اللہ تعالیٰ نے ''سورۃ النور‘‘ میں اپنے بندوں کو ایک اعلیٰ ترین اخلاقی روشنی کی جھلک یوں دکھائی ہے کہ ''خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لائق ہیں جبکہ خبیث مرد خبیث عورتوں کے لائق ہیں... اور پاک خواتین پاک مردوں کے لائق ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لائق ہیں‘‘ (النور:26)
جی ہاں! وہ ناپاک اور خبیث جو باہمی رضا مندی سے کارِ گناہ کرتے ہیں‘ ان کا معاملہ الگ ہے۔ ہماری آج کی گفتگو ان پاکباز اور غیرت مند خواتین کے بارے میں ہے جن کی عزت کو جبر اور بدمعاشی سے پامال کیا جاتا ہے۔ صرف پچھلے چھ ماہ میں میرے وطن عزیز کی ہزاروں عفت مآب بیٹیوں کو خبیث اور ناپاک لوگوں نے زبردستی اور اسلحہ کے زور پر پامال کیا ہے۔ یہ غرت مند اور شرم و حیا والی پاکیزہ بچیاں اور خواتین نفسیاتی مریض بن جاتی ہیں۔ آج کا کالم سائنس اور آخر پر قرآن و حدیث کی روشنی میں ایسی مظلوم خواتین کو یہ حوصلہ دے گا کہ ان پر جو ناپاک حملہ ہوا اس کا صلہ اور بدلہ بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں ملے گا اور ایک نیا جسم بھی ملے گا جو انتہائی پاکیزہ ہو گا جبکہ دنیا میں جو موجودہ جسم ہے‘ سائنسی طور پر دیکھیں تو یہ بھی تبدیل ہو جاتا ہے‘ کیسے؟ آئیے! جائزہ لیں۔
جدید میڈیکل سائنس کے مطابق ایک انسان کے جسم میں خلیات کی تعداد 100 کھرب کے قریب ہوتی ہے۔ ہر خلیے میں ایک انسان بننے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس لحاظ سے یوں کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اپنے جسم میں ایک سو کھرب انسان اٹھائے پھرتا ہے۔ اب ان خلیات یا اس قدر کثیر تعداد میں مخلوق کی پنیری کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ اپنے جسم میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کا نظارہ دیکھیے۔ ہر سیکنڈ میں ایک ارب خلیے مر جاتے ہیں اور اس کی جگہ پر ایک ارب خلیے نئے بن جاتے ہیں یعنی ایک انسان کے جسم میں ہر سیکنڈ میں ایک ارب خلیات کا قبرستان بن رہا ہے۔ زمین پر انسانوں کی آبادی ساڑھے سات ارب ہے یعنی ساڑھے سات سیکنڈ میں اتنے خلیات مر جاتے ہیں جتنے انسان اس وقت زمین پر موجود ہیں۔ اللہ اللہ! ایک انسان کا جسم اتنی بڑی کائنات ہے کہ بے چارا انسان اس سے بے خبر ہے۔
سو کھرب خلیات کو ایک غلاف نے لپیٹ رکھا ہے اسے جِلد یا کھال کہا جاتا ہے۔ اس جلد کا بیرونی حصہ ایک مہینے میں مکمل طور پر تبدیل ہو جاتا ہے۔ پرانے خلیات مر جاتے ہیں‘ نئے پیدا ہو جاتے ہیں یعنی جسم کی جس کھال کے ساتھ ناپاک کھلواڑ کیا گیا‘ ایک مہینے کے اندر وہ جِلد مر گئی۔ اب ایک نئی جلد ہے جو کسی ناپاک ہاتھ کے لمس سے پاک ہے۔ ہر پانچ دن کے بعد نیا معدہ ہوتا ہے‘ ہر تین ہفتے کے بعد نئے پھیپھڑے ہوتے ہیں۔ روزانہ ایک سو کے قریب انسانی جسم سے بال گرتے ہیں تا کہ نئے بن جائیں۔ سر کے بال بڑھتے بڑھتے بالکل نئے ہو جاتے ہیں‘ پہلے والے ختم ہو جاتے ہیں۔ سرخ خون کے خلیات چار ماہ میں مکمل طور پر نئے بن جاتے ہیں۔ ایک سال سے بھی کم وقت میں انسانی جگر بالکل نیا ہوتا ہے۔ ہر چھ ماہ بعد ناخن مکمل طور پر نئے ہوتے ہیں۔ ہڈیوں کا مکمل ڈھانچہ ہر دس سال بعد نیا ہوتا ہے۔ 15 سال بعد تمام عضلات نئے ہوتے ہیں۔ جہاں تک دل کا تعلق ہے وہ ولادت سے وفات تک وہی رہتا ہے‘ صرف نصف کے قریب تبدیل ہوتا ہے... اور جسم کا وہ واحد حصہ جو تبدیل نہیں ہوتا‘ وہ آنکھوں کا عدسہ ہے۔ جہاں تک دماغ کے خلیات کا تعلق ہے وہ بھی مرتے ہیں مگر ان کی جگہ پر نئے خلیے نہیں بنتے۔ ان کی جگہ ریزرو فورس آ جاتی ہے۔ آنکھ کا عدسہ روشنی کو دماغ میں بھیجتا ہے‘ یوں کسی چیز کو دیکھنے کا عمل دماغ میں ہی انجام پاتا ہے۔
قارئین کرام! مجھے شرم و حیا میں لپٹا ہوا ایک فون آیا تھا‘ اس میں ایک سوال تھا۔ میں نے اسی سوال کو سامنے رکھتے ہوئے جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ دن میں دس‘ بیس بار غسل کرنے سے نفسیاتی پیچیدگی پیدا ہو جائے گی۔ غسل دن میں ایک بار کافی ہے۔ اصل غسل وہ ہے جس کا انتظام اللہ تعالیٰ نے فرما رکھا ہے۔ سارا انسانی جسم قدرتی اور طبی لحاظ سے غسل سے یوں گزرتا ہے کہ نیا ہوتا چلا جاتا ہے۔ انسانی جلد 21 دن بعد مکمل طور پر تبدیل ہو جاتی ہے۔ پہلی مر جاتی ہے، نئی بن جاتی ہے لہٰذا اپنے آپ کو نیا اور پاکیزہ سمجھیں۔ خود کشی کا فعل آخرت کی بربادی ہے‘ اپنے آپ کو دلیر بنائیں۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کے لیے جبّار و قہّار ہے‘ مظلوموں کے لیے مہربان ہے۔ دنیا کی زندگی ایک آزمائش ہے۔ اس آزمائش کا بے پناہ اجر ہے۔
دنیا کے مہذب ملکوں کی عدالتوں میں ذہنی ٹارچر اور اذیت کا ہرجانہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ حضور نبی کریمﷺ کے فرمان کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی اس کا بہت بڑا اجر ہے۔ قرآن سننے سے ذہنی اور جسمانی، روحانی اور نفسیاتی شفا ملتی ہے۔ قرآن سنیں‘ ذہن کے نروز اور SYNAPSE تازہ ہو جائیں گے۔ شیطان بھی وسوسے ڈال کر پریشان کرتا ہے‘ اس کا بھی علاج اللہ کے رسولﷺ نے بتایا ہے کہ بائیں کندھے پر تین بار تھو تھو کر دیں اور تین بار اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھ لیں۔ اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہو گی (ان شاء اللہ) معوذتین (آخری دو قُل شریف) بھی کثرت سے پڑھیں‘ یہ شیطان کو بھگانے کا تیر بہدف نسخہ ہے۔
مظلوم خاتون کے ساتھ موٹروے پر جو خوفناک سانحہ پیش آیا‘ اس سے چند دن قبل جمعہ کے روز‘ رات بارہ بجے میں تقریباً وہیں سے گزرا‘ میرے ساتھ میری اہلیہ تھیں۔ وزیر آباد میں ایک بیٹی کا نکاح پڑھا کر واپس آ رہا تھا۔ دیکھتا ہوں کہ مخالف سمت سے ایک دراز قد خاتون‘ جو پچیس یا تیس سال کی ہو گی‘ نئے نویلے کپڑے پہنے ہوئی تھی‘ اچانک نمودار ہوئی۔ مجھ سے اگلی کار نے اسے بمشکل بچایا۔ ہم بھی اس کے پاس سے گزرے‘ حیران تھے کہ رات کے بارہ بجے یہ عورت یہاں کیوں؟ کیا کسی نے ظلم کر کے اتار دیا؟ یا پھر یہ کسی شکار کی تلاش میں ہے۔ آگے گئے تو ٹول پلازہ پر 25 یا 30 پولیس اہلکار تھے۔ یہاں سے آگے بڑھ کر جب رنگ روڈ پر اترنے لگے تو دو عدد گاڑیاں ذرا فاصلے پر کھڑی تھیں۔ پہلی گاڑی کے پاس سے ہم گزر کر نیچے اترے تو اگلی گاڑی ‘جس نے پارکنگ لائٹس جلا رکھی تھیں‘ بھاگ کھڑی ہوئی۔۔۔۔۔ اب مجھے سمجھ آئی کہ یہ شکار پھانسنے کے چکر میں ایک پورا گینگ اور مجرموں کا منظم ٹولہ ہے۔
چوہدری شفیق گجر صاحب ہمارے دوست ہیں‘ محترم خالد صاحب بھی پاس بیٹھے تھے۔ اسی موضوع پر گفتگو شروع ہوئی تو محترم شفیق صاحب کہنے لگ: بڑی عید کی چاند رات کو میں عبدالحکیم موٹروے سے لاہور آتا ہوا جب شرقپور ٹول پلازے کے قریب آیا تو گاڑیاں واپس مُڑ کر آ رہی تھیں۔ پتہ چلا ڈاکو لوٹ رہے ہیں۔ میں آگے بڑھا‘ میرے پاس گن موجود تھی‘ اس کے برسٹ چلائے تو ڈاکو بھاگ گئے۔ پتا چلا تیس کاروں کو لوٹ کر چلے گئے۔ الغرض! دیہاتوں، شہروں، سڑکوں اور موٹرویز پر لاقانونیت دندنا رہی ہے۔ پنجاب پولیس بُری حکمرانی کی وجہ سے باہم نفرتوں کا شکار ہو چکی ہے۔ حسد اور بدگمانی ناچ رہے ہیں مگر اس کی قیمت شہری دے رہے ہیں۔ مظلوم خاتون کے سانحے کے مجرموں کی نشاندہی پنجاب فرانزک لیب کی رپورٹ سے ہوئی ہے۔ جو بڑا مجرم تھا‘ وہ پولیس کو دھکا دے کر دس فٹ کے فاصلے سے بھاگ جاتا ہے۔ ایسی خبروں سے حکمرانی کے پلّے کچھ نہیں بچتا۔ باقی بچتا ہے تو مجرموں کی پشت پناہی کا الزام بچتا ہے اور وہ لمبے عرصے سے ہے، مگر اب تو حد ہو گئی ہے۔
میں نے مذکورہ کالم اس لیے لکھا ہے کہ حکمرانوں کو آگاہ کر دوں کہ ایک ہی جسم کے خلیات روزانہ مر رہے ہیں اور نئے بن رہے ہیں۔ قیامت کے دن ایک سو کھرب خلیوں میں سے ایک خلیہ جو حضور نبی اکرمﷺ کے فرمان کے مطابق ریڑھ کی ہڈی کے آخری سرے پر ہو گا‘ باقی رہے گااور اسی سے انسان نیا بن کر کھڑا ہو جائے گا۔ فلم چلنا شروع ہو جائے گی کہ کون کون سا محافظ تھا جو راہبر کے بجائے راہزن کا کردار ادا کر رہا تھا۔ پھر سچ کی سب رپورٹیں آشکار ہو جائیں گی۔ آہ! کیسا خوفناک دن ہو گا۔البتہ مظلوموں کو اجر عظیم سے نوازا جائے گا۔ حضور اکرمﷺ کے فرمان کے مطابق (رحمتوں بھرے) اجر اور نعمتوں کو مظلوموں پر‘ جو مظالم اور مصائب کا شکار ہوں گے‘ انڈیلا جائے گا اور ظالموں کو فرشتے پائوں اور سر کی چوٹیوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے جہنم میں پھینک دیں گے۔
صحیح بخاری و صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کے فرمان کے مطابق‘ ہر مسلمان مرد اور عورت جو جنت میں جائیں گے‘ ان کا قد ساٹھ ہاتھ (قریباً نوے فٹ) ہو گا۔ ترمذی میں ہے: ان کی ڈاڑھی اور مونچھ نہ ہو گی، سدا جوانی رہے گی، کپڑے میلے اور پرانے نہ ہوں گے۔ طبرانی کبیر میں ہے: عمر 30 سال ہو گی، قد حضرت آدمؑ جتنا ہوگا، شکل حضرت یوسف علیہ السلام جیسی حسین ہو گی۔دل حضرت ایوب علیہ السلام جیسا ہوگا( حدیث کی سند حسن ہے)۔ صحیح مسلم میں ہے: بیماری، بڑھاپا اور موت نہ ہوگی۔ بخاری و مسلم میں ہے: اہل جنت کے چہرے چودھویں کے چاند اور روشن ستاروں کی طرح روشن ہوں گے، نہ وہاں پیشاب ہو گا، نہ پاخانہ (فضلہ) ہو گا۔ تھوک اور بلغم بھی نہ ہو گی۔ پسینہ کستوری کا ہو گا اور کنگھیاں سونے کی ہوں گی۔ انتہائی خوشبودار لکڑی (عود) کی انگیٹھی ہو گی جو متواتر خوشبو بکھیرتی رہے گی۔ خواتین حورِ عین ہوں گی۔ مسند بزار میں صحیح سند کے ساتھ ہے کہ وہاں نیند نہ ہو گی۔ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا! نیند موت کا بھائی ہے (اور وہاں موت کا شائبہ تک نہ ہو گا)۔ صحیح بخاری میں ہے کہ جنت کی خواتین میں سے کوئی اگر زمین پر نظر ڈال لے تو زمین اور آسمان کا درمیان روشن ہو جائے؛ چنانچہ اسے بہنو اور بیٹیو! حکمرانوں کی بے حسی پر مایوسی کی سرنگ میں جانے سے اپنے آپ کو بچانا ہے۔اللہ کریم سے لَو لگائو۔ یہاں بھی جسم نئے سے نیا ہو رہا ہے‘ قیامت کے دن بھی نیا نویلا ہو جائے گا۔ مظلومیت کا اجر بے حساب ملے گا۔
آخر پر اس دعا کے ساتھ اختتام کہ اے مولا کریم! میرے پیارے وطن عزیز کے حکمران ایسے بنا دے کہ جو حضرت فاروق اعظمؓ کی طرح کہیں کہ اگر فرات کے کنارے اونٹنی کا بچہ بھی پیاس سے مر گیا تو عمر کو پوچھا جائے گا۔ مولا کریم! ایسے حکمران جو باتیں کریں تو پہلے کردار دکھا کر بات کریں‘ مجرموں کو لٹکا کر بات کریں تا کہ ہرپاکباز بیٹی اور بہن محفوظ ہو جائے۔ آمین!