جناب مجیب الرحمان شامی صاحب کے حوالے سے محترم افضال ریحان فون پر مجھے کہہ رہے تھے کہ میرے سسر فوت ہو گئے۔ وہ تحریک پاکستان کے کارکن تھے۔ قائداعظم رحمہ اللہ کے سپاہی تھے۔ ان کی وصیّت کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے محترم محمد طفیل کلّو رحمہ اللہ کا جنازہ آپ پڑھا دیں۔ جناب محمد طفیل کلّو 92سال کی عمر گزار کر اپنے اللہ سے جا ملے۔ میں نے عرض کی کہ آپ بھی میرے لئے صحافت کے حوالے سے محترم ہیں۔ جناب مجیب الرحمان شامی کا حوالے میرے لئے حکم ہے۔ قائداعظمؒ کے سپاہی کا جنازہ پڑھانا میرے لئے اعزاز ہے‘ خاص طور پر جنہیں تحریک پاکستان میں خدمات کے صلے میں حکومتِ پاکستان تمغے سے بھی نواز چکی ہے۔ تحریک ِپاکستان کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے بزرگ حضرات اور خواتین اب بھی شاید سینکڑوں کی تعداد میں یا چند ہزار کی تعداد میں موجود ہوں گے‘ مگر وہ کہ جنہوں نے قائداعظم ؒکی قیادت میں بھرپور کردار ادا کیا‘ وہ شاید درجن بھر کے قریب ہی ہوں گے۔ یہ لوگ آج جب ہندوستان کو دیکھتے ہیں کہ وہاں 25کروڑ کے قریب مسلمانوں کو کس طرح ظلم کا شکار کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ 73سال سے ہندو مسلم فسادات کے عنوان سے لاکھوں مسلمان شہید کیے جا چکے ہیں تو وہ قائداعظمؒ کی بصیرت کو سلام بھی کرتے ہیں اور پاکستان جیسی عظیم پرامن نعمت پر اللہ کریم کا شکر بھی ادا کرتے ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے قائداعظمؒ اور پاکستان کی مخالفت کی۔ کانگریس کا ساتھ دیا۔ ہندوستان میں آج وہ سارے لوگ قائداعظمؒ کی بصیرت کو داد دیتے ہیں اور اپنے بزرگوں کو غلطی پر تسلیم کر رہے ہیں۔ میں کہتا ہوں؛ علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کی نظریں دور رس تھیں اور وہ اس لئے تھی کہ قرآن ان کے سامنے تھا۔ آئیے!آج دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید فرقان ِ حمید اس بابت کیا کہتا ہے:
اللہ تعالیٰ اپنے آخری رسول حضرت محمد کریمؐ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں ''میرے رسول! آپ بہرحال اس حقیقت کو پا کر رہو گے کہ مسلمانوں کے ساتھ دشمنی کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے شدید ترین دشمن وہ ہیں‘ جو یہودی اور مشرک ہیں‘‘(المائدہ:82)‘ یعنی دشمنی میں یہودیوں کا پہلا نمبر ہے ‘جبکہ مشرکوں کا دوسرا نمبر ہے۔ ذہن میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ کیونکہ یہودی تو اہل ِکتاب میں سے ہیں۔ اہل ِکتاب کو اسلام نے رعایتیں دی ہیں کہ ان کے شِرک کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں مشرک نہیں کہا‘ یعنی وہ شرک تو کرتے ہیں‘ لیکن مشرک نہیں ‘ کیونکہ وہ ایک اللہ کو مانتے ہیں۔ آخرت کو مانتے ہیں۔ انبیاء کو مانتے ہیں۔ الہامی کتابوں کو مانتے ہیں‘ لہٰذا یہ اہل ِکتاب ہیں۔ مزید رعایت ان کو یہ دی کہ اہل ِکتاب عورت سے شادی کو جائز قرار دیا۔ ان کا ذبیحہ جائز قرار دیا۔ جی ہاں! اس سب کے باوجود یہودیوں کو دشمن نمبر ایک قرار دیا۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں مجھ طالب علم کو سمجھ یہ آئی ہے کہ یہودیوں نے حسد کر کے حضرت محمد کریمؐ کو ماننے سے انکار کیا تھا۔ وہ حضورؐ کی آمد کے انتظار میں حضورؐ کی ہجرت گاہ کو بھی پہچان چکے تھے۔ اسی لئے یثرب میں آباد ہو گئے تھے‘ مگر حسد یہ تھا کہ حضورؐ تشریف لائے ہیں تو بنی اسرائیل سے کیوں نہیں آئے‘ بنی اسماعیل سے کیوں آئے ہیں؟ اس حسد نے ان کو تکبر میں مبتلا کر دیا۔ حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیا‘ پھر وہ حسد میں یہاں تک پہنچے کہ حضورؐ کی گستاخیاں کرنے لگ گئے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ 14سو سال کی تاریخ بھی یہی بتلا رہی ہے کہ سب سے بڑی دشمنی یہودیوں ہی نے کی ہے۔ مشرکین مکہ بھی دشمن تھے‘ مگر ان کی دشمنی میں اضافہ کرنے والے بھی یہودی ہی تھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو نمبر ایک پر رکھا ہے‘ یعنی وہ اہل ِکتاب ہونے کے ناتے فوائد تو اٹھائے گا ‘مگر دشمن نمبر ایک اس وجہ سے ہے کہ یہ ظالم یہودی ‘اللہ کے محبوب حضرت محمد کریمؐ سے حسد کر کے دشمنی کرتے ہیں اور محبوب کا دشمن ہی تو اصل دشمن ہوا کرتا ہے۔ علماء نے کیا خوب بات کہی ہے کہ یہودیوں کے دشمن نمبر ایک ہونے کی آیت حضورؐ کے سچے رسول ہونے کی ایک دلیل ہے اور یہودیوں کو چیلنج ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ تعلقات درست کر کے دکھا دیں اور قرآن کی آیت کو چیلنج کر دیں‘ مگر نہ وہ کر سکے اور نہ کر سکتے ہیں۔ ان کی فطرت میں حضرت محمد کریمؐ اور آپؐ کی امت کے ساتھ دشمنی ہے۔ قرآن کا چیلنج حق ہے اور حق رہے گا۔
ہندو مشرک ہے کہ وہ 35کروڑ خداؤں کا پجاری ہے۔ بتوں کی پوجا کرتا ہے۔ آخرت کا تصور نہ ہونے کے برابر ہے۔ جو واقعی نبی ہو‘ ایسا کوئی رہبر ان کے ہاں نہیں۔ الہامی کتاب سے وہ محروم ہیں۔ جی ہاں! مسلمانوں کے ساتھ ان کی دشمنی توحید کی وجہ سے ہے کہ مسلمان ایک اللہ واحد کے عبادت گزار ہیں۔ آر ایس ایس اور اس کے سیاسی ونگ بی جے پی کی دشمنی واضح اور نمایاں ہے۔ کانگریس کے ہندو کی دشمنی منافقت کے پردے میں تھی۔ بی جے پی کی دشمنی عیاں ہو کر سامنے آ گئی ہے۔ اس دشمنی میں شدت اسرائیل کے یہودیوں کی پیدا کردہ ہے‘ یعنی جو منظر ساڑھے چودہ سو سال قبل کا تھا‘ وہی آج ہے اور دجال کے قتل ہونے تک یہی منظر باقی رہے گا۔ ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ ہے۔ بی جے پی کے اب تیسرے دور حکومت میں یہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ بن چکا ۔ دنیا بھر میں پرامن احتجاج جمہوری حق ہوتا ہے ‘مگر اس کو ہندوستان میں پامال کیا گیا ہے تو اس کی مثال بھی دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ نریندر مودی ہندوستان کے 25کروڑ مسلمانوں کو شہریت کے حق سے محروم کرنا چاہتا ہے۔ کشمیری لوگ اپنے خصوصی حق سے محروم ہو کر نصف سال سے کرفیو کی حالت میں ہیں۔ اب‘ ہندوستان کے مسلمان اپنے حق کو بچانے کیلئے پرامن احتجاج کیلئے بیٹھے ہیں تو ہندوستان کی نریندر مودی فاشٹ حکمرانی نے اپنے متعصب مذہبی لوگوں کو لڑنے کیلئے میدان میں اتارا۔ اس کا نام خانہ جنگی ہوتا ہے۔ دنیا کی ہر حکومت خانہ جنگی سے ڈرتی اور بچتی ہے‘ مگر نریندر مودی حکومت خود خانہ جنگی کا آغاز کرتی ہے‘ پھر پولیس اور سکیورٹی کے دیگر ادارے اس خانہ جنگی میں بلوائیوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ ان کا ڈھکا چھپا ساتھ ہوتا تو پھر بھی کوئی بات تھی۔ یہاں تو اعلانیہ ساتھ دیا جا رہا ہے۔بھارتی پولیس مسلمانوں کو قتل کرتی ہے اور قتل کرنے کا اعتراف اور اعلان کرتی ہے۔ یہ سارا کچھ صدر ٹرمپ کی موجودگی میں ہوتا ہے کہ وہ اپنے انڈیا کے دورے کے دوران احمد آباد میں موجود تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایسا فاشزم‘ ہٹلر کے بعد دنیا دیکھ رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے درست فرمایا کہ یہ حکومت ہٹلر سے بڑھ کر فاشسٹ ہے۔ لیاقت نہرو پیکٹ جو اقلیتوں کے تحفظ کے سلسلے میں ہے۔ حکومت ِپاکستان اس پیکٹ کی خلاف ورزی پر یقینا اپنا کردار ادا کرے گی‘ مگر مستقبل کو دیکھتے ہوئے سامنے کی بات یہ ہے کہ ہندوستان میں موجود اقلیتوں کے تحفظ کا ایک ہی بالآخر راستہ دنیا کو اپنانا پڑے گا اور وہ یہ ہے کہ 25کروڑ مسلمانوں‘ 10کروڑ سکھوں اور تین کروڑ سے زائد مسیحیوں کو اپنے اپنے علاقے میں الگ الگ وطن دے دیا جائے‘ یوں برصغیر میں امن ہو جائے گا۔ امن دنیا کی ضرورت ہے اور دنیا کو اس ضرورت کا احساس بہرحال کرنا ہوگا۔