حضرت عبداللہ بن عمرؓ بتاتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ''اے مہاجروں کی جماعت! پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جب تم لوگ ان میں مبتلا ہو گئے (تو ان کی سزا ضرور ملے گی) میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں کہ تم لوگ ان (برائیوں) میں مبتلا ہو جاؤ۔ 1؛ جب بھی کسی قوم میں اعلانات کے ساتھ فحاشی کا ارتکاب ہونے لگتا ہے تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان لوگوں میں نہیں ہوتی تھیں کہ جو پہلے گزر گئے‘ 2؛ جو لوگ ناپ تول میں کمی کرتے ہیں‘ انہیں قحط سالی‘ روزگار کی تنگی اور حکمران کے ظلم کی صورت میں سزا دی جاتی ہے ‘ 3؛جب وہ اپنے مالوں کی زکوٰۃ دینا بند کر دیتے ہیں تو ان سے آسمان کی بارش کو روک لیا جاتا ہے‘ اگر جانور نہ ہوتے تو ایسے لوگوں کو بارش نہ ملتی‘ 4 ؛جب وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ کئے ہوئے عہد (حلف) کو توڑتے ہیں تو ان پر دوسری قوموں میں سے دشمن مسلط کر کے سزا دی جاتی ہے؛ چنانچہ جو (اقتدار اور مال حکمرانوں) کے ہاتھ میں ہوتا ہے ‘وہ ان سے دشمن چھین لیتے ہیں‘ 5؛ جب بھی ان کے حکمران اللہ کے قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے اور جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا: اسے اختیار نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ ان میں آپس کی لڑائی ڈال دیتا ہے‘‘۔ (ابن ماجہ:4019صحیح)
قارئین کرام! اللہ کے رسولﷺ نے اپنے مذکورہ فرمان میں پانچ برائیوں اور ان کے انجام سے آگاہ فرمایا ہے۔ آج کا کالم صرف پہلی برائی اور اس کے انجام سے متعلق ہے۔ ویسے تو فحاشی اور اس کے اعلانیہ مظاہرے دنیا کے ہر ملک میں موجود ہیں۔ کہیں زیادہ ہیں اور کہیں کم ہیں‘ مگر اس سے محفوظ کوئی نہیں رہا۔ مجموعی طورپر دیکھیں تو مسلمان ممالک کافی حد تک محفوظ ہیں‘ جبکہ غیر مسلم ممالک میں بعض ممالک تو ایسے ہیں کہ وہاں کی اسمبلیوں نے قانونی طورپر ہم جنس پرستی کو جائز قرار دے دیا‘ شادیاں برائے نام رہ گئیں‘ آبادیاں کم ہونے لگ گئیں۔ جدید طبی سہولتوں اور خوشحال زندگی کی وجہ سے اوسط عمر زیادہ ہو گئی؛ چنانچہ بوڑھوں کی تعداد بڑھ گئی۔ نوجوانوں کی تعداد گھٹ گئی۔ ناجائز اولاد کی تعداد بڑھ گئی‘ جبکہ مجموعی طور پر بچوں کی پیدائش انتہائی کم ہو گئی۔ اب‘ ہوا یہ کہ پچاس سال قبل ایسے معاشروں میں وائرس کا ایک نیا مرض سامنے آیا۔ اس کو ایڈز کا نام دیا گیا۔ میڈیکل سائنس نے متفقہ طور پر فیصلہ دیا کہ اس وبائی مصیبت کی وجہ فحاشی اور اس کی مکروہ ترین دیگر شکلیں ہیں۔ یو نائیٹڈ نیشن کے ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ‘گزشتہ تقریباً نصف صدی سے جو لوگ اس مرض میں مبتلا ہوئے ہیں ‘وہ تین کروڑ ہیں۔ 2018ء سے لیکر اب تک جو لوگ ایڈز کی بیماری میں مبتلا ہو کر زندگی گزار رہے ہیں‘ ان کی تعداد تین کروڑ ستر لاکھ‘ یعنی پونے چار کروڑ کے قریب ہے۔ ایڈز میں مبتلا ایسے تمام مریضوں کی عمریں؛ 15سال سے 45سال کے درمیان ہیں۔ یہ مریض روزانہ ایک‘ عمومی تعداد میں فوت ہو رہے ہیں۔
قارئین کرام! آپ نے رپورٹ ملاحظہ فرما لی۔ اس رپورٹ کی اہم ترین بات یہ ہے کہ اس مرض سے مسلمانوں کی دنیا محفوظ ہے‘ ساتھ ہی امریکہ کے تحقیقی اداروں کی رپورٹ یہ ہے کہ جس معاشرے میں اللہ پر ایمان۔ اگلے جہان کی زندگی پر یقین اور جہنم کی صورت میں جرم کی سزا کا خوف موجود ہے‘ وہاں جرائم کی سطح کم ہے۔ جہاں مذکورہ عقیدہ موجود نہیں‘ وہاں جرائم کی نا صرف سطح بہت بلند ہے ‘بلکہ وہ جگہیں جرائم کے مراکز ہیں۔ جی ہاں! اس لحاظ سے جہنم کا خوف ایک مومن کے لیے نعمت ہے کہ وہ جہنم میں جانے کے خوف سے جرائم سے بچتا ہے اور دنیا میں ایڈز جیسی وباؤں سے بچتا ہے تو اگلی زندگی میں جنت جا پہنچتا ہے۔
مذکورہ رپورٹ اور امریکی تحقیق دنیا بھر کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ وہ مسلم ممالک کہ جن کے حکمران امیر ملکوں کی امداد اور سودی قرضے جملہ شرائط کے ساتھ اس شرط کے ساتھ بھی حاصل کرتے ہیں کہ ان ملکوں میں حیلوں بہانوں سے فحاشی پھیلانے کی اجازت ہوگی۔ انہیں درج بالا رپورٹ کو غور سے پڑھنا چاہیے اور قرآن میں اس آیت کے ترجمہ کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ فرمایا: ''ذرا شک نہ رہے کہ وہ لوگ جو اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومن لوگوں میں فحاشی کا پھیلاؤ ہو تو ان کے لیے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے۔ (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ (فحاشی کے انجام کو) خوب جانتا ہے‘ جبکہ تم نہیں جانتے‘ اگر تم پر اللہ کا فضل اور رحمت نہ ہوتی (تو نہ جانے کیا ہوتا؟) حقیقت ‘بہرحال یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ بے حد شفیق اور مہربان ہے‘‘ (النور:20)۔
قارئین کرام ! ڈبلیو ایچ اوکی رپورٹ اور امریکہ کی تحقیق کو سامنے رکھ کر غور فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نصف صدی تک انسانیت کو مہلت دیتے رہے۔ جھنجھوڑتے رہے کہ وہ حقائق دیکھ کر باز آ جائیں ‘مگر یہ باز نہیں آئے۔ انسانیت کی بربادی اور ہلاکت خیزی کو دیکھ کر بھی آنکھیں بند کئے رہے اور بربادی کے سامنے دیوار کھڑی کرنے سے رکے رہے؛ چنانچہ کورونا وائرس کی صورت میں بڑی بربادی سامنے آ گئی۔ اس کی رفتار سست تھی‘ مگر انسانیت کے ذمہ داروں کو ہوش نہیں آیا‘ پھر اس کی دو اقسام ہو گئیں؛ ایک کم خطرناک تو تھی ہی۔ اب اسی سے نکل کر دوسری زیادہ خطرناک ہو گئی ہے۔ یہ نئی خطرناک قسم نیو یارک میں پھیلنا شروع ہوئی ہے۔ اس کا نام ''کووڈانیس‘‘ رکھا گیا ہے۔
