فرانس سے تعلق رکھنے والے پول ملر ایک عظیم خلائی سائنسدان ہیں۔ وہ یورپ کی خلائی ایجنسی سے وابستہ ہیں۔ یورپ کی خلائی ایجنسی کے سپر کمپیوٹر نے خلائی سائنسدانوں کو ابتدائی کائنات کی شکل دکھا دی ہے۔ اس شکل کو جناب پول ملر نے اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد اس طرح بیان کیا ہے کہ ''کائنات بُنتی کیے ہوئے جالے میں تھی ‘وہ جڑی اور چپکی ہوئی تھی‘ وہ کھلنے‘ پھٹنے اور پھیلنے کی طرف مائل تھی ؛چنانچہ وہ کھلی اور پھیلنے لگی اور آج تک پھیلتی جا رہی ہے‘‘۔
قارئین کرام! مندرجہ بالا منظر دیکھنے والوں میں کوئی مسلمان نہ تھا۔ سارے کے سارے غیر مسلم تھے۔ مسیحی تھے یا یہودی تھے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مسیحی برادری میں کوئی سائنسدان پیدائشی مسیحی ہو مگر نظریاتی اعتبار سے وہ الحادی ہو یا کائنات کے خالق کے بارے میں شک کا شکار ہو۔ بہرحال! یہ منظر دیکھنے والے سارے کے سارے غیر مسلم تھے۔ یہ منظر آج کی دنیا کا ہے۔ اکیسویں صدی کا ہے۔ جدید علمی اور سائنسی دور کا منظر ہے۔ کمپیوٹر کی آنکھ میں انسانی آنکھ کے دیکھنے کا منظر ہے۔ یہ سائنسی حقیقت ہے‘ کوئی نظریاتی فلسفہ نہیں۔ آئیے! اب ایک دوسرا منظر دیکھتے ہیں۔ یہ ساڑھے چودہ سو سال پہلے کا منظر ہے‘ اسے وحی اور الہام کہتے ہیں۔ یہ قرآن کا الہامی پیغام ہے اور حضرت محمد کریمؐ پر نازل ہوا ہے۔ فرمایا ''یہ کہتے ہیں‘ رحمان نے کوئی بیٹا بنا لیا ہے۔ وہ اس سے پاک ہے۔ ہاں یہ (حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور دیگر انبیا اور فرشتے) بندے ہیں‘ جنہیں عزت عطا فرمائی گئی ہے‘‘ (الانبیاء:26)۔ قارئین کرام! اب آگے اسی سورت کی آیت نمبر30کا ترجمہ ملاحظہ ہو ''وہ لوگ کہ جنہوں نے (قرآن اور میرے رسولؐ) کو ماننے سے انکار کیا ہے۔ انہوں نے دیکھا نہیں کہ سارے آسمان اور زمین آپس میں ملے ہوئے تھے۔ ہم نے انہیں پھاڑ کر الگ الگ کر دیا‘ پھر پانی سے ہر شے کو زندگی بخش دی۔ تو کیا یہ لوگ اب (سپر کمپیوٹر کے ذریعے دیکھ کر بھی) ایمان نہیں لائیں گے؟ (کہ میرا قرآن اور میرے آخری رسولؐ سچے ہیں)----- اللہ اللہ! سپر کمپیوٹر بنانے والے ‘پھر اس کو استعمال کرنے والے سائنسدانوں تک کا قرآن میں تعیقن کہ کائنات کے ملے ہونے کا منظر وہ دیکھیں گے‘ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا مانتے ہوں گے‘ پھر یہ کہنا کہ اب نا ماننے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
جی ہاں! اب تو قرآن اور صاحب ِقرآن کو ماننا ثابت شدہ سائنسی حقیقت کو ماننا ہے جبکہ نہ ماننا ثابت شدہ سائنسی حقیقت کو جھٹلانا ہے۔
