اللہ کے رسول حضرت محمد کریمﷺ کی حُرمت کا تحفظ کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ آج بارہ ربیع الاول کے موقع پر‘ وہ کیا اقدامات ہو سکتے ہیں کہ جن کے کرنے سے اللہ کے حبیبﷺ کے حوالے سے دریدہ دہنی کا کوئی سوچ بھی نہ سکے۔ فی زمانہ! اس سے بڑھ کر غور و فکر کا کوئی مسئلہ نہیں۔ یاد رہے! ماضی قریب میں یورپ کے جس ملک میں بھی توہین کی گئی‘ وہاں کی حکومت نے آزادیٔ اظہار کے قانون کا بودا سہارا لیا کہ ہم اپنے ملکی قانون کے پابند ہیں‘ لہٰذا کیا کر سکتے ہیں؟ اس پر مسلمانوں نے ہولوکاسٹ وغیرہ کے حوالے دے کر یورپ کے حکمرانوں کو دلائل کے میدان میں لاچار کیا اور دنیا بھر میں حضورﷺ کی عزت و حرمت کے تحفظ کے لیے احتجاج کیا،سیرت کے پیغامات عام کیے۔ کچھ دنوں اور ہفتوں کے لیے اس ملک کی پروڈکٹ کا بائیکاٹ بھی کیا؛ چنانچہ جس ملک میں ایسی جسارت کی گئی تھی‘ اس میں یہ سلسلے بند ہو گئے مگر دو‘ تین‘ چار سال کے وقفوں کے بعد یہ سلسلہ پھر شروع ہو جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلمان حکمرانوں نے اس پر کوئی کردار ادا نہ کیا ہو۔ سب نے کردار ادا کیا مگر انفرادی طور پر‘ گستاخوں پر حملے بھی ہوئے وہ ہلاک، مُردار اور برباد بھی ہوئے جیسا کہ فرانس کے میگزین چارلی ایبڈو پر حملہ ہوا تھا اور عملہ مارا گیا تھا، اب بھی پیرس کے نواح میں ایک بدبخت گستاخ کو چیچنیا نژاد فرانسیسی باشندے عبداللہ نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس کے بعد فرانس کے صدر میکرون نے پہلی بار گستاخانہ خاکوں کو سرکاری عمارتوں پر لٹکایا یعنی نفرت انگیز مہم کو سرکاری اور حکومتی سرپرستی میں لے کر جس ملک اور جس فرد نے علانیہ مجرمانہ حرکت کا ارتکاب کیا‘ وہ فرانس اور اس کا صدر ہے، لہٰذا اب ضروری بلکہ لازم اور فرض ہو گیا ہے کہ حرمتِ رسولﷺ کے تحفظ کا وہ کام جو مسلمانوں کی تنظیموں کی سطح پر ہو رہا تھا‘ وہ مبارک کام اب عالمی سطح پر مسلم ممالک کی جانب سے حکومتی سطح پر کیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب اگر ایسا نہ کیا گیا تو سارے عالمِ اسلام کے حکمران اپنے اللہ کے سامنے مجرم ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ پاکستان میں تحریکِ حرمتِ رسولﷺ نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اس پر میں نے دو کتابیں ''رویے میرے حضورﷺکے‘‘ اور ''میں نے بائبل سے پوچھا قرآن کیوں جلے؟‘‘ تحریر کیں۔ دونوں کتابوں کے عربی اور انگریزی ترجمے شائع ہوئے۔ان کتابوں پر خراجِ تحسین کے خطوط‘ جو مجھے جناب آصف علی زرداری، میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف نے لکھے، میرے پاس موجود ہیں۔ سعودی عرب کے وزیر تیل، وزیر اطلاعات محمد علی تسخیری صاحب پاکستان آئے تو وہ بھی ''تحریک حرمتِ رسولﷺ‘‘ کی کوششوں سے واقف تھے، کہنے لگے: مجھے بھی آپ اپنی تحریک کا ممبر سمجھیں۔ الغرض! جہاں تمام دینی اور مسلکی جماعتوں کی اس میں نمائندگی تھی‘ وہاں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون، تحریک انصاف، اے این پی، مسلم لیگ قاف سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کی بھی نمائندگی تھی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ حضورﷺ کی حرمت کے تحفظ پر سب مسلمان ایک ہیں۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا اب معاملہ برابر کی چوٹ پر آنا ضروری ہے۔ فرانس کے صدر نے حکومتی سطح پر توہین کے سلسلے کو OWN کیا ہے، اسے سرکاری درجہ دیا ہے۔ فرانس سلامتی کونسل کے 5 مستقل ممبران میں سے ایک ہے۔ اس نے دنیا بھر کی سلامتی کو چیلنج کیا ہے۔ یورپ کے اس اہم ترین اور ایک بڑی قوّت مگر گستاخ ملک کو روکنے کے لیے کچھ تجاویز دینے لگا ہوں۔ 1) سرکاری سطح پر تمام مسلمان ملکوں کی ایک تنظیم بنائی جائے جس کا مقصد حضرت محمد کریمﷺ کی حُرمت کا تحفظ ہو۔ 2) اس کا نام ''حرمتِ رسول کونسل‘‘ رکھا جائے۔ 3) اس کا ہیڈ کوارٹر مدینہ منورہ میں ہو۔ 4) اس کے چیئر مین خادم الحرمین شاہ سلمان بن عبدالعزیز ہوں۔ 5) اس کے سرپرست ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای ہوں۔ 6) اس کونسل کے صدر ترکی کے صدر جناب رجب طیب اردوان ہوں۔ 7) پاکستان کے صدر محترم ڈاکٹر عارف علوی صاحب اس کونسل کے سیکرٹری جنرل ہوں۔ 8) تمام مسلمان ممالک اس کونسل کے ممبران ہوں۔ 9) کونسل کے چار عہدہ داروں کا اجلاس ہر ہفتے لازمی ہو۔ ضرورت کے مطابق دو تین بار بھی ہو سکتا ہے۔ محترم ڈاکٹر علوی صاحب اس کو مینج کریں۔ 10) پہلا اجلاس فوری ہو اور وہ مدینہ منورہ میں ہو جہاں چاروں عہدیدار موجود ہوں۔ اللہ کے رسولﷺ کے مبارک نام کی حرمت کے لیے یہ اجتماع عالم اسلام کے لیے انتہائی مبارک ہو گا۔ عالمی امن اور انسانی بھلائی کے لیے یہ اجتماع ساری انسانیت کے لیے مبارک ہو گا۔
امریکہ کے شہر واشنگٹن ڈی سی سے ایک مشہورِ زمانہ چینل چلتا ہے‘ جس کا نام ''نیشنل جیوگرافک‘‘ ہے۔ شیر (Lion) کو جنگل کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ یہ بادشاہ شکار کیسے کرتا ہے‘ مذکورہ چینل پر اس کے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ بادشاہ جنگلی بھینسوں کے غول میں سے صرف ایک بھینسے کا شکار کرتا ہے، سینکڑوں ہرنوں میں سے صرف ایک ہرن کو منتخب کرتا ہے اور پھر اپنے ایک دو ساتھیوں کے ہمراہ اس کا شکار کر لیتا ہے، بیسیوں زیبروں میں سے ایک زیبرے کا شکار کرتا ہے۔ ''حرمتِ رسول کونسل‘‘ کے شیر نیشنل جیوگرافک کے اسی منظر کو سامنے رکھ لیں اور صرف اور صرف فرانس کو ٹارگٹ کریں۔ یہ ٹارگٹ اقتصادی اور معاشی ہو گا۔ تمام مسلمان ممالک فرانس کے ساتھ اقتصادی اور معاشی لین دین ختم کر دیں۔ دوسرے نمبر پر فرانس کی پروڈکٹس کا بائیکاٹ عوامی سطح پر کیا جائے۔ اس بائیکاٹ میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلموں کو بھی اپنے ساتھ ملایا جائے۔ انہیں باور کرایا جائے کہ یہ عمل نفرت اور تعصب کے خاتمے کے لیے ہے۔ نفرت اور تعصب انسانی بھلائی، امن اور عالمی بھائی چارے کے لیے خطرناک اور وحشت ناک ہے۔ فرانس کو اس سے نہ روکا گیا تو پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آ جائے گی لہٰذا انسانیت کے لیے کینسر بننے والے ایک ملک کے صدر کو سزا دینا ضروری ہے۔ یاد رہے! فرانس کے بے شمار شہری اپنے صدر اور اس کے چند حواریوں کے توہین آمیز رویے کو پسند نہیں کرتے۔ مزید برآں! پورے یورپ میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ تعداد فرانس میں ہے جن میں ترکی کے باشندے سب سے زیادہ ہیں۔ ہمیں ان لوگوں کا بھی خیال رکھنا ہے اور سفارتی ذرائع کے ذریعے ان کے تحفظ کو بھی یقینی بنانا ہے۔ فرانس کہ جس کا حکمران‘ بقول طیب اردوان ذہنی طور پر کنگال ہے، ہمیں اس کی معاشی حالت کو بھی کنگال کرنا ہے تا کہ وہ ذہنی طور پر صحت کی طرف اور توہین آمیز خاکوں کی مذموم حرکت پر معافی مانگے اور اپنی اس حرکت کا مداوا بھی کرے۔ مدینہ منورہ میں ''حرمتِ رسول سیکرٹریٹ‘‘ میں اہم کام یہ ہو کہ جس طرح اللہ کے رسولﷺ نے ''مدینہ منورہ‘‘ سے رومی یعنی مسیحی بادشاہوں کو خطوط لکھے تھے اور امن و سلامتی کی دعوت دی تھی اسی طرح مدینہ منورہ سے دنیا بھر کی زبانوں میں حضورﷺ کی سیرت‘ جو سراسر انسانیت کے لیے رحمت، پیار، برداشت اور حوصلے کی سیرت ہے‘ کی دعوت دی جائے۔ ہم مسلمان اس کا عملی نمونہ پیش کریں۔ ''حرمتِ رسولﷺ کونسل‘‘ یو این، یورپی یونین، او آئی سی، شنگھائی تعاون تنظیم اور دنیا بھر کے سیاسی اور مذہبی پلیٹ فارمز پر فرانس کی رکنیت کو چیلنج کرے کہ وہ سلامتی کونسل کا ممبر نہیں رہ سکتا، کیونکہ اس کے طرزِ عمل سے دو ارب مسلمان اور باقی کروڑوں پُرامن انسانیت کے علمبردار اسے عالمی اور انسانی سلامتی کا دشمن سمجھتے ہیں۔ الغرض! ''حرمتِ رسول کونسل‘‘ فرانس کے خلاف مندرجہ بالا دو اہداف کے حصول کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دے۔ حرمت رسول کونسل کے شیروں نے فرانس کو معاشی میدان میں گرا دیا اور سلامتی کونسل کی ممبر شپ سے محروم کر دیا تو یاد رکھنا آئندہ میرے حضورﷺاور ساری انسانیت کے محسن اعظم کی توہین بند ہو جائے گی اور اگر ہم مسلمانوں نے یہ کام نہ کیا تو حسبِ معمول وقفے وقفے سے یہ مجرم لوگ اور ذہنی مریض لوگ باز نہیں آئیں گے۔ وزیراعظم عمران خان کو خراج تحسین کہ ان کی حکومت نے فرانس کے ساتھ ہیلی کاپٹرز کی اربوں کی ڈیل ختم کر دی ہے۔
قارئین کرام! مدینہ منورہ میں سرکارِ مدینہ کہ جن کے ذکر اور یادوں سے منور ہوتا ہے سینہ ...کے سا تھ آزادیٔ اظہار اور انتخابِ مذہب کا ایک سماں۔یہود کا ایک قبیلہ تھا‘ اس کا نام ''بنو نضیر‘‘ تھا۔ نضیر جو حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد سے ایک سردار اور مذہبی رہنما قسم کا انسان تھا‘ یہ سارا قبیلہ اسی کی اولاد سے تھا۔ حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے ہی ''کاہن‘‘ یعنی مذہبی رہنما ہوا کرتے تھے۔ وہ جو جُبّہ پہنتے تھے‘ اس پر بارہ موتی جڑے ہوتے تھے مطلب یہ کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹوں کے مذہب کے نمائندے ہیں۔ مدینہ منورہ میں اصل اور کثیر تعداد اَوس اور خزرج قبیلوں کی تھی۔ دونوں قبیلوں کے اکثر لوگ مسلمان ہو گئے تھے۔ ''اَوس قبیلہ‘‘ اور ''بنو نضیر‘‘ آپس میں حلیف تھے۔ بنو نضیر نے سرکارِ مدینہﷺ کو اپنی بستی میں تشریف لانے کی دعوت دی۔ ایک اہم مسئلہ بھی در پیش تھا چنانچہ انہوں نے پروگرام بنا لیا کہ گھر کی چھت پر سے ایک چٹان حضورﷺ پر گرا دی جائے اور انہیں شہید کر کے مدینہ کی پرانی حیثیت کو بحال کیا جائے۔ حضورﷺ کو اللہ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے بتا دیا لہٰذا آپﷺ اٹھ کر چلے گئے۔ الغرض! ان کی ایسی حرکتوں کی وجہ سے اور معاہدے کی خلاف ورزی کی وجہ سے حضورﷺ نے انہیں مدینہ منورہ سے نکال دیا مگر اجازت دی کہ وہ اپنے بیوی، بچوں، جانوروں اور اموال جو وہ لے جا سکتے ہیں‘ لے جائیں اور جہاں چاہیں آباد ہو جائیں۔ اوس اور خزرج مشرک تھے مگر یہود کی مذہبی سیاست کے قائل تھے چنانچہ ان کی عورتیں نذر مانتیں کہ بیٹا ملا یا بیمار بیٹا صحت مند ہو گیا تو وہ اسے یہودی بنا دیں گی۔ ایسے کئی اَوسی عرب بچے یہودی تھے۔ اب جب بنو نضیر جانے لگے تو اوس قبیلے کے مسلمان ماں باپ نے اپنے بچوں کو روکنا چاہا۔ اس پر سورۃ البقرہ جو یہود کے بارے میں ہے‘ میں آیت نازل ہوئی۔ ترجمہ ملاحظہ ہو: ''دین میں کوئی جبر نہیں‘ گمراہی میں سے بھلائی واضح ہو کر سامنے آ چکی‘‘۔ چنانچہ حضورﷺ نے واضح کر دیا کہ جو اوسی عرب بچے یہودیت پہ قائم رہ کر جانا چاہیں‘ انہیں زبردستی ان کے ماں باپ نہیں روکیں گے... اللہ اللہ! ساڑھے چودہ صدیاں پہلے جس ہستی نے آزادی کے حقوق دیے آج اسی عظیم ہستی کی توہین کی جسارت کی جا رہی ہے۔ یہ اور اس جیسے بہت سارے علمی موتی اور خوشبو دار پھول میرے حضورﷺ کی مبارک سیرت کے گلستان سے لے کر ''حرمت رسول کونسل‘‘ دنیا کے سامنے رکھے اور فرانس کے صدر کی روسیاہی کا علمی بندوبست کرے۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے، آمین!