"AHC" (space) message & send to 7575

دائمی عید کس کے لیے؟

اللہ تعالیٰ کا ایک صفاتی نام ''معید‘‘ بھی ہے۔ امام جمال الدین ابن منظور ''لسان العرب‘‘ میں لکھتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے مخلوق کا آغاز کیا، انہیں زندگی بخشی، پھر انہیں مارے گا، اس کے بعد اعادہ کر کے پھر نئے سرے سے انہیں زندہ کرے گا۔ اسی طرح عربی میں ''عید‘‘ ایسے فنکشن کو کہتے ہیں جو ہر سال نئی خوشیوں کے ساٹھ پلٹتا ہے۔ اصل خوشی دل کی خوشی ہے اور دل کی دائمی اور سدا بہار خوشی ایمان کے ساتھ بندھی ہوئی ہے۔ ایمان کی نعمت قرآن سے ملتی ہے اور قرآن۔۔۔ رمضان المبارک میں نازل ہوا۔ رمضان کا مہینہ قرآن کا مہینہ ہے۔ اللہ کے رسول حضرت محمد کریمﷺ اس مہینے میں حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ ایک بار پورے قرآن کا دور کیا کرتے تھے۔ اپنے آخری رمضان میں حضورﷺ نے قرآن کا دور‘ دوبار کیا؛ چنانچہ جنہوں نے رمضان المبارک میں قرآنِ مجید کو ایک بار مکمل پڑھ لیا‘ عید ان کی ہے، جنہوں نے ترجمہ کے ساتھ پڑھا‘ ان کے لیے عید کی مسرت کئی گنا بڑھ کر ہے اور جنہوں نے قرآن کو تفکر و تدبر کے ساتھ پڑھا، سچے دل سے توبہ کی‘ اللہ اور اس کے محبوب رسولﷺ کی محبت کا گلستان اپنے دل میں سجا لیا‘ اصل اور حقیقی خوشیاں ان کے لیے ہیں کیونکہ انہوں نے اس حقیقت کو پا لیا کہ اللہ تعالیٰ ''معید‘‘ ہے‘ وہ اس کے مادی جسم سے روح کو الگ کر کے موت سے ہمکنار کرے گا۔ مادی اور خاکی وجود مٹی کے سپرد ہوگا جبکہ روحانی وجود ساتوں آسمانوں میں سفر کرتا ہوا جنت میں جائے گا۔ یہ دن جسے موت کا دن کہا جاتا ہے‘ یہ روحانی وجود کے لیے خوشیوں بھرا دن ہوگا۔ ایسا خوشیوں بھرا دن کہ کروڑوں عیدیں بھی اس دن کی خوشی اور نورانیت سے بھرپور تابانی کا سامنا نہ کر سکیں؛ چنانچہ ہر سال عید کا دن دراصل اس دن کی تیاری کا پیغام ہے کہ بندہ جب اپنے ''معید رب کریم‘‘ کے پاس جائے تو دنیا کی اربوں کھربوں عیدوں کی خوشیوں سے بڑھ کر خوشی سے جائے۔
ویسے تو موت کا دن ہر لمحے سر پر کھڑا ہے مگر پچھلے ڈیڑھ سالوں سے کورونا وبا کی صورت میں کچھ زیادہ ہی سر پر کھڑا ہو گیا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ ہم انسانوں نے اپنے خالق و مالک سے موت کی صورت میں ملاقات کرنے کے دن کو بھلا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھولے سبق کو یاد کرا رہے ہیں۔ دنیا کے ساڑھے سات ارب انسانوں کے سروں پر موت کی صورت میں ایک اور مصیبت بھی ہر لمحے تیار کھڑی ہے۔ اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے ''سورۃ الملک‘‘ میں کیا ہے۔ فرمایا: ''کیا تم لوگ آسمان والے مالک سے بے خوف ہو (اور جو کرتوتیں تم کرتے چلے جا رہے ہو وہ) تم پر پتھروں کی بارش بھی برسا سکتا ہے۔ جلد تمہیں پتا چلے گا کہ میرا ڈرانا کس طرح (تمہارے سروں پر کھڑا تھا)‘‘( الملک:17) دنیا کی سب سے بڑی دوربین جو اس وقت خلا میں ہے وہ ''حبل سپیس‘‘ ہے۔ خلا نوورد خلا میں جا کر اس کی خرابی کو دور بھی کرتے ہیںاور اس کے آلات کو وہاں جا کر جدید سے جدید تر بھی بناتے رہتے ہیں۔ اس نے پرانی اور نئی تصاویر اور زمین کے گرد خلا میں موجود ایسی چٹانوں، پتھروں اور ذرات کی وڈیوز بھی بھیجی ہیں جنہوں نے سائنسدانوں کو دہشت زدہ کر دیا ہے۔ مزید برآں! یہی تصاویر ''وائیجر ون اور وائیجر ٹو‘‘ بھی بھیج چکے ہیں جب وہ زمین کے گرد چٹانوں اور پتھروں کے حصار کی پٹی کو عبور کر کے اوپر گئے تھے۔ جنہوں نے امریکا کے انتہائی جنوب مغربی ملک چلی میں جو خلا کی تصاویر لینے والی زمینی دور بینیں نصب ہیں وہ بھی زمین کے گرد مندرجہ بالا حجری پٹی اور اس کے علاوہ بھی چٹانوں اور پتھروں کو دریافت کر چکی ہیں۔ یہ پتھریلی چیزیں جنہوں نے زمین کو خلا سے گھیر رکھا ہے۔ ان کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ دور بینوں سے نظارہ کرنے والے سائنس دان زمین کی سلامتی بارے خوفزدہ ہو گئے ہیں کیونکہ پتھریلی چٹانیں کئی کئی کلومیٹر لمبی چوڑی ہیں جو ٹنوں کے حساب میں ہیں‘ وہ بھی بے شمار ہیں۔ عام بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے پتھر تو لاتعداد ہیں، مختلف اقسام ہیں اور ریت کے ذرّات بھی یہاں موجود ہیں۔ یوں سمجھیے کہ ایک خلائی صحرا ہے جس نے زمین کو خلا میں گھیر رکھا ہے۔ جی ہاں! یہ سارا کچھ اربوں سالوں سے زمین کے گرد موجود ہے، مگر زمین محفوظ ہے۔ یہ زمین کو اپنے نشانے پہ نہیں لیتے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مندرجہ بالا سائنسی حقیقت جو آسمان اور خلا سے متعلق ہے اس کا انکشاف بیسویں صدی کے آخر اور اکیسویں صدی سے متعلق ہے‘ ساڑھے چودہ سو سال قبل اس انکشاف کا تذکرہ قرآن میں کیسے آیا؟ حضرت محمد کریمﷺ نے کیسے بتایا؟ جی ہاں! قرآن بھی برحق ہے اور جس عظیم ہستی حضرت محمد کریمﷺ پر یہ نازل ہوا وہ بھی اللہ تعالیٰ کے سچے اور آخری رسولﷺ ہیں۔
آج ساڑھے سات ارب انسان کورونا کی تباہ کاری سے خوفزدہ ہو کر ناک اور منہ پہ ماسک پہنے ہوئے ہیں۔ سائنسدان بتاتے ہیں کہ یہ تو ایک کورونا ہے۔ وہ بھی شکل بدل بدل کر خوفناک سے خوفناک ہوا چلا جاتا ہے‘ اس جیسے، اس سے کم اور اس سے کہیں زیادہ خوفناک وائرس ہماری زمین پر اربوں کھربوں اقسام میں ہیں۔ ان میں سے چند ایک ہی آپے سے باہر ہو جائیں تو انسانی زندگی نابود ہو جائے۔ لوگو! سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسانی ہلاکت کے اتنے بڑے سامان میں سے معمولی سا کھٹکا ہی کیوں ہوتا ہے؟ جی ہاں! میرے حضورﷺ کا قرآن آگاہ کرتے ہوئے بتاتا ہے تا کہ لوگ اپنی ظالمانہ کرتوتوں سے تائب ہو کر پلٹ آئیں۔ وہ رحمن رب موقع فراہم کر رہا ہے۔ موقع دینے میں رحمت ہی رحمت ہے۔ اسی طرح خلائوں میں موجود زمین کے گرد ہلاکتوں بھرے سامان سے اہلِ زمین کو صرف اللہ ہی بچائے ہوئے ہے۔ قرآن میں مولا کریم آگاہ کرتے ہیں کہ زمین پر آسمان کو گرنے (یعنی پتھروں وغیرہ کو گرنے سے) بچانے والا اور آسمان کو تھام کر رکھنے والا اللہ ہی ہے۔ حضورﷺ نے جو اذکار بتائے ہیں ان میں بھی ایسے ہی الفاظ آئے ہیں کہ اے اللہ! آپ ہی آسمان کو تھامے ہوئے ہیں کہ وہ زمین پر گر نہ جائے۔ آیۃ الکرسی میں اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ''القیوم‘‘ ہے یعنی ہر شئے کو سنبھالنے اور تھام کر رکھنے والا وہی ہے۔ فرمایا: اسے اونگھ اور نیند نہیں آتی وگرنہ اب تک سب کچھ تلپٹ ہو جاتا۔ آیۃ الکرسی کے اختتام پر فرمایا! اُسے آسمانوں اور زمین کی حفاظت نہیں تھکاتی۔ وہ تو (تھکاوٹ جیسی سوچ) سے بھی بہت بلندا ور عظیم ہے۔ لوگو! جو رب ریت کے ایک ایک ذرے کو زمین پر گرنے سے روکے ہوئے ہے، وہی کورونا کو بھی کامل بربادی سے روکے اور تھامے ہوئے ہے، پرہیز اور ویکسین ضروری ہے مگر ایمان اللہ تعالیٰ پر ہونا چاہیے کہ یہ اسے ہی نقصان پہنچائے گا، جس کی تقدیر میں لکھا ہوا ہے اور جتنا نقصان لکھا ہوا ہے بس اتنا ہی پہنچائے گا۔
''سورۃ الملک‘‘ کے آغاز میں فرمایا: بے شمار برکتوں کا مالک وہ اللہ ہے کہ جس کے ہاتھ میں کامل بادشاہی ہے، وہ ہر شئے پر مکمل اختیار رکھنے والا ہے۔ (الملک:1) لوگو! زمین کی سطح پر ہم کورونا جیسی بے حیثیت شئے کی تباہ کاری اور اپنی بے بسی ملاحظہ کر رہے ہیں۔ زمین کے اوپر خلا میں اہل زمین کی بربادیوں کے خدائی ہتھیاروں کا نظارہ کر چکے ہیں۔ آئیے! اب دیکھتے ہیں کہ ز مین کے اندر کیا بلائیں چھپی بیٹھی ہیں۔ ارشاد فرمایا! ''لوگو! کیا تم آسمان والے اس اللہ سے بے خوف ہو گئے ہو (اور کرتوتوں سے باز نہیں آ رہے ہو) تو اگر وہ تمہیں زمین میں دھنسا دے اور دھنستے وقت وہ تھرتھرا اور کپکپا رہی ہو تو پھر؟ (الملک: 16) جی ہاں! یہ زمین کی سطح تو انتہائی نرم ہے کہ جس پر ہمارے کھیت لہلہا رہے ہیں‘ باغات بہاریں دے رہے ہیں‘ میٹھے پانیوں کے دریا اور نہریں رواں ہیں۔ اس سطح پر ہمارے مکانات اور بلڈنگیں ہیں۔ ہماری تمام تر جدید ترین ترقیاں، سائنسی علم، سڑکیں‘ ان پر دوڑتے انسان اور ان کی گاڑیاں،رن وے پر ہوائی جہاز وغیرہ سب اسی سطح زمین سے متعلق ہیں۔ اس سطح کے نیچے میٹھا پانی، اس کے نیچے پہاڑی چٹانیں اور اس کے نیچے مائع حالت میں دھاتیں اور دہکتی آگ کے سیال مادے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ ایٹم بم ان کے سامنے شرلیاں اور پٹاخے ہیں۔زمین اگر تھرتھرا اور کپکپا کر اوپر کی ساری سطح کو اپنے اندر ڈال لے تو بے چارے انسان اور اس کی لاکھوں سال کی تہذیب جو آج جدید ترقیوں کو چھو رہی ہے‘ کا نام و نشان مٹ جائے۔ حضور اکرمﷺ پر نازل ہونے والے قرآن نے ساڑھے چودہ سو سال قبل مندرجہ بالا حقیقت بتا دی۔ جغرافیائی سائنس آج انکشاف کر رہی ہے‘ لہٰذا خیر اسی میں ہے کہ رمضان کے بعد اب ہر انسان اپنے حقیقی اعادے کا سوچے کہ اس کا جسم اور یہ زمین جب اس کی پُرامن رہائش کے لیے فٹ نہیں ہے تو کون سی جگہ فٹ ہے؟ زمین جیسے سیارے ڈھونڈنے والو! زمین جیسا ہی سیارہ ڈھونڈا تو کیا ڈھونڈا؟ آئو! ہم بتاتے ہیں، حضرت محمد کریمﷺ نے انسانیت کے لیے جنت ڈھونڈ رکھی ہے، اس کا نام ''دارالسلام‘‘ ہے۔ مبارکباد اس کے لیے جس کو موت کے بعد کے مولا کریم نے یہ عطا فرما دی اور وہ دائمی خوشیوں کا حق دار بن گیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں