ہے‘ جو اس کا علاج دریافت کرے گا‘ اللہ اور اللہ کے رسولؐ اس کی تحسین فرماتے ہیں۔ امریکہ میں علاج کے دریافت کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ یورپ بھی کوشاں ہے۔ چین جو کہ اس آفت کی مرکزی شکارگاہ ہے‘ وہاں کے صدر شی چن پنگ نے 13ارب ڈالر کی خطیر رقم مختص کی ہے‘ تاکہ علاج بھی دریافت ہو اور بیماروں کے علاج کے ساتھ ساتھ نئے ہسپتال بھی بنائے جائیں۔
وزیراعظم عمران خان جو کہ شوکت خانم کینسر ہسپتال کے بانی ہیں‘ ان کی خدمت میں مشورہ اور تجویز ہے کہ کورونا وائرس کے علاج کیلئے اعلیٰ ترین ماہرین کا بورڈ تشکیل دیں۔ دنیا بھر کے ماہرین اور لیبارٹریوں کے ساتھ رابطہ کر کے اگر وہ کورونا وائرس کی ویکسی نیشن کی کامیابی میں کوئی بنیادی کردار ادا کریں تو یہ اللہ تعالیٰ کاخالص انعام ہوگا۔
چین ہمارا دوست ملک ہے۔چین کے میڈیکل ماہرین کے ساتھ خصوصی رابطہ ترجیح ہونا چاہیے۔ چین ہمارا پڑوسی بھی ہے‘ اس کے ساتھ ہر ممکن تعاون ہمارا اوّلین اخلاقی فریضہ ہونا چاہیے۔
جس طرح اللہ تعالیٰ کو اپنا خالق اور رب ماننے والے اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور نہ ماننے والے بھی مخلوق ہیں‘ اسی طرح حضرت محمد کریمؐ کو آخری نبی ماننے والے بھی اللہ کے رسولؐ کے امّتی ہیں اور نہ ماننے والے بھی امّتی ہی ہیں؛ ماننے والوں کو ''اُمّتِ اجابت‘‘ کہتے ہیں اور نہ ماننے والوں کو ''اُمّتِ دعوت‘‘ کہتے ہیں‘ یعنی امّت کا پہلا حصہ دعوت قبول کر چکا ہے‘ جبکہ دوسرے حصے کو ہم نے دعوت دینے کا فریضہ احسن انداز سے ادا کرنا ہے۔ ثابت ہوا ہم سب کا خالق ایک ہے اور قیامت تک کے لیے رسولؐ بھی ایک ہیں اور وہ عالمین کے لیے سراسر رحمت ہی رحمت ہیں۔ اس حوالے سے اہل چین کے لیے ہمیں اپنا کردار ادا کرنے میں پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔ پہلے وقتوں میں عالمی سطح پر وبائی مرض طاعون ہوا کرتا تھا۔ یہ لاعلاج تھا۔ یہ بھی چوہے سے انسان میں پھیلتا تھا۔ ڈینگی کی وباء مچھر سے پھیلتی ہے۔ برڈ فلو پرندوں سے انسانوں میں آتا ہے۔ یہ کورونا وائرس بھی جانوروں چوہے‘ سانپ اور چمگادڑ وغیرہ سے انسانوں میں آیا ہے۔ قدیم و جدید جتنے بھی وائرس ہیں ان میں بنیادی چیز بخار ہے۔ طاعون میں بخار کے ساتھ گلٹی ہوتی تھی‘ جبکہ کورونا وائرس میں بخار کے ساتھ سانس کے نظام کا مفلوج ہونا ہے۔
ساری انسانیت کے آخری رسولؐ نے بیماریوں سے بچنے کے لیے ایک دعا بتلائی ہے۔ فرمایا: ''اَللّٰھُمَّ حَوِّلْ حُمَّاھَا اِلَی الْجُحْفَۃِ‘‘یااللہ مدینے کے وبائی بخار کو جحفہ لے جا) (مسلم:1376)
یاد رہے! جب حضورؐ ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تھے تو مدینہ میں وبائی بخار کی وباء تھی۔ مہاجرین اس کا شکار ہو گئے۔ حضورؐ نے دعا کی اور مدینہ منورہ وباء سے پاکیزہ ‘یعنی طیبہ بن گیا۔ حجفہ کا مقام تب ایک بے آباد جگہ تھی۔ آج کل قدرے آباد ہے‘ مگر پرانے حجفہ کو اور آج کے بے آب و گیاہ اور ویران مقام کو سامنے رکھ کر مذکورہ نبوی الفاظ کے ساتھ دعا کرنی چاہیے۔ اہل ِچین بھی اس دعا کو کریں گے تو (ان شاء اللہ) فائدہ حاصل کریں گے۔ چین اور دنیا بھر کے ماہرین نے واضح کر دیا ہے کہ اس مرض کا کوئی علاج نہیں‘ صرف احتیاط اختیار کرنا چاہیے۔ عالمی ماہرین کی ہدایات کے مطابق ‘چین میں حکومتی سطح پر دو احتیاطوں کو لازم کیا گیا ہے۔
پہلی احتیاط یہ ہے کہ جس شہر میں کورونا کا آغاز ہوا‘ اس کا نام ''ووھان‘‘ ہے۔ ایک کروڑ آبادی کا شہر ہے۔ اس کے ساتھ دیگر چند شہروں میں بھی وباء ہے۔ چار پانچ کروڑ آبادی کے اس علاقے کو باقی ملک سے الگ کر دیا گیا ہے کہ یہاں کے لوگ کہیں نہ جائیں اور نہ ہی باقی ملک کے لوگ وہاں جائیں۔ انسانیت کے رسولؐ کی ساڑھے چودہ سو سال قبل سے یہی ہدایت اور رہنمائی ہے۔ فرمایا! ''جب تم سنو کہ کسی ملک میں طاعون کی وباء پھیلی ہے تو وہاں مت جاؤ اور جب اس ملک میں پھیلے جہاں تم رہتے ہو تو وہاں سے بھاگ کر نہ جاؤ‘‘ (بخاری: 3473)
دوسری احتیاط یہ ہے کہ ہاتھوں کی صفائی ضروری ہے اور گندے ہاتھوں کو آنکھوں‘ منہ اور چہرے پر نہیں لگنا چاہیے کہ ہاتھوں کے جراثیم چہرے کو لگیں گے تو منہ‘ ناک اور آنکھوں کے ذریعے جراثیم اندر چلے جائیں گے‘ لہٰذا ناک‘ منہ اور چہرے کو صاف رکھنا ضروری ہے۔ ان کو پانی سے صاف رکھنا ضروری ہے۔ قارئین کرام! پہلا نمبر تو طہارت کا ہے کہ واش روم سے نکلنے کے بعد ہاتھوں کو مٹی یا صابن کے صاف کیا جائے اور ان ہاتھوں سے دن میں پانچ بار وضو کیا جائے تو انسان کے ننگے رہنے والے حصّے۔ کہنیوں تک بازو‘ سارا چہرہ‘ مسح کی صورت میں کان اور سر صاف شفاف ہو جائیں گے۔ جراثیم سے پاک ہو جائیں گے۔ ڈاکٹر عبدالرشید سیال کہ جنہیں حکومت ِ پاکستان نے ستارئہ امتیاز سے نوازا۔ میں ملتان میں ان سے ملا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ پاؤں کی انگلیوں کے درمیان بعض لوگوں کو زخم ہو جاتے ہیں۔ میں نے میڈیکل سائنس کی ریسرچ کر کے دنیا کو بتایا کہ وضو میں انگلیوں کے درمیان دائیں ہاتھ کی چھنگلیا کے ساتھ خلال کرنے سے پاؤں جراثیم سے محفوظ رہتے ہیں۔ اس تحقیق پر انہیں بین الاقوامی سطح پر انعام سے نوازا گیا۔ جی ہاں! آج صورت ِحال یہ ہے کہ پاکستان کی یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر جاوید اکرم کہتے ہیں کہ دن میں پانچ بار وضو کرنے سے کورونا وائرس سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ وضو کا تمام عمل کروانا وائرس کی احتیاطی تدبیر ہے۔ چین کے شہر ووہان میں بھی وضو کی پریکٹس کروائی جا رہی ہے۔
اللہ اللہ! بے شمار درود و سلام حضرت محمد کریمؐ پر کہ آپؐ کی بتائی ہوئی دو احتیاطوں پر چین میں عمل ہو رہا ہے۔ علاج کی حتمی دریافت سے پہلے ایسی ہی احتیاطیں ممکن ہیں۔ جس رسول گرامیؐ کی بتائی ہوئی احتیاطوں پر عمل ہو رہا ہے‘ اسی رسولِ اعظمؐ کی بتائی ہوئی دعا پر بھی عمل ہو جائے تو ''سبحان اللہ‘‘ معجزاتی مناظر دیکھنے کو ملیں گے۔ (ان شاء اللہ)
آخر پرر سولِ آخریں پر نازل ہونے والی کتابِ آخریں کا ایک پیغام پیش کرنے جا رہا ہوں۔ ہم سب انسانوں کے رب سب انسانوں کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:۔
''اے انسانو! (کس قدر خوشی کی بات ہے کہ) تمہاری ضرورتوں کو پوری کرنے والے (رب) کی طرف سے تمہارے پاس ایک خیر خواہی والا پیغام آ چکا ہے۔ سینوں میں موجود بیماریوں کے لیے سراسر شفا ہے‘‘ ۔(یونس:57)
جی ہاں! کورونا وائرس آخری حملے میں سینے میں سانس کی نالی کے ذریعے پھیپھڑوں کے نظام کو تباہ کر کے موت سے دوچار کر دیتا ہے۔ چین کے متاثر لوگ مذکورہ آیت کو موبائل فون سے چینی زبان میں ترجمہ کر کے ساتھ سننا شروع کر دیں۔ ان شاء اللہ شفا ملے گی۔ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو مخاطب کر کے شفا کی بات کی ہے۔ اہل چین فائدہ اٹھائیں۔ بخاری و مسلم میں ایک لمبے واقعہ کا اختصار یہ ہے کہ حضرت ابو سعید خدریؓ نے ایک غیر مسلم قبیلے کے سردار کو سورئہ فاتحہ کا دم کیا تو اللہ نے اسے سانپ کاٹے سے شفا دے دی۔ حضورؐ نے سنا تو خوشی کا اظہار فرمایا۔ قرآن کی آیات اور حدیث میں موجود دعاؤں سے اور حضورؐ کی بتائی ہوئی ہدایات پر عمل کرنے سے اے اہل چین! آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ شفا عطا فرما دے تو ہمیں بے حد خوشی ہوگی!
ہمسائے کی خوشی ہماری خوشی ہوگی۔ آپ کا بزنس چلے گا۔ سی پیک کے ذریعے میرے ملک کے منصوبے چلیں گے۔ اے میرے مہربان رب کریم! اپنے تمام بندوں پر رحم فرما۔ (آمین)