یاد رہے! روس ایک اشتراکی ملک تھا ‘جہاں فحاشی سرعام اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ اس حوالے سے ایڈز کے مریض سب سے زیادہ وہاں شکار ہوئے۔ اشتراکی نظام ختم ہوا تو کلچر وہی رہا؛ البتہ فرق بھی قدرے پڑا۔ روسی صدر ولادی میٹر پیوٹن ایک مذہبی حکمران ہیں؛ وہ آرتھوڈکس نصرانی یا مسیحی ہیں۔ 2مارچ کو ان کا بیان شائع ہوا۔ کہتے ہیں کہ '' ہم نے آئینی ترمیم کے لیے مختلف تجاویز پارلیمنٹ میں پیش کر دی ہیں۔ ان ترامیم میں اللہ کے ذکر کے علاوہ شادی کو سختی کے ساتھ مرد اور عورت کے درمیان بندھن قرار دینے کی سفارش کی گئی ہے‘‘۔ روسی صدر نے کہا کہ ''آئین میں ہم جنس پرستوں کی شادی کی کوئی گنجائش نہیں‘‘۔
قارئین کرام! ثابت ہوا کہ وہ اپنے آئین میں مذکورہ گنجائش کو پہلے مسترد کر چکے ہیں۔ اب ‘ترمیم اس بات پر ہے کہ آزادی کے نام پر بھی ایسی حرکت کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔ یہ ایک اہم قدم ہے۔ میں سمجھتا ہوں؛ امریکہ‘ یورپ اور دوسرے وہ ممالک ‘جہاں آئینی یا ثقافتی طور پر فحاشی کے مکروہ طریقے رائج ہیں‘ وہ ختم ہونے چاہئیں‘ اس سے انسانیت کا بھلا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کو رحم آئے گا اور انسانیت کی کورونا وائرس سے خلاصی ہوگی۔ (ان شا اللہ)
اس حقیقت کو بالکل نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ زمین امتحانی کمرہ ہے۔ لوگ آ رہے ہیں اور اپنا اپنا پرچہ حل کر کے‘ اسے ممتحن کے حوالے کر کے کمرۂ امتحان سے نکلتے جا رہے ہیں۔ ان میں فیل ہونے والے بھی ہیں۔ زیرو والے بھی ہیں۔ پاس ہونے والے بھی ہیں۔ اے گریڈ اور سکالر شپ والے بھی ہیں اور بورڈ میں اوّل آنے والے بھی ہیں۔ موت کے بعد رزلٹ کی جھلکیاں دکھائی جائیں گی‘ جبکہ فائنل رزلٹ کا دن قیامت کا دن ہوگا؛ چنانچہ وبائی امراض کا شکار انتہائی نیک لوگ بھی ہوں گے۔ بدکار بھی ہوں گے اور عام لوگ بھی ہوں گے‘ اگر صرف گناہگار لوگ ہی شکار ہوں اور اچھے لوگ بچ جائیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ رزلٹ سے قبل کمرۂ امتحان میں ہی رزلٹ سنانا شروع کر دیا گیا ہے اور یہ نہیں ہو سکتا؛ چنانچہ حضورؐ نے طاعون کے بارے حضرت عائشہؓ کے پوچھنے پر فرمایا ''یہ ایک عذاب (سزا) ہے‘ جس پر اللہ چاہتے ہیں مسلط کر دیتے ہیں‘ مگر اللہ تعالیٰ نے اس وبا کو مومنوں کے لیے رحمت بنا دیا ہے۔ جو کوئی (مومن) بھی طاعون میں گرفتار ہوتا ہے‘ پھر وہ اپنے علاقے میں صبر اور اجر کے ارادے سے ٹھہرا رہتا ہے اور وہ ایمان رکھتا ہے کہ اسے وہی مصیبت پہنچے گی ‘جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے لکھ دی ہے‘ تو اسے شہید کے اجر جیسا ثواب ملے گا‘‘ (بخاری:5402)۔
اے تمام انسانوں کے مہربان خالق و مالک! ہم تمام انسانوں کے گناہوں سے درگزر فرما کر ہمیں پاکدامنی کے راستے پر چلا اور مہلک کورونا وائرس سے محفوظ فرما۔ (آمین)