کائنات ''رتق‘‘ تھی۔ امام راغب فرماتے ہیں کہ اس کا معنی دو یا کئی چیزوں کا آپس میں سختی کے ساتھ جڑا اور چپکا ہوا ہونا ہے۔اس میں مبالغہ پایا جاتا ہے‘ یعنی بالکل بند ‘جبکہ ''فتق‘‘ کا معنی ایسی جڑی ہوئی چیزوں کو الگ الگ کرنا ہے۔ جی ہاں! زمین بھی اسی میں بند تھی‘ پھر اسی کی مٹی کے ساتھ پانی ملا کر انسان کو بنایا گیا تو لوگو! سوچو‘ بھلا ایسی بند مخلوق اللہ تعالیٰ کا حصہ ہو سکتی ہے؟ بالکل نہیں۔ یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ ''رتق و فتق‘‘ کا سسٹم آج بھی چل رہا ہے۔ کائنات کے اندر اس سسٹم کو ''فلق‘‘ کہا گیا ہے۔ علامہ جمال الدین ابن منظور ''لسان العرب‘‘ میں ''الفلق‘‘ کا معنی ''الخلق کلہ‘‘ کرتے ہیں‘ یعنی تمام مخلوق کی پیدائش پھٹنے سے ہوتی ہے۔ قرآن میں ہے ''فالق الاصباح‘‘ یعنی وہ رات کے اندھیرے کو پھاڑ کر اس میں سے صبح کا اجالا نمودار کرنے والا ہے۔ (الانعام:96) قرآن کی ایک اور آیت ملاحظہ ہو‘ فرمایا: ''ان اللہ فالق الحب والنوی‘‘ کیا شک ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی دانوں اور گٹھلیوں کو پھاڑنے والے ہیں۔ (الانعام:95) ہر دانہ وہ گندم کا ہو یا مکئی وغیرہ کا۔ زمین کے اندھیرے میں پھٹتا ہے اور انتہائی نرم کونپل زمین کا سینہ چیر کر نمودار ہو جاتی ہے۔ آم اور دیگر پودوں کی گٹھلیاں بھی پھٹتی ہیں‘ مگر کھجور کی گٹھلی سب سے سخت ہے جو ہمارے علم میں ہے۔ وہ پھٹتی ہے کونپل نکلتی ہے اور پھر زمین پھاڑ کر زمین کے سینے پر سیدھی کھڑی ہو کر اپنے وجود کی خبر دیتی ہے۔ انسانی سپرم بھی انڈے کو پھاڑ کر اس میں داخل ہوتا ہے اور پھر دو خلیے ایک بن کر پھٹتے اور بڑھتے چلے جاتے ہیں ؛حتیٰ کہ انسان اس دنیا میں نمودار ہو جاتا ہے۔ کئی جانداروں کے بچے انڈوں کو پھاڑ کر باہر نکل آتے ہیں۔ پہاڑوں سے پانی کے چشمے چٹانوں کو پھاڑ کر بہہ نکلتے ہیں۔ آتش فشاں پھٹتے ہیں تو بے شمار معدنیات زمین کے سینے پر نمودار ہو جاتی ہیں۔ قرآن کا اختتام جن دو سورتوں سے ہوا ہے‘ ان میں سے پہلی کا نام ''فلق‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے آخری رسولؐ سے مخاطب ہوتے ہیں۔ ''(میرے رسول) اعلان کردو کہ میں تو فلق کے رب کی پناہ حاصل کر رہا ہوں‘‘ یاد رہے! کورونا وائرس آغاز میں ایک تھا۔ کسی جانور سے انسان میں داخل ہو گیا۔ پھٹتا چلا گیا اور بڑھتا چلا گیا۔ بندہ مر گیا‘ مگر یہ آگے ہی آگے بڑھتا اور پھیلتا جا رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے آخری رسولؐ کے ذریعے قرآن پر ایمان رکھنے والوں کو تعلیم دیتے ہیں۔ فلق کے رب کی پناہ مانگ کر پھر یہ کہو ''میں ہر اس شے کی شرارت سے پناہ مانگتا ہوں‘ جسے اللہ نے پیدا فرمایا ہے‘‘ (الفلق:2) جی ہاں! یہ سورت آگاہ کر رہی ہے کہ ہر پھٹنے والی شے کا خالق بھی اللہ ہے اور اس کا رب‘ یعنی اس کی نشوونما اور بڑھوتری کرنے والا بھی اللہ ہے‘ لہٰذا اپنی غلطیوں کی معافی مانگ کر اس اللہ سے ناطہ جوڑ لو‘ وہ اس کی بڑھوتی روک لے گا اور اپنے بندوں کو بچا لے گا۔ وہ کسی انسان کے ہاتھوں ویکسین بنوا کر اسے روک دے گا یا ویسے ہی اس کی بڑھوتری روک دے گا‘ یہ اس کی مرضی ہے۔ وہ انسانوں‘ جانوروں اور پودوں کے قد کو ایک خاص جگہ جا کر روک دیتا ہے‘ وہ اس کو بھی روک دے گا‘ لہٰذا اس کو مانو تو سہی۔ صحیح بخاری میں ہے؛ حضورؐ سورۂ اخلاص اور آخری دو سورتوں کو پڑھتے‘ اپنے ہاتھوں پر پھونکتے اور سر‘ چہرے اور جسم کے سامنے والے حصے پر پھیر لیتے۔ آپؐ اپنی بیماری میں ایسا کرتے۔ ترمذی میں ہے ‘فرمایا: ''یہ تجھے ہر شے (کے شر‘ نقصان) سے کافی ہو جائے گی‘‘۔ جی ہاں! کورونا وائرس بھی اس میں آ گیا۔
چین کے صدر جناب شی چن پنگ نے کہا کہ وہ اس کے خلاف جنگ لڑیں گے۔ جنیوا میں یو این ہیلتھ آرگنائزیشن کے سربراہ نے پوری دنیا کیلئے اسے دہشت گردی سے بڑا خطرہ قرار دیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس خطرناک ترین اور دنیا بھر کے انسانوں کے مشترکہ دشمن کے خلاف کیا دنیا بھر کی فوجیں لڑیں گی؟ یہ انسانی افواج تو انسانوں ہی کے خلاف لڑنے کیلئے ہیں۔ دنیا بھر کی کوئی ایک کروڑ افواج کورونا وائرس کے خلاف نہیں لڑ سکتیں۔ ایٹمی ہتھیار‘ امریکہ کے بموں کی ماں بم وغیرہ اس کیخلاف کچھ نہیں کر سکتے۔ چین کی افواج تعداد کے لحاظ سے دنیا میں پہلے نمبر پر ہیں۔ معاشی سپرپاور بھی ہے ‘مگر اس دشمن کیخلاف سب بے بس ہو رہے ہیں۔ یقین جانیے! بندوں کا خالق اپنے بندوں کو لاچار اور بے بس اس لئے کرتا ہے ‘تاکہ وہ اپنی اکڑ کو چھوڑ کر اس سے مدد کے طالب ہو جائیں۔ مہاتما گاندھی اپنی آپ بیتی ''تلاش حق‘‘ میں لکھتے ہیں کہ میں اپنی بیوی بچوں کے ساتھ بمبئی سے جنوبی افریقا کی بندرگاہ نٹال جا رہا تھا۔ اٹھارہ دن کا سفر تھا۔ نٹال پہنچنے سے چار دن پہلے بحری جہاز کو طوفان نے گھیر لیا۔ 24 گھنٹے طوفان رہا۔ ہندو‘ مسلمان‘ عیسائی اور (پارسی‘ بدھ مت وغیرہ سب) آپس کے اختلاف بھول گئے تھے اور اس خدائے واحد کو جو سب کا معبود ہے یاد کر رہے تھے۔ کپتان بھی مسافروں کے ساتھ دعا میں شریک ہو گیا۔ جی ہاں! اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی اور جہاز طوفان سے نکل گیا۔ کالم کے آخر پر چند تجاویز :
(۱) دنیا بھر کے حکمران یواین کی جنرل اسمبلی میں اکٹھے ہو جائیں۔ تمام مذاہب کے نمائندہ حضرات ایک اللہ سے دعا کریں کہ اے اللہ رحمان و رحیم! ہم سات ارب ہیں‘ جبکہ ہمارا دشمن اربوں کھربوں کی تعداد میں ہے اور بڑھتا جا رہا ہے۔ ہماری رسائی سے باہر ہے۔ آپ ہماری مدد فرمائیں اور ہماری جنگ آپ لڑ کر ہماری مدد فرمائیں۔ حروف تہجی کے اعتبار سے ہر مذہب کا سربراہ دعا کرے۔ ساری دنیا آمین کہے۔ امام کعبہ شیخ عبدالرحمان السدیس کا نام اے سے شروع ہوتا ہے‘ وہ آغاز فرمائیں۔ سات ارب انسان آمین کہیں ‘اللہ تعالیٰ مدد فرمائیں گے (ان شاء اللہ)۔ (۲) تمام ممالک اپنے قیدیوں کو رہا کریں۔ وہ قیدی کہ جو معمولی جرائم میں سزا بھگت رہے ہیں۔ مذہبی بنیادوں اور سیاسی بنیادوں پر قید کر دئیے گئے ہیں۔ (۳) سود میں جکڑے ہوئے غریب ملکوں کے قرضے معاف کیے جائیں ‘تاکہ غریب لوگوں کو ریلیف ملے۔ الغرض! جب اللہ دیکھیں گے کہ میرے بندوں پر رحم کیا جا رہا ہے تو رحمت کا نزول ہوگا اور عالمی خوف جوکورونا سے ہے‘ ختم ہو جائے گا۔ (ان شاء اللہ)