بانکے رام کا والد برہمن ہندو تھا‘ بزنس مین اور سیٹھ۔ اس کا کاروبار اُتر پردیش سے بنگال کی راجدھانی کلکتہ تک پھیلا ہوا تھا۔ اعظم گڑھ میں اس کی رہائش تھی۔ 1943ء میں اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا۔ بچے کا نام بانکے رام رکھا گیا کہ مستقبل میں یہ رام جی کا ایسا پجاری ہو گا جو رام کی محبت میں بانکا اور جیالا ہوگا۔ بانکے رام نے 1960ء میں 16 سال کی عمر میں فرسٹ ایئر کی کلاس میں پڑھنا شروع کیا۔ اس دوران کالج کے ایک مسلمان طالب علم نے ایک چھوٹی سی کتاب بانکے رام کو مطالعہ کے لیے دی۔ کتاب سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کی تھی۔ اس کا نام ''دینِ حق‘‘ تھا۔ یہ ہندی میں مترجم تھی۔ بانکے رام نے کتاب پڑھ ڈالی مگر ایک آیت اسے پریشان کرنے لگی۔ ترجمہ: ''اللہ کے ہاں صرف اور صرف اسلام ہی دینِ حق ہے‘‘ حضرت سید مودودی نے دلائل کے ساتھ بات واضح کر دی تھی۔ بانکے رام مسلمان طالبعلم سے کہنے لگا کہ ہمارا ہندو مت تو یہ کہتا ہے کہ سارے مذاہب ہی ٹھیک ہیں۔ سب کا مقصد ''ایشور یعنی ایک اللہ‘‘ تک پہنچنا ہے۔ راستے الگ الگ ہیں‘ منزل ایک ہے لہٰذا میں ''دینِ حق‘‘ کا جواب دوں گا۔ بانکے رام خود کہتے ہیں کہ ''میں ہندو اساتذہ سے رہنمائی لینے گیا تو ''دینِ حق‘‘ کے دلائل کا جواب نہ مل سکا۔ پھر ہندو پنڈتوں اور علما کے پاس گیا‘ کوئی جواب نہ مل سکا۔ اب میں نے قرآن پڑھنے کا فیصلہ کیا۔ ہندی میں خواجہ حسن نظامیؒ کا مترجم قرآن مل گیا۔ میں نے سارا قرآن پڑھ ڈالا اور پھر مسلمان ہونے کا فیصلہ کر لیامگر یہ سوچ کر پریشان ہو جاتا کہ گھر اور مال و دولت کی تو کوئی بات نہیں لیکن شاید بہنوں سے ہمیشہ کے لیے محروم ہونا پڑ جائے۔ اسی شش و پنج میں تھا کہ سورۃ العنکبوت کی آیت نمبر 41 کے ترجمے نے میرے ذہن کو صاف کر دیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ''وہ لوگ کہ جنہوں نے اللہ کے علاوہ دوست بنا لیے ہیں‘ ان کی مثال مکڑی جیسی ہے جو ایک گھر تیار کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سب گھروں میں کمزور ترین گھرمکڑی ہی کا گھر ہے۔ کاش لوگوں کو یہ حقیقت معلوم ہو جائے‘‘۔ اب میں نے اسلام قبول کر لیا۔ میرا جینا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا گیا۔ آخر کار گھر چھوڑنا پڑ گیا۔ پھر شہر تو کیا‘ اعظم گڑھ کے گرد و نواح میں میرا پتا معلوم کر کے گھیرا جانے لگا۔ ڈیڑھ سال مشکل اور خوف میں گزرا۔ پھر میں جنوبی ہند چلا گیا اور صوبہ تامل ناڈو کے شہر عمر آباد کے مدرسہ دارالسلام میں داخل ہو گیا۔ پانچ سال یہاں تعلیم حاصل کی اور پھر 1966ء میں مدینہ یونیورسٹی میں پہنچ گیا۔ کلیہ یعنی کالج کے چار سال یہاں مکمل کیے‘ ان دنوں مدینہ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل لوگوں کو یورپ کے ملکوں میں اچھی خاصی تنخواہ پر بھیجا جا رہا تھا۔ مجھے بھی پیشکش ہوئی مگر میں نے یورپ کی فضائوں کے بجائے مکہ مکرمہ میں ایم اے کرنے کو ترجیح دی۔ میرا شوق مزید علم کا حصول تھا۔ یہاں مجھے داخلہ مل گیا اور یوں میں نے ''اُمُّ القُریٰ یونیورسٹی‘‘ سے دو سالوں میں حضرت ابو ہریرہؓ پر ایم اے کر لیا۔
میں نے مسلمان ہونے کے بعد اپنا نام محمد عبداللہ رکھ لیا تھا۔ لقب ضیاء الرحمان ہو گیا اور یوں ضیاء الرحمن الاعظمی کے نام سے معروف ہو گیا۔ پاکستان کے شہر کراچی کی فیملی جو یہاں رہائش رکھتی تھی‘ ان کے ہاں رشتہ طے ہوا۔ یوں میری اہلیہ کراچی کی یونیورسٹی سے ایم اے ڈگری ہولڈر ہیں۔ یہاں مجھے ''رابطہ عالم اسلامی‘‘ کے دفتر میں بطور سیکرٹری یا دفتر کے انچارج کا عہدہ دے دیا گیا۔ یہاں تنخواہ اور مراعات خطیر تھیں۔ پورے عالم اسلام کے ساتھ رابطے کے دفتر کا میں انچارج تھا مگر میرے علم کی پیاس نے مجھے مجبور کیا کہ میں ملازمت چھوڑ دوں چنانچہ میں نے ملازمت چھوڑی اور حضورﷺ کی احادیث میں ڈاکٹریٹ کے لیے جامعہ ازھر مصر جا پہنچا۔ میں حدیث کے علم میں اس لیے مقناطیس کی طرح کھنچتا چلا جا رہا تھا کیونکہ میں علمی اعتبار سے حضورﷺ کی قربت میں لطف حاصل کرنا چاہتا تھا‘‘۔
قارئین کرام! ضیاء الرحمن الاعظمی اب ڈاکٹر بن چکے تھے۔ وہ جونہی مدینہ منورہ واپس آئے تو انہیں مدینہ یونیورسٹی کے ''شعبہ حدیث‘‘ کا ڈین (انچارج یا سربراہ) بنا دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بانکے رام سے اب پروفیسر ڈاکٹر محمد عبداللہ ضیاء الرحمن الاعظمی بنا دیا تھا۔ وہ مدینہ یونیورسٹی میں متواتر 25 سال ڈین رہے۔ انہیں مدینہ منورہ کی شہریت بھی دے دی گئی‘ یوں وہ مدنی بن گئے۔ میرے اللہ کریم کی شان کہ باپ اپنے بیٹے کو رام کا بانکا بنانا چاہتا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے آخری رسولﷺ کی احادیث کا محب اور حضور نبی کریمﷺ کا متوالا بنانے کا فیصلہ فرما رکھا تھا۔ بے شک اللہ ہی کا فیصلہ غالب ہو کر رہتا ہے۔ ڈاکٹر ضیا کی قسمت یوں بھی منوّر ہوئی کہ مدینہ یونیورسٹی کے شعبہ حدیث میں پی ایچ ڈی کے مقالہ جات کے ڈاکٹر ضیاء نگران بن گئے‘ یوں دنیا میں نجانے کتنے پی ایچ ڈی ڈاکٹر ضیا کے شاگرد بن کر علمِ حدیث کو پھیلانے میں لگ گئے۔ یہ اللہ ہی کا فضل ہے جس پر چاہتا ہے‘ فرما دیتا ہے۔
ڈاکٹر پروفیسر ضیا الرحمن نے حضرت ابوہریرہؓ پر ایم اے کا جو مقالہ تحریر کیا‘ اس میں انہوں نے مسلمانوں کی گزشتہ تیرہ‘ چودہ سو سالوں کی تاریخ میں وہ علمی کارنامہ سر انجام دیا جو اب تک نہیں دیا گیا تھا۔ حضرت ابو ہریرہؓ کے بارے یہ تاثر دیا جاتا تھا کہ وہ دوس قبیلے سے تعلق رکھتے تھے‘ جو عرب کے دور دراز علاقے میں آباد تھا، یہ خیبر کی فتح کے موقع پر حضور اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پھر مدینہ منورہ کے باسی بن کر رہ گئے۔ ان پر اعتراض کیا جاتا تھا کہ خیبر 7 ہجری میں فتح ہوا تھا، یوں انہوں نے حضورﷺ کے ساتھ تقریباً چار سال کا عرصہ گزارا تو اتنی زیادہ احادیث ان سے کیسے مروی ہو گئیں۔ دشمنوں نے تو یہاں تک الزام لگایا کہ وہ احادیث خود ہی گھڑ لیتے تھے۔ (اللہ کی پناہ ایسے الزامات سے)۔ اصل بات یہ ہے کہ ان کا حافظہ اللہ کے رسولﷺ کا معجزہ تھا؛ امام بخاری ''کتاب العلم‘‘ میں حدیث لائے ہیں: حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضورﷺ سے عرض کی۔ اے اللہ کے رسولؐ! میں آپ سے بہت ساری احادیث سنتا ہوں اور پھر (کچھ) بھول بھی جاتا ہوں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا! اپنی چادر پھیلائو۔ میں نے چادر پھیلائی تو آپؐ نے اپنے مبارک ہاتھوں کا چلّو بنا کر اس میں ڈال دیا۔ پھر فرمایا: اسے اپنے پر لپیٹ لو۔ میں نے اس چادر کو اپنے اوپر اوڑھ لیا۔ اس کے بعد میں کوئی شے نہیں بھولا۔ (بخاری: 119) امام ذھبیؒ ''سیرت اعلام النبلاء‘‘ میں لکھتے ہیں کہ بنو امیّہ کے حکمران مروان بن عبدالملک نے ایک بار حضرت ابوہریرہؓ سے کہا کہ مجلس میں 100 احادیث بیان کریں اور کاتب بھی بٹھا دیا کہ وہ ان احادیث کو لکھے۔ ایک سال بعد پھر یہی کام کیا۔ حضرت ابوہریرہؓ نے وہی 100 احادیث بیان کر دیں۔ کاتب نے لکھیں۔ ایک لفظ کا بھی فرق نہ تھا۔ اللہ اللہ! حضور نبی کریمﷺ کا معجزہ مجسم سامنے آ گیا‘ اعتراض کرنے والے خاموش ہو گئے مگر بعض آج تک خاموش نہیں ہوئے۔ ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے بانکے رام کو ضیاء الرحمن بنا دیا کہ تازہ نورِ سیرت سے اعتراض کے اندھیرے کو دور کر دیا جائے۔
ڈاکٹر پروفیسر ضیاء الرحمن فرماتے ہیں کہ صحاح سِتّہ اور مسند احمد یعنی سات حدیث کی کتابوں میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی احادیث کی کل تعداد 5375 ہے۔ اور یہ تعداد سند کے اعتبار سے ہے‘ یعنی اپنے الفاظ میں حدیث ایک ہے مگر بیان کرنے والے راویوں کی لڑی مختلف ہے۔ اگر ایسی سات لڑیاں ہیں تو ایک حدیث کو سات احادیث کہہ دیا جاتا ہے۔ یوں متن کے اعتبار سے زیادہ سے زیادہ دو ہزار احادیث ہیں۔ ان میں صحیح بھی ہیں اور ضعیف بھی۔ میں نے جب ضعیف کو علیحدہ کیا تو تعداد ڈیڑھ ہزار رہ گئی اور یہ وہ احادیث ہیں کہ ان میں سے ہر حدیث کے راوی دیگر صحابہ بھی ہیں۔ اس قدر کہ ہر حدیث کے کم و بیش 20 صحابہ تک راوی ہیں۔ حضور نبی کریمﷺ کے ساتھ حضرت ابوہریرہؓ کے بیتے ہوئے دن گنے گئے تو اوسط دو احادیث یومیہ بنتی ہیں۔ اب یہ تعداد تو انتہائی کم ہے۔ یوں حضرت مولانا ضیاء الرحمن نے اعتراض کرنے والوں کا منہ ‘جو صدیوں سے بے بنیاد پروپیگنڈا کر رہا تھا، اپنے منفرد تحقیقی انداز میں منہ بند کر دیا۔ سبحان اللہ!
قارئین کرام! ڈاکٹر پروفیسر ضیاء الرحمن مدینہ یونیورسٹی سے ریٹائر ہوئے تو مدتِ ملازمت میں اضافے کی پیشکش موجود تھی مگر انہوں نے فائدہ نہ اٹھایا اور ایک اور فیصلہ کیا۔ انہوں نے مسجد نبوی کے پڑوس میں رہائش اختیار کر لی۔ حکومت کی پیشکش پر انہوں نے حضورﷺ کی مسجد میں بخاری و مسلم کا درس شروع کر دیا۔ وہ مذاہب اور فرقوں کے ماہر تھے‘ انہوں نے یہودیت اور نصرانیت پر بھی کتاب لکھی۔ ہندوئوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے ہندی میں ''قرآن کی شیتل شایہ‘‘ نامی کتاب لکھی جسے پڑھ کر بے شمار ہندو مسلمان ہو چکے ہیں اور بھی بہت ساری علمی اور دعوتی کتابیں ہیں مگر ان کی زندگی کا آخری معرکہ آراء کارنامہ حدیث کی ایک ایسی کتاب ہے جسے انہوں نے 20 سال کی عرق ریزی اور دن رات کی محنت کے ساتھ مسجد نبوی کے پڑوس میں لکھا۔ پانچویں صدی ہجری تک حدیث کی جس قدر کتابیں لکھی گئیں‘ ان سب کتابوں میں سے صرف سند کے اعتبار سے صحیح احادیث کو ایک جگہ یکجا کر دیا گیا اور 12 جلدوں پر پہلا ایڈیشن شائع ہوا۔ مولانا عبدالمالک مجاہد (دارالسلام) نے اسے شائع کیا۔ کوئی پانچ سات سال پہلے لاہور میں اس کی رونمائی ہوئی۔ اس تقریب میں بارہ علما سے افتتاح کروایا گیا‘ مجھ مسکین کی خوش قسمتی کہ ان میں ایک میں بھی تھا۔ فلِلّٰہ الحمد! اب اس کا تازہ ایڈیشن بھی آ چکا ہے۔ اس کی 18 جلدیں ہیں۔ گزشتہ 14 صدیوں میں یہ پہلا علمی کام ہے کہ تمام احادیث جو سند کے اعتبار سے صحیح ہیں‘ ایک کتاب میں آ گئی ہیں۔ یہ آخری کام کر کے مولانا ضیاء الرحمن امسال ذوالحج کے مہینے کی 9 تاریخ کو یعنی ابھی جو عرفہ کا دن گزرا ہے‘ اس دن ظہر کے وقت اپنے اللہ سے جا ملے۔ مسجد نبوی میں ان کا جنازہ ہوا اور جنت البقیع میں انہیں دفن کیا گیا۔ عالمِ اسلام کا عظیم محدث‘ ہم سے رخصت ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ انہیں فردوس عطا فرمائے، آمین!
آخر پر ایک گزارش اور خواہش ہے کہ اللہ کے رسولﷺ اور آپؐ کے محبوب صحابی حضرت عبدالرحمن ابوہریرہؓ سے محبت کا ایک علمی تحفہ ہمارے پاس موجود ہے۔ اگر حکومت پاکستان‘ دارالسلام یا کوئی اور ادارہ اس عظیم کتاب ''الجامع الکامل فی الحدیث الصحیح الشامل‘‘ کا اردو ترجمہ کر دے۔ ساتھ شرح ہو اور جدید حالات کے مطابق سائنسی اور تاریخی حقائق بھی تو یہ بہت بڑی خدمت ہو گی۔ اس پر محقق علما کا ایک بورڈ کام کرے۔ آخرت کا یہ خزانہ ہے اور حضورنبی کریمﷺ کی شفاعت کے حصول کے لیے ایک مبارک عمل۔ دیکھتے ہیں اللہ تعالیٰ کس کو توفیق عطا فرماتے ہیں۔