عید سے ایک دن قبل جہاز گرنے کا جو سانحہ رونما ہوا اس میں شہید ہونے والوں کے لواحقین کے لیے تعزیتی کالم لکھ رہا ہوں۔ تعزیت عربی کا لفظ ہے‘ جس کا معنی دل کی تسلّی‘ ڈھارس اور صبر ہے۔ اسلام وہ دین ہے جو لواحقین کو آگاہ کرتا ہے کہ تمہارا پیارا اس دنیا میں تمہاری آنکھوں سے اوجھل ہے‘ اب وہ اگلی دنیا میں اس قدر بہتر حالت میں ہے کہ تم اس کا تصور نہیں کر سکتے۔ بس شرط ایمان اور نیک اعمال کی ہے۔ اخروی حقائق کی روشنی میں تسلی دینے والے کے لیے بھی بہت بڑا اجر اور ثواب ہے۔ حضرت محمد کریمؐ نے فرمایا! ''جو شخص کہ وہ ایمان والا ہے وہ کسی صدمے میں اپنے بھائی کو تسلی اور حوصلہ دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن عزت و اکرام کی پوشاک زیب تن کروائے گا‘‘ (ابن ماجہ: 1601۔ صحیحۃ:195) ہر کوئی بخوبی آگاہ ہے کہ موت ایک ایسی حقیقت ہے جو کائنات اور اس میں موجود ہر شئے کا مقدر ہے۔
موت کا لفظ آگ پر بھی بولا جاتا ہے۔ معجم المعانی میں ہے ''مَاتَتِ النَّار‘‘ یعنی آگ مر گئی۔ پھر شرح میں لکھا ہے کہ آگ کی راکھ ٹھنڈی ہو گئی‘ اس قدر کہ اس میں چنگاری جیسی کوئی شئے بھی باقی نہ رہی۔ یعنی آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلے تو لکڑی کے وجود کے ساتھ بھڑک رہے تھے‘ جب لکڑی کا وجود ہی نہ رہا تو شعلہ کہاں سے نظر آئے؟ لکڑی کی صورتحال یہ بن جاتی ہے کہ اس کے شعلے ختم ہوتے ہیں تو انگارے رہ جاتے ہیں۔ یہ انگارے راکھ میں بدلتے جاتے ہیں آخر کار اِن انگاروں کے وسط میں کوئی چنگاری باقی رہ جاتی ہے اس سے آگ جل جائے تو جل جائے وگرنہ یہ بھی بجھ گئی تو مکمل طور پر موت واقع ہو گئی۔ جی ہاں! انسانی جسم میں روح کی چنگاری بھڑک بھی سکتی ہے اور بجھ بھی سکتی ہے۔ ڈاکٹر پوری کوشش کرتا ہے مگر شعلہ غائب ہو گیا اور چنگاری بھی راکھ ہو گئی تو ڈاکٹر اپنے مریض کی موت کا اعلان کر دیتا ہے۔ طیارے جیسے حادثات میں تو ڈاکٹر کی ضرورت ہی امکان سے خارج ہو جاتی ہے۔
قرآن میں موت کا لفظ ہے۔ اس کی وضاحت ہو چکی۔ وفات کا لفظ بھی آیا ہے۔ اس کی اصل ''لسان العرب‘‘ میں ''الوفاء‘‘ ہے۔ اسی لیے اردو کا لفظ ''وفاداری‘‘ ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ جب اپنے بندے کو واپس لیتا ہے تو وفاداری کا تقاضا سو فیصد پورا ہوتا ہے۔ اصل انسان مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے پاس جاتا ہے۔ لواحقین کے ہاتھوں میں گوشت کا صرف ایک ڈھانچہ یا پنجرہ رہ جاتا ہے۔ یہ ڈھانچہ کبھی آگ میں راکھ بن جاتا ہے‘کبھی پانی میں ڈوب کر مچھلیوں کے پیٹ میں ان کی خوراک بن کر۔۔۔۔ اور پھر فضلہ بن کر دریا اور سمندر کے پانی کا حصہ بن جاتا ہے۔ عموماً اسے قبر مل جاتی ہے۔ ہاں آخر کار یہ مٹی میں مٹی ہو جاتا ہے۔ وہ مٹی کسی بھٹے میں اینٹ بن کر کسی مکان کا حصہ بھی بن سکتی ہے اور ٹائل بن کر بھی کہیں فٹ ہو سکتی ہے یعنی اس کی اصلیت مٹی تھی اور مٹی ہی ہو گئی جبکہ روح یعنی اصل انسان فرشتے کے ہاتھوں ماں کے شِکم میں آیا تھا اور پھر فرشتہ ہی اسے واپس لے گیا۔ یہ ہے اصل انسان جس کے آنے جانے‘ رونے میں کوئی ہرج نہیں مگر انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھتا جا کہ واپس جانا ہے۔ جی ہاں! مٹی نے واپس مٹی میں جانا ہے اور روح نے واپس اللہ کے ہاں جانا ہے۔ نیک‘ صالح اور شہید ہے تو عرش کے نیچے جنت الفردوس میں اپنا ٹھکانا بنانا ہے۔
قرآن میں ''وفّٰی‘‘ کا لفظ ان معنوں میں آیا کہ حضرت ابراہیمؑ نے اپنی دعوتی ذمہ داری کو پورا پورا ادا کیا۔ ''تُوَفّٰی‘‘ کا لفظ سورۃ البقرہ میں ان معنوں میں آیا کہ ہر نفس کو مکمل طور پر پورا پورا واپس لیا جائے گا۔ ان اعمال سمیت جو اس نے کیے اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح سورۃ النحل میں یہی لفظ ان معنوں میں آیا کہ قیامت کے دن ہر جان کو ہر اس عمل کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا جو اس نے کیا۔ سورۃ الانعام میں فرمایا ''جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جاتا ہے تو پھر ''تَوَفَّتْہُ‘‘ ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے اسے پورا پورا لے لیتے ہیں اور وہ کوئی کسر نہیں چھوڑتے‘‘ (الانعام:61) یعنی وفات کا مطلب اصل اور سارے کا سارا وہ پورا اور مکمل انسان ہے جو اپنے اعمال سمیت فرشتوں کے ہاتھوں میں آسمان کی طرف چلا جاتا ہے۔ ''معجم المعانی‘‘ میں وفات کا معنی یوں بیان کیا گیا ہے کہ انسانی زندگی کے امور کا مکمل طور پر بند ہو جانا اور ہمیشہ کے لیے رک جانا۔ معجم المعانی میں ''وفات‘‘ کا اس کے بعد جو مفہوم دیا گیا ہے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اسے عربی میں بھی لکھوں۔ ملاحظہ ہو ''انعدام نشاط موجات المخ ادراکتہ الوفاۃ‘‘ دماغی لہروں کی چستی کا خاتمہ ہو جانا کہ جب انسان کی وفات واقع ہو جائے‘‘ جی ہاں! آج میڈیکل سائنس کی تازہ تحقیق یہ ہے کہ شکمِ مادر میں 42 دن کے بعد جب 43 ویں یا 44 ویں دن اعضا مکمل ہوتے ہیں تو بچے کے سر سے لہریں نکلنا شروع ہو جاتی ہیں اور اس وقت ختم ہوتی ہیں جب وہ فوت ہوتا ہے۔ یہی بات ساڑھے چودہ سو سال قبل حضرت محمد کریمؐ نے بتائی۔ امام مسلم ؒاپنی صحیح مسلم میں لائے ہیں کہ 42 دن کے بعد فرشتہ آتا ہے اور بچے میں روح پھونکتا ہے۔ وہ اللہ کے حکم سے اس بچے کی عمر ‘ اس کا رزق‘ اس کی خوش بختی اور بد بختی لکھنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی لکھ دیتا ہے کہ وہ کس زمین پر فوت ہو گا۔ وفات کا یہ معنی بھی ہے کہ فرشتے کی لکھی ہوئی چاروں باتیں جب مکمل ہوں گی تب اس کی روح قبض ہوگی۔ اس لحاظ سے ایمان اور عقیدے کی بات یہ ہے کہ فوت ہونے والوں کی ساری باتیں مکمل ہو چکی تھیں۔ ان کی وفات کی جگہ کراچی رن وے کی نواحی بستی تھی؛ چنانچہ وہ دنیا میں اپنا کردار مکمل ہوتے ہی پورے کے پورے آسمان کی جانب پرواز کر گئے۔ زمین پر تو صرف جہاز کے مادی ٹکڑے اور انسانوں کے مادی اعضا پڑے تھے۔
