اللہ کے حبیب اور خلیل حضرت محمدؐ ذیشان کے صحابی حضرت قتادہؓ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپؐ نے (اپنے ارد گرد موجود صحابہؓ) سے فرمایا ' ' یہ شخص (اگلے جہان میں) سکون حاصل کرنے والا ہے یا پھر اس سے (اہلِ زمین) کو قرار مل گیا ہے‘‘۔ صحابہ نے حضورؐ سے مندرجہ بالا حدیث کا مطلب دریافت کیا تو آپؐ نے فرمایا ''مومن بندہ (موت کے بعد) دنیا کے مصائب اور تکالیف سے (نجات پا کر) سکون اور راحت حاصل کر لیتا ہے‘ جبکہ (مرنے والا) جو فاجر انسان ہوتا ہے‘ اس کی (موت سے) لوگ‘ شہر اور ملک‘ درخت اور حیوانات بھی سُکھ اور چین کا سانس لیتے ہیں‘‘۔ اس کے مقابلے میں مومن بندے کے بارے میں مزید فرمایا کہ ''وہ دنیا کی اذیتوں اور مصیبتوں سے چھان چھڑا کر اللہ تعالیٰ کی رحمت میں پہنچ کر راحت و آرام حاصل کرتا ہے‘‘۔ (صحیح مسلم : 2202-3) کتاب الحنائز۔
قارئین کرام! مندرجہ بالا حدیث میں مرنے والے کے لیے حضورؐ نے دو الفاظ بیان فرمائے ہیں کہ وہ یا مومن ہے یا پھر فاجر ہے۔ مومن کا مطلب ہے کہ جس کا اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان ہے اور اس ایمان کی برکت سے لوگوں کو اس سے امن ملتا ہے۔ اچھا اخلاق ملتا ہے۔ وہ مومن لوگوں کی مشکلات میں ان کے کام آتا ہے۔ مومن درگزر سے کام لیتا ہے۔ انتقامی ذہن والا نہیں ہوتا۔ معاف کرنے والا ہوتا ہے‘ لہٰذا اس کی موت سے پہلے دنیا والے غمگین ہوتے ہیں۔ اس کے جانے سے دکھی ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس فاجر شخص وہ ہوتا ہے کہ ''لسان العرب‘‘ میں علامہ جمال الدین کے الفاظ میں وہ شک کی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے۔ گناہوں کی کثرت اور توبہ میں تاخیر کرتا ہے۔ بدکاری بھی کرتا ہے۔ جھوٹا‘ نافرمان اور ناشکرا ہوتا ہے۔ اور سب سے بڑی خصلت اس کی ظلم ہوتا ہے کہ ایک شئے ایک جگہ پر فٹ نہیں ہوتی‘ وہ تب بھی اسے وہاں رکھ دیتا ہے۔ امام جمال الدین یہ ایسا جملہ لائے ہیں‘ جس میں کسی جابر کا جبر شامل ہے کہ وہ اپنے جبر اور قہر سے ایسا ظلم کرتا ہے کہ معمولی جرم پر بھی بڑا ظلم کر گزرتا ہے‘ لوگوں کی زمین ناحق چھینتا ہے۔ کرپشن کرتے ہوئے عام لوگوں کا مال اپنی تجوریوں میں ڈال لیتا ہے‘ وہ ماحول کو خراب کرتا ہے‘ جس سے زمین پر آکسیجن میں کمی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ بڑھ جاتی ہے۔ اب‘ اس سے انسان‘ درخت اور جاندار مصائب کا شکار ہو جاتے ہیں؛ چنانچہ اس کی موت سے اللہ کے بندے‘ ملک اور شہر‘ دیہات اور محلے‘ درخت اور جاندار سکھ کا سانس لیتے ہیں کہ ظالم اور فسادی مر گیا۔ دھرتی پر موجود مخلوق کو سکون اور قرار مل گیا۔ جی ہاں! وہ مومن جو ایسے لوگوں کے ہاتھوں سے ستایا ہوا تھا۔ وہ خود بے ضرر تھا۔ اس کے لگائے ہوئے درخت آکسیجن دیتے تھے۔ پرندے ان پھل دار درختوں کے پھل کھاتے تھے۔ وہ کمزوروں کا سہارا تھا۔ وہ خود تکلیفیں اٹھاتا رہا ‘مگر دوسروں کے کام آتا رہا۔ اب‘ وہ موت کے بعد اللہ تعالیٰ کی رحمت میں غوطہ زن ہے۔ وہ خود تو بڑا خوش ہے‘ مگر دھرتی والے دکھی ہیں۔
سید منور حسن ایسے ہی ایک انسان تھے۔ ایسے ہی ایک مومن تھے۔ دفاعِ پاکستان کونسل کے جلسوں میں سٹیج پر تقریروں میں بھی اکٹھے تقریریں کیں تو مجالس میں بھی ملاقاتیں رہیں۔ وہ میرے دبلے پتلے جسم کو سینے سے لگا کر میرے چہرے پر شفقت بھری نظریں گاڑ دیتے اور فرماتے کہ یہ دبلا پتلا وجود تقریر میں کس قدر گھن گرج کرتا ہے اور تحریر میں کیا موتی پروتا ہے۔ اس اعزاز پر میں مارے شرم کے نگاہیں نیچی کر لیتا اور دل میں اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتا اور کہتا مولا کریم! آپ جانتے ہیں میں اس قابل کہاں؟ جو آپ کا سید بندہ فرما رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے جانے سے محترم مجیب الرحمان شامی اور سجاد میر ہی نہیں روئے۔ سراج الحق‘ لیاقت بلوچ‘ قاری یعقوب شیخ‘ فرید پراچہ اور لاکھوں لوگ ہی نہیں روئے‘ایک مخلوق ِ خدا دکھی ہوئی ہے۔ ان کے لخت جگر طلحہ صاحب سے ان الفاظ کے ساتھ تعزیت ہے کہ ''اللہ ہی کا تھا جو وہ لے گیا اور اسی ہی کا تھا جو اس نے عطا فرمایا تھا‘‘(بخاری و مسلم)۔ہر ایک کا ایک وقت مقرر ہے‘ لہٰذا صبر کیجیے اور اللہ سے اجر پائیے۔ دوسری شخصیت جن سے ہم محروم ہو گئے۔ وہ صحافت کے میدان کی شخصیت ہے۔ صحافیوں کے اساتذہ کے استاد کی شخصیت ہے۔ ان کے حوالے سے ایک واقعہ کا شاہد ہوں‘ جو متکبر اور انا پرستی کے حاملین کے لیے ایک روشن چراغ ہے۔ جن دنوں تحریک حرمت رسولؐ کے حوالے سے بعض اللہ کے بندے دن رات ایک کیے ہوئے تھے ‘ان دنوں لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں حرمت قرآن اور حرمت رسولؐ کے حوالے سے ایک سیمینار تھا۔ اس کے منتظم کی حیثیت سے میں نے محترم مجیب الرحمان شامی صاحب اور ڈاکٹر پروفیسر مغیث الدین شیخ مرحوم کو سٹیج کے درمیان میں مہمانان خصوصی کے طور پر بٹھایا۔ شیخ صاحب جامعہ پنجاب میں شعبہ صحافت کے ڈین تھے۔ ان سے پہلے محترم شامی صاحب کو گفتگو کے لیے بلایا گیا تو مغیث الدین شیخ صاحب مجھے مخاطب کر کے فرمانے لگے: حمزہ صاحب! شامی صاحب میرے استاد ہیں‘ یہ نہیں ہو سکتا کہ میں ان کے بعد گفتگو کروں۔ اللہ اللہ! یہ تھی ان کی طبیعت میں عاجزی‘ انکساری‘ دوسروں کا احترام۔ ''صحاح سِتّہ‘‘ یعنی حدیث کی چھ اور دیگر کتابوں میں حضور کے فرمان عالیشان کا خلاصہ ہے کہ جن لوگوں کی اچھائی کی گواہی ''اے مسلمانو!‘‘ تم دو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری گواہی کو قبول کر کے اپنے بندوں کو عزت دیں گے۔ میں نے اپنی گواہی کالم کے ذریعہ دے دی ہے۔ دعا گو ہوں۔ اے مولا کریم! اپنے بندے مغیث الدین کو فردوس عطا فرما۔ (آمین)۔
حالیہ دنوں میں کافی سارے علما اس فانی دنیا کو الوداع کہہ کر اپنے اللہ کے ہاں اگلے جہان میں چلے گئے۔ جامعہ سلفیہ کے شیخ الحدیث مولانا یونس بٹ کا دمکتا مسکراتا خوبصورت چہرہ نہیں بھولتا۔ حدیث کے نامور عالم تھے۔ مولانا مفتی محمد نعیم جو جامعہ بنوریہ کراچی کے مہتمم اور نامور ‘مگر معقول مزاج رکھنے والے عالم تھے۔ان سب کی کمی اہل علم کو رنجیدہ کر گئی ہے۔ اہلِ تشیع کے نامور علامہ طالب جوہری جو ہم میں نہیں رہے۔ ان کا وجود پاکستان کی قومی یکجہتی کے لیے اس لحاظ سے سرمایہ تھا کہ انہوں نے معقول طبیعت پائی تھی۔ وہ حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ اور دیگر صحابہ کا نام بڑے احترام سے لیتے تھے اور شیخین اور حضرت علیؓ کے مابین خوبصورت تعلقات کا تذکرہ کر کے اتحاد و یکجہتی کا پیغام بھی دیتے رہتے تھے۔ کوئی 27 سال قبل وہ اس وقت میرے پاس تشریف لائے ‘جب انہوں نے میری شائع کردہ کتاب ''محمدؐ: ہندو کتابوں میں‘‘ پڑھی۔ انہوں نے مجھے یہ کتاب شائع کرنے پر خراج تحسین بھی پیش کیا۔ یہ ان کا بڑا پن تھا اوروہ ہندوئوں کے بارے میں معلومات بھی لیتے رہے۔ الغرض! وہ لوگ جو تحقیق‘ ریسرچ اور علمی تعلقات نبھاتے تھے۔ المیہ یہ ہے کہ وہ اس دنیا کو چھوڑ کر جاتے چلے جا رہے ہیں اور تفرقہ پیدا کرنے والے نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔ چوتھی اور آخری تعزیت ان مائوں اور باپوں کے جگر گوشوں کے لیے ہے کہ جنہوں نے پاکستان دشمن بھارتی دہشت گردوں سے مقابلہ کیا۔ وطن ِعزیز کی دھرتی پر اہلِ پاکستان کی حفاظت کی خاطر اپنی جانوں کو اپنے رب کے سامنے قربانی کے لیے پیش کیا۔ تازہ واقعہ کراچی کا ہے جس میں پولیس کے دلیر جوانوں نے دہشت گردوں کے خوفناک عزائم کو چند منٹوں میں خاک میں ملا دیا۔ ملک و ملت کی خاطر جان دینے والے سکیورٹی فورسز کے تمام جوانوں کو اللہ تعالیٰ شہادت کا مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل کی نعمت سے نوازے۔ (آمین)
قارئین کرام! دنیا کی زندگی تو چند روز کی زندگی ہے۔ اک خواب ہے۔ انسانی جسم کی آنکھ بند ہوتی ہے تو روح کی آنکھ تب مکمل طور پر کھلتی ہے اور جب وہ کھلتی ہے تو تب انسان کو پتا چلتا ہے کہ اصل زندگی تو یہ ہے کہ جس میں اب داخل ہوا ہوں۔
بیسویں صدی میں انسانی روح کا انکار ایک سائنسی فیشن بن گیا تھا۔ سائنس کا مطلب تو علم ہے۔ علم کے نام پر جہالت تھی۔ اکیسویں صدی کے شروع ہوتے ہی اس پر اس قدر سائنسی تحقیق اور ریسرچ آئی اور ان اداروں کی آئی‘ جن کی بنیاد بیسویں صدی میں رکھی گئی تھی۔ آج وہ سب ادارے اپنی رپورٹوں میں اسی بات کا اقرار کر رہے ہیں کہ روح موجود ہے۔ دنیا کے مادی آلات اس کو معلوم کرنے سے عاجز ہیں۔‘جس طرح ہگز بوزون کا ''خدائی ذرہ‘‘ دکھائی نہیں دیتا ‘مگر موجود ہے‘ اسی طرح روح بھی مادی چیز نہیں۔ خدائی ذرّے اور روح کی لطافت کا کوئی موازنہ نہیں‘ لہٰذا اس کا کردار موجود ہے اور یہ اب ایک سائنسی حقیقت سے بڑی حقیقت کی حیثیت رکھتی ہے۔
آسٹریلیا کے معروف اور عالمی سطح کے بیالوجسٹ جرمی گرفتھ کہتے ہیں(Science at Last Explains Our Soul) ''آخر کار سائنس نے ہماری روح (کی موجودگی کو) واضح کرنا شروع کر دیا ہے‘‘۔وہ مزید کہتے ہیں کہ ہمارا دماغ علم کے حصول کے لیے دو مختلف نظاموں سے بنا ہوا ہے۔ ایک جین کی بنیاد پر بنا ہوا سسٹم ہے ‘جبکہ دوسرا Nerve based system ہے۔ اس کا مطالعہ اور ریسرچ بتاتی ہے کہ ہماری اخلاقی رہنمائی کا سرچشمہ ہمارے شعور کی وہی آواز ہے‘ جسے ہم روح کے نام سے پہلے ہی جانتے ہیں‘ لہٰذا حقیقت یہی معلوم ہوتی ہے کہThe Soul that rises with us, our life's Star.''روح وہی ہے‘ جو ہماری زندگی کے سٹار کے ساتھ چمکتی ہے‘‘یعنی شکم مادر میں جب زندگی کا چمکتا ستارہ نشوونما پا کر 42 دن سے آگے بڑھتا ہے تو روح آ جاتی ہے۔ اللہ اللہ!
صحیح رہنمائی تو قرآن اور حضرت محمد کریمؐ کی ہے۔ ماننا بالآخر اسے ہی پڑے گا۔ اے مسلمان بھائیو اور بہنو! فکر اس بات کی کریں کہ اس دنیا سے جانے کے بعد کردار کیسا چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ ایسا کردار کہ جس سے زمین پر موجود انسان‘ شہر اور اشجار و حیوان تک سکھ کا سانس لیں کہ اچھا ہوا دفع ہوا یا ایسا پیارا اور محبت آمیز کردار کہ دنیا اچھی یادوں سے یاد کرتی ر ہ جائے اور اگلے جہان میں فرشتے ہاتھوں ہاتھ عزت و تکریم سے ہمیں وصول کریں؟