"AHC" (space) message & send to 7575

سائنسی دور میں حضورﷺ کا فرمان اور مضبوط ایمان

صحیح بخاری اور صحیح مسلم‘ احادیث کی دو ایسی کتابیں ہیں کہ جن پر حضورﷺ کی اُمت کا اتفاق ہے کہ قرآن کے بعد ترتیب وار انہی دو کتابوں کو اعلیٰ ترین مقام حاصل ہے کہ وہ صحیح ترین ہیں۔ صحیح بخاری کی پہلی کتاب کا آغاز حضورﷺ پر نازل ہونے والی وحی کی کیفیت کے بارے میں ہے۔ دوسری کتاب کا عنوان ''ایمان‘‘ ہے‘ اسی طرح امام مسلم کی صحیح مسلم کا آغاز ''ایمان‘‘ سے متعلق احادیث سے ہوتا ہے۔ 
امام مسلم جو پہلی حدیث لائے ہیں ‘ وہ ''حدیث ِ جبریل ؑ‘‘ کے عنوان سے پوری امت میں معروف ہے۔ حضرت جبریل علیہ السلام انسانی شکل میں حضورﷺ کے پاس اس وقت تشریف لائے‘ جب حضورﷺ اپنے چند صحابہ کے پاس تشریف فرما تھے۔ اغلباً آپﷺ نماز پڑھا کر اپنے مصلّٰی شریف پر ہی تشریف فرما تھے کہ حضرت جبریل ؑ آپﷺ کے سامنے دوزانو ہو کر بیٹھ گئے۔ حضورﷺ سے چند سوالات پوچھے اور ہر جواب پر تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ آپﷺ نے سچ بتایا ہے کہ ایک خوش لباس‘ خوبصورت انسان جو اجنبی ہے‘ خود ہی سوال کرتا ہے اور تصدیق بھی کرتا ہے۔ بہر حال! جناب جبریل ؑ کا آخری سوال قیامت کے بارے میں تھا‘ اس پر حضورﷺ نے انتہائی خوبصورت جواب ارشاد فرمایا کہ جس سے سوال پوچھا جا رہا ہے‘ وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ اب کے بعد سوال کرنیوالے‘ یعنی حضرت جبریل ؑ نے پوچھا: چلیں‘ پھر قیامت کی علامات کے بارے میں ہی بتا دیں۔ آپﷺ نے فرمایا: -:1 لونڈی اپنی مالکہ کو جنم دے گی۔ -:2 تم دیکھو گے کہ ننگے پائوں‘ ننگے بدن‘ مسکین لوگ‘ بکریوں کے چرواہے‘ ایک دوسرے سے بڑھ کر اونچی اونچی عمارتیں بنائیں گے۔ (مسلم:1) ۔صحیح مسلم کی حدیث نمبر 5 میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ اس وقت ایک لونڈی اپنے آقا یا مالک کو جنم دے گی۔ اس حدیث میں اس بات کا بھی اضافہ ہے کہ وہ اونٹوں کے چرواہے ہوں گے ‘جو لوگوں کے حکمران بنیں گے۔ حدیث نمبر 7 میں ہے کہ جب تم دیکھو کہ یہ بادشاہ بن گئے ہیں۔ اونچی اونچی بلڈنگیں بنا رہے ہیں تو یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے‘ اسی مضمون کی دو احادیث صحیح بخاری میں ہیں۔ ''کتاب الایمان‘‘ ہے اور حدیث کے نمبر 55 اور 4777 ہیں۔ یاد رہے! جب ایک جیسی حدیث دونوں کتابوں میں ہو تو اس کا درجہ اکیلی بخاری اور صرف مسلم سے بڑھ جاتا ہے اسے ''متفقٌ علیہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ 
قارئین کرام! حدیث جبریل ؑ کا تعلق آج کے زمانے سے ہے‘ جس میں ہم رہ رہے ہیں ‘بلکہ مذکورہ بالا دونوں نشانیاں گزشتہ نصف صدی سے ہمارے سامنے ہیں اور اپنا پورا زور دکھا کر ایسے آخری مرحلے میں ہیں کہ اگلے نشانات کے آثار نمایاں ہونے شروع ہو گئے ہیں۔ لونڈی اپنی مالکہ اور مالک کو جنم دے گی۔ صدیوں پہلے کے علما نے مذکورہ حدیث کی شرح میں یہی لکھا کہ فتوحات اس قدر ہوں گی کہ لونڈیاں اور غلام عام ہو جائیں گے؛ چنانچہ لونڈی جب اپنے مالک کا بچّہ یا بچّی جنم دے گی ‘تو وہ بچہ یا بچی تو آزاد ہوں گے‘ جبکہ ماں لونڈی ہی ہوگی اور اس کی اولاد کا سٹیٹس بلند ہوگا۔ 
اپنے زمانے میں مذکورہ شرح جزوی طور پر تو کسی حد تک درست معلوم ہوتی تھی ‘مگر مکمل طور پر دل کے اطمینان کا باعث نہ تھی۔ حضورﷺ کا مذکورہ فرمان اپنی کامل ترین شکل میں پورا ہوا ہے تو وہ آج میڈیکل سائنس کے دور میں پورا ہوا ہے۔ میڈیکل سائنس گزشتہ پچاس سال سے بھی زیادہ عرصہ سے اس قابل ہو چکی تھی کہ وہ جوڑے جو اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ تھے۔ ان کے تولیدی مادوں کو ملا کر کسی اور عورت کے رحم میں رکھ دیں تو بچہ کی پیدائش ہو جاتی ہے۔ جب یہ تجربات کامیاب ہوئے تو وہ امیر ترین طبقہ سامنے آ گیا ‘جو اولاد پیدا کرنے کی مشکلات سے گھبراتا تھا؛ چنانچہ امریکہ‘ یورپ اور دنیا بھر کے امیر ترین افراد نے یوکرین جیسے غریب یورپین ملکوں‘ انڈیا‘ نیپال اور دیگر غریب ملکوں کی غریب عورتوں کو ڈالروں میں پیسے دیئے۔ ایسے کام کے لیے مکمل پراجیکٹ لے کر کمپنیاں سامنے آ گئیں۔ بے چاری مجبور غریب عورت کو پیسے دیئے جاتے۔ وہ مکمل طور پر کمپنی یا ادارے کی نگرانی میں چلی جاتی۔ آپریشن تھیٹر بھی ادارے کے اپنے تھے۔ حاملہ ہونے کے بعد 9 ماہ تک وہ ادارے کے تحت ایک اچھی جگہ پر رہتی۔ صحت اور اچھی خوراک دی جاتی۔ بچّہ پیدا ہو جاتا تو وہ اصل ماں باپ کے حوالے کر دیا جاتا‘ جبکہ کرائے کی ماں کو پیسے دے کر رخصت کر دیا جاتا۔ وہ بچہ دیکھ بھی نہ پاتی۔ بہت کم شاید ایک یا دو فیصد ایسا ہوا کہ کسی عورت نے چند دن بچے کو دودھ پلایا اور پھر وہ ہمیشہ کے لیے بچے سے محروم ہو گئی۔
قارئین کرام! بعض غریب ملکوں نے اس سلسلے پر پابندی لگا دی‘ مگر خفیہ طریقے سے کام تو جاری ہے۔ کرائے کی مائیں نفسیاتی مریضہ بن گئیں۔ وہ ان دیکھے بچوں کو یاد کر کر کے روتی رہتیں۔ ٹیکنالوجی کے موجودہ ترقی یافتہ دور میں ایلیٹ کلاس کے کچھ لوگوں کو تو فطری تسکین مل گئی کہ بچے کا حصول ہر شادی شدہ جوڑے کی فطرت ہے‘مگر جس غیر فطری طریقے سے تسکین حاصل کی گئی اس نے لاکھوں خواتین کی زندگی کو دکھ اور غم میں تڑپتا چھوڑ دیا۔ دنیا کی ظالم اور حکمران اشرافیہ مسکین مائوں کے حقوق کے لیے ضابطے بنانے میں ناکام رہا۔ یہ کام ضروری کرنا تھا تو ضابطہ بننا چاہیے تھا کہ صرف وہی لوگ مذکورہ ٹیکنالوجی سے استفادہ کے اہل ہوں گے ‘جو نارمل طریقے سے پیدائشی عمل کے قابل نہ ہوں گے‘ پھر یہ کہ کرائے کی ماں کی سہولت دی جاتی کہ وہ بچے کو کچھ دنوں تک اپنا دودھ پلائے‘ اسے رضاعی کا درجہ مل جاتا۔ وہ اپنے رضاعی بچے کو اپنے موبائل پر دیکھ سکتی۔ اس سے بات کر سکتی۔ کم از کم سال میں دو یا ایک بار ملاقات کر سکتی۔ الغرض! قانون اور ضابطہ نہ بن سکا ‘جبکہ مذکورہ عمل آج بھی جاری ہے۔ میرے حضورﷺ نے تو صرف پیشگوئی فرمائی تھی۔
جی ہاں! عورت پیسے لیتی ہے۔ 9 ماہ تک غلامی اختیار کرتی ہے۔ اپنے خاوند‘ بچوں اور خاندان سے کٹ جاتی ہے۔ اس لئے کہ اس کے جسم میں جو بچہ پرورش پا رہا ہے۔ اس نے اس بچے یا بچی کے پیسے لئے ہیں۔ یہ اپنے مالک اور مالکہ کو اپنے شکم میں پال رہی ہے۔ جونہی جنم دیتی ہے۔ فارغ ہو جاتی ہے۔ یہی بات حدیث شریف میں ہے کہ وہ اپنے مالک یا مالکہ کو جنم دے گی۔ اس کے بعد اس کا کوئی کردار نہیں۔ اللہ اللہ! ایسی سو فیصد پوری ہونے والی پیشگوئی ہے کہ جو بول بول کر کہہ رہی تھی کہ حضرت محمد کریمﷺ ‘اللہ کے سچّے نبی ‘ پیغمبر ورسول ہیں۔ وہ انیسویں صدی میں بھی پکار رہی تھی اور اب اکیسویں صدی میں بھی دہائی دے رہی ہے کہ حضورﷺ اپنے رب کے آخری اور سچے رسولﷺ ہیں۔
عرب دنیا میں خاص طور پر جزیرۃ العرب میں تیل نکلا۔ 50 سال قبل عروج ملنا شروع ہوا۔ بیسویں صدی کے اختتام تک نا صرف عرب دنیا کے چرواہے ‘دنیا کی بلند ترین بلڈنگوں کے نمبر ون بن گئے‘ بلکہ امیر ترین بادشاہ بھی بن گئے۔ ڈالر اسی پٹرول کے ساتھ وابستہ ہو کر پٹروڈالر بن گیا۔ جدید ٹیکنالوجی کی بھرمار ہو گئی۔ اب‘ دنیا کے کئی ملکوں سے تیل نکلنا شروع ہو گیا۔ سب امیر ہو گئے۔ جہاں تیل نہ نکلا‘ وہاں جاپان‘ ملائیشیا‘ جنوبی کوریا اور چین جیسے غریب ملک کاریں اور صنعت چلا کر امیر ترین بن گئے۔ غریب ملکوں کی ذہانت وہاں گئی تو وہ بھی امیر بن گئے۔ زر مبادلہ غریب ملکوں کو بھی قدرے امیر بنا گیا یا غربت میں کمی کر گیا۔ دوسرے لفظوں میں میں ساری دنیا سے خوب خوب فائدہ اٹھایا۔ ہوائی جہاز سے لے کر موٹرسائیکل والا اور بس اور ٹرین میں سفر کرنے والا بھی اس میں شامل ہے۔ 
جی ہاں! دونوں پیشگوئیاں اپنے مکمل کمال اور عروج کے ساتھ پوری ہو کر عنقریب ان پیشگوئیوں کا تاریخی حصہ بننے والی ہیں ‘جو پیشگوئیاں میرے حضورﷺ کی پوری ہو کر سیرتِ رسولﷺ کی تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ یہ سلسل قیامت تک یونہی چلے گا۔ اگلے فیز کا ورق دکھائی دینا شروع ہو گیا ہے۔ لوگو! ان دونوں پیشگوئیوں کا ایک ہی زمانہ سے تعلق ہے اور حضورﷺ نے جبریل امین علیہ السلام والی نشست میں صرف ان دو کا ہی ذکر فرمایا ہے۔
آج کورونا کے وبائی دن ہیں۔ اس سے تحفظ بھی اسی کو مل رہا ہے‘ جو حضورﷺ کے بتائے ہوئے حفاظتی نسخے کو اختیار کر رہا ہے۔ لوگو! آگے بڑھو۔ ٹائم تھوڑا رہ گیا ہے ‘جس طرح حضرت جبریل ؑ با ادب ہو کر میرے حضورﷺ کے سامنے بیٹھے تھے‘ اسی طرح با ادب ہو کر حضورﷺ کی مبارک سیرت کے سامنے اپنے آپ کو سرنڈر کر لو۔ دنیا و آخرت میں کامیاب ہو جائو گے۔ حضورﷺ کی مذکورہ پیشگوئیاں چودہ سو سال بعد زندہ معجزات بن کر سامنے آئی ہیں۔ ایمان کی دولت اب بھی نصیب نہ ہو تو بدقسمتی کی انتہا ہے۔ بخاری و مسلم دو کتابیں ہیں۔ دونوں کے ''کتاب الایمان‘‘ میں دونوں فرامین ایک مسلمان کے ایمان کو ساتویں آسماں کی رفعتوں سے ہمکنار نہ کریں۔ اضافہ نہ کریں‘زندگی میں تبدیلی پیدا نہ کریں ‘تو اس سے بڑی بد قسمتی کوئی نہیں۔ اے اللہ! ہم سب کو خوش قسمت بنا دے۔ (آمین)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں