اللہ تعالیٰ کا دین‘ جسے رحمتِ دو عالم حضرت محمد کریمﷺ لے کر آئے اس کا نام اسلام ہے۔ ہم نے اسلام کے نام پر ''اسلام آباد‘‘ بنایا، اس میں ایک چڑیا گھر بھی بنا دیا۔ یہاں ہاتھیوں کا ایک جوڑا رکھاجن کا نام کاون اور سہیلی تھا مگر کرپشن اور نااہلی نے ڈیرے ڈال لئے۔ عدم توجہ‘خوراک کی کمی اور کبھی گھٹیا خوراک کی وجہ سے جانور مرنے اور بیمار ہونے لگے۔ سہیلی مر گئی اور کاون اداس رہنے لگا۔ وہ اپنا سر دیواروں کے ساتھ پٹخنے لگ گیا۔ بجائے اس کے کہ ایک ہتھنی لا کر دی جاتی‘ اسے زنجیروں کے ساتھ باندھ دیا گیا۔ اب جب ہاتھی کے ساتھ ظلم و زیادتی کی خبر دنیا میں پھیلی تو جانوروں کی عالمی تنظیمیں حرکت میں آئیں اور پھر اس ''کاون ہاتھی‘‘ کو جہاز کے ذریعے کمبوڈیا لے جایا گیا جہاں اسے کئی ایکڑ رقبے پر محیط خصوصی فارم میں پہنچا دیا گیا ہے۔ اس فارم میں اس کی نسل سے متعلق اور ہاتھی بھی ہیں۔ مزید برآں! وہ چھ سو کے قریب ہاتھیوں کے ایک غول میں بھی انجوائے کر سکے گا ،جہاں ایک بڑے جنگل میں قدرتی ماحول اسے میسر آئے گا۔ کاون کی سہیلی 2012ء میں مر گئی تھی‘ اس کے بعد 2016ء سے ایک امریکی پاپ گلوکارہ متواتر اس مظلوم کاون کی رہائی کی کوشش کرتی رہی۔ یہ کوشش چار پانچ سالوں بعد رنگ لے آئی۔ امریکی گلوکارہ جس کا نامCHER ہے‘ نے ایک سپیشل ہوائی جہاز کا بندوبست کیا جس میں کاون کو کمبوڈیا پہنچا دیا گیا۔ مجھے اس موقع پر ساری انسانیت کے محسن حضرت محمد کریمﷺ کی ایک حدیث یاد آ گئی‘ جس میں آپﷺ نے اگلی امتوں کا ایک واقعہ بیان فرمایا تھا کہ ''ایک کتا کنویں کے گرد چکّر لگا رہا تھا‘ قریب تھا کہ پیاس کی شدت اسے ہلاک کر ڈالے۔ اس دوران اسے ایک عورت نے دیکھ لیا جو بنو اسرائیل کی ناچ گانا کرنے والیوں میں سے تھی۔ اس نے اپنا جوتا اتارا (اسے کنویں میں رسی کے ذریعے ڈال کر پانی نکالا) اور کتے کی پیاس بجھائی؛ چنانچہ اس عمل کی وجہ سے اس عورت کو (مرنے کے بعد) بخش دیا گیا‘‘۔ (بخاری:3467)
اسلام آباد میں جانوروں کی دیکھ بھال جنت کے حصول کا ذریعہ تھی مگر آج کی اپوزیشن نے بھی اپنی حکمرانی کے دوران مظلوم جانوروں کو مرنے دیا اور ان کا کوئی خیال نہ کیا۔ موجودہ حکومت نے بھی گزشتہ اڑھائی سالوں میں جانوروں کی مظلومیت پہ کچھ نہ کیا۔اللہ کی قسم! میں بڑا دکھی اور غمگین ہوں کہ میرے وطن عزیز پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی عزت کو بٹّا لگا‘ ہماری جگ ہنسائی ہوئی کہ ہم وہ لوگ ہیں کہ جو جانوروں کے ماحول، ان کی خوراک اور ان کی صحت کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں۔ ہم اپنے ظلم و زیادتی کا مداوا کرنے کے بجائے جاندار کو زنجیرں میں جکڑ دیتے ہیں۔ دنیا اگر مظلوم، بے بس اور لاچار کاون کی مدد کو نہ آتی تو ہم نے ایک دن یہی خبر سننا تھی کہ زنجیروں میں جکڑا ہوا کاون درخت کو ٹکریں مارتا مارتا مر گیا۔ چلو کاون تو ایک گلوکارہ کی وجہ سے بچ گیا مگر باقی کتنے ہی جانور‘ جو اس چڑیا گھر میں مر گئے ان کی جوابدہی کس کے ذمہ ہے؟ ہمارے پُر رحمت حضورﷺ نے اگلی امتوں کی ایک مسلمان عورت کے بارے میں انکشاف کرتے ہوئے آگاہ فرمایا: ''ایک خاتون کو بلی (پر ظلم کرنے کی وجہ سے) عذاب میں مبتلا کر دیا گیا۔ اس نے بلی کو اس وجہ سے (کہ وہ اس کی خوراک وغیرہ کھا جاتی ہے) پکڑ کر باندھ دیا۔ وہ بندھی ہوئی مر گئی۔ وہ عورت (مرنے کے بعد )جہنم میں چلی گئی کیونکہ اس نے بلی کو قیدی بنایا تو نہ اسے کھلایا اور نہ ہی پلایا اور نہ ہی یہ کیا (کہ کچھ دیر باندھ کر) اسے چھوڑ دیتی کہ وہ زمین پر اپنی خوراک تلاش کر کے کھا لیتی۔ (بخاری: 3482، مسلم: 6657) ایک دوسری روایت میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ فرماتے ہیں کہ ''میں نے حمیر قبیلے کی اس عورت کو جہنم میں دیکھا، جب وہ بلی کے سامنے آتی تو بلی اس کے چہرے کو نوچتی اور جب واپس پلٹتی تو اس کی پشت نوچتی‘‘ (مسند احمد: 159/2)۔ لوگو! رحمت دو عالمﷺ کے انہی فرمودات کی وجہ سے ہی حضرت عمرؓ نے اس ڈر اور خوف کا اظہار کیا تھا کہ اگر فرات کے کنارے اونٹنی کا بچہ بھی مر گیا تو عمر سے پوچھا جائے گا۔۔۔۔۔اے حکمرانو! اسلام آباد میں موجود چڑیا گھر تمہارے اقتدار کے ایوانوں سے کتنا دور ہے؟ بتائو! ظلم کے شکار جانداروں کو مرنے کے بعد کیا جواب دو گے؟ اللہ کی عدالت میں حاضری کے وقت ریچھوں، شیروں، ہرنوں، بندروں، ہاتھیوں اور پرندوں وغیرہ کے بارے میں اپنے کیے ہوئے مظالم کے جواب سوچ لو۔
حضرت عبداللہؓ بن مسعودسے روایت ہے‘ وہ کہتے ہیں: ہم اللہ کے رسولﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں تھے۔ آپﷺ کچھ دیر کے لیے کسی کام کی وجہ سے تشریف لے گئے۔ اسی دوران ہم نے ایک فاختہ کے دو بچوں کو دیکھا تو دونوں بچوں کو اٹھا لیا اور اپنے ٹھہرائو کی جگہ پر آ کر انہیں رکھ دیا۔ فاختہ بھی اڑتی ہوئی آ گئی اور اپنے پروں کو پھڑپھڑاتے ہوئے اپنے بچوں پر گرنے کے قریب ہو گئی۔ اتنے میں حضورﷺ بھی تشریف لے آئے اور اس منظر کو دیکھتے ہوئے فرمانے لگے: ''اس ماں کو اس کے بچوں کے بارے میں کس نے پریشان کیا ہے؟ وہ بچے واپس رکھ دو‘‘ (سلسلہ صحیحہ:25، بخاری فی الادب المفرد: 382، صحیح) جی ہاں! اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسولﷺ کو تمام جہانوں کے لیے سراسر رحمت بنایا۔ حضورﷺ پرندوں، چرندوں اور سب جانداروں کے لیے باعثِ رحمت ہیں۔ ماں اور اس کے بچوں کو الگ کر دیا جائے، حضورﷺ کو یہ گوارا نہیں تھا ‘اس لیے کہ ماں اپنے بچوں کی جدائی میں پریشان ہوتی رہے گی۔ یاد رہے! اللہ کے رسولﷺ نے صحابہ کرامؓ کو مخاطب کر کے فرمایا: ان بے زبان چوپایوں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔ ان پر سواری کرو جب یہ تندرست ہوں اور ان کو چھوڑو تب بھی یہ تندرست ہوں‘‘ (ابودائود : 2448، سندہٗ صحیح) یعنی بیمار اور لاغر پر سواری نہ کرو اور پھر اس پر سواری بھی اتنی مسافت تک ہی کرو کہ وہ تندرست اور چاق و چوبند رہے، یہ نہ ہو کہ وہ تھک ہار کر بیمار ہو جائے۔
اللہ اللہ! ہمارے حضورﷺ کو جانداروں کا کس قدر خیال تھا۔ ایک شخص حضورﷺ سے عرض کرنے لگا۔ اے اللہ کے رسولﷺ! میں بکری ذبح کرنے لگتا ہوں تو مجھے اس پر رحم آ جاتا ہے۔ فرمایا: اگر تم بکری پر رحم کرو گے تو اللہ تعالیٰ تجھ پر رحم فرمائیں گے۔ (بخاری فی الادب المفرد:373، مسند احمد، ابن ابی شیبہ، حاکم، سندہٗ صحیح) مزید فرمایا: ''جسے چڑیا ذبح کرتے ہوئے بھی رحم آ گیا۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس پر رحم فرمائیں گے‘‘ لوگو! رحم یہ ہے کہ دل میں رحمت ہو اور ذبح کرتے وقت چھری تیز ہو اور جانور کو دکھائی نہ جائے۔ حضرت مسیّبؒ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرؓ کو دیکھا کہ وہ اونٹ والے کو اس بات پر مار رہے تھے کہ اس نے اونٹ پر اس کی ہمّت سے زیادہ وزن لادا ہوا تھا۔ امام محمد بن سیرینؒ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے دیکھا کہ ایک شخص بکری کے گلے میں رسّی کو کھینچ رہا ہے تا کہ اسے ذبح کرے۔ حضرت عمرؓ نے اسے دُرّہ مارا اور کہا: تیری ماں نہ رہے‘ اسے سہولت کے ساتھ چلا۔ موت کی طرف خوبصورتی کے ساتھ اسے لے جا۔ (سلسلۃ صحیحہ:30) وھب بن لیسانؒ کہتے ہیں: حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے دیکھا کہ ایک شخص نے‘ جو بکریوں کا چرواہا تھا‘ تنگ جگہ بکریوں کو رکھا ہوا ہے اور جگہ بھی صاف نہیں۔آپؓ نے کہا:تیرے پاس اچھی اور کھلی جگہ موجود ہے تو انہیں وہاں رکھ، میں نے حضورﷺ سے سنا ہے کہ ہر چرواہے کو زیرِ نگران مخلوق کے بارے سے پوچھا جائے گا۔ (مسند احمد: 5869، سندہٗ صحیح)
مولانا عبدالعزیز مدنی‘ فاضل مدینہ یونیورسٹی‘ میرے دوست ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی عطاء اللہ نے ایک کتیا کے بچے اس وقت پالنے شروع کیے جب یہ بچے اپنی ماں سے محروم ہو گئے۔ عطا اللہ نے فیڈر کے ذریعے ان کو دودھ پلایا‘ ٹھکانا دیا‘ سردی گرمی کا خیال کیا۔ وہ کوئی آٹھ دس تھے‘ ذرا بڑے ہوئے تو عطا اللہ کے ساتھ ساتھ رہتے۔ مزید بڑے ہو گئے تب بھی وہ عطاء اللہ کو نہ چھوڑتے۔ مولانا عبدالعزیز کہتے ہیں: ہم نے عطاء اللہ کو کئی بار کہا کہ ان کتوں سے جان چھڑائو، کہتے ہیں کہ ان کو شیر خوارگی کے وقت سے پالا ہے، یہ نہیں چھوڑتے تو میں کیسے چھوڑوں۔ سوچتا ہوں کہ اگر بنو اسرائیل کی ایک عورت کتے کو پانی پلا کر جنت میں چلی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ مجھے بھی جنت دیں گے (ان شاء اللہ) عطاء اللہ تہجد گزار پانچ وقت کا نمازی تھا‘ چند ہفتے قبل تہجد کے وقت محلے کا ایک بندہ اسے بلانے آیا کہ گھر میں سانپ آ گیاہے۔عطا اللہ سانپ پکڑنے اور مارنے میں مشہور تھا‘ زمیندار تھا اور طاقتور تھا۔ وہ گھر میں گیا تو سانپ فراٹے بھرتا ہوا اس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ یہ چھ فٹ کا کالا ناگ تھا۔ عطاء اللہ نے اسے سر سے پکڑ لیا مگر اس نے بازو کو لپیٹ میں لے لیا۔ عطاء اللہ نے زور سے زمین پر اس کے سر کو رگڑا مگر اتنے میں وہ انگلی پر ڈس چکا تھا۔ عطاء اللہ نے سانپ تو مار دیا مگر کہا کہ اس نے مجھے ڈس لیا ہے۔ وہ واپس ڈیرے پر چلا گیا اور اسے نظر انداز کر دیا۔ دن چڑھے تک زہر سرایت کر چکا تھا۔ مولانا عبدالعزیز کہتے ہیں کہ ہمیں بہت دکھ ہوا کہ عطاء اللہ نے بھی اسے معمولی سمجھا اور محلے دار نے بھی نہ بتایا۔ بہر حال! آخری وقت آ گیا۔ عطاء اللہ نے 5 بار کلمہ پڑھا اور وہ میرے ہاتھوں میں فوت ہوا۔ جان نکلتے ہی ماتھے پر پسینہ اور پھر پورے چہرے اور تمام جسم پر اس قدر پسینہ کہ جیسے پسینے سے غسل کیا ہو۔ حضورﷺ کا فرمان ہے کہ ''مومن پیشانی پر پسینہ کے ساتھ فوت ہوتا ہے‘‘ (ابن ماجہـ:982، سندہٗ صحیح)اور عطاء اللہ کے پسینے کی تو انتہا ہو گئی تھی۔ لوگوں نے کہا، چھ فٹ کالے ناگ کے زہر سے اس کا جسم پھٹ جائے گا۔ ناک اور منہ سے زہریلا خون نکلے گا مگر اس کا جسم نرم رہا‘ چہرہ پہلے سے زیادہ حسین۔ جسم پر زہر کا کوئی اثر نہیں تھا۔ اللہ اللہ! لوگو! جو انسانوں کے کام آتا ہے‘ جانداروں کے کام آتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے ایسے دوست کا اکرام کرتا ہے۔ اور اللہ کی دوستی ملتی ہے سیرت کے موتیوں کی مالا بنانے سے۔