"AHC" (space) message & send to 7575

روح کا آنا جانا، اسلام اور سائنس کی روشنی میں

الحمد للہ! پاکستان کورونا کی وبا سے کافی حد تک نکل گیا۔ خراجِ تحسین ان ڈاکٹرز کے لیے کہ جنہوں نے اپنی جانوں کی پروا نہ کی اور وہ اپنے اللہ کے پاس چلے گئے۔ بہت سارے پاکستانی اس وبا کی وجہ سے دنیائے فانی سے لافانی جہان میں چلے گئے۔ اللہ تعالیٰ سب کو جنت کے اعلیٰ درجات عطا فرمائے، آمین۔ ہمارے وزیر داخلہ محترم اعجاز شاہ کے دو بھائی‘ ان دنوں وفات پائے گئے۔ حسن شاہ قریباً63 سال کی عمر میں فوت ہوئے اور طارق شاہ 65 سال کے تھے۔دونوں بھائی ایک ماہ کے اندر اپنے اللہ کے پاس چلے گئے۔ اے مولا کریم! سب کو اپنے پیارے رسولﷺ کے فرمان کے مطابق‘ شہادت کا مقام عطا فرما اور پیچھے رہ جانے والے عزیزوں کو صبر جمیل عطا فرما ، آمین! 
یاد رہے! صبر تو ایمان اور عقیدے سے ملتا ہے۔ مدینہ منورہ میں ہجرت کے دسویں سال حضرت محمد کریمﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیمؓ کا وصال ہوا، تب ان کی عمر 18 ماہ تھی۔ انہیں جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیمؓ کو حضورﷺ کے ہاتھوں میں آخری سانسیں لیتے ہوئے دیکھا، اس منظر کو دیکھ کر حضورﷺ کی چشمِ مبارک سے چھم چھم آنسو گرنے لگے۔ آپﷺ نے فرمایا: آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں، دل غمگین ہے مگر زبان سے جملہ وہی بولیں گے جس پر ہمارا رب خوش ہو جائے۔ باقی اللہ کی قسم! اے ابراہیم! تیری جدائی سے ہم غمگین بہت ہیں۔ (بخاری و مسلم : 2315)
حضور اکرمﷺ نے فرمایا: جنت میں ابراہیمؓ کے لیے ایک دودھ پلانے والی کو متعین کر دیا گیا ہے ۔ (بخاری: 6195) یعنی جو مومن اور مومنہ اس دنیا سے جاتے ہیں‘ وہ جنت میں جاتے ہیں۔ چونکہ حضرت ابراہیمؓ کے دودھ پینے کی مدت کے دو ماہ باقی تھے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب ﷺکو خبر کر کے تسلی دی کہ آپ کا لخت جگر ہمارے پاس ہے‘ جنت کے باغوں میں ہے اور ''حورِعین‘‘ اس کو دودھ پلا رہی ہے۔
ڈاکٹر مروان صبّاغ لاس ویگاس (امریکہ) میں دماغی ہیلتھ سنٹر کلیولینڈ کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں: The brain truly is the last frontier in Medical Science ، یعنی میڈیکل کے جہان میں دماغ وہ اہم چیز ہے جو آخری سرحد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس سرحد کو جو پار کر جاتا ہے‘ وہ اس دنیا میں نہیں رہتا، کسی اور جہان میں چلا جاتا ہے۔ آخری سرحد کہنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ انسان کی جسمانی مملکت کی آخری حد دماغ ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا مذکورہ جملہ 12 جولائی 2020ء کو مضمون نگار ''انتھیاروون‘‘ نے شائع کیا ہے۔ ہانگ کانگ سے تعلق رکھنے والے عالمی ماہرِ دماغ ڈاکٹر وونگ کہتے ہیں کہ دماغ کے ایک عدد ٹشو کا ٹکڑا جو ریت کے دانے کے برابر ہوتا ہے، اس میں ایک لاکھ نیورون ہوتے ہیں۔ یہ سب ایک دوسرے کے ساتھ پیغام رسانی کرتے ہیں۔ دو نیورون کے رابطے سے پیغام رسانی کا Synapse بنتا ہے۔ دماغ میں ان کی تعداد کوئی 100 ٹریلین ہوتی ہے۔ پیغام رسانی کے وقت یہ جتنی انرجی پیدا کرتے ہیں، اس سے 25 واٹ کا ایک بلب روشن ہو سکتا ہے یعنی ایک انسان کا دماغ صرف 25 واٹ کی انرجی سے کام کر رہا ہے۔
دماغی سائنس دان کہتے ہیں کہ اگر دماغ جیسی صلاحیتوں کا حامل کمپیوٹر بن جائے تو اس کو نصب کرنے کے لیے جگہ بھی ایکڑوں میں درکار ہو گی جبکہ اس کو چلانے کے لیے جو بجلی یا انرجی درکار ہو گی وہ اس قدر ہو گی کہ جس سے پانچ لاکھ گھروں کی بجلی کی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں۔ ہر گھر میں اگر اوسطاً پانچ افراد رہتے ہوں تو 25 لاکھ افراد جتنی بجلی استعمال کریں گے‘ اتنی بجلی سے مذکورہ کمپیوٹر چل سکے گا۔۔۔۔ دوسری جانب اللہ تعالیٰ کا کمپیوٹر جو ہر انسان کے دماغ میں ہے‘ صرف ایک بلب کی انرجی سے چل رہا ہے۔ یہ اتنا بڑا معجزہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی خلّاقی کا حیران کن اظہار ہے کہ آج کے سائنسی دور میں اللہ تعالیٰ کی عظمت کے سامنے سر جھکانے اور ''سبحان اللہ العظیم‘‘ کہنے کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
قارئین کرام! Zero to three کے نام سے ایک عالمی ادارہ ہے جس کے تحت دنیا بھر کے دماغی ماہرین کی ہر سال کانفرنس بھی ہوتی ہے اور سال بھر جدید ترین تحقیقات کے تبادلے بھی ہوتے رہتے ہیں۔ ان کی ایک مشترکہ ریسرچ 16 اگست 2020ء کو شائع ہوئی ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ :
In just the fifth week after conception, the first synapses begin forming in a fetus's cord. 
(پانچویں ہفتے (35 دن کے بعد) بچے کے مرکزی اعصابی نظام کا جو ڈھانچہ‘ جو ریڑھ کی ہڈی کے اندر واقع ہے اور جسم کے ہر حصے کو دماغ سے ملاتا ہے‘ اس میں Synapses بننا شروع ہو جاتے ہیں)
قارئین کرام! یہاں پھر یاد دہانی کروا دوں کہ صحیح مسلم اور حدیث کی دیگر کتابوں میں یہ حدیث موجود ہے کہ ''عجب الذنب‘‘ یعنی ریڑھ کی ہڈی کے آخری سرے پر ایک ذرہ ہے کہ انسان کا سارا وجود مٹی میں ختم ہو جاتا ہے مگر یہ ذرّہ ختم نہیں ہوتا کیونکہ انسان کو اسی سے پیدا کیا گیا اور قیامت کے دن اسی سے اٹھایا جائے گا۔ اب حضور نبی کریمﷺ کا فرمان اور اس کی عظمت ملاحظہ ہو کہ اسی سے انسان کے دماغ میں پہلی روشنی ہوتی ہے اور رابطے بنتے ہیں۔ مزید آگے بڑھیں، سائنس کہتی ہے:
By the sixth week, these early neural connections permit the first fetal movements spontaneous arches and curls of the whole body, that researchers can detect through ultrasound imaging.
(جب چھٹا ہفتہ ہوتا ہے تو (42 دن کے بعد) نیورون کے یہ ابتدائی کنکشن بچے کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ خود بخود محرابی اور کمان دار حرکت کرے۔ اب سارا جسم حرکت کرتا ہے۔ جسے ریسرچرز الٹراسائونڈ کی تصاویر میں ملاحظہ کر سکتے ہیں)
قارئین کرام! یہ حرکت خود بخود نہیں... اللہ تعالیٰ ان سائنس دانوں کو ہدایت عطا فرمائے؛ اجازت کی بات بھی کرتے ہیں اور خود بخود کی بات بھی کرتے ہیں۔ ارے! خود بخود کے پیچھے اجازت ہے اور وہ اجازت نیورون کے درمیان پیغام رسانی کے Synapses نے دی ہے تو یہ کہاں بنے ہیں؟ ان کا آغاز ریڑھ کی ہڈی کے آخر سے ہوا ہے اور ہمارے تمہارے حضور‘ حضرت محمد کریمﷺ فرما رہے ہیں کہ انسان کے جسم کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے۔ پھر یہ چھٹے ہفتے ہو رہا ہے یعنی ٹھیک 42 دن کے بعد ہو رہا ہے اور یہی بات حضورﷺ بتاتے ہیں کہ 42 دن کے بعد روح پھونکی جاتی ہے۔ساڑھے چودہ سو سال قبل حضرت محمد کریمﷺ کو مذکورہ حقائق کس نے بتائے؟ جی ہاں! اللہ تعالیٰ نے بتائے جو اس کائنات کا واحد خالق و مالک ہے۔ اسی کے بھیجے ہوئے فرشتے روح پھونک کر زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔
وہ لوگ جن کا دل بند ہو جاتا ہے مگر دماغ کا ایک حصہ موت سے ہمکنار نہیں ہوتا تو وہ چونکہ حتمی طور پر مرے نہیں ہوتے لہٰذا ان میں سے کئی لوگ اگلے جہان کے بعض مناظر دیکھ کر ہوش میں آ جاتے ہیں ان کو NDES‘ یعنی موت کی قربت کے تجربات کے حامل اشخاص کہا جاتا ہے۔ ان کے بارے میں یکم جون 2020ء کے ''Scientific American‘‘ نے لمبی چوڑی تحقیقات کے بعد کہا کہ مختصر بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے حقیقی زندگی سے بڑھ کر حقیقت افروز مناظر دیکھے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جو مر کر جنت میں گئے‘ وہ کس قدر حقیقت پسند اگلے جہان کے مزے اڑا رہے ہوں گے۔ 
سام پارنیا 30 دسمبر 2019ء کے اپنے مضمون میں لکھتے ہیں: موت کو قریب دیکھ کر جن کی واپسی ہوتی ہے‘ ان میں مشترکہ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں جن لوگوں کے ساتھ انتہائی اچھا، شاندار اور با عزت سلوک کیا گیا‘ وہ ایسے لوگ تھے جو انسانیت کی خدمت میں پیش پیش تھے، رحم دل تھے۔ جب کسی انسان کو ان کی ہمدردی کی ضرورت تھی تو ان کا رد عمل With Humanity & Kindness تھا...سبحان اللہ! یہی بات تو حضور نبی کریمﷺ نے فرمائی: تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔ کورونا کے مریضوں کی خدمت کرتے ہوئے جو ڈاکٹرز فوت ہوئے؛ آخر پر پھر ان کو خراجِ تحسین ، ان دعائوں کے ساتھ کہ اے مولا! ان کو اپنی رحمت کی آغوش میں لے لے، آمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں