اللہ تعالیٰ ہی کائنات اور اس میں موجود ہر شے کا خالق ہے۔ یہ حقیقت جب سائنسی ثبوتوں کے ساتھ سامنے آئی تو معروف عالمی سائنسی میگزین ''جرنل پلاس‘‘ کا جو رویہ تھا وہ یقینا سائنس کے نام پر غیر سائنسی تھا۔ امریکہ سے شائع ہونے والا Plos-one پبلشنگ کمپنی کا ایک ایسا میگزین ہے جس میں سائنس کے تمام شعبوں سے متعلق مضامین اعلیٰ ترین سائنسی معیار کے ساتھ شائع ہوتے ہیں۔ اس میگزین کی اشاعت لاکھوں میں ہے اور اس میں سالانہ جو مضامین شائع ہوتے ہیں وہ لگ بھگ اٹھائیس ہزار (28000) کی تعداد میں ہوتے ہیں جبکہ ہر مضمون کا ایک معاوضہ مقرر ہے جو ''1495‘‘ ڈالر ہوتا ہے یعنی سوا دو لاکھ روپے کے قریب۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہر مضمون سائنسی تجربات اور لمبی چوڑی تحقیق اور ریسرچ کے بعد مذکورہ میگزین میں اشاعت کے قابل ہوتا ہے، اس لیے معاوضہ بھی بخوبی ادا کیا جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک مضمون اس جرنل میں شائع ہوا جس میں سائنسدانوں کی کئی سالوں پر مبنی ریسرچ تھی، ان میں سے دو کا تعلق ''ہازونگ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی چین‘‘ سے ہے۔ ان کے نام Ming-Jin Liu اور Cai-Hua Xiong ہیں۔ تیسرے کا نام Xia Lin Huang ہے، ان کا تعلق ''نگجی ہسپتال چین‘‘ کے تحقیقی ادارے سے ہے اور چوتھے Le Foisle ہیں۔ ان کا تعلق امریکی ریاست میساچوسٹس (Massachusetts) کے سائنسی ادارے Worcester Polytechnic Institute سے ہے۔ مذکورہ تمام افراد نے باہم متعلق ہو کر اپنے اپنے اداروں میں انسانی ہاتھ کی بناوٹ اور اس کی حیرت انگیز کارکردگی پر سائنسی تجربات اور ریسرچ کی اور پھر Journal Plos میں ایک مضمون شائع ہوا۔ اس تفصیلی مضمون کا نچوڑ‘ Abstract کے عنوان سے اس طرح شائع کیا گیا ہے کہ ''ہاتھ کی مربوط کارکردگی تمام انسانوں کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ اپنا کام انتہائی مہارت اور تہذیب سے کریں، تیز ترین کارکردگی دکھائیں اور اپنے روز مرہ کے اہداف کو خوبصورتی کے ساتھ انجام دیں۔ انسانی ہاتھ میں جو انتہائی پیچیدہ بناوٹ ہے، وہ ایسا میکینکل ڈھانچہ ہے کہ اس میں انسانی ہاتھ کے اندر جو باہمی تعاون کام کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے وہ کارکردگی میں انتہائی ضروری صلاحیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہ کارکردگی ہمارے لیے ایک چیلنج ہے۔ اس چیلنج کا جواب یہ نہیں کہ بائیو میکینکل نظام سے ہی ہاتھ کا کردار منسلک ہے اور اسکے پیچھے کچھ نہیں ہے۔ ہم نے پیچھے جا کر اسباب تلاش کیے۔ سائنس کے شعبہ ''علم الحرکیات‘‘ (Kinematic) کا جائزہ لیا۔ ہاتھ کس طرح گرفت کرتا ہے‘ اس کے بہت سارے زاویوں میں سے 30 اہم ترین زاویوں پر ریسرچ کی تو:
The explicit functional link indicates that the biomechanical characteristic of tendinous connective architecture between muscles and articulations is the proper design by the Creator to perform a multitude of daily tasks in a comfortable way.
