"AHC" (space) message & send to 7575

فرعون‘ ٹڈی دَل اور کورونا

تورات نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عمر مبارک 120 سال بتائی ہے۔ تحقیق کے بعد کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ 30 سال کی عمر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مصر چھوڑنا پڑا۔ دس سال مدین میں بکریاں چرائیں اور پھر اپنی اہلیہ محترمہ حضرت صفورہ علیہ السلام اور بچوں کو لے کرجب واپس مصر آ رہے تھے تو راستے میں کوہِ طور کے پاس نبوت و رسالت کا مقام ملا۔ یوں 40 سال کی عمر میں رسول بن کر فرعون کو توحید و رسالت کی دعوت دی اور پھرمصر میں 40 سال تک متواتر دعوت و تبلیغ کا کام کیا۔ ان 40سالوں کے ابتدائی سال کچھ اس طرح گزارے کہ اللہ کی کتاب تورات کا پیغام ان کو دیا گیا۔ معجزات دکھلائے گئے۔ جن میں لاٹھی کا سانپ بننا اور سانپ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام ہاتھ لگا کر اٹھا لیں تو اس کا واپس لاٹھی بن جانا... اور پھر ہاتھ مبارک کا تیز لائٹ کی طرح بن جانا‘ جیسے معجزات کو دیکھ کر بھی فرعون اور اس کی حکومت کے کارندے ایمان نہ لائے تو پھر اگلے سالوں میں اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب یعنی سزائوں کا آغاز کیا۔ اس سزا کو اللہ تعالیٰ نے ''رِجز‘‘ قرار دیا۔ یعنی ایسی سزا جو انسان کے فطری ذوق کو تباہ و برباد کرے۔ اسی لیے ''رِجْزٌ‘‘ کا معنی گندگی بھی ہے۔ یعنی جب فرعون اور اس کی حکومت کے عہدہ داروں اور اس کی قوم نے بت پرستی‘ جادو اور کمزوروں پر ظلم سے باز نہ آنے کا فیصلہ کر لیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں باور کروایا کہ بت پرستی پر ڈٹے رہنا‘ توحید کے مقابلے میں ''رجز‘‘ کو اختیار کرنا ہے۔ انسانیت کی بھلائی کے بجائے جادو کو اختیار کرنا بھی نراگندہے اور بنو اسرائیل جیسے کمزوروں پر ظلم بھی سوائے گندی ذہنیت کے کچھ نہیں؛ چنانچہ تم لوگ ایسے مکروہ اور گندے کاموں سے باز نہیں آتے تو اب جو سزا ہوگی وہ بھی گندی قسم کی ہوگی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اسے ''رجز‘‘ قرار دیا۔
قارئین کرام! معجزات اور رجز سزائوں کے درمیان اللہ تعالیٰ نے دو سزائیں ایسی دیں کہ اگر وہ باز آ جائیں تو رجزیہ سزائوں کی نوبت ہی نہ آنے پائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک اور مہربانی تھی؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان پر قحط سالی مسلط کر دی اور پھلوں کے باغات کی پیداوار کو کم کر دیا۔ مقصد یہ تھا کہ یہ لوگ مندرجہ بالا تین کرتوتوں سے باز آ جائیں اور 1 :توحید و رسالت کو مان لیں۔ 2: جادو سے باز آ جائیں۔ 3 : کمزوروں پر ظلم بند کر دیں... جی ہاں! ساری باتوں کی آخر ی بات یہ تھی کہ کم از کم ایک بات کو ضرور مان لیں اور وہ یہ تھی کہ کمزور اور مظلوم بنو اسرائیل کو مصر سے جانے دیں تا کہ وہ ظلم سے نجات حاصل کر لیں اور اپنے رسول کے ساتھ جہاں جانا چاہیں چلے جائیں ‘مگر فرعونیوں نے ظلم بھی بند نہ کیا اور کہا کہ وہ بنو اسرائیل کو جانے بھی نہ دیں گے۔ اب نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے وہ باغات اور فصلیں اور غلہ وغیرہ جو کم تو ہوئے تھے مگر پوری طرح برباد نہ ہوئے تھے‘ اللہ تعالیٰ نے ان کو برباد کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃاعراف کی آیت نمبر 130 میں قحط سالی اور پھلوں کی کمی کا ذکر کیا اور فرمایا ''پھر ہم نے ان پر طوفان چلا دیا۔ ٹڈی دَل‘ جوئیں‘ مینڈک اور خون کو الگ الگ نشانیاں بنا کر بھیج دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے تکبر کیا۔ یہ مجرم لوگ تھے؛ چنانچہ ان کے خلاف جب یہ ''رجز‘‘ کی سزا مسلط ہو گئی تو موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے: اے موسیٰ! آپ کو اپنے رب کے ہاں جو مقام حاصل ہے۔ اس سے کام لیتے ہوئے ہمارے لیے دعا کرو کہ اگر تم اس عذاب کو ہم سے دور کر دو تو ہم تجھ پر ایمان بھی لے آئیں گے اور آپ کے ساتھ بنو اسرائیل کو بھی روانہ کر دیں گے۔ (الاعراف۔ 133-34)
قارئین کرام! فرعونی حکمرانی نے تورات کو بھی نہ مانا۔ معجزات کا بھی انکار کیا۔ قحط سالی‘ باغات کے پھلوں کی کمی اور بارش میں اولے اور آندھی سے بھی نہ سنبھلے تو اب آخری چار سزائوں کا وقفے وقفے سے آغاز ہوا۔ ان میں سے پہلی سزا ''الجراد‘‘ ہے۔ پنجابی میں اسے اڑنے والا گھوڑا کہا جاتا ہے۔ جس طرح گھوڑا جمپ مارتا ہے اسی طرح یہ ٹِڈّا بھی اپنی پچھلی بڑی ٹانگوں کے ساتھ جمپ مارتاہے۔ اگلی دو ٹانگوں سے اس کی پچھلی ٹانگیں ڈبل کے حساب سے بڑی ہوتی ہیں۔ دونوں ٹانگیں وسط میں لچک دار گھٹنے کی وجہ سے زور دار جمپ مارتی ہیں۔ فرعون کے پاس گھوڑوں کی لاجواب فوج تھی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ گھوڑا میدان میں اتارا اور دیکھتے ہی دیکھتے فرعون کے مصر کی ساری فصلوں اور جنگلوں کی ہریالی برباد ہو گئی۔ اب نہ اس کے گھڑ سوار دستوں کے لیے چارہ تھا اور نہ شہہ سواروں کے لیے خوراک کا خاطر خواہ انتظام۔ مولا کریم نے کیا خوب فرمایا ہے : ''تیرے رب کے لشکروں کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا‘‘ (کہ کس وقت کس شکل میں کونسا لشکر سامنے آ جائے) (القرآن) فرعون اب حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگا کہ اپنے رب سے دعا کر کے اس مصیبت کو ہٹوائو۔ میں بات مانوں گا۔ جب مصیبت ٹل گئی تو فرعون اور اس کی کابینہ کے دانشور اپنی حکمرانی کے حسنِ انتظام کو کریڈٹ دینے لگ گئے۔ اس کے بعد دوسری سزا کا آغاز ہوا۔ اس کا نام ''اَلْقُمَّل‘‘ ہے۔ یعنی سروں میں جوّیں۔ جسم کے اوپر رینگتی ہوئی جوّیں۔ رات کو بستر پر جائیں تو کھٹمل ستائیں۔ اوپر سے مچھر کاٹیں۔ چوپایوں کی جوئوں کو چیچڑ اور چیچڑیاں کہا جاتا ہے۔ یہ معمول سے ہٹ کر بہت زیادہ ہو گئیں‘ جس سے مادہ جانوروں کا دودھ بھی کم ہوا۔ بیمار بھی ہوئے۔ غلّے میں سسریاں‘ اجناس میں کیڑے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے اب پھر اس سزا سے نکلے تو وعدے سے پھر منحرف ہو گئے۔اب اگلی سزا نے آن دبوچا۔ اس کا نام ہے ''الدّم‘‘ یعنی خون ہی خون۔ تورات بتاتی ہے کہ دریا اور ندی نالوں کا پانی خون بن گیا۔ گھروں میں خون‘ کھانوں میں خون اور پھر نہ جانے کہاں کہاں خون ایک لشکر بن کر فرعونیوں کا جینا دو بھر کرنے لگا۔ وہ جو بنو اسرائیل کے معصوم بچوں کو ذبح کر کے خون بہاتے تھے۔ اب اللہ تعالیٰ اس طرح سے انتقام لے رہے تھے کہ ظالمو! خون تمہارے مونہوں کو لگا ہوا ہے۔ اب خون پیو اور خون کھائو... الغرض! عاجز آ گئے اور پھر یہ سزا بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے ہی ختم ہوئی۔ 
