نظام شمسی کے درجن بھر سیاروں میں صرف زمین ہی ایک ایسی جگہ ہے‘ جہاں پانی ہے‘ آکسیجن ہے۔ زمین کے گرد ہوا کا غلاف ہے اور زندگی موجود ہے۔ اعلیٰ اور اشرف ترین مخلوق انسان آباد ہے۔ ہماری گلیکسی کہ جس کا ہم نے ''مِلکی وے‘‘ نام رکھا ہے‘ اس میں اربوں نظام ہائے شمسی موجود ہیں ‘مگر کسی نظام کے کسی سیارے میں زمین جیسا سیارہ دریافت نہیں ہو سکا۔ نہ '' حبل سپیس دوربین‘‘ ایسی دریافت کر سکی ہے اور نہ ہی ''وائیجرون‘‘ کہ جو ہمارے نظام شمسی سے نکل کر ''مِلکی وے‘‘ کے شمسی نظاموں کی تصاویر ارسال کر رہا ہے‘ زندگی والا کوئی سیارہ دریافت کر سکا ہے۔ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم انسانوں کا گھر یہ زمین ہی ہے۔ یہ سات ارب انسانوں کا گھر ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ''اے انسانو! اسی زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا (روح نکال کر) تم کو اسی میں واپس کر دیں گے اور اسی زمین سے ایک بار پھر تم کو (قیامت کے دن) اٹھا کھڑا کریں گے‘‘۔ جی ہاں! ہم سات ارب انسانوں کا یہ بڑا قیمتی گھر ہے۔ ہم سب کے ایک باپ حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور ہم سب ایک ہی ماں حضرت حوّا علیہا السلام کی اولاد ہیں۔ کورونا وائرس نے ہم سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ سات ارب انسان ڈرے اور سہمے بیٹھے ہیں۔ موجودہ دور میں دنیا ایک ''عالمی گاؤں‘‘ بن چکا ہے۔ میڈیا کا دور ہے۔ کورونا وائرس کی خبریں جب سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہیں تو ہر شخص سہم کے رہ جاتا ہے۔ سوشل‘ یعنی سماجی زندگی دن بدن محدود سے محدود تر ہوتی جا رہی ہے۔ ایئر لائنیں مسافروں سے محروم ہوتی جا رہی ہیں۔ ملک ایک دوسرے پر پابندیاں عائد کر رہے ہیں۔ سیاحت اور تقریبات متاثر ہو کر رہ گئی ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوا تھا کہ حکومت کا سربراہ مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھائے تو اس کا اپنا وزیر کوروناوائرس کے ڈر سے مصافحہ نہ کرے‘ یعنی انسان دوسرے انسان سے کٹ رہا ہے۔ بہرحال! یہ سب احتیاطی پہلو ہیں اور اچھے ہیں‘ مگر آئیے! ایک دوسرے پہلو سے بھی غور کرتے ہیں:۔
یو این کا عالمی ادارہ ''ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن‘‘ اپنے اعداد و شمار میں آگاہ کرتا ہے کہ سات ارب انسانوں میں معمول کی اموات سالانہ پانچ کروڑ ساٹھ لاکھ ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر ڈیڑھ لاکھ کے قریب انسان فوت ہوتے ہیں۔ اب ڈیڑھ لاکھ انسانوں کی وفات کوئی خبر نہیں‘ اس لیے کہ یہ معمول کی بات ہے۔ کسی نے ریسرچ کرنی ہو تو کر لے۔ عام لوگوں کیلئے اور عالمی میڈیا کیلئے یہ بریکنگ نیوز تو بہت دور کی بات ہے‘ چھوٹی سی خبر بھی نہیں ہے۔ اس کے برعکس کورونا وائرس میں کسی ایک انسان کا مبتلا ہو جانا بھی خبر ہے اور مرجانا تو کافی بڑی خبر ہے اور تین چار کا کسی ملک میں فوت ہو جانا بریکنگ نیوز ہے۔ ایسا ہونا فطری ہے‘ کیونکہ وباء سے مرنا واقعی ایک اہم خبر ہے۔ چین کا ملک ‘جو ہمارا پڑوسی ہے‘ جہاں سے اس وائرس کا آغاز ہوا۔ اس کی آبادی ڈیڑھ ارب ہے۔ مجھے ایک پاکستانی تاجر نے بتایا کہ وہاں کے غیر رجسٹرڈ لوگوں کو شامل کیا جائے تو آبادی قریباً دو ارب بنتی ہے۔ اب اندازہ لگائیں اور سوچیں کہ وائرس کے آغاز کو تین مہینے ہونے کو ہیں۔ ان تین ماہ میں دو ارب کی انسانی آبادی میں صرف تین ہزار انسان فوت ہوئے ہیں تو ہمیں سمجھنا چاہیے کہ یہ انسانوں کے رب کریم کی مہربانی ہے۔ اب‘ ووہان شہر‘ جو چین میں وباء کا مرکز ہے۔ اس پر غور کر لیتے ہیں؛ اس کی آبادی ایک کروڑ اور چند لاکھ پر مشتمل ہے‘ یعنی تقریباً ہمارے لاہور جتنی آبادی ہے۔ ووہان‘ چین کے صوبہ ہوبی کا دارالحکومت ہے۔ سارا صوبہ‘ سارا چین اور خود ووہان شہر ملا کر ہلاکتوں کی تعداد تین ہزار کے قریب ہے تو انسان کے خالق مولا کریم کی یہ بے مثال رحمت نہیں تو اور کیا ہے؟ اب‘ اطمینان کی بات یہ ہے کہ چین میں اس کا زور ٹوٹ رہا ہے اور باقی دنیا میں اس کا اظہار ہو رہا ہے‘ مگر رفتار انتہائی سست ہے۔ سست رفتاری بھی اللہ کی رحمت ہے۔ چین نے تین کام کیے ‘جس کی وجہ سے کامیابی ملی: (1) وبائی علاقے کے لوگوں کو تندرست علاقے میں جانے نہیں دیا اور تندرست علاقے کے لوگوں کو وبائی علاقے میں جانے نہیں دیا۔ جی ہاں! صحیح بخاری میں حضرت محمد کریمؐ کا یہی فرمان ہے ‘اس پر عمل ہو گیا اور اللہ تعالیٰ کا کرم ہو گیا‘ (2) احتیاطی طور پر وضو ‘یعنی صفائی ستھرائی کے عمل کو اپنایا گیا‘ (3) چین نے جنگلی جانوروں کی تجارت کو ممنوع قرار دے دیا۔ خنزیروں اور دیگر درندہ صفت جانوروں کو مار ڈالا اور ووہان کی ایسی مارکیٹ کو بند کر دیا۔ دوسرے لفظوں میں حرام جانوروں کا کھانا ختم کر دیا‘ اس پر اللہ تعالیٰ نے کرم فرما دیا‘ (4)چین کے صدر جناب شی چن پنگ نے اس وباء کو شیطان کی کارستانی قرار دیا۔ جی ہاں! جب شیطان کی شیطنت کو مان لیا تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کو بھی مانا ہی ہوگا۔ یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتے ہیں۔ بہرحال! ہم سب انسانوں کیلئے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سوال کرتے ہیں‘ (5) چین میں کورونا وبا سے تحفظ کیلئے بعض مساجد میں دعائیں کی گئیں تو چین کے عام باشندے اور سکیورٹی کے لوگ جو مسلمان نہیں تھے‘ وہ بھی دعا میں شریک تھے۔ جی ہاں! انسانوں کا خالق یہی چاہتا ہے کہ اس کے بندے کائنات میں فزکس کے قوانین کو اپنا معبود نہ بنائیں۔ مقناطیسی قوتیں بھی مخلوق ہیں۔ مخلوق کو معبود بنانا ہی تو الحاد اور شرک ہے۔ زمین کا مالک اور خالق اپنی زمین کو انسانوں سے خالی نہیں کرنا چاہتا بس تھوڑا جھنجھوڑا ہے‘ تاکہ وہ اپنے خالق و مالک کی طرف آئیں اور جو اس کے در پر سجدہ ریز ہوتے ہیں‘ ان کو آزادی کے ساتھ سجدہ ریز ہونے دیں۔ وہ مخلوق کیلئے مہربان ہوں ‘اللہ تعالیٰ ان پر رحمت فرما دے گا۔کورونا وائرس سے دنیا کے ویسے تو 70کے قریب ممالک متاثر ہو چکے ہیں‘ مگر ایران دوسرے نمبر پر متاثر ترین ملک ہے۔ ایران نے بہت اچھا کیا کہ 52ہزار قیدیوں کو آزاد کرنے کا اعلان کیا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ میں اب تک چار کالم اسی موضوع پر لکھ چکا ہوں۔ آغاز میں ہی عرض کی تھی کہ ساری دنیا کے مذاہب کے سربراہ دعا کیلئے یو این میں اکٹھے ہو جائیں۔ امامِ کعبہ حضرت مولانا عبدالرحمان السدیس سے دعا کا آغاز کروائیں کہ حروف تہجی کے اعتبار سے ان کا نام ''A‘‘سے شروع ہوتا ہے۔ یہ دعا بھی کی جائے اور دنیا کا ہر ملک اپنے قیدیوں اور مظلوموں کا خیال کرے۔ ایران نے خود تسلیم کیا کہ جیلوں میں قیدیوں کی تعداد حد سے زیادہ تھی۔ یاد رہے کہ جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام بے گناہ تھے ‘اس کے باوجود قید میں ڈال دیا گیا‘ اسی طرح دنیا بھر کی حکومتوں نے لاکھوں بے گناہ انسانوں کو قید میں ڈال رکھا ہوگا۔ کوئی معمولی جرم پر ہوگا‘ کسی کو جھوٹی شکایت پر جیل میں ڈالا ہوگا۔ گواہ کس قدر جھوٹے ہوتے ہیں‘ یہ جھوٹ کا نظام کہیں کم کہیں زیادہ ہر جگہ چلتا ہے۔ میرے حضورؐ رحمت ِدو عالم تھے۔ آپؐ نے جرم کے مطابق سزا دے کر فارغ کر دیا یا معاف کر دیا ‘مگر جیلیں نہیں بنائیں ‘صدقے قربان ایسی حکمرانی پر--- حکمرانوں سے عرض کروں گا کہ دنیا بھر میں قیدیوں اور مظلوموں پر رحم فرمائیں ‘اللہ تعالیٰ کی رحمت آسمان سے نازل ہوگی!(ان شا اللہ)۔
امریکا کے صدر ٹرمپ سائنس دانوں پر برہمی کا اظہار کر رہے ہیں کہ کورونا وائرس کی ویکسی نیشن تیار کیوں نہیں ہو رہی؟ ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ جن لوگوں پر رحم کرنے کا اختیار آپ کے پاس ہے۔ اس ویکسی نیشن کو تو استعمال میں لائیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہا کریں۔ افغانستان کے امن معاہدے کی حفاظت کریں۔ پانچ ہزار افغان قیدی رہا کریں۔ اس کے بدلے میں آپ کے ایک ہزار قیدی دیارغیر سے اپنے اپنے ملکوں میں جائیں۔ ہزاروں قیدیوں کے بیوی بچے اور ماں باپ جب خوش ہوں گے تو آسمان والا خوش ہوگا۔ یاد رہے کہ کورونا اپنی شکلیں تبدیل کرنے لگ گیا ہے۔ قبل اس کے کہ وہ بھیانک شکلیں اختیار کرے۔ ہم اپنے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں۔ تینوں آسمانی مذاہب کے جد حضرت ابراہیم علیہ السلام انتہائی نرم تھے۔ انڈیا کے نریندر مودی کو ہندوستان کے مظلوموں اور اہل کشمیر پر ظلم سے روکا جائے۔ لاکھوں مظلوموں کو وہاں کی جیلوں سے آزاد کر دیا جائے۔ ساری دنیا پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو جائے گی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام انتہائی نرم دل تھے۔ نرم دل لوگوں کو آج بھی مسیحا کہا جاتا ہے۔ اختتام اللہ کے آخری رسولؐ کے فرمان سے کرنے لگا ہوں؛ فرمایا '' کیا شک ہے کہ زمین کے لوگوں میں سے بعض لوگ اللہ تعالیٰ کے برتن ہیں اور تمہارے رب کے برتن اس کے نیک بندوں کے دل ہیں۔ ان دلوں میں سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے محبوب وہ دل ہیں کہ جو سب سے بڑھ کر نرم اور ملائم ہیں‘‘ (طبرانی: صحیحہ: 1691)۔