اللہ تعالیٰ ساری انسانیت خصوصاً دماغ کا سائنسی علم رکھنے والوں کو متوجہ کرتے ہوئے چار چیزوں کی یوں قسم اٹھاتے ہیں:
1) فجر کی قسم۔ 2)دس راتوں کی قسم۔ 3) جفت اور طاق کی قسم۔ 4) رات کی قسم جب وہ جانے لگے۔ (سورۃ الفجر)
قارئین کرام! سورہ فجر مکّی سورت ہے۔ مکّہ میں حضورؐ کے خلاف مشرکین نے ظلم کی حدیں پھلانگ ڈالی ہیں۔ اللہ تعالیٰ یقین دلا رہے ہیں اپنے پیارے رسولﷺ کو کہ ظلم کی رات بے شک انتہائی اندھیری ہے مگر وہ میرے نظام کی پابند ہے۔ یہ جانے کو تیار بیٹھی ہے۔ گھپ اندھیری رات میں سے فجر کی سفید دھاری نمودار ہو چکی ہے۔ رات دِن کا نظام جو زمین اور سورج سے متعلق ہے‘ اس کا دورانیہ 24 گھنٹے ہے۔ رات کا ایک حصہ دِن لے جاتا ہے اور تسلسل سے لئے جاتا ہے۔ اسی طرح اس کے برعکس دن کا ایک حصہ رات لیے جاتی ہے اور مسلسل لیے جاتی ہے۔ لہٰذا یہاں کسی کو قرار نہیں۔ ایک ہی حالت کسی پر مستقل طاری نہیں۔ سال میں صرف دو دنوں اور دو راتوں کا ہی ایک ایسا وقفہ آتا ہے جب دونوں بارہ بارہ گھنٹوں کے ہوتے ہیں۔ باقی تو سارا سال تبدیلی سے ہی دو چار رہتے ہیں، لہٰذا مکہ کے مشرک مستقل ظلم کو جاری نہیں رکھ سکتے۔۔۔۔۔ اسی طرح رات دِن سے آگے بڑھ کر مہینے کی سطح پر آ جائیں تو چاند جو زمین کے گرد گردش کرتا ہے۔ اس گردش سے مہینہ کبھی 29 دن کا ہوتا ہے اور کبھی 30 دن کا ہوتا ہے۔ یعنی کبھی طاق ہوتا ہے کہ 29 کا عدد طاق ہے جو 2 پر تقسیم نہیں ہوتا اور کبھی جفت ہوتا ہے یعنی، 30 دِن کا کہ جو 2پر تقسیم ہو جائے۔ اس جفت اور طاق کے عدد کی قسم بھی اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ ہر مہینہ تبدیلی سے دو چار ہے۔ ہر مہینے کی ہر رات تبدیلی سے گزر رہی ہے۔۔۔۔۔ اور اگر مہینے کو دس دس راتوں سے جوڑ کر مہینہ بنایا جائے تو وہ کبھی 29 بنتے ہیں اور کبھی 30 بنتے ہیں۔ ان کا حال یہ ہے کہ چاند سے متعلق پہلی دس راتیں دھیرے دھیرے چاند کے بڑھنے سے روشنی کرتی چلی جاتی ہیں اور پھر جب درمیان کی دس راتوں کی باری آتی ہے تو چاند جوبن پر ہوتا ہے اور آخری دس راتوں میں پھر زوال شروع ہو جاتا ہے‘ زندگی اسی کا نام ہے۔ ہر کوئی اسی سے دو چار ہے۔ زمین جو نظامِ شمسی کا ایک حصہ ہے اس نظام پر جو بھی غور کرے گا۔ انسان کی زندگی کے تینوں حصوں پر غور کرے گا۔ کسی ایمپائر اور حکمرانی پر غور کرے گا۔ سب کو مندرجہ بالا تین حصوں سے ہمکنار ہوتے ہوئے اور پھر دو چار ہوتے ہوئے پائے گا۔ لہٰذا قریش کے ظلم کا چل چلائو ہے اور اسلام کے سویرے کی آمد آمد ہے۔
چار چیزوں کی قسم کے بعد مولا کریم پانچویں آیت میں فرماتے ہیں ''ان (قسموں) میں کیا کسی عقل والے کے لیے کوئی قَسم (یعنی بہت بڑی حقیقت) ہے؟ (کہ اسے دیکھ کر راہِ راست پر آ جائے)‘‘ یاد رہے! یہاں مذکورہ پانچویں آیت میں صاحبِ عقل کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو لفظ بولا ہے وہ ''ذِی عقل‘‘ نہیں بلکہ ''ذی حِجر‘‘ ہے۔ کعبہ کا وہ حصہ جسے حطیم کہا جاتا ہے۔ اسے حجر بھی بولا جاتا ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے بھی اس حصے کو حجر کے نام سے موسوم فرمایا ہے۔یعنی یہ حصہ دیواروں میں ہے اور الگ بھی ہے۔ جس شخص کو کورونا وائرس ہو جائے وہ قورنٹائن ہو جاتا ہے۔ یعنی الگ تھلگ ہو کر بند ہو جاتا ہے مگر اک محدود سا تعلق بھی رکھتا ہے۔ عربی زبان میں اس قورنٹائن کو ''حِجرِ صِحی‘‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی صحت کے حصول کی خاطر وہ الگ ہو جاتا ہے۔ عربی زبان میں دماغ اور دماغی عقل کے لیے کئی الفاظ بولے جاتے ہیں۔ ان میں ایک ''حِجر‘‘ ہے۔
قارئین کرام! آئیے، اب جدید ترین میڈیکل سائنس میں دماغ یعنی Brain کا جائزہ لیتے ہیں۔ دماغ کے بہت سارے حصے ہیں۔ دماغی ماہرین کو جو حصے معلوم ہو سکے ہیں‘ ان کے الگ الگ نام اور فنکشن ہیں۔ اس دماغ میں ایک ایسا حصہ ہے جو اپنے اندر چار مزید حصوں پر مشتمل ہے۔ یہ اک پورا سسٹم ہے۔ اسے Ventricular System کہا جاتا ہے۔ دماغ کے اندر اطلاعات کا یہ اہم ترین مرکزی مقام ہے۔ اس مقام کا ایک فرش ہے۔ دیواریں اور چھت بھی ہے۔ جی ہاں! جس کو قرآن نے ''حجر‘‘ کہا۔ اس عقل کے مرکزی مقام کو آج جدید ترین میڈیکل سائنس تلاش کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ دماغ کے اندر مگر دماغ سے الگ مذکورہ مقام ایسی جگہ ہے۔ جہاں دماغ کو مطلوب اہم ترین مواد کی پروڈکشن یعنی پیداوار ہوتی ہے۔ اس مواد کا نام Cerebrospinal Fluid ہے۔ ٹرانسپورٹیشن کا کام اسی جگہ سے ہوتا ہے۔ مذکورہ سسٹم مذکورہ فلوڈ کو پیدا بھی کرتا ہے اور پھر دماغ کو فراہم کرنے کا بھی پابند ہے۔ اس کا تعلق ریڑھ کی ہڈی سے بھی ہے کہ ایک مرکزی دریا اس پلازما کو فلوڈ کی شکل میں دماغ کی ہر اہم جگہ پر پہنچاتا ہے۔ یہ ایسا محلول ہے جو دماغ کے اردگرد بھی ہوتا ہے۔دماغ کی حفاظت کرتا ہے۔ دماغ کا نیورل نظام چوٹوں وغیرہ کی صورت میں متاثر ہو جائے تو یہ اس کو بھی سنبھالتا ہے۔ دماغ کی بنیاد (BASE) پر پریشر کر روکنے کا کام بھی کرتا ہے۔ یہ خود خون کے خصوصی طور پر شفاف (Filterd) طریقے سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کی اپنی پیداوار کا بھی ایک زبردست خصوصی نظام ہے۔۔۔۔۔ جی ہاں! عقل کا یہ مقام ''حجر‘‘ ہے۔ جس کا یہ سارا سسٹم ٹھیک ہو، صحتمند ہو‘ قرآن اسے '' ذی حجر‘‘ کہتا ہے کہ یہ عقلمند آدمی ہے۔ دانا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ساڑھے چودہ سو سال قبل مکہ میں کون سی یونیورسٹی تھی۔ جہاں جدید ترین مشینیں تھیں۔ ریسرچ تھی کہ جس کا رزلٹ قرآن میں آیا؟ لوگو! ماننا پڑے گا۔ جو کائنات کا خالق ہے وہی زمین پر موجود انسان کا خالق ہے۔ اسی عظیم خالق و مالک اور خبیر و قدیر نے اپنے آخری رسول حضرت محمد کریمؐ پر آخری کتاب قرآن کو نازل فرمایا ہے۔ قرآن سچی کتاب ہے اور حضرت محمد کریمﷺ صادق و مصدوق خاتم المرسلینؐ ہیں۔
حج کے مہینے کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس کے پہلے دن انتہائی بابرکت ہیں۔ حضورؐ کے فرمان کے مطابق ان دنوں میں کیا ہوا کوئی بھی نیک عمل اس قدر اللہ تعالیٰ کے ہاں بلند مقام رکھتا ہے کہ باقی دنوں میں ویسا ہی عمل ان دنوں کے عمل کا مقابلہ نہیں کر سکتا، لہٰذا! ان دنوں میں روزے، رات کا قیام، صدقہ و خیرات وغیرہ بڑے نصیب کی بات ہے۔ دس تاریخ کو حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی یادوں کو تازہ کرنے کا دن ہے یعنی قربانی کا دن ہے۔ حضورؐ کے فرمان کے مطابق اس دن اللہ تعالیٰ کو قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر کوئی عمل پسند نہیں۔ سورۃ الفجر میں ''ذی حجر‘‘ یعنی عقل والے آدمی کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے عاد نامی قوم کا ذکر کیا جو حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک نمایاں فرد جناب اِرَم کی اولاد سے تھی۔ یہ بڑے بڑے ستونوں والی بلڈنگیں بنانے والے ایسے ترقی یافتہ لوگ تھے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ان جیسے لوگ شہروں میں پیدا ہی نہیں کیے گئے۔ قومِ ثمود کا ذکر کیا کہ انہوں نے پہاڑ کھود کر عالیشان محلات بنا لئے تھے۔ اور فرعون تو ایسا حکمران تھا کہ جس کی باقاعدہ اس دور میں افواج تھیں جب عموماً باقاعدہ افواج نہ ہوتی تھیں۔ یہ سب اپنے اپنے وقت میں شہروں کے اندر ظلم و طغیان میں حد سے بڑھ گئے۔ خوب خوب فساد پھیلایا۔ چنانچہ! اے میرے رسولؐ !پھر تیرے رب کی سزا کا کوڑا اِن پر برس پڑا۔ تیرا رب بھی تو ایسے ظالموں کی گھات لگائے ہوئے ہے (چنانچہ یہ مکہ والے کہاں بھاگ کر جائیں گے۔ انسان نہ بنے تو اسی حشر سے دو چار ہوں گے)
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یتیموں اور مسکینوں کا حق یاد دلایا۔ اور خبردار کیا کہ مکہ کے ظالمو! یہ جو تم لوگوں کی چھوڑی ہوئی میراث‘ زمینوں پر قبضے وغیرہ کر کے ہڑپ کر جاتے ہو۔ تو وہ وقت آنے والا ہے جب یہ زمین ریزہ ریزہ کر دی جائے گی۔ نئی زمین پر اللہ کی عدالت قائم ہو جائے گی۔ فرشتے صفوں میں کھڑے ہوں گے۔ ظالم کہیں گے، اے کاش! ہم موت کے بعد زندہ نہ کیے جاتے۔ اب اللہ تعالیٰ ایسی سزا دیں گے کہ کسی نے نہ دی ہو گی۔ ایسا باندھیں گے کہ کسی نے نہ باندھا ہوگا۔۔۔۔۔ اب دِلی اور دماغی طور پر مطمئن نیک لوگوں سے اللہ تعالیٰ یوں ہم کلام ہوں گے: ''اے مطمئن جان! اپنے پالنہار مولا کے پاس آ جا۔ تو خوش ہے۔ تجھے خوش کیا گیا ہے۔ جا! میرے بندوں (نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین) میں چلی جا۔ جا! میری جنت میں داخل ہو جا‘‘ یا مولا کریم! ہمیں ایسا ایمان و کردار عطا فرما کہ موت کے وقت اور قیامت کے دن ہم بھی آپ کے مخاطبین میں شامل ہو جائیں۔ آمین!