''ہیگزبوزون‘‘ نام ہے ایسے سائنسدان کا‘ جس نے ایک ایسا ذرہ دریافت کیا کہ وہ ایٹم کو مادی شکل دیتا ہے اور غائب ہو جاتا ہے‘ اگر اس ذرے کے کردار کو اس کا خالق ختم کر دے تو ساری کائنات یکدم عدم میں چلی جائے۔ اس سائنسدان کو نوبل پرائز دیا گیا اور ذرّے کو سائنسدان کے نام پر ''ہیگزبوزون پارٹیکل‘‘ کہا گیا‘ لیکن اس ذرّے کا جو نام مشہور ہوا ہے (God Particle)‘ یعنی خدائی ذرّہ معروف ہوا۔ ذرّے کی خصوصیات کو سامنے رکھتے ہوئے سائنسدان اسے ''اللہ کا ذرّہ‘‘ ماننے اور کہنے پر مجبور ہو گئے‘ اسی طرح اب ‘ایک اور چیز سامنے آئی ہے‘ اسے ڈاکٹر مائیکل پرسنگر اور سٹینلے کورن نے بنایا ہے۔ اس کا نام انہوں نے ''کورن ہیلمٹ‘‘ رکھا ہے ‘مگر وہ خود اور باقی سب اس کو (The God helmet) ‘یعنی خدائی ہیلمٹ کہتے ہیں۔ اس لیے کہ اس ہیلمٹ کو بنانے کا مقصد یہ تھا کہ کائنات کے خالق کے عقیدے کو اپنے دماغ میں تلاش کیا جائے تو پھر مقصد کے مطابق ہی انہیں مجبوراً (اللہ تک پہنچنے والا ہیلمٹ) ماننا اور کہنا پڑا؛ یعنی اللہ سے جس قدر بھی بھاگیں۔ آخر کار اللہ کریم کو ماننا ہی پڑتا ہے۔
آئیے! اب دیکھتے ہیں کہ خدائی ہیلمٹ کو بنانے والا کون ہے؟ کینیڈا کے صوبے اونٹاریو (Ontario) میں لارینٹیئن (Laurention) یونیورسٹی ہے۔ پروفیسر مائیکل پرسنگر مذکورہ یونیورسٹی میں سائیکالوجی کے پروفیسر اور نیوروسائینٹسٹ تھے۔ وہ 1971ء سے دماغی سائنس کے پروفیسر تھے۔ وہ 73 سال کی عمر میں 16 اگست 2018ء کو فوت ہوئے۔ وہ یونیورسٹی میں Consciousnes‘ یعنی شعور ریسرچ لیبارٹری کے ڈائریکٹر بھی تھے۔ اپنے شعبے کے سربراہ تھے۔ انہیں 1989ء میں ایکسیلینسی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 2001ء میں انہیں ''برین انجری ایسوسی ایشن‘‘ نے ''لائف ٹائم ممبر شپ ایوارڈ‘‘ دیا۔ کینیڈا کی ایسوسی ایشن آف یونیورسٹی ٹیچرز نے پروفیسر ڈاکٹر پرنسگر کو مرنے کے بعد خدمات پر خصوصاً (God helmet) کی ایجاد پر سالانہ ایوارڈ دیا۔ ڈاکٹر پرسنگر نے بہت سارے لوگوں کو یہ ہیلمٹ پہنا کر ان کے خیالات حاصل کیے کہ وہ کیا محسوس کر رہے ہیں۔
مذکورہ ہیلمٹ اب‘ امریکہ میں فروخت کے لیے موجود ہے‘ جن لوگوں پر تجربات کیے گئے‘ ان میں مسیحی‘ بدھست‘ ہندو اور ملحدین شامل ہیں‘ یعنی جو ہیلمٹ بنانے والا ہے‘ وہ بھی خالق کے بارے میں شک کا شکار ہے۔ جن پر تجربات کیے گئے وہ سب غیر مسلم ہیں۔ اس سب کے باوجود ڈاکٹر پرسنگر کہتا ہے کہ انسانی دماغ کو جو دایاں حصہ ہے۔ کنپٹی کے پاس یہ حصہ جذبات و احساسات کا حصہ ہے۔ یہ حکمت و دانائی کا علاقہ ہے اور اس کو یہاں تحریک ملتی ہے۔ یہاں کا حصہ خیال اور گمان (وساوس) کو کنٹرول کرنے کی جرأت کرتا ہے۔ اس کے برعکس جو بایاں حصہ ہے۔ وہ بولنے کا حصہ ہے۔ یہاں سمجھ بوجھ کو درست کرنے کا موقع ہوتا ہے کہ (نظام کائنات چلانے والی) کوئی ہستی موجود نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دماغ ایک ہستی کی موجودگی کی سمجھ بوجھ پیدا کرتا ہے۔
