قرآن کی سورۃ النجم‘ وہ سورت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ستارے کی قسم کھائی اور پھر مکّہ کے مشرکوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اسی مکّہ میں تمہارے ساتھ زندگی گزارنے والے حضرت محمد کریمؐ حق پر ہیں اور یاد رکھو! وہ اپنی خواہش پر نہیں بولتے۔ وہ تو صرف اس وحی کا کلام بولتے ہیں‘ جس کا الہام ان کی طرف کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد حضورؐ کے معراج شریف کے ایک انتہائی خوبصورت ترین منظر کو پیش کیا گیا ہے۔ اس کے بعد توحید کی دعوت اور پھر شکمِ مادر میں انسان کی پیدائش اور نشوونما کے ایک منظر کو اس انداز سے بیان فرمایا ہے کہ ''وہی ہنساتا ہے اور وہی رلاتا ہے۔ وہی مارتا ہے اور وہی زندہ کرتا ہے۔ اسی نے مذکّر اور مونث کے جوڑوں کو پیدا فرمایا ہے۔ اس پانی کے ساتھ کہ جسے جب اچھالا جاتا ہے‘‘ (النجم: 43 تا 46)۔
قارئین کرام! آخری دو آیات قابل غور ہیں۔ اس لحاظ سے کہ آیت نمبر 45 میں لڑکے لڑکی کی پیدائش کا ذکر ہے اور پھر پانی اس جرثومے کا تذکرہ ہے ‘جو ایک دوسرے پانی کے ساتھ ملتا ہے‘ یعنی یہ ملتے ہیں تو بچہ یا بچی کی پیدائش عمل میں آتی ہے۔ جی ہاں! اس آخری آیت کا نمبر 46 ہے۔ اب‘ ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ جو 46 نمبر ہے۔ یہ ایک اتفاق ہے۔ اللہ کی قسم! بالکل نہیں۔ قرآن کی ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے۔ اس کا تذکرہ سورت کے شروع میں ہی کر دیا گیا ہے۔ موجودہ میڈیکل سائنس کی یہ دریافت تو ہر سائنسی طالب علم کے لیے عام سی بات ہے کہ مرد کے جرثومے میں کروموسومز کی تعداد 23 ہے اور عورت کے جرثومے میں بھی کروموسومز کی تعداد 23 ہے۔ دونوں جرثومے جب ملتے ہیں تو تعداد 46 ہو جاتی ہے اور یہیں سے پیدائش کا آغاز ہوتا ہے‘ یعنی آیت نمبر 46 خود اتنی بڑی حقیقت کا انکشاف ہے کہ جس آیت میں دو جرثوموں کے ملنے کی بات ہے‘ اس کا نمبر 46 ہے۔ آئیے! اب‘ آگے بڑھتے ہیں!
اللہ کے رسول حضرت محمد کریمؐ کے خادم حضرت ثوبانؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اللہ کے رسولؐ کے پاس کھڑا تھا کہ ایک بہت بڑا یہودی عالم حضورؐ کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا: اے محمد‘ آپ پر سلام ہو‘ میں نے اسے ہاتھ سے دھکیلتے ہوئے پیچھے کیا کہ وہ گرتے گرتے بچا۔ اس نے کہا: مجھے دھکا کیوں دیتے ہو؟ میں نے کہا: تم (نے یا محمدکہا ہے) یا رسول اللہ کیوں نہیں کہتے؟ اس پر یہودی نے جواب دیا کہ ہم آپ کو اسی نام سے بلاتے ہیں ‘جو نام آپ کے گھر والوں نے آپ کا رکھا ہے۔ تب اللہ کے رسول نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ میرا نام محمد ہے ‘جو میرے گھر والوں نے رکھا ہے۔ اب یہودی بولا کہ آپ سے کچھ سوالات کرنے آیا ہوں۔ حضورؐ نے فرمایا: اگر میں جواب دوں تو کیا تم لوگوں کو اس سے فائدہ ہوگا؟ (یعنی مجھے رسول مان لو گے)۔ جواب میں یہودی کہنے لگا: میں دونوں کانوں سے (بغور) سنوں گا۔ حضورؐ کے ہاتھ مبارک میں عصا مبارک تھا‘ اسے ہلکا سا زمین پر مارا اور فرمایا: پوچھو! یہودی نے کہا: جس دن موجودہ زمین ایک دوسری زمین کے ساتھ بدل دی جائے گی اور آسمان بھی بدل دیئے جائیں گے تو تمام لوگ کہاں ہوں گے؟ حضورؐ نے جواب دیا: وہ پُل (صراط) سے ذرا پہلے اندھیرے میں ہوں گے۔ یہودی نے (دوسرا) سوال کیا کہ سب سے پہلے کون لوگ ہوں گے ‘جو پُل پر سے گزریں گے؟ آپؐ نے جواب دیا فقیری (میں جینے والے) مہاجر لوگ گزریں گے۔ (تیسرا) سوال اس نے پوچھا: جب وہ جنت میں داخل ہوں گے تو ان کو کیا پیش کیا جائے گا؟ فرمایا: مچھلی کے جگر کا زائد حصّہ (تِلّی) کو بطور تحفہ کھانے کو پیش کیا جائے گا۔ (چوتھا) سوال اس نے یوں کیا کہ جنت میں اس کے بعد ظہرانے میں کیا دیا جائے گا؟ فرمایا: جنت کا ایک بَیل ہوگا ‘جو جنت کے اطراف میں چرتا پھر رہا ہوگا‘ اس کو ذبح کیا جائے گا۔ (پانچواں) سوال یہودی نے یہ کیا کہ اس کھانے میں اہلِ جنت کا مشروب کیا ہوگا؟ فرمایا: جنت کے چشمے سے کہ جس کا نام سلبیل ہے۔ یہودی کہنے لگا: آپ نے درست فرمایا اور اب میں آپؐ سے ایک ایسا سوال پوچھنے والا ہوں کہ جس اہلِ زمیں میں سے کوئی انسان بھی نہیں جانتا۔ اس کو جانتا ہو گا تو نبی ہی جانتا ہوگا یا پھر ایک دو بندے (دوسرے الفاظ میں وہ کہنا یہ چاہتا تھا کہ صرف میں جانتا ہوں اور اگر آپ نے یہ بتا دیا تو پھر آپ سچے نبی ہیں) اس پر حضورؐ نے فرمایا: اگر میں نے تیرے سوال کا جواب دے دیا تو مجھے فائدہ ہوگا؟ (یعنی اسلام قبول کر کے فائدہ اٹھائے گا؟) جواب میں یہودی نے کہا: میں دونوں کانوں سے (یعنی غور سے) سنوں گا (قسمت کی بات ہے سیدھے راستے پر نہیں آ رہا۔ اپنی مرضی کے درست جواب پاکر بھی)۔ (آخری اور چھٹا) سوال یہودی نے پوچھا: میں آپ سے بچّے کے بارے میں پوچھتا ہوں کہ لڑکا اور لڑکی کیسے پیدا ہوتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا: مرد کا پانی سفید ہوتا ہے۔ عورت کا پانی زرد ہوتا ہے۔ جب دونوں ملتے ہیں تو اگر مردانہ پانی غالب آ جائے تب بچہ پیدا ہوتا ہے اور اگر زنانہ پانی غالب آ جائے تو بچی پیدا ہوتی ہے۔ اس پر یہودی بول اٹھا۔ آپؐ نے سچ فرمایا ۔ (وَاِنَّکَ لَنَبِیٌ) قسمیہ طور پر کہتا ہوں کہ کوئی شک نہیں کہ آپ ہر صورت نبیؐ ہیں‘ پھر وہ پلٹا اور چلا گیا۔ (صحیح مسلم: 416)
قارئین کرا! ہم اکیسویں صدی میں ہیں۔ برطانیہ کا اخبار ''ڈیلی میل‘‘ انکشاف کرتا ہے کہ جدید ترین لیبارٹری میں مرد اور عورت کے جرثوموں کی رنگین تصاویر لے لی گئی ہے۔ میڈیکل سائنس میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ مردانہ جرثومے کا رنگ سفید ہے ‘جبکہ نسوانی جرثومے کا رنگ زرد ہے۔ اللہ اللہ! یہی دو رنگ''ابیض‘‘ اور ''اصغر‘‘ میرے حضورؐ نے بتائے۔ غلبے کے اصول کو بھی جدید میڈیکل سائنس نے ثابت کر دیا‘ یعنی انسان کی پیدائش کے آغاز میں جتنے اصول تھے‘ وہ میرے حضورؐ کے قرآن نے اور فرمان ذی شان نے بتلا دئیے۔ ساڑھے چودہ سو سال قبل ایک یہودی بھی اور وہ بھی اپنے وقت کا سب سے بڑا عالم مان کر گیا۔ حضورؐ کو سچا نبی کہہ کر گیا‘ مگر کلمہ اس کی قسمت میں نہ تھا۔ آج کی سائنس نے بھی سارا کچھ مان لیا۔ کلمہ کسی کسی کی قیمت میں ہے۔ لوگو! موت سر پر کھڑی ہے۔ وبا عام ہو رہی ہے۔ آئیے! توبہ کریں۔ اپنے آپ کو بدلیں۔ مردار دنیا ہی کے بندے اور غلام نہ بنے رہیں‘جس نے سفید اور زرد رنگ کے پانیوں سے پیدا کیا ہے ‘وہ فرماتا ہے: میں مار کر کھڑا بھی کرنے والا ہوں‘ دو رنگوں کا پانی جو ننگی آنکھوں کو نظر نہیں آتا۔ عام خوردبین بھی دیکھ نہیں سکتی۔ اب‘ جا کر جدید ترین الیکٹرون خوردبین دیکھنے کے قابل ہوئی ہے۔ یہ مادی وجود ہے۔ جب یہ 42 دن کے بعد 43‘ 44 اور 45 دن کا ہوتا ہے تو اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ شکم مادر میں یہ ہنستا ہے۔ اس کے ہنسنے کی تصویر جدید ترین الٹراسائونڈ نے لے لی ہے۔ اس کا وجود مادی ہے‘ مگر یہ براہِ راست اپنے خالق کی ناگرانی میں ہے۔ اس لئے ہنس رہا ہے۔ جونہی دنیا میں ڈاکٹروں‘ نرسوں‘ دایوں‘ دادیوں اور نانیوں کے ہاتھ میں آتا ہے۔ رونے لگ جاتا ہے اور پھر ساری زندگی روتا ہی رہتا ہے۔ہاں‘ ہاں! وہ خوش قسمت لوگ جنہوں نے اپنے رب کریم‘ اپنے خالق کو پہچان لیا۔ اس سے محبت کرلی۔ ان کا انداز نرالا ہوتا ہے۔ گزشتہ جمعۃ المبارک کو 85 سال کی عمر میں میرے سسر شیخ الحدیث حضرت مولانا رحمت اللہ ربّانی رحمہ اللہ فوت ہو گئے۔ وفات سے دو دن قبل انہیں انتہائی خوبصورت پرندے نظر آنے لگے اور فرماتے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ایسی حمد و ثنا بیان کرتے ہیں کہ انسان کیا حمد بیان کریں گے جو وہ کرتے ہیں‘ یعنی پرندوں کی صورت میں ان کو فرشتے نظر آنے لگ گئے تھے۔ (سبحان اللہ) ساتھ ہی کہے جاتے تھے میں اپنے گھر جا رہا ہوں۔ اللہ اللہ! وہ فوت ہوئے۔ ان کے بڑے بیٹے محترم طاہر ربانی نے خواب دیکھا کہ ابا جی محترم بھاگتے ہوئے اچھل کر انتہائی خوبصورت ترین باغ میں جو پھولوں سے اٹا اور بھرا پڑا تھا اس میں چلے گئے۔ یہ ہے کامران زندگی کہ اللہ کے فضل سے ادھر روح پرواز کرے اور ادھر بندہ جنت میں جا پہنچے‘ مگر یہ روحانی رنگ کو بھول جاتا ہے اور سفید و زرد رنگ کے بنے وجود میں ہی کھویا رہتا ہے۔ افسوس اس کی ذہنیت پر‘ لوگو! میں نے جدید میڈیکل سائنس کا رنگ اس لئے پیش کیا ہے کہ اپنے آپ کو دنیا کے حیوانی رنگ میں رنگ رنگ کر حیوان نہ بنتے جائو۔ اپنی روح کو حضورؐ کے دیئے ہوئے محمدی رنگ میں رنگنے کی کوشش کرو۔ اللہ کا پسندیدہ رنگ یہی ہے‘جو حضورؐ کا دیا ہوا رنگ ہے۔ اے مولا کریم! ہمیں اس رنگ میں رنگین کر کے اپنے پاس بلانا۔ (آمین)