"AHC" (space) message & send to 7575

اللہ خلّاق، انسانی ہاتھ اور میڈیکل سائنس

اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا: ''اے ابلیس! یہ شخص (آدم) کہ جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا، آخر وہ کیا چیز ہے کہ جس نے تجھے اس کو سجدہ کرنے سے روک دیا؟‘‘۔ (ص:75) قارئین کرام! بائبل میں Hand of God‘یعنی خدا کے ہاتھ کا تذکرہ 9مرتبہ ہوا ہے۔ قرآن میں بھی متعدد مرتبہ اللہ تعالیٰ کے دست مبارک کا ذکر ہوا ہے۔ احادیث میں بھی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کا ذکر کئی بار ہوا ہے۔ اللہ کے ہاتھ کی کیفیت نہ ہمیں معلوم ہے اور نہ ہی معلوم ہو سکتی ہے۔ خالق کے ساتھ مخلوق کی مشابہت کا تصور بھی جہالت ہے، بس قرآن مجید اور احادیث شریف پر ایمان کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں پر ایمان رکھنا چاہیے کہ وہ اسی طرح ہیں جس طرح اللہ کی شان اور عظمت کے لائق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کے بنانے کو اپنے ہاتھوں کی طرف منسوب کیا تو اس سے حضرت انسان کی عزت اور تکریم کا پتا چلتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے جسم کے اعضا کی تخلیق باقی مخلوقات سے منفرد بھی ہے اور اپنے اندر بعض خصوصیات بھی سمیٹے ہوئے ہے۔ ان اعضا میں سرفہرست انسانی ہاتھ کی Anatomy ہے جو اپنے اندر دلائل لئے ہوئے ہے کہ انسانی ہاتھ کی تخلیق ارتقائی مراحل سے خود نہیں ہوئی بلکہ ایک خالق کی عظیم اور منفرد تخلیق ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ''خالق‘‘ استعمال ہوا ہے اور دوبار ''خلاق‘‘ بھی استعمال ہوا ہے۔ سورۃ الحجر اور سورہ یٰسین میں یہ عظیم صفاتی نام آیا ہے جس میں مبالغے کا مفہوم پایا جاتا ہے یعنی اس کی رنگارنگ اور گوناگوں مخلوقات کے رنگ اور نیرنگیاں اس قدر ہیں کہ شمار سے باہر ہیں۔
سر آئزک نیوٹن‘ جو سیب کے درخت کے نیچے بیٹھا تھا اور سیب کو گرتے دیکھنے سے زمین کی کشش کا اصول سائنس بن کر سامنے آیا‘ اس نیوٹن نے کہا تھاThe Thumb alone would be enough to convince me of GOD's Existence یعنی اللہ پر ایمان لانے کے لئے اکیلا انسانی انگوٹھا ہی کافی ہے۔ (اگر اس کی اناٹومی پر غور و فکر کیا جائے) اب ہم آج کے دور کے معروف میگزین کے ایک مضمون کا تذکرہ کرتے ہیں جیسے Helen Cowan نے تحریر کیا ہے۔ ہاتھ سے لے کر کندھے کے جوڑ تک گوشت کے بغیر ہڈیوں کا ڈھانچہ بنایا گیا ہے اور ہاتھ کی ہتھیلی پر سیب رکھا ہوا ہے۔ مضمون نگار نے یہاں آئزک نیوٹن کا مذکورہ قول تو نہیں لکھا مگر اشارہ کر دیا کہ نیوٹن کی بات آج کی جدید ترین سائنس نے بھی ثابت کر دی ہے کہ جو ہاتھ اور بازو کا خالق ہے وہ نہایت زبردست اور عظیم ہے۔ ریڈرزڈائجسٹ نے سرخی یوں جمائی ہے: Structurally, The Hand is one of most intricate parts of the Human Body (ڈھانچے کے لحاظ سے‘ انسانی جسم کے اعضا میں سے ہاتھ اور بازو سب سے بڑھ کر عقل کو حیران کر دینے والے ہیں)۔ ایک ہاتھ کی انگلیوں میں 14 ہڈیاں ہوتی ہیں مگر ہاتھ کی انگلیوں میں اس قدر نرمی اور لچک ہے جو بیان سے باہر ہے۔ ایک انسان اپنی اوسط عمرمیں تقریباً 25 ملین مرتبہ انگلیوں کو استعمال کرتا ہے۔ قارئین کرام! آیئے گنتی کرتے ہیں؛ ہر انگلی میں تین جوڑ ہیں، پہلا جوڑ کہ جہاں سے انگلی شروع ہوتی، دوسرا درمیان میں اور تیسرا اور آخری جوڑ‘ جو ناخن سے پہلے ہے۔ یوں چار انگلیوں کی بارہ ہڈیاں بن گئیں، انگوٹھا ویسے تو مضبوط ہے چاروں انگلیوں سے فاصلے پر بھی ہے مگر ہر کام میں اکثر ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس کی صرف دو ہڈیاں ہیں۔ یوں کل تعداد 14 ہو گئی۔ ہتھیلی میں پانچ ہڈیاں ہوتی ہیں، یہ ہڈیاں پانچوں انگلیوں سے ملتی ہیں اور یہ وہی ہڈیاں ہیں کہ مٹھی بند کی جائے تو مکا بن جاتا ہے۔ (کاش! کوئی انسان کسی بھی دوسرے انسان اور جاندار کیلئے مکا بنانے کی پہل نہ کرے)۔ بہرحال! یہ ہڈیاں 19 بن گئیں، کلائی میں 8 عدد ہڈیاں ہوتی ہیں، یوں ایک ہاتھ میں 27 ہڈیاں ہوتی ہیں۔
قارئین کرام! میں نے ریڈرزڈائجسٹ کی ریسرچ کو بھی سامنے رکھا اور برطانوی ڈاکٹر ایم سی گاون کی تحقیق کو بھی پڑھا۔ ہاتھ اور بازو کی (اناٹومی) کا مطالعہ کیا۔ حقیقت یہ سامنے آئی کہ ہاتھ کی 27 ہڈیاں جو حرکت کرتی ہیں‘ وہ پٹھوں یعنی عضلات (Muscles) میں حرکت پیدا ہونے سے حرکت کرتی ہیں۔ ان عضلات کی تعداد 35 عدد ہے۔ ان 35 میں سے 7عضلات ایسے ہیں جو شہادت والی انگلی (Index Finger) کو کنٹرول کرتے ہیں یعنی انگوٹھا ہو یا چھوٹی و بڑی انگلی‘ عضلات کی تعداد سب کے لئے سات ہی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ 35 عضلات ہاتھ میں نہیں بلکہ بازو میں ہیں۔ کہنی سے اوپر ہیں، دماغ کے قریب ہیں‘ ان کا رابطہ یوں ہوتا ہے کہ دماغ سے عضلات میں حکم آتا ہے اور وہاں سب کہنی کے اندر جو نروز(Nerves) کا گچھا بنا ہوا ہے‘ وہیں کلائی سے آنے والی ہڈیوں کا نروز کے ذریعے جوڑ بنتا ہے اور اسی جوڑ سے آگے حکم جب ہاتھ اور اس کی انگلیوں تک جاتا ہے تو سب اپنے کام پر لگ جاتے ہیں۔ جسمانی طور پر دیکھیں تو انسان کے دونوں بازو باقی جسم کے مقابلے میں بہت کم جسامت کے حامل ہیں مگر دماغ اپنا تقریباً چوتھا حصہ ان بازوئوں اور ہاتھوں کو کنٹرول کرنے پر صرف کرتا ہے یعنی ہاتھوں کا خالق چاہتا ہے کہ انسان اپنے ہاتھوں کا غلط استعمال نہ کرے، عقل سے کام لے، جارحیت نہ کرے، زیادتی اور ظلم کا مرتکب نہ ہو۔ میڈیکل سائنس کی روشنی میں ریڈرز ڈائجسٹ آگاہ کرتا ہے کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو ڈاکٹر سب سے پہلے نومولود کے ہاتھ میں اپنی انگلی پکڑاتا ہے تاکہ بچے کے ہاتھ کی گرفت کا اندازہ کرے۔ اس سے بچے کی دماغی صحت کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ دماغ میں برقی کرنٹ کی رو ٹھیک کام کر رہی ہے۔
قارئین کرام! پیدائش سے لے کر مرنے تک‘ سوائے سونے کے اوقات کے‘ ہاتھ کی گرفت اپنا کام کرتی رہتی ہے، دھکیلنا، کھینچنا اور کسی چیز کو اٹھانا اور دبانا اور پھر طرح طرح کے زاویے بنا کر اس ہاتھ سے کام لینا۔ مزید زاویے بنا کر اسے گفتگو اور تقریر میں استعمال کرنا... الغرض!آج دنیا میں جس قدر بھی مشینی دور کی ترقی نظر آ رہی ہے‘ روبوٹ بن رہے ہیں اس کے علاوہ کنسٹرکشن میں ، کاروں، جہازوں، اسلحہ فیکٹریوں میں‘ مریخ پر اور خلا میں جو مشن بھیجے گئے ہیں‘ ان سب میں اس ہاتھ کی کاریگری شامل ہے کہ جس کے پیچھے برقی کرنٹ اور برقی لہریں کام کررہی ہیں۔ ان لہروں اورروئوں کے یہاں تک اثرات ہیں کہ ڈاکٹر پاول گولڈ سٹیفن‘ جن کا تعلق یونیورسٹی آف کولوراڈو (امریکا) سے ہے‘ اپنی تحریر میں بتاتے ہیں کہ میری بیوی دردِ زہ میں مبتلا تھی‘ میں نے ہمدردی کے ساتھ اس کا ہاتھ تھاما تو اس کی تکلیف کم ہو گئی۔ اب میں نے لیبارٹری میں تجربات کئے تو پتا چلا کہ ہاتھ تھامنے سے انسان کے سانس اور دماغ کی لہریں حصہ دار بن جاتی ہیں اور متاثرہ انسان کی تکلیف اور درد کم ہو جاتے ہیں۔
قارئین کرام! دماغ کے اندر جو کرنٹ اور لہریں (Waves) ہیں، ان کا تعلق روح کے ساتھ ہے اورروح اللہ کے امر میں سے ہے، یعنی انسان جب درست راستہ‘ انسانی خدمت کا راستہ‘ اختیار کرتاہے تو اللہ تعالیٰ کی مدد آتی ہے اگر یہی انسان اخلاص کے ساتھ اپنے خالق سے رابطہ کر کے قرآنی دم کرے‘ حضور اکرمﷺ کے بتائے ہوئے ذکر و اذکار سے دم کرے تو شفا کے مواقع کہیں زیادہ پیدا ہو جائیں۔
ڈاکٹر ایم سی گاون کہتے ہیں کہ انگلیوں کی کھال سپیشل ہے، اس کھال میں چار اقسام کے Receptors ہیں جو دماغ کو بتاتے ہیں کہ انگلیوں پر جو دبائو آیا ہے وہ ہلکا ہے یا گہرا ‘ محض چھوا (ٹچ کیا) گیا ہے یا درد کی کیفیت سے دوچار کیا گیا ہے یا پھر اسے گرمی پہنچائی گئی ہے یا ٹھنڈا کیا گیا ہے، اس کے نیچے جو خلیات ہیں وہ چربیلے ہیں تاکہ بے شمار نروز کو نرم رکھنے میں تعاون کر سکیں، انگلیوں کے جو ناخن ہیں وہ انگلیوں کے خاتمے پر نہ صرف یہ کہ تحفظ اور مضبوطی دیتے ہیں بلکہ وہ دماغ کے فیصلہ کرنے میں مدد گار ہوتے ہیں کہ کس چیز کو کس انداز اور کس زاویے پر اپنی گرفت میں لینا ہے۔
قارئین کرام! میں نے ڈاکٹر ایم سی گاون کو قدرے تفصیل سے پڑھا، وہ ملحد ہے مگر جب انسانی ہاتھ کو دیکھتا ہے تو ایک خالق کی طرف جھکائو ہوتے ہی ''نیچر فورسز‘‘کا اعلان کر دیتا ہے۔ درحقیقت وہ تذبذب اور شک کا شکار ہے سب ملحدوں کا یہی حال ہے۔ مخلص ملحد دنیا میں کوئی نہ ملے گا۔ بہرحال ڈاکٹر صاحب کو لکھنا پڑھا:
The Hand is one of the most complex and Beautiful pieces of Natural Engineering in Human Body.(انسانی ہاتھ سب سے بڑھ کر ایک پیچیدہ عضو اور انسانی جسم کی فطرتی انجینئرنگ کے ٹکڑوں میں سے خوبصورت ٹکڑا ہے)۔ یاد رہے! مندرجہ بالا الفاظ ڈاکٹر گاون نے بہت سارے جانداروں کے اگلے بازوئوں کا تجزیہ کرنے کے بعد لکھے ہیں، یعنی انسانی ہاتھ وہ شاہکار ہے جو انسانی جسم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے خصوصی شاہکار بنایا ہے۔ جی ہاںٖ! یہ انسانی ہاتھ ہے، یہ ہاتھ دوسرے ہاتھ کو دیکھ کر بیماری کی تشخیص بھی کر لیتا ہے‘ اس ہاتھ کی انگلیاں انسانی نبض پر ہوتی ہیں تو بہت کچھ بیماری کے بارے بتا دیتی ہیں۔ یہ ہاتھ مسکینوں، بیوائوں، یتیموں، مصیبت میں گھرے لوگوں کے لئے شفقت و راحت کا بھی باعث ہے اور ظلم و جبر کا بھی، مارکٹائی کا سبب بھی ہے اور خوراک خصوصاً دودھ میں ملاوٹ کا بھی۔ آہ! ایسا ہاتھ شیطانی ہاتھ ہے، لوگو! آئو سب رحمانی ہاتھ بنو، کورونا کے دنوں میں انسانیت کے کام آئو، ہاتھ کے بارے میں خصوصی سائنسی گفتگو ان شاء اللہ اگلے کالم میں‘ تب تک کے لئے سب مسلمانوں، سب اہل پاکستان اور سب انسانوں کے لئے ڈھیر ساری دعائیں کہ اے مولا کریم! ہم سب اولاد آدم کو کورونا کے وبائی مرض ے نجات عطا فرما۔ اے خلاقِ عظیم! ہم سب پر اپنے پُررحمت ہاتھ کا سایہ کر کے شفا عطا فرما،آمین!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں