اللہ الحیُّ القیُّوم کے فضل و کرم سے آج جو سائنسی انکشاف قارئین کی خدمت میں پیش کرنے جا رہا ہوں، اس نے سائنس کی دنیا کو ایسے سمندر کے ساحل پر کھڑا کر دیا ہے جو حیرتوں اور حیرانیوں کی موجوں اور لہروں سے اچھل رہا ہے۔ ''دی واشنگٹن پوسٹ‘‘ نے 23 مارچ 2021ء کو پروفیسر ڈاکٹر جیفری لوب (Jeffery loeb)کی ایک ریسرچ شائع کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب University of Illinois (شکاگو) میں پروفیسر ہیں اور ''نیورو ریپوزیٹری‘‘ کے ڈائریکٹر ہیں۔ یہ شعبہ انسانی دماغ کے ٹشوز کا بینک ہے۔ یہاں الزائمر، آٹزم اور شیزو فرینیا وغیرہ جیسے بیماروں کے دماغوں کی سرجری کی جاتی ہے۔ دورانِ سرجری فوت ہونے والوں کے دماغوں کے ٹشوز بینک میں جمع کر لیے جاتے ہیں۔ فوت شدہ لوگوں کے پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے ان کے دماغوں کے ٹشوز بھی لئے جاتے ہیں۔ اس کے بعد لیب میں ان پر ریسرچ کی جاتی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر جیفری لوب کے دیگر ساتھی جو یہی کام ''یونیورسٹی آف کیلیفورنیا‘‘ اور ''کولڈ سپرنگ ہاربر لیبارٹری‘‘ میں کرتے ہیں‘ ''ناتھ بولے‘‘ اور ''تھامس گنگراس‘‘ ہیں۔ لارنس برکلے امریکا کی نیشنل لیبارٹری میں یہی کام کرتے ہیں۔ ڈاکٹر جیفری کی اپنی ٹیم میں جو میڈیکل سائنٹسٹ ہیں‘ ان میں فیبن ڈاچسٹ، ٹائیبرنگائے، کنوار نارائن، آنا سرافینی، گیاٹری مہاپترا، جیمز برائون اور سوسن سیلنکر شامل ہیں۔
قارئین کرام! ہر انسان کے دماغ میں ایک ہزار ملین سے بھی زیادہ خلیات ہوتے ہیں یعنی کھربوں کی تعداد میں اور ہر خلیہ ایک بڑے صنعتی شہر کی مانند ہوتا ہے جس کو امریکا کے بنائے ہوئے سپر کمپیوٹر سے کہیں بڑا سپر کمپیوٹر کنٹرول کرتا ہے۔ یہ خلیات بہت سارے گروپوں کی صورت میں ہوتے ہیں اور آپس میں منسلک ہوتے ہیں۔ کوئی گروپ یادداشت پر مبنی ہوتا ہے تو کسی گروپ کا کام سوچ بچار ہوتا ہے۔ خلیات کے ان گروپوں میں ایک ایسے گروپ کا انکشاف ہوا ہے جسے گلیال خلیات (Glial cells) کہا گیا ہے۔ ان خلیات کے اندر جو جیز (genes) ہوتے ہیں انہیں زومبی (zombie) کہا جاتا ہے۔ میڈیکل سائنس کے مطابق‘ انسان کے دل کی دھڑکن جب بند ہو جاتی ہے تو وہ موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ اس کے جسم کے تمام اعضا تیزی سے مرنا شروع کر دیتے ہیں؛ تاہم اصل موت دماغ کی موت ہوتی ہے۔ دماغ کے بھی تمام خلیاتی گروپ مر جاتے ہیں۔ اسے میڈیکل کی زبان میں دماغی نظام کا شٹ ڈائون (shut down) کہا جاتا ہے۔ مذکورہ فائنل اور حتمی موت کے بعد اب ایک نئی ریسرچ سامنے آئی ہے۔ اس ریسرچ پیپر میں ڈاکٹر جیفری اور دیگر سائنسدانوں کے ساتھ پروفیسر جان ایس گارون جیسے نامی گرامی سائنسدان بھی شامل ہیں جو نیورولوجی کے ماہر ہیں۔ یہ سب سائنسدان کہتے ہیں کہ انہوں نے لیبارٹریوں میں تحقیق کے دوران انسانی دماغ کے خلیات کی مکمل موت کے بعد خلیات کی ایک ایسی قسم دریافت کی ہے، جو ہر انسان کی موت کے بعد زندہ رہتی ہے۔ یہ گلیال ہیں اور حیران کن بات یہ ہے کہ گلیال اور ان کے اندر جو زومبی جینز ہیں‘ ان کی کارکردگی (Activity) بہت تیز ہو جاتی ہے اور اس سے بھی بڑھ کر حیرتناک حقیقت یہ ہے کہ زومبی جینز بڑے پیمانے پر اپنی پیداوار اور نشوونما شروع کر دیتے ہیں۔ انسان کی موت کے بعد مذکورہ عمل تقریباً 24 گھنٹے کے لگ بھگ جاری رہتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر جیفری کہتے ہیں کہ دماغی خلیات کی زندگی کی علامت یہ ہے کہ وہ الیکٹریکل سگنلز وصول کرتے ہیں اور جب یہ وصولی کا نظام ختم ہو جاتا ہے تو دماغی موت واقع ہو جاتی ہے جبکہ گلیال خلیات اور ان میں زومبی جینز یہ الیکٹریکل سگنلز بھی وصول نہیں کرتے مگر پہلے سے بڑھ کر زندگی کا ثبوت دیتے ہیں اور کارکردگی بھی زیادہ ہو جاتی ہے جبکہ ان کا سائز بھی بڑا ہو جاتا ہے۔ ثابت یہ ہوتا ہے کہ موت کے بعد سب کا Degrade ہو جانا اور گلیال خلیات کا پہلے سے کہیں بڑھ کر Stable ہو جانا بتاتا ہے کہ یہ انسان کا مکمل خاتمہ نہیں ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ جی ہاں! تو پھر یہ کیا ہے؟
''سائنس ڈیلی‘‘ کے شمارے میں مضمون نگار کیرولین ڈیلبریٹ نے لکھا کہ :
After you die, zombie genes in your brain come to life.
یہ جو زومبی جینز ہیں‘ تمہاری موت کے بعد تمہارے دماغ میں (اگلے جہان) کی زندگی لاتے ہیں۔ ڈاکٹر جیفرے اور دیگر سائنسدانوں کو یہ سب مشاہدہ کرنے کے بعد کہنا پڑا کہ :
Zombie genes research shows some genes come to life in the brain after death.
زومبی جینز کی ریسرچ واضح کرتی ہے کہ موت کے بعد دماغ میں بعض جینز ایسے ہیں جو زندگی لاتے ہیں۔ دیگر میگزینز ''سائنٹیفک جرنل‘‘ ''نیوروسائنس نیوز‘‘ اور ''نیشنل پوسٹ‘‘ وغیرہ نے بھی ایسے ہی جملے لکھے کہ سائنسی طور پر موت کے بعد زندگی کا ثبوت دیکھ لیا گیا ہے۔
لوگو! رمضان کے مہینے میں نزولِ قرآن کا آغاز ہوا۔ حضرت محمد کریمﷺ کے پاک اور مبارک دل پر یہ نازل ہوا۔ مولا کریم فرماتے ہیں! ''وقت آیا چاہتا ہے کہ جب ہم ان لوگوں کو آفاق (فلکیات) میں بھی اپنی نشانیاں دکھائیں گے اور خود ان کے اپنے وجود میں بھی دکھائیں گے، حتیٰ کہ ان پر واضح ہو جائے گا کہ یہی (قرآن اور صاحبِ قرآن حضرت محمد کریمﷺ) حق ہے۔ (میرے رسولﷺ) کیا آپ کے رب کی یہ بات کافی نہیں ہو گئی کہ وہ ہر شے پر گواہ ہے۔ خبردار! حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ (اب بھی) اپنے رب کے ساتھ ملاقات کرنے کے حوالے سے شک و شبہے میں مبتلا ہیں۔ یاد رکھو! وہ (اللہ) ہر شے کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہیں۔ (حٓمٓ السجدۃ: 53تا 54) قارئین کرام! ڈاکٹر جیفری لکھتے ہیں کہ تحقیق (حقائق)دکھاتی ہے۔
یہی حقیقت قرآن نے ساڑھے چودہ سو سال قبل ارشاد فرمائی کہ ہم ان کو آنے والے وقت میں دکھا دیں گے۔ قرآن مجید میں ''سنریھم‘‘ کا لفظ ہے۔ ''س‘‘ آنے والے وقت کے لیے ہے ''نُری‘‘ کا معنی ہے: ہم دکھائیں گے۔ ''ھم‘‘ کا معنی ہے: ان لوگوں (سائنسدانوں)کو۔ اور انہوں نے لیبارٹریوں میں دیکھ لیا۔ لوگوں نے اس سے بڑھ کر قرآن کا معجزہ اور کیا دیکھنا ہے؟ اللہ کی قسم! ایسے قرآنی معجزات اور بھی بہت ہیں۔ متواتر لکھتا چلا آ رہا ہوں مگر ملحدوں کا شک دور نہیں ہو رہا۔ افسوس یہ ہے کہ جو لوگ رب کریم سے ملاقات پر ایمان رکھتے ہیں، عملی طور پر وہ بھی بے پروا دکھائی دیتے ہیں اور اسی دنیا میں مگن ہیں۔ مولا کریم فرماتے ہیں ''وہ لوگ (کیا ہی خوش قسمت ہیں) کہ ان کی جانوں کو فرشتے ایسی حالت میں اپنے قبضے میں لیتے ہیں، جب وہ (ایمان اور نیک اعمال کے لحاظ سے) پاک صاف ہوتے ہیں تو فرشتے انہیں سلام کہتے ہیں اور کہتے ہیں جو تم عمل کرتے رہے ہو، اس کے بدلے میں جنت میں داخل ہو جائو، (النحل:32) وہ لوگ جو اپنے آپ پر (اور اپنے ہی لوگوں پر) ظلم کرنے والے ہوتے ہیں۔ ان کی جانیں جب فرشتے اپنے ہاتھوں میں لینے لگتے ہیں تو انتہائی مسکینی کی کیفیت میں (جھوٹ بولتے ہوئے) کہتے ہیں کہ ہم تو برے اعمال نہیں کرتے تھے۔ کیوں نہیں‘ اللہ تعالیٰ جانتے ہیں جو تم کرتے رہے ہو؛ چنانچہ جہنم کے دروازے سے داخل ہو جائو۔ اس میں ایسے لوگ ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ تکبر کرنے والوں کا انتہائی برا ٹھکانا ہے۔ (النحل:28 تا 29) پھر اس وقت ان لوگوں کا کیا حال ہو گا کہ جب فرشتے ان (کی جانوں) کو اپنے قبضے میں لیں گے تو ان کے چہروں اور ان کی پشت پر ماریں گے (ایسی رسوائی اس لیے ہوگی) کہ انہوں نے ایسے امور کو اختیار کیا کہ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو ناراض کر دیا۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے اللہ کی خوشنودی کے حصول کو ناپسند کیا تو بدلے میں (اللہ تعالیٰ) نے بھی ان کے اعمال کو ضائع کر دیا۔ (محمد: 27 تا 28)
قارئین کرام! قرآن مجید اور حضور نبی کریمﷺ کے فرامین میں ان سارے حقائق سے آگاہ کیا گیا ہے جن کے ساتھ ہر انسان کو واسطہ پڑنے والا ہے۔ ایسے تفصیلی حقائق قرآن اور حدیث شریف کے علاوہ کہیں اور سے نہیں ملتے۔ حضور اکرمﷺ کے فرمان کے مطابق‘ روح جب نکلتی ہے تو نیک روح ساتویں آسمان پر اللہ کریم سے ملاقات کرتی ہے، پھر اسے واپس اللہ تعالیٰ کے حکم سے جسم میں لوٹایا جاتا ہے اور قبر میں حساب کتاب ہوتا ہے۔ بعض لوگ روح کے اس لوٹانے کی تاویلیں کرتے تھے۔ کامیاب وہی ہیں جو حضور کریمﷺ کے ہر فرمان کو‘ جو سند کے اعتبار سے درست ہے‘ مانتے اور اس پر یقین رکھتے ہیں۔
آج جدید میڈیکل ریسرچ نے بھی حضور کریمﷺ کی بتائی ہوئی حقیقت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں کہ روح کا رابطہ انسانی دماغ سے ایک اور طریقے سے قائم ہوتا ہے اور یہ رابطہ فرشتوں کے سوالوں کا جواب دینے کے لیے قائم ہوتا ہے۔ امتحان میں کامیابی کے بعد اس کے ایمان اور عمل کے مطابق سلوک کیا جاتا ہے۔ جنت میں بھی بھیج دیا جاتا ہے‘ اسے جو مقام دیا جاتا ہے، اسے تاحد نظر وسیع کر کے نورانی بنا دیا جاتا ہے، کسی کو 70 ہاتھ یعنی 100 فٹ کے قریب بھی جگہ ملتی ہے جبکہ گناہ گار ظالموں کو تو فوراً ہی مار پڑنا شروع ہو جاتی ہے۔ لوگو! یاد رکھو! یہ کورونا کی وبا خبردار کرنے کے لیے ہے۔ احتیاط لازم ہے مگر اس سے موت اسے ہی آئے گی جس کا ٹائم آ چکا ہے۔ اصل بات تو آخرت کی تیاری کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اس وبا سے محفوظ فرمائے‘ احتیاطی تدابیر بھی ضروری ہیں اور اپنے رب کریم سے ملاقات کے لیے تیاری بھی ضروری اور لازم ہے کیونکہ پتا کوئی نہیں کہ مالک کب اپنی ملاقات کے لیے طلب فرما لے۔