کورونا کی وبا کو پھیلے ہوئے ایک سال بیت گیا۔ یہ اپنی اشکال کو اب کافی حد تک تبدیل کر چکا ہے۔ موجودہ جس قسم کی دریافت ہوئی ہے‘ یہ 70 فیصد زیادہ خطرناک بتائی جا رہی ہے۔ امریکا، چین، برطانیہ اور جرمنی میں ویکسین بھی تیار کی جا چکی ہے۔ اللہ کرے یہ مؤثر ہو اور ساری انسانیت کو کورونا کی تمام اشکال سے خلاصی اور نجات ملے۔ اللہ تعالیٰ کی اس زمین پر کم و بیش ساڑھے سات ارب انسان آباد ہیں۔ اگر ایک انسان کو بھی چھوڑا گیا تو اس سے وبا دوبارہ ساری انسانیت کو اپنے گھیرے میں لے سکتی ہے لہٰذا ساڑھے سات ارب انسانوں میں سے ہر ایک کے بارے میں گارنٹی حاصل کرنا ہو گی کہ اسے ویکسین دی گئی ہے۔ جی ہاں! کورونا نے یہ تو ثابت کر دیا کہ ہر انسان اہم ہے۔ دل، گردے، جگر، پھیپھڑے، معدہ اور دماغ وغیرہ کی بیماریاں چونکہ وبائی نہیں لہٰذا غریبوں اور مساکین کو علاج میسر نہ بھی ہو تو صاحبِ استطاعت لوگوں کو فکر لاحق نہیں ہوتی کہ سب کا علاج ہونا ضروری ہے مگر کورونا کے وبائی مرض کے بارے میں دنیا کو فکر ہے کہ ہر ایک کا علاج ہو گا تو تبھی ہر کوئی محفوظ ہو گا‘ ورنہ نہیں۔ اس میں نہ کسی مذہب کا امتیاز ہے‘ نہ رنگ اور نسل کی تمیز ہے۔ نہ زبان اور نہ ہی علاقے کی کوئی تخصیص ہے اور نہ کسی بڑے چھوٹے ہی کی کوئی تمیز ہے۔ اگر ہم سوچیں تو کیا ہم سب کا رب ہمیں یہ پیغام نہیں دے رہا کہ دیکھو اے انسانو! میں ''رَبُّ العالمین‘‘ ہوں، سب کا خالق، تم سب میرے بندے ہو، ذرا غور تو کرو!
قرآن میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں ''اے لوگو! اپنے اس رب سے ڈر جائو جس نے تمہیں ایک جان (حضرت آدمؑ) سے پیدا کیا اور اسی (کے بائیں پہلو سے) اس کی بیوی (حوّا) کو پیدا فرمایا۔ پھر ان دونوں (میاں بیوی) سے بہت سارے مرد اور خواتین کو (زمین پر) پھیلا دیا۔ اس اللہ سے ڈرتے رہو جس (کی مہربانیوں کا) واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے سوال کر کے (آپس کے مسائل) حل کرتے ہو۔ رشتوں کے بارے میں بھی اللہ سے ڈرتے رہو۔ کیا شک ہے کہ اللہ تم پر نگران ہے۔ (سورۃ النساء:1)
قارئین کرام! پہلی بات یہ ہے کہ اللہ کا خطاب تمام انسانوں سے ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ سب کا خالق ایک اللہ ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ سب کا باپ ایک ہے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ سب کی ماں ایک ہے۔ پانچویں بات یہ ہے کہ انسانیت کے حوالے سے سب رشتہ دار ہیں۔ چھٹی بات یہ ہے کہ انسانیت کے مسائل کا حل اسی رشتہ داری کے واسطے وسیلے میں ہے۔ ساتویں اور آخری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ساری انسانیت کی نگرانی فرما رہے ہیں کہ انسانیت کے حوالے سے کون بہتر کردار ادا کرتا ہے۔ اللہ اللہ! اس کا مطلب یہ ہوا کہ عالمی سطح کی انسانی رشتہ داری اور بھائی چارے کی پائیداری میں جو بہتر کام کرے گا‘ اسی کے کام کو اللہ کے ہاں پذیرائی ملے گی۔ حضرت محمد کریمﷺ پر نازل ہونے والا آخری الہام اور پیغام مزید پیام دیتا ہے۔ ارشاد فرمایا: وہ شے جو تمام انسانوں کو فائدہ دے‘ وہی زمین میں قرار پکڑتی (باقی رہتی) ہے۔ (الرعد:17)
قارئین کرام! ''النساء‘‘ کا معنی خواتین ہے۔ ہر خاتون اک ماں بھی ہوتی ہے اور حضورﷺ کے فرمان کے مطابق ماں کی عزت و اکرام باپ سے تین گنا بڑھ کر ہے۔ ماں کی محبت لازوال، مثالی اور مفاد سے بالاتر ہوتی ہے لہٰذا ''سورۃ النساء‘‘ کی پہلی آیت کا پیغام یہ ہے کہ سوائے حضرت آدم علیہ السلام کے ہر مرد اور عورت نے ماں سے زندگی پا کر زمین کو آباد کیا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے مگر اللہ تعالیٰ کا پیغام یہ ہے کہ ماں کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ لہٰذا ایک ماں کے حوالے سے بھی رشتے کا خیال کرو۔ جس کو رُلا رہے ہو، جس پر ظلم کر رہے ہو۔ وہ بھی کسی ماں کا پھول اور کلی ہے‘ لہٰذا کسی کو ستاتے ہوئے اس کی ماں کا خیال کر لیا کرو۔
لوگو! ذرا سوچو‘ جو ماں جیسی نعمت کو تخلیق کرنے والا ہے‘ وہ خود کس قدر مہربان ہو گا۔ اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیں ''اللہ تعالیٰ نے رحمت کے 100 حصے بنائے ہیں۔ زمین میں صرف ایک حصہ اتارا ہے۔ اسی ایک حصے سے تمام مخلوقات آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی کرتی ہے، حتیٰ کہ گھوڑی کا پائوں اپنے بچے پر آ جائے تو(ٹچ) ہوتے ہی اس ڈر سے اسے فوراً اوپر اٹھا لیتی ہے کہ بچے کو تکلیف نہ پہنچ جائے‘‘۔ (صحیح بخاری: 6000، صحیح مسلم:2752) صحیح مسلم میں الفاظ اس طرح بھی آئے ہیں کہ اس ایک حصۂ رحمت کی وجہ سے ہی جن، انسان، تمام چوپائے (چرنے والے اور درندے وغیرہ) اور زمین پر رینگنے والے تمام کیڑے مکوڑے آپس میں محبت اور مہربانی کرتے ہیں۔ وحشی جانور اور پرندے بھی اسی ایک حصۂ رحمت سے باہم محبت کرتے ہیں۔ ہر ماں اپنے بچے پر اسی ایک حصۂ رحمت کی وجہ سے محبت کرتی ہے۔ (صحیح مسلم:2753)
قارئین کرام! مذکورہ احادیث کے آخر پر اللہ کے رسولﷺ کے مبارک الفاظ اس طرح آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے 99 حصے مؤخر کر کے رکھے ہیں۔ ان 99 حصوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر قیامت کے دن رحم فرمائیں گے۔ اللہ اللہ! ماں اپنے بیٹے اور بیٹی کے لیے کوئی شے سنبھال کر رکھے گی تو وہ اللہ کی دی ہوئی مہربانی سے ہی ایسا کر رہی ہے۔ ماں کا خالق 99 حصے سنبھال کے رکھے ہوئے ہے کہ اپنے بندے پر قیامت کے دن نچھاور کروں گا۔ اللہ کی قسم! صدقے قربان جائوں ایسے مہربان خالق پر۔ ایسے شہنشاہ پر کہ کس قدر مہربان ہے! مگر‘ لوگو! یہ سنبھالی ہوئی رحمت‘ بے شمار نورانی سمندروں کی ریشم سے بڑھ کر نرم و ملائم رحمت بھلا کس کو ملے گی؟ حضورﷺ پُررحمت کے الفاظ ہیں ''اَکْمَلَھَا بِھٰذِہِ الَّرحْمَۃ‘‘ اللہ تعالیٰ 99 رحمتوں کو دنیا والی ایک رحمت کے ساتھ ملا کر مکمل کریں گے۔ اب سوچئے! اگر بندہ ہی ایسا ظالم ہے‘ ایسا بے درد ہے‘ علاقے کا صاحبِ اختیار ہی ایسا ستم ڈھانے والا ہے‘ اپنے علاقے کی رعایا کا ہی ایسا قاتل ہے‘ لوگوں کا مال لوٹنے والا ہے‘ معصوم بچوں اور بچیوں کو درندگی سے بڑھ کر ظلم کا شکار کر دینے والا ہے‘ میرٹ کو کچل کر رکھ دینے والا ہے‘ جھوٹ اور بد دیانتی، فریب اور دھوکے سے دوسرے کی دنیا کو اجاڑ کر اس کی ماں کو رلانے والا ہے تو یہ ظلم کی راتیں اللہ تعالیٰ کی 99 رحمتوں میں کیسے فِٹ ہوں گی؟ کیسے یہ اس احاطۂ رحمت میں شامل ہوں گی؟
آہ! ظالم مارا جائے گا۔ لوگو! کورونا کے دن ہیں۔ یہ وبا Mutate کر چکی ہے یعنی شکل بدل چکی ہے۔ تیسری شکل میں 70 فیصد زیادہ قاتل بن چکی ہے۔ حضورﷺ کے فرمان کے مطابق یہ مومنوں کے لیے یعنی رحم دل لوگوں کے لیے شہادت کی موت اور رحمت ہے جبکہ ظالموں کے لیے عذاب ہے۔ اللہ اللہ! جو کورونا سے فوت ہو گیا ہے‘ رحمت کا حقدار بن گیا ہے مگر بات وہی ہے کہ ظلم نہ کیا ہو۔ ایک سال ہو گیا، اللہ تعالیٰ نے وبا کو نرم رکھا مگر دنیا سے ظلم ختم نہ ہوا۔ وہی ہوس کے پھندے کشمیریوں اور فلسطینیوں پر ظلم کے رَندے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی رشتوں کے ناتے سے یہ ظلم کے ضابطے ختم ہونے چاہئیں۔ 16 دسمبر کا دن گزر گیا مگر میں نے اس موقع پر آرمی پبلک سکول پشاور کے معصوم شہیدوں کا خون دیکھا۔ ان کے ماں باپ کے گھروں میں گیا۔ ان کو روتے دیکھا۔ ایسے معصوموں کو تحفظ دینا ہوگا۔ دنیا بھر کے بچے آپس میں رشتے دار ہیں۔ وہ سب حضرت آدم علیہ السلام کے لختِ جگر ہیں اور حضرت حوّا علیہا السلام کے دل کے باسی ہیں۔ کون ہے جو دنیا میں ایسی رشتے داری کا عَلَم بلند کرے؟ میرا ملک پاکستان آگے تو بڑھا ہے۔ اس کے بیٹے بھاگتے ہیں اور افغانستان میں تمام فریقوں کے درمیان صلح کا کردار ادا کرتے ہیں۔ انہیں ایک صف میں بٹھاتے ہیں‘ مشرق وسطیٰ میں باہم متحارب کو صلح کا پیغام دیتے ہیں‘ قیمت بھی چکاتے ہیں کہ بعض اوقات صلح کروانے والے کو بھی ایک آدھ لگ جاتی ہے‘ مگر اس میں بھی تو اجر ہے۔ اس لئے کہ یہ سب کچھ انسانی رشتوں کو محفوظ کرنے کی خاصر ہے۔ ایسے کام کرنے والوں کو مبارک ہو!
آخر میں گزارش ہے کہ میرا ملک ایک اور کام بھی کرے۔ ایسی کاوشیں کی جائیں کہ امریکا، چین، روس، برطانیہ اور جرمنی کی ویکسین کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر ساری انسانیت کو لگایا جائے‘ سب کا بھلا کیا جائے۔ اس لیے کہ سب کے بھلے میں ہر ایک کا بھلا ہے۔ پاکستان کا مطلب ''لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ ہے۔ دنیا میں اللہ کی رحمت کا پیغام جائے۔ میرے حضورﷺ ''رحمۃ اللعالمین‘‘ ہیں‘ سارے جہان کو یہ پیغام جائے۔ میرے پاکستان کی طرف سے یہ پیغام جائے کہ آسمانوں پر اللہ راضی ہو جائے۔