قارئین کرام! پروفیسر ڈاکٹر پرسنگر کی مندرجہ بالا تحقیق پر قرآن و حدیث کے دلائل با حوالہ دوں گا‘ تو بات لمبی ہو جائے گی۔ مختصراً یہ ہے کہ ہر انسان کے دائیں جانب فرشتہ موجود ہے‘ جو انسان کے دماغ میں حکمت و دانائی سے بھرپور مشورے دیتا ہے۔ ایک خالق پر ایمان لانے کی تحریک پورا کرتا ہے۔ شیطان کے وساوس کا رد کرتا ہے۔ بائیں جانب شیطان ہوتا ہے ‘جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں منفی وسوسے پیدا کرتا ہے‘ اسی لیے حضورؐ کے فرمان کے مطابق تعلیم یہ ہے کہ جب ایسے وساوس پیدا ہوں یا رات کو گندے شیطانی خواب آئیں تو ''اَعُوذُ بِاللہ ِ من الشیطان الرجیم‘‘ پڑھ کر تین بار بائیں کندھے پر تھو تھو کر دیا جائے۔ قارئین کرام! یونیورسٹی کے ماہرین ڈاکٹر پرسنگر کے ویژن کا خلاصہ یوں پیش کرتے ہیں:
Almighty is not dead, he is an energy field. And your mind is an electromagnetic map to your soul.
''قادر مطلق خالص (اللہ تعالیٰ) کے لیے موت نہیں ہے۔ وہ طاقت و قوت کا ایک (لا محدود) فیلڈ( رکھتا ہے) اور (اے انسانو!) تمہارا دماغ‘ تمہاری روح کے لیے برقی مقناطیسی نقشہ ہے‘‘۔ قارئین کرام! میں نے کوشش کی ہے کہ بریکٹس میں الفاظ کے اضافے کے ساتھ ایسا ترجمہ کروں کہ میرے عظیم اور محبوب اللہ کی عظمت پر حرف بھی نہ آئے اور ڈائریکٹر پرسنگر کا ترجمہ بھی صحیح معنوں میں ہو جائے‘تاہم! کہیں کوتاہی رہ جائے تو اپنی علمی کم مائیگی کا پورا احساس کرتے ہوئے اہلِ علم سے معذرت خواہ ہوں۔ خلاصہ یہ ہے کہ نہ مانتے ہوئے بھی ڈاکٹر پرسنگر اور اس کی ٹیم کو ماننا پڑا کہ اللہ تعالیٰ بھی موجود ہے۔ روح بھی موجود ہے اور یہ سارا کچھ انہوں نے بڑی مقناطیسی لہروں وغیرہ کا حامل اپنا خدائی ہیلمٹ انسانی سر پر لگا کر دماغی مقناطیسی لہروں وغیرہ کو ٹچ کر کے حاصل کیا‘ لیکن بات قسمت کی ہے کہ اسلام کی رہنمائی نہ مل سکی۔ ڈاکٹر پرسنگر اور اس کی ٹیم اعتراف کرتے ہوئے اعلان کرتی ہے کہ خدائی ہیلمٹ کے تجربات نے واضح کر دیا کہ سائنس نے انسانی دماغ میں خدا کے (عقیدے) کو پا لیا ہے۔ (The science that found God in the human brain) قارئین کرام! اب‘ آتے ہیں انسان کی موت کے آخری منظر کی جانب۔
ڈاکٹر پروفیسر پرسنگر کی ٹیم‘ اس کی لیبارٹری‘ اس کا خدائی ہیلمٹ اور تجربات کا نچوڑ یوں بیان کیا گیا ہے کہ سائنسی ریسرچ Established‘ یعنی طے ہو چکی کہ دماغ اور شعور باہم انتہائی قریبی تعلق رکھتے ہیں اور یہ کہ اس شعور کی لہروں کا تعلق زمینی یا کائناتی شعاعوں اور لہروں وغیرہ سے نہیں ہے اور یہ کہ دماغ کا فزیالوجی فنکشن جب ختم ہوتا ہے تو دماغ کے مرنے کے ساتھ انسان مرتا ہے۔ جی ہاں! یہاں ڈاکٹر پرسنگر نے شعور ‘یعنی روح کے مرنے کی بات نہیں کی۔ بس‘ اتنی بات کی کہ بہت سارے لوگ موت کے بعد زندگی کی ایک اور قسم پر یقین رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر پرسنگر اور ان کی ٹیم یہ بھی کہتی ہے کہ آج میڈیکل کی دنیا میں ڈاکٹروں اور سائنسدانوں کے ہاں طے ہو چکا کہ دماغی موت (Brain Death) یا بیالوجیکل ڈیتھ ہی طے کرتی ہے کہ بندہ مر گیا۔ دماغی موت ہی طے کر دیتی ہے کہ موت کا عمل مکمل ہو گیا۔ اب‘ زندگی ناقابلِ واپسی ہے۔ اس کے برعکس سانس بند بھی ہو جائے تو بعض اوقات دوبارہ چالو ہو جاتاہے۔ دل کی دھڑکن بھی بعض اوقات دوبارہ شروع ہو جاتی ہے‘ اسی طرح دل اور پھیپھڑوں کے فنکشن کے بغیر بھی بعض اوقات ہچکولے کھاتی زندگی رواں نظر آتی ہے۔ ٹرانسپلانٹ اور Pacemakers سلسلے بھی زندگی کی معاونت کرتے ہیں‘ مگر دماغ سے زندگی رخصت ہو جائے تو بات حتمی طور پر ختم ہو جاتی ہے۔
گزشتہ جمعہ کے کالم میں خاکسارنے آگاہ کیا تھا کہ قرآن فرماتا ہے ''کہ آخر کار (جسم سے روح نکلتے نکلتے) وہ لمحہ آن پہنچتا ہے کہ جب ہنسلی کی ہڈی تک روح آن پہنچتی ہے‘‘ (القیامہ: 26)۔ اب‘ جب ہنسلی کی ہڈی سے روح اوپر جائے گی تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ'' ہم تمہاری شہ رگ سے بھی قریب ہیں ‘‘(القرآن)۔ شہ رگ گردن میں ہوتی ہے۔ روح اب گردن سے اوپر چلی گئی۔ اوپر اب انسانی سر ہے۔ یہاں بظاہر روح نکلنے کے چار راستے ہیں۔ پہلا راستہ منہ ہے کہ وہ ہمارے مشاہدے میں اس طرح آتا ہے کہ عموماً مرنے والا آخری ہچکی لیتا ہے اور منہ کھلے کا کھلا رہ جاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے روح منہ سے نکل گئی‘ مگر اللہ ہی بہتر جانتے ہیں کہ نکلنے کا راستہ ناک بھی ہے۔ کان بھی ہے اور آنکھیں بھی ہیں اور چاروں کا تعلق باہم ملتے ہوئے دماغ کے ساتھ ہے اور روح تو سر کی چوٹی سے بھی نکل سکتی ہے۔ وہ جہاں سے بھی نکلے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتے ہیں ‘مگر میرے حضورؐ نے بتا دیا ہے کہ ''روح نکلتی ہے تو آنکھ اس کا پیچھا کرتی ہے‘‘ (صحیح مسلم: الجنائز) ‘یعنی روح نکلتی دماغ سے ہے۔ اللہ اللہ! میرے حضورؐ کے فرمان نے واضح کر دیا کہ دماغ مرے گا تو موت حتمی ہو جائے گی۔
آج کی میڈیکل سائنس میرے حضورؐ کے فرمان سے ساڑھے چودہ صدیاں پیچھے ہے۔ آخری بات یہ ہے کہ مادی جسم کی مادی آنکھیں چند سیکنڈز کے لیے روح کو دیکھتی ہی رہ جاتی ہیں کہ اسی کی وجہ سے تو آنکھوں میں نور تھا‘ مگر روح کی پرواز اس قدر تیز رفتار ہوتی ہے کہ شاید ایک آدھ سیکنڈ ہی لگے اور آنکھ دیکھتی ہی رہ جائے اور ساتھ ہی سفید اور پژمردہ ہو جائے۔ حضورؐ نے مندرجہ بالا فرمان سے پہلے حضرت ابو سلمہؓ کی آنکھوں کو اپنے مبارک ہاتھوں سے بند کر دیا کہ روح کے بغیر یہ کھلی آنکھیں بھی نہیں لگتیں۔ اصلی آنکھیں تو اگلی آنکھیں ہیں‘ جو روح کی آنکھیں ہیں۔ اے مسلمان! سب کچھ جسمانی آنکھوں کے مزے کیلئے کر رہا ہے‘ بتلا روح کی آنکھوں کی لذّت کے لیے کیا کیا ہے؟ باقی آئندہ (ان شاء اللہ تعالیٰ)