اللہ علیم و خبیر نے اپنی آخری کتاب میں ''سورۃ البقرہ‘‘ کا آغاز اس خبر سے کیا کہ قرآن کتابِ ''لاریب‘‘ ہے یعنی جس میں کوئی شک نہیں۔ اسی سورہ مبارکہ میں آگے چل کر اللہ تعالیٰ نے مکہ کے بت پرستوں اور مدینہ منورہ میں آباد یہود کو مخاطب کر کے فرمایا: ''ہم نے جو کچھ اپنے (محبوب) بندے (حضرت محمد کریمﷺ) پر نازل فرمایا ہے، تم لوگوں کو اگر اس میں (فِی رَیْبٍ) کوئی شک ہے تو اس قرآن جیسی کوئی ایک سورۃ بنا کر لے آئو۔ اللہ کے علاوہ (عربی زبان وغیرہ کے ماہر) مددگاروں کو بھی بلا لو۔ اگر سچے ہو تو ایسا کر دکھائو‘‘ (البقرہ:23)
قارئین کرام! بت پرستوں، یہودیوں اور منافقوں نے قرآن پر اعتراض کیا تھا کہ یہ کتاب پتنگوں اور کیڑوں (حشرات) کا تذکرہ کرتی ہے تو اللہ کیسے اس طرح کی حقیر چیزوں کا تذکرہ کر سکتے ہیں؟ جی ہاں! ان لوگوں نے ایسی بات کر کے اپنے دلوں میں چھپے تکبّر کا بھی اظہار کر دیا تھا کہ مکہ کے لوگ کمزوروں اور غلاموں کو گھٹیا سمجھتے تھے اور یہودی لوگ تو تمام انسانوں ہی کو اپنے سے کمتر سمجھتے تھے اور خود کو ایسی اعلیٰ نسل سمجھتے تھے جو باقی انسانیت سے الگ اللہ کی چہیتی اور محبوب تھی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ''اس حقیقت کے اظہار میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی قسم کے مچھر کی مثال دینے سے بھی شرم اور ندامت محسوس نہیں فرماتے (کہ یہ تو حقیر مچھر ہے) بلکہ مچھر سے بھی کوئی کم تر ہو تو (اس کی مثال دینا بھی باعثِ ندامت نہیں) (البقرہ:26)۔ یاد رہے! اللہ تعالیٰ نے مچھر کے لیے قرآن میں ''بَعُوْضَۃ‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ یہ مؤنث ہے۔ مچھر کی دنیا میں کوئی 3500 اقسام ہیں اور ان تمام اقسام میں صرف مچھر کی مادہ ہی انسانوں، حیوانوں اور پرندوں کا خون چوستی ہے جبکہ نر مچھر نباتات اور پھلوں کا رس چوستا ہے۔ نر مچھر کو عربی میں ''بعوض‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی جمع ''ابعاض‘‘ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مچھر کی جنسی شناخت تو آج کی میڈیکل سائنس کا کارنامہ ہے کہ جب ہمارے پاس ایسی جدید خوردبین ہے جو کسی شئے کو ہزاروں اور لاکھوں گنا بڑا کر کے دکھاتی ہے جبکہ قرآن نے ''بعوضۃ‘‘ کا لفظ بول کر ساڑھے چودہ سو سال قبل بتا دیا کہ وہ مچھر جس سے انسانوں کو تکلیف پہنچتی ہے‘ وہ مادہ مچھر ہے، نر نہیں ہے۔ سبحان اللہ! قرآن یقینا قولِ صادق ہے جس نے مچھر کی شناخت سے آگاہ فرمایا۔
''بَعُوْضَۃ‘‘ سے پہلے ''مَاْ‘‘ کا لفظ ہے۔ عربی زبان کی نحوی گرائمر میں ''مَا‘‘ نفی کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ موصولہ یعنی ''جُو‘‘ کے معنی میں بھی ہوتا ہے، اس کے اور بھی متعدد معنی ہیں مگر یہاں ''ابھامیّۃ‘‘ یعنی مبھم کے معنوں میں ہے۔ اللہ اللہ! قرآن نے بتا دیا کہ اس کی اس قدر اقسام ہیں کہ آج میڈیکل سائنسدانوں نے وہ اقسام 3500 کے لگ بھگ بتائی ہیں تو وہ بھی یقینی نہیں۔ ان کی اقسام کو اللہ علیم و خبیر ہی جانتے ہیں اور اسی اللہ علیم و خبیر نے ہی یہ بھی بتا دیا ہے کہ اس مچھر سے اوپر ''فَوْقَھَا‘‘ یعنی اس سے بھی کمتر، کمزور تر اور جسامت میں چھوٹی ترین مخلوق ہو تو اللہ تعالیٰ کو اس کا تذکرہ بھی اپنے قرآن میں کرنے سے کوئی ندامت نہیں، کوئی شرمندگی نہیں۔ کیونکہ سب مخلوقات اللہ ہی کی بنائی ہوئی ہیں۔ جی ہاں! میں صدقے قربان اس عظیم جانِ کائنات ہستیﷺ پر کہ جن پر مچھر کے تذکرے والی آیت کا نزول ہوا۔ آج کے سائنسی دور میں مچھر سے کم تر مخلوق کا بھی انکشاف ہو چکا ہے۔ مچھر کی کمر پر ایسی انتہائی چھوٹی چھوٹی مخلوق بیٹھتی ہے کہ اس کا رنگ نارنجی ہے۔ شامی عالم اور سائنٹسٹ عبدالدائم الکحیل نے اس کا انکشاف کیا ہے۔ اس کے بعد میں نے مزید ریسرچ کی‘ وڈیوز دیکھیں۔ سبحان اللہ! یہ ایسی مخلوق ہے جو مالٹے اور سنگترے کی شکل اور رنگ جیسی ہے اور جو مادہ مچھر کی کمر پر چمٹی مچھر کا خون چوس رہی ہے۔ بے شمار درود و سلام چاروں خلفائے راشدینؓ کے رہبرِ اعظم اور حسنین کریمینؓ کے نانا جان پر کہ جن پر قرآن کا لفظ ''فَمَا فَوقَھَا‘‘ نازل ہوا۔ اللہ کی قسم! میں نے دیکھا کہ نارنجی رنگ کی مخلوق مچھر کی صرف کمر پر ہے اور کہیں نہیں ہے حالانکہ کہیں اور ہوتی‘ تو بھی یہ ''فَمَا فَوقَھَا‘‘ کے خلاف نہ تھا مگر میرے رب نے کمال کا منظر ہوبہو آج کی دنیا کو دکھلا دیا۔
لوگو! پیغام یہ دیا کہ ساری کائنات کا خالق و مالک اللہ جب اپنی ہر مخلوق کا خیال رکھتا ہے‘ اس کی حقیقت کو قرآن میں بھی بیان فرما دیتا ہے تو ندامت اور شرم سے تو اے انسان کہلانے والو! تمہیں ڈوب مرنا چاہیے کہ جو اپنے جیسے انسانوں کو کہ جن کا ماں باپ ایک ہے، (توریت اور بائبل یہی بتاتی ہیں) اپنے انسانی بھائیوں کو، ان کے بچوں کو، ان کی خواتین کو، ان کے ہسپتالوں کو غزہ میں بمباریاں کر کے تباہ و برباد کر رہے ہو۔ تکبّر اس قدر ہے کہ اس انسانی قتلِ عام کو گھاس کاٹنے کا نام دیتے ہیں، یعنی انسانوں کو حشرات سے بھی کم تر اور جڑی بوٹیاں قرار دے دیا۔ یروشلم کے یہودی ادارے سے شائع ہونے والی ایسی رپورٹ آج انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ اے مسلمانو! جس اللہ علیم و خبیر نے اپنے حبیب حضرت محمد اکرمﷺ کے ذریعے مچھر کی جنسی شناخت بتائی‘ اسی اللہ علیم و خبیر نے یہود کی شناخت سے بھی آگاہ کیا۔ ارشاد فرمایا! ''مسلمانو! تم لوگ اس بدیہی حقیقت کو پلّے باندھ لو کہ تم تمام انسانوں میں سب سے بڑھ کر اہلِ ایمان کا شدید ترین دشمن ان کو دیکھو گے جو یہودی کہلاتے ہیں‘‘۔ (المائدہ:82)
سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کی دی ہوئی اس شناخت کو کیا ہم نے اپنی وزارتِ دفاع کا اولین دفاعی اصول بنایا؟ کیا ہم اہلِ اسلام نے اپنے خارجی امور میں اسے ترجیحِ اول قرار دیا؟ اگر ہم نے ایسے کیا ہوتا تو مشرقِ وسطیٰ میں مسلک کے نام پر نہ لڑتے۔ ایران‘ عراق آٹھ سالہ جنگ نہ ہوتی۔ جو دین جبر کے ذریعے کفر پر اسلام مسلط کرنے کی اجازت نہیں دیتا‘ وہ مسلمانوں کے اندر جبر کے ساتھ فرقہ مسلط کرنے کی کس طرح اجازت دے سکتا ہے؟ ہم نے فرقہ واریت کے نام پر ایسا ہی کیا اور شام، یمن، لبنان اور لیبیا وغیرہ کو برباد کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان کمزور ہو گئے۔ اسرائیل اور اس کے سرپرست یہی چاہتے تھے۔ ہم نے ان کی چاہتوں کو عملی طور پر پورا کر دیا۔ اب وہ گھاس کاٹ رہے ہیں۔ ہم تائب نہ ہوئے، نہ سنبھلے تو اللہ نہ کرے‘ گھاس کا میدان بڑھتا چلا جائے گا۔ قرآنی اصول یاد رکھئے۔ اہل کتاب کے حوالے سے دیکھیں‘ عقائد کے حوالے سے دیکھیں تو بت پرستوں سے یہودی بہت بہتر بلکہ بہترین ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ دشمنی کے حوالے سے دیکھیں تو بت پرستوں (ہندوئوں) سے یہودی کہیں زیادہ بڑے دشمن ہیں۔ کشمیر میں بی جے پی کے انتہا پسند ہندوئوں کی دشمنی جو اپنی حدوں سے نکلی جا رہی ہے‘ اس میں یہودی سبق بھی شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میرا وطن عزیز پاکستان اپنے دفاع کے حوالے سے مضبوط ہے۔ اس نے آگے بڑھ کر کردار ادا کرنا شروع کر رکھا ہے۔ ہمارے عظیم ہمسایہ دوست چین نے اپنا وزن فلسطینی مسلمانوں کے حق میں ڈال رکھا ہے۔ روس نے بھی یہی کام کیا ہے۔ دوسری طرف میرے ملک کی حکمرانی نے مسلمانوں کو ساتھ ملا کر امریکا کو سمجھانے کی کوشش شروع کر رکھی ہے کہ وہ ظالم اسرائیلی اشرافیہ کی پشت پناہی نہ کرے۔ بہر حال! عالمی امن میں یہ جو پاکستانی کردار ہے‘ اللہ تعالیٰ اس کو بابرکت بنائے۔ میرے وطن عزیز کے حکمرانوں کو اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ پاکستان کے 22 کروڑ عوام مظلوموں کی حمایت میں نظر آنے چاہئیں۔ ''لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ پر بننے والے پاکستان میں یکجہتی کے مناظر لازم اور ضروری ہیں۔
جدید میڈیکل سائنس کا شعبہ بیالوجی بتاتا ہے کہ مادہ مچھر ہی کا منہ ایسے آلات سے بنا ہوا ہے کہ جس سے جلد میں سوراخ ہوتا ہے اور مادہ اپنے سٹرا سے خون چوستی ہے: Only female mosquitoes feed on blood۔ مادہ مچھر اپنے حساس سینسرز کے ذریعے پسینے کی بو اور جسم کی حرارت کو محسوس کرتی ہے۔ آنکھیں ایسی ہیں کہ اندھیرے میں دیکھ سکتی ہیں‘ان میں لینز کی تعداد ایک سو ہے۔ 840 اس کے دانت ہیں لہٰذا یہ دانت پیستی ہوئی اپنے شکار پر جھپٹ پڑتی ہے۔ اس کے پر ایک سیکنڈ میں چھ سو مرتبہ حرکت کرتے ہیں جبکہ حرکت کی بھی مختلف اقسام ہیں لہٰذا اس خدائی ہیلی کاپٹر کی چھ سمتی حرکتوں کو قابو کرنا مشکل ہوتا ہے۔ معروف عالم اور سائنسدان علامہ راتب نابلسی کہتے ہیں: اس کے تین دل ہیں‘ دو پیٹ ہیں‘ یہ چیزوں کو اس کی حرارت سے دیکھتے ہیں اور اس قدر حساس ہیں کہ ہزار میں سے ایک درجہ حرارت کو بھی محسوس کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اے سی والے ٹھنڈے ترین کمرے میں بھی اپنے سوئے ہوئے شکار کو پکڑ لیتے ہیں۔ الغرض! ان کے اندر ایسا الیکٹرانک سسٹم ہے کہ آج کا جدید ترین لڑاکا جہاز بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ہاتھی میں جتنے اعضا ہیں چھوٹے سے مچھر میں اس سے زیادہ ہیں۔
قارئین کرام! اللہ علیم و خبیر کی تخلیق کا اعجاز ہے کہ باریک ترین حساس اعضا کے حوالے سے یہ ہاتھی سے بڑھ کر ہے۔ اس کی ایک قسم ایسی بھی ہے کہ خون چوستی ہے تو پیٹ غبارے کی طرح پھول جاتا ہے اور پھر یہ اپنے پیٹ کے ایک سوراخ سے خون کو فوارے کی شکل میں پھینک دیتی ہے اور خون چوستی رہتی ہے۔ جی ہاں! سائنسدانوں نے لاکھوں گنا بڑا کر کے اس منظر کو فلمایا ہے۔ اس کے دلوں کی دھڑکن کا منظر بھی فلمایا ہے۔ میں نے یہ مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے تو ''سبحان اللہ‘‘ کا ورد زبان پہ جاری ہو گیا۔
''سورۃ البقرہ‘‘ زیادہ تر یہود کی ظالمانہ حرکتوں پر مشتمل ہے۔ اسی میں مادہ مچھر کا تذکرہ ہے۔ سائنسدان کہتے ہیں، لاکھوں سالوں سے کروڑوں انسانوں کو مچھر سے لگنے والی بیماریوں سے مارا ہے‘ اسی مادہ مچھر کی عداوت نے مارا ہے۔ انسانی دشمنی کے لحاظ سے انسان کا کوئی دشمن‘ کوئی ایسا کیڑا اور پتنگا نہیں جو مچھر سے بڑھ کر ہو۔ جراثیم کی وبائی منتقلی بھی اسی کے ذریعے ہوتی ہے۔ یہود کو قرآن میں بتایا گیا ہے کہ مچھر کو کمتر نہ سمجھیں...مگر آہ! تم نے تو انسانیت کو اس قدر کم تر سمجھا کہ گھاس کے برابر بھی نہ سمجھا۔ اس کو تلف کرنے والی جڑی بوٹیاں سمجھا۔ آج لازم ہو گیا کہ یہود کی انسانیت کے بارے میں جو کمتر اور ظالمانہ سوچ ہے اس کی شناخت عام کی جائے تا کہ فلسطینی مسلمانوں اور ساری انسانیت کو امن کی نعمت سدا میسر رہے۔