قارئین کرام! خون کی سزا سے پہلے مینڈکوں کی سزا بھی دی گئی کہ قرآن نے اسے ''اَلضَّفَادِع‘‘ کہا ہے۔ یعنی گھروں میں مینڈک۔ برتنوں میں مینڈک۔ ہر طرف مینڈک ہی مینڈک... اور پھر آخری سزا خون کی دی گئی۔ اس آخری سزا کے بعد بھی جب یہ منحرف ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر ہم نے فرعون اور اس کے لشکروں کو پانی میں غرق کر دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنو اسرائیل کو نجات عطا فرما دی۔ یوں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے 40 سال فرعونیوں کو سمجھایا۔ 40 سال بنو اسرائیل پر حکمرانی کی اور 120 سال کی عمر میں اللہ کے پاس گئے۔
لوگو! کورونا وائرس کی تعداد آج کس قدر ہے۔ اللہ ہی بہتر جانتے ہیں۔ یہ اللہ کے لشکر ہیں‘ جن کے سامنے سات ارب انسان اور انسانوں کی تمام طاقتیں بے بس ہیں۔ تقاضا تو یہ تھا کہ مسیحی برادری بھی تورات کو بطور ریاستی قانون تسلیم کرتی ہے وہ تورات پر عمل کرتے۔ توحید اور انسانی حقوق کے جو دس اصول ہیں ان پر عمل کرتے۔ قتل کا بدلہ قتل اور زخموں کے قصاص کو قانون بنا کر نافذ کرتے۔ فلسطین‘ کشمیر‘ ہندوستان اور شام وغیرہ میں مظلوموں پر تنگ زندگی کو آسان کرتے۔ مسلم حکمران قرآن و حدیث کی طرف پلٹتے۔ میرے وطنِ عزیز پاکستان کو حسبِ وعدہ موجودہ حکمران ''ریاست مدینہ‘‘ بناتے۔ سب لوگ اپنے خالق و مالک کو راضی کرتے۔ حضرت محمد کریمﷺ نے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کا طریقہ بتا دیا ہے کہ ''تم زمین والوں پر رحم کرو‘ آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا‘‘ آج ساری دنیا دو باتوں پر متفق ہو چکی ہے کہ کورونا وائرس قدرتی ہے اور اس کے ساتھ زندگی بھی گزر سکتی ہے... اللہ اللہ! کس قدر خوف اور بے بسی کی عالمی اور سائنسی زبان ہے۔ میں کہتا ہوں۔ انسانوں کے رب ''رب العالمین‘‘ ہیں۔ وہ ''ارحم الراحمین‘‘ ہیں۔ جانے والے اس کے در پر جائیں تو کردار لے کر جائیں۔ عملی طور پر اصلاح کر کے جائیں۔ اخلاص کے ساتھ جائیں۔ فرعونیوں کی طرح نہ جائیں وگرنہ مارے جائیں گے۔ کورونا کے ساتھ ''ٹڈی دَل‘‘ کا کام بھی شروع ہو گیا ہے‘ یعنی بات آگے بڑھ رہی ہے۔ مصر کا حکمران فرعون تھا۔ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بات مان لیتا تو بچ جاتا۔ آج بھی وہی بات ہے۔ حکمران لوگ حضرت محمد کریمؐ کی بات مانیں گے تو بچ جائیں گے۔ حکمرانوں کی توفیق کے لیے اپنے اللہ کے حضور میری فریاد ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن کر فریاد کناں ہوں تا کہ ہم اہلِ زمین پر آسمان والے کی رحمت کا سایہ ہو۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں