دنیا کا ایک نامی گرامی سائنسی میگزین نیچر (Nature) ہے۔ اس نے کائنات کو سامنے رکھتے ہوئے زمینی انسان کاپتا لکھا ہے، یعنی اس بڑی کائنات میں اگر کوئی رابطہ کرنا چاہے، ملاقات کرنا چاہے تو سب سے پہلے دو بازوئوں سے رابطہ کرے جن کی گود میں سپر کلسٹر ہے۔ یہ دو بازو اس قدر بڑے اور انتہائی خوبصورت ہیں کہ ناقابلِ بیان ہیں۔ انہیں Great Attractor کہا جاتا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے کہ حقیقت میں کتنے سپر کلسٹرز موجود ہیں؛ تاہم جو ہمارا Home supercluster ہے۔ اس کا نام ''لینے آکیا‘‘ (Laniakea)ہے۔ سپر کلسٹر Laniakea میں پہنچ کر اس کلسٹر یا جھرمٹ میں پہنچنا ہوگا کہ جس میں ہماری گلیکسی موجود ہے۔ جی ہاں! اربوں، کھربوں جھرمٹوں میں سے ہمیں ڈھونڈنے والا آخر اس جھرمٹ یا کلسٹر میں پہنچ ہی گیا کہ جس میں ملکی وے (Milky way) گلیکسی موجود ہے۔ اب یہاں اربوں، کھربوں نظام ہائے شمسی ہیں۔ ڈھونڈنے والا بھول گیا اور وہ ایسا بھولا کہ ملکی وے سے ہی باہر جا نکلا اور سومبریرو (Sombrero) گلیکسی میں جا نکلا۔ وہاں سے ملکی وے کا پوچھا تو اسے کوئی جانتا ہی نہ تھا۔ اب پتا چلا کہ وہ تو ایک اور سپر کلسٹر میں آ گیا ہے۔ یہ بیضوی شکل میں ایک ٹکیہ جیسا سپر کلسٹر ہے جو نورانی سمندروں میں ڈوبا ہوا ہے اور اس کے اجرامِ فلکی انہی سمندروں کے گرد ایسی چال چل رہے ہیں جیسے گھوڑا چلتا ہے۔ وہ ایسے چلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، جیسے سمندر کی موجوں پر سمندری جہاز یا کشتی چلتی ہے۔ جی ہاں! بالکل اسی طرح جس طرح قرآن نے حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کے لیے ''تجری‘‘ کا لفظ استعمال کیا جو پانی کی لہروں پر چل رہی تھی اور سورج کے لیے بھی ''تجری‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا جو خلائوں میں اپنے ٹھکانے کی جانب چل رہا ہے۔ قرآن نے واضح کر دیا کہ گھوڑے کا جو خالق ہے، وہی گھوڑے پر شاہسوار کا خالق بھی ہے۔ وہ کشتی کا خالق بھی ہے اور کشتی‘ جس سمندر پر چل رہی ہے، اس کا بھی وہی خالق ہے۔ جو زمین کی خشکی پہ دوڑنے والے گھوڑے اور سمندر کی لہروں پر چلنے والے بحری جہاز کا خالق ہے، وہی سومبریرو سپرکلسٹر کا بھی خالق ہے۔
بندہ بڑی مشکلوں کے بعد واپس ''لینے آکیا‘‘ میں آیا۔ پھر وہاں سے ''ملکی وے‘‘ پہنچا۔ ملکی وے میں موجود اربوں، کھربوں نظام ہائے شمسی میں سے اس نظام شمسی میں پہنچا کہ جس میں متعدد سیاروں میں سے ایک زمین بھی ہے۔ لیجیے! آخرکار یہ زمین پر پہنچ ہی گیا۔ یہ جب زمین کے مدار میں پہنچا تو اسے سب سے زیادہ روشن جگہ شہر مکہ نظر آئی۔ یہ وہاں پہنچ گیا۔ تب وہاں فجر کی نماز امام کعبہ شیخ عبدالرحمان السدیس پڑھا رہے تھے۔ وہ سورۃ النور کی ایک نورانی آیت کی تلاوت فرما رہے تھے: ''اللہ ہی کائنات کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال ایک ایسے طاقچے جیسی ہے کہ جس میں ایک چراغ رکھا ہو۔ یہ چراغ (ہر جانب سے بند) ایک شیشے میں ہے۔ یہ ایسے لگتا ہے جیسے روشن ستارہ ہو۔ اسے روشنی کے لیے ایسے درخت سے تیل مل رہا ہے جو انتہائی بابرکت ہے۔ یہ زیتون کا درخت ہے جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی ہے (ایسی درمیانی جگہ پر ہے کہ سورج کی روشنی اسے طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک میسر رہتی ہے) اس کا تیل (ایسا صاف شفاف) ہے کہ آگ (ماچس کی تیلی) فاصلے پر ہی ہو تو یہ چراغ جل اٹھتا ہے۔ نور پر نور (نورانی دل پر وحی کے نور کی چمک اور جھلک کا رنگ بھر گیا) اللہ تعالیٰ اپنے نور (قرآن اور صاحبِ قرآن حضرت محمد کریمﷺ کی پاک سیرت) کی جانب جس کو چاہتا ہے، ہدایت عطا فرما دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے، باقی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر شے کا علم رکھنے والا ہے‘‘۔ (النور: 35)
قارئین کرام! میں نے نیچر میگزین کی بیان کردہ حقیقت یعنی ایڈریس کو اپنے الفاظ میں ایک تمثیلی رنگ میں پیش کیا ہے تا کہ سائنسی حقائق کو عام فہم انداز میں سمجھا دوں۔ میں نے باہر سے آنے والے کو مکہ میں اس لیے پہنچایا کہ ذرّے سے لیکر سپر کلسٹر تک سب حالتِ طواف میں ہیں۔ مکہ میں کعبہ کے گرد ایک اللہ کو ماننے والے مسلمان حالتِ طواف میں ہیں۔ لوگو! امریکا کے خلائی ادارے ناسا نے ایک بڑی حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ جب آسمانی وسعتوں میں رنگا رنگ ستاروں، سیاروں، چاندوں، انواع و اقسام کی گلیکسیوں اور جھرمٹوں کے رنگا رنگ انداز کو دیکھا گیا تو انتہائی منظم، مربوط اور خوبصورت ترین مناظر کو دیکھ کر ہر کوئی پکار اٹھا‘ کوئی دل سے اور کوئی زبان سے‘ کہ ان مناظر اور تخلیقات کے پیچھے کوئی خالق ضرور ہے جو بڑا ہی عظیم الشان، بلند اور ذہین ترین ہے۔ جس کی قدرت، قوت، طاقت اور علم و ذہانت کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔
پال ڈیوس ایک سائنس دان ہیں۔ ان کا تعلق اریزونیا ریسرچ سنٹر سٹیٹ یونیورسٹی سے ہے۔ یہ وہاں Director of the Beyond ہیں یعنی دکھائی دی جانے والی کائنات اور اس کے قوانین کے پیچھے کون ہے؛ اس سے متعلق یہ ریسرچ کرتے ہیں؛ چنانچہ وہ اپنی کتاب Cosmic Jacpot میں لکھتے ہیں کہ ''سائنس اور مذہب اس بات پر متفق ہیں کہ کائنات کا وجود کائنات کے باہر سے ایک آرڈر کی صورت میں سامنے آیا۔ دونوں کی بنیاد اسی عقیدے پر ہے‘‘۔ سبحان اللہ! یہی بات قرآن بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ''کُن‘‘ کہا اور کائنات وجود میں آ گئی۔ یہ کائنات اللہ تعالیٰ کے حکم سے وجود میں آئی ہے۔ کائنات اور اس میں موجود ہر شے مخلوق ہے۔ مخلوق کی عبادت کا نام شرک ہے، لہٰذا اے سائنسدانو! جب کوئی انکشاف سامنے آئے تو خالق جو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہے‘ اس کا شکر ادا کرو۔ Thanks for Nature یا Thanks to laws of physics یعنی فطرت یا فزکس کے قوانین کا شکر مت ادا کرو۔ یہ تو مخلوق اور اسباب ہیں۔
اللہ اللہ! مگر ہدایت اسے ملے گی جس کا دل فطری نور کا حامل ہو گا، اوپر سے قرآن اور حضورﷺ کی سیرت کا نور جگمگائے گا تو یہ دل قبول کرتے ہی نُورٌ علیٰ نُور کی تجلی سے منور ہو جائے گا۔ یہ ہے مکمل ایڈریس جس دل پر یہ لکھ دیا گیا وہ درست راستے پر ہے، اور یہ تحریر مکہ مکرمہ میں کعبۃ المشرفہ سے اور مدینہ منورہ میں میرے حضور نبی اکرمﷺ کے اس جنتی روضہ سے ملتی ہے جو مسجد نبوی میں حضور کریمﷺ کے پاکیزہ حجرہ مبارک سے حضور کریمﷺ کے منبر شریف کے درمیان ہے۔ پال ڈیوس مزید لکھتا ہے Why our universe is just right for life? یعنی صرف ہماری کائنات ہی زندگی کے لیے کیوں ٹھیک ٹھاک یعنی موزوں ہے؟ جواب ہے: اس لیے کہ سپر کلسٹر ''لینے آکیا‘‘ کے بعد بھی کائنات اتنی بڑی ہے کہ اس کا اندازہ آپ سائنسدانوں نے لگایا ہے کہ عمر اس کائنات کی 14 ارب نوری سال ہے۔ تم روشنی کی رفتار بھی حاصل کر لو تو زیادہ سے زیادہ 14 ارب سال طے کر لو گے تو پھیلتی اور دوڑتی کائنات تب کہاں پہنچ چکی ہو گی؟ اتنی عمر کہاں اور پھر گوشت کا بنا ہوا بے چارہ انسان؟ پھر جس کو تم کائنات کہتے ہو یہ تو آسمانِ دنیا ہے۔ اس کا بھی ادنیٰ سا کنارا... باقی چھ آسمان کیسے اور کتنے بڑے ہیں‘ یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ ہاں! جاننا چاہتے ہو تو درست اور مکمل ایڈریس ہم بتلائے دیتے ہیں۔ موجودہ جسم کے ساتھ تم جا نہیں سکتے‘ اس جسم کے اندر ایک روح ہے، ایک نفس ہے، چاہے اسے جان کہہ لو، یہ نفس سورۃ النور کی نورانی آیت پر عمل کر لے، اس آیت میں کائنات کو ایک نورانی طاقچے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ناسا کی وڈیوز میں کائنات کا جو منظر دکھلایا گیا ہے‘ وہ چھ سمتوں سے شیشے کے چوکور ڈبے یعنی طاقچے ''مشکوٰۃ‘‘ میں بند ہے۔ اندر گلیکسیاں اور جھرمٹ چمک رہے ہیں۔ قرآن کے مناظر کی تصدیق ناسا کی وڈیوز کر رہی ہیں۔ لہٰذا... فرشتہ آئے گا‘ ضرور آئے گا اور اپنے وقت پر آئے گا‘ جسم سے روح یا نفس کو نکالے گا اور لمحے میں سات آسمانوں سے اوپر خالق کائنات کے سامنے پیش کر دے گا۔ جس نے میرے حضور کریمﷺ کا کلمہ پڑھا ہوگا‘ ''سورہ محمد‘‘ میں اس کے لیے درست اور مکمل ایڈریس موجود ہے۔ ارشاد فرمایا: ''اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو (درست راستے پر) لے جائے گا۔ ان کے احوال کی اصلاح فرما دے گا اور انہیں ایسی جنت میں داخل کرے گا جس کی انہیں خوب پہچان کرا چکا ہو گا (اس کا ایڈریس ان کے اندر فیڈ کر دیا گیا ہو گا)‘‘ (محمد: 5تا 6) حضور کریمﷺ نے فرمایا: ''اس ذات (اللہ) کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے۔ اہل جنت میں سے ہر ایک کو جنت میں اپنے محل کا راستہ اس سے زیادہ معلوم ہو گا، جس قدر اسے دنیا میں اپنے گھر کا راستہ معلوم تھا‘‘۔ (صحیح بخاری: 6535)