''وضاحت اور تفصیل کے ساتھ، اصول اور ضابطے کے ساتھ جو تعلق سامنے آیا وہ اشارہ دے رہا تھا کہ بہت ساری چیزوں کو جوڑ کر (ہاتھ کی گرفت کا جو نظام بنایا گیا ہے) وہ ایک خالق کی طرف سے طے شدہ ڈیزائن کے ساتھ ہے تا کہ سہولت اور سکون کے ساتھ روز مرہ کے اہداف کو مختلف زاویوں کے ساتھ انجام دیا جا سکے‘‘۔
قارئین کرام! مندرجہ بالا تحریر کے ساتھ اور ''Hands are the "proper design by the Creator"‘‘ کے عنوان کے ساتھ جب پورا مضمون شائع ہو کر سامنے آیا تو سائنس کی دنیا میں ایک زلزلہ بپا ہو گیا کہ Creator یعنی ایک خالق کو سائنسی میگزین میں تسلیم کر لیا گیا ہے، یہ سوچ اور اپروچ غیر سائنسی ہے۔ اس پر شدید ترین تنقید شروع ہو گئی۔ برطانیہ سے شائع ہونے والے معروف جریدے The Guardian نے لکھا کہ ''جرنل پلاس‘‘ نے سائنسی ثبوتوں کے ساتھ انسانی ہاتھ کی تخلیق کو واضح کیا ہے اور اس تخلیق کو ایک خالق کی طرف منسوب کیا ہے اور پھر یہ بھی واضح کیا کہ آج کا انسانی ہاتھ بالکل ویسا ہی ہے جیسا لاکھوں سال سے وراثت میں انسان سے انسان کو ملتا چلا آ رہا ہے، یعنی لاکھوں سالوں سے ہاتھ کے ارتفا میں کوئی فرق نہیں آیا۔ یہ ایک خالق کی تخلیق ہے۔ دی گارڈین نے لکھا کہ یہ ایک علمی اور سائنسی ڈسکشن تھی، دلائل سے بھرپور تھی مگر ''خالق‘‘ کے لفظ سے کئی حلقوں میں آگ لگ گئی اور کہا گیا کہ اس پیراگراف کو‘ جس میں خالق کا لفظ آیا ہے‘ حذف کیوں نہیں کیا گیا؟ اناٹومی یعنی اعضا کے معروف سائنسدان پروفیسر الائس رابرٹ نے کہا: میرا خیال تو یہی ہے کہ مذکورہ پیپر ایک دھوکا (Hoax) تھا۔
قارئین کرام! اندازہ لگائیں کہ ایک سائنسدان خالقِ کائنات کے بارے میں اس قدر تعصب سے بھرا بیٹھا ہے کہ وہ علمی اور سائنسی تنقید کی بجائے اپنے غصے اور نفرت کا اظہار کرتا ہے۔ اللہ اللہ ! میرے مولا کریم یہ آپ کے حلم کا ہی حوصلہ ہے کہ آپ سائنس کے نام سے غیر سائنسی رویوں کو بھی برداشت کرتے ہیں کہ شاید میرا بندہ کسی وقت راہِ ہدایت پر آ جائے۔ ایک ہندو سائنسدان ڈاکٹر راجہ چاتیلا کہتا ہے کہ الائس رابرٹ کی طرح دوسرے سائنسدان بھی غصے میں ہیں۔ جی ہاں! ہندو سائنسدان کو بھی سائنس کے نام سے غیر سائنسی غصہ اس لیے آتا ہے کہ ایک خالق اور اس کی تخلیق کا تذکرہ سائنسی میگزین میں کیوں ہوا ہے۔ ڈاکٹر ڈائیلو روسو کہتا ہے کہ ''جرنل پلاس اور پلاس ون کے اشاعتی ادارے کی تمام نشریات کا بائیکاٹ ہونا چاہیے، سب کو انتباہ ہونا چاہیے کہ ان کے ساتھ کوئی تعلق نہ رکھے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ:
There is no room in the scientific literature for intelligent design.
''(تخلیق کائنات کے پیچھے) ذہانت کے حامل (اللہ کی قدرت) کے ڈیزائن (والے نظریے) کے لیے سائنسی لٹریچر میں کوئی جگہ نہیں ہے (جہاں ایک خالق کا عقیدہ موجود ہو)‘‘۔
ڈاکٹر مائیکل سیرز نے لکھا کہ اگر میں جرنل پلاس کا ایڈیٹر ہوتا تو مذکورہ ریسرچ پیپر کی اشاعت کے بعد استعفیٰ دے دیتا۔ برطانیہ کی مانچسٹر یونیورسٹی میں کمپیوٹیشنل مالیکیولر ارتقا کا ریسرچرسائنسدان James Mclner NFY کہتا ہے کہ ایک خالق کے باضابطہ ڈیزائن کی بات Absolute joke of a journal (جرنل پلاس کا ایک یقینی مذاق ہے)۔ مزید کہا کہ خالق اور خدائی ہاتھ جیسے الفاظ‘ جو مذکورہ میگزین میں شائع ہو گئے ہیں‘ اس کے بعد اس میگزین کی اشاعت بند ہو جانی چاہیے۔
قارئین کرام! مذکورہ تنقید کے بعد جرنل پلاس کی انتظامیہ نے قارئین سے معافی مانگی اور کہا کہ ہم سے غلطی ہو گئی، لہٰذا اب ہم اگلے شمارے میں خالق کی جگہ پر قدرت و فطرت کا لفظ استعمال کیا کریں گے۔ انگریزی الفاظ ملاحظہ ہوں:
We will change the creator to nature in the revised manuscript.
مزید کہا گیا کہ ہم یہ بھی اعلان کرتے ہیں کہ جو تخلیقی ثبوت (Creationist Argument) دیا گیا ہے وہ غیر سائنسی (Non-science) ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ مندرجہ بالا بات نے ہماری ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ (Damage our credibility)، کسی خالق کو ماننا ہمارے میگزین کی پالیسی کے خلاف ہے۔ گہرائی میں جا کر جائزہ لیں تو مذکورہ باتیں میگزین کے لیے ندامت کا باعث (Embarrassing) ہیں۔ لہٰذا نظریہ ارتقا (Evolution) ہی سچ ہے جو بیالوجی کا سائنسی لٹریچر ہے۔
قارئین کرام! ارتقائی نظریے کا مطلب ہے کہ کائنات اور اس میں موجود ہر شے خود بخود ہی ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے کسی خالق کے بغیر وجود میں آئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نظریہ سائنسی اعتبار سے متعدد بار باطل ثابت ہو چکا ہے۔ مذکورہ مضمون میں بھی اسے باطل قرار دے دیا گیا ہے مگر تعصب کا حال یہ ہے کہ بعض سائنسدان غیر سائنسی نادانی کو سائنس بنانے پر تلے بیٹھے ہیں اور تعصب کے سوا ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ یاد رہے کہ مذکورہ ریسرچ 'جرنل پلاس‘ میں5 جنوری 2016ء کو شائع ہوا تھا جبکہ 'دی گارڈین‘ نے اس پر جو تنقید شائع کی وہ 7 مارچ 2016ء کو شائع ہوئی تھی۔ آج اپریل 2021ء ہے‘ مذکورہ واقعہ کو 5 سال بیت چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہاتھ کی تخلیق کے دلائل کو نہ کوئی جھٹلا سکا ہے اور نہ ہی کوئی سائنسی توضیح کر سکا ہے۔ غیر سائنسی تعصب آج بھی سیاہی اور کالک بن کر متعصب سائنسدانوں کو چیلنج دے رہا ہے کہ علمی، سائنسی اور نورانی دلیل ہے تو لائو وگرنہ کی دنیا میں سائنس کے نام پر سیاہی پھینکنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تعصب کی بنیاد پر علم اور سائنس کو جھٹلانے کا رواج صرف سیاستدانوں، رجعت پسندوں اور نادانوں میں ہی نہیں بلکہ بہت سارے سائنسدانوں میں بھی ہے۔ وہ بھی کسی سے کم نہیں، لہٰذا علم کی دنیا میں ہر چیز علم اور سائنس کی بنیاد پر نہیں ہوتی‘ لہٰذا آنکھیں کھول کر جینا چاہیے۔ ڈاکٹر Gianluca Polgar نے خوب کہا کہ خالق (اللہ) کی موجودگی سائنسی صحافت کا سچ ہے، اس کی تلاش کو سپورٹ ملنی چاہیے۔ سائنسی صحافت کو کھرب پتی مالداروں کی مداخلت، سیاست اور تجارت کے دبائو سے آزاد ہونا چاہیے تا کہ ہمیں سائنس کے میدان میں حق مل سکے، حق کی تلاش ہی ہمارا ایمان ہونا چاہیے۔ (دی گارڈین)
قارئین کرام! مذکورہ گفتگو کے بعد اللہ تعالیٰ کی آخری الہامی کتاب قرآن مجید میں اللہ کا فرمان ملاحظہ ہو ''صورتحال یہ ہے کہ جب ایک اللہ کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو وہ لوگ جو اگلی زندگی پر ایمان نہیں رکھتے۔ ان کے دل (ایک خالق کے ذکر سے) تنگ ہونا شروع ہو کر نفرت میں بدلنا شروع ہو جاتے ہیں اور جب اللہ کے علاوہ (قدرت و فطرت وغیرہ) کا تذکرہ ہوتا ہے تو تب بہت زیادہ خوش ہونا شروع ہو جاتے ہیں‘‘۔ (الزمر:45)
قارئین کرام! جن لوگوں‘ خاص طور پر ملحد سائنسدانوں‘ نے فطرت (Nature) کہ اپنا معبود بنا رکھا ہے‘ ان کے اس معبود کے بارے میں قرآن کریم اور سائنس کی روشنی میں اگلے جمعۃ المبارک کو ملاقات کریں گے۔