99 میں سے دو مسافر ظفر مسعود اور محمد زبیر محفوظ رہے۔ ظفر صاحب کے والد محترم میڈیا کو بتا رہے تھے کہ بیٹے ظفر نے بتایا وہ جہاز میں ہی بے ہوش ہو گیا تھا۔ جہاز گرتے ہی چند لوگوں نے اسے اٹھایا اور ہسپتال پہنچا دیا یعنی جس کی زندگی باقی تھی‘ رزق باقی تھا‘کردار باقی تھا اور موت کی جگہ جناح گارڈن کی گلی نہ تھی وہ بچ گئے اور وہ 97 جو دنیا سے چلے گئے‘ فضا ئی سفر میں ان کے جسم جناح گارڈن کی گلی میں دھویں میں گھرے ہوئے تھے جبکہ مومن روحیں فرشتوں کے ہاتھوں میں اوپر اٹھ گئیں۔ وہ جہاز اور اپنے جسموں کو دیکھ رہی ہوں گی اور خوش خوش اپنے آسمانی خاندانوں کی جانب جا رہی تھیں۔
اللہ کے رسولؐ کی حدیث ہے‘ شیخ البانی ؒ سلسلہ صحیحہ میں لاتے ہیں کہ جب وہ اپنے دنیا سے گئے ہوئے عزیزوں سے ملتے ہیں تو وہ خیریت اور حال احوال دریافت کرتے ہیں اس پر ایک عزیز بولتا ہے کہ ٹھہر جائو وہ ابھی ابھی دنیا کے مصائب سے نکل کر آیا ہے۔۔۔۔ جی ہاں! جہاز کے آخری چند منٹ کس قدر تکلیف دہ ہوں گے۔ ہر تکلیف کا اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر ہے۔ حضورؐ کے فرمان کے مطابق حادثاتی موت بھی شہادت ہے۔ جسم کے جلنے میں بھی شہادت ہے۔ تب پی آئی اے کی فلائٹ کے مسافر تو ڈبل شہادت پا گئے۔ اللہ تعالیٰ فضیلت والی ڈبل شہادت قبول فرمائے۔۔۔۔ غزوۂ احد کے شہدا کو جب اللہ تعالیٰ نے جنت الفردوس اور اس میں موجود نعمتوں سے نوازا تھا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی تھی کہ ہمیں جس قدر نعمتوں سے نوازا گیا ہے اس کی خبر اہلِ دنیا کو بھی ہو جائے۔ تب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ پر قرآن کی آیت نازل کر کے آگاہ کر دیا تھا کہ وہ میرے پاس انتہائی خوش ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ جہاز سمیت تمام حادثات میں فوت ہونے والے اور طبعی عمر گزار کر وفات پانے والوں کو اللہ تعالیٰ اپنی رضا اور خوشنودی کی نعمت سے نوازے۔ فردوس عطا فرمائے۔ پائلٹ سجاد گل نے آخری لمحات تک اپنے ہمسفر مسافروں کو بچانے کی پوری کوشش کی‘اللہ تعالیٰ ڈبل شہادت کے ساتھ انسانی زندگیوں کو بچانے کی کوشش کا اجر بھی عطا فرمائے۔ بندے کا کام جدوجہد ہے نتیجہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ وہ نیتوں پر ملتا ہے۔ لواحقین کو مولا کریم صبر جمیل عطا فرمائے۔ ہمارا وقت آئے تو ایمان اور شہادت کا مقام مل جائے (آمین)