اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآنِ مجید کی ''سورۃ النّازِعَات‘‘ کی آیت تیس میں زمین کی ساخت اور بناوٹ کا ذکر کیا اور اس کے لیے ''دَحٰھَا‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے تین حروف پر مشتمل عربی زبان کے اصل لفظ ''دَحَا‘‘ کا استعمال فرمایا۔ عربی زبان کی معتبر ڈکشنریاں جن میں القاموس، قاموس عربی، الرائد اور لسان العرب وغیرہ شامل ہیں، سب یہی کہتی ہیں کہ اس کا مطلب زمین کا پھیلائو اور وسعت ہے‘ ایک ایسے انڈے کی شکل میں کہ جس پر آبادیاں بن سکیں اور مخلوق رہائش اختیار کر سکے۔ اللہ کے رسولﷺ کے دو جلیل القدر صحابہ ایسے ہیں کہ جن کے ناموں میں قرآن میں مذکور عربی لفظ ''دَحَا‘‘ کا مادہ شامل ہے۔ ان میں پہلے صحابی حضرت دحیہ کلبیؓ ہیں۔ آپؓ کی پیدائش ہجرت رسولﷺ سے 30 سال قبل کی ہے۔ سعودی عرب کے شمال میں اردن کی جانب ''دُومَۃُ الجَندَل‘‘ کا علاقہ ہے‘ آپؓ یہاں پیدا ہوئے۔ الکلبی آپؓ کے قبیلے کا نام ہے۔ مخصوص صحرائی پودے کو ''الکلبی‘‘ کہا جاتا ہے۔ آپؓ غزوۂ بدر کے بعد مسلمان ہوئے۔ غزوۂ اُحد میں شامل ہوئے‘ خیبر کے غزوہ میں بھی شریک تھے۔ خیبر کے یہودی سردار حیی بن اخطب کی بیٹی حضرت صفیہؓ ان کے حصے میں آئیں۔ صحیح بخاری (4211) میں مذکورہ واقعہ کے مطابق تمام صحابہ نے حضورﷺ کی خدمت میں یہ مودبانہ مطالبہ رکھا کہ حضرت صفیہؓ ایک سردار کی بیٹی ہیں لہٰذا ان کی شان کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی دلجوئی آپﷺ فرمائیں۔ جب یہ بات حضرت دحیہؓ کو معلوم ہوئی تو وہ خوشی خوشی حضرت صفیہؓ کے ساتھ حضور کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ حضور اکرمﷺ نے ان کو آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا اور وہ مومنوں کی روحانی ماں بن گئیں۔ صحیح بخاری کی شرح فتح الباری کے مصنف حافظ ابن حجرعسقلانیؒ اپنی کتاب ''الاصابہ:2390‘‘ میں رقم فرماتے ہیں کہ حضرت دحیہ کلبیؓ نے چھ سو احادیث کو روایت کیا ہے۔ وہ خوبصورتی میں ضرب المثل تھے، چنانچہ صحیح بخاری شریف اور دیگر کتبِ احادیث سے یہ امر ثابت شدہ ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام عموماً ان کی شکل میں اللہ کے رسولﷺ کے پاس آیا کرتے تھے۔ اللہ کے رسولﷺ نے اپنے زمانے کی مسیحی سپر پاور کے بادشاہ ہرقل کے نام خط مبارک لکھا تو وہ خط حضرت دحیہ کلبیؓ ہی لے کر گئے تھے۔ وہ رومی سلطنت کی سرحد پر رہنے کی وجہ سے ان کی زبان بھی جانتے تھے۔ ابو لہب کی بیٹی جن کا نام دُرّہ تھا یعنی ایک خوبصورت موتی‘ وہ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہو کر مدینہ منورہ میں رہائش پذیر تھیں، ان کے پہلے خاوند حارث بن عامر فوت ہو گئے تو حضرت دحیہ کلبیؓ اور حضرت دُرہؓ نکاح کے بندھن میں بندھ گئے۔ حضرت دحیہؓ بہت بڑے تاجر اور امیر آدمی تھے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں دمشق کی فتح میں بھی شامل تھے اور ایک دستے کے کمانڈر تھے۔ شامی شہر تدمر کو انہوں نے بغیر لڑے صلح سے حاصل کیا تھا اور پھر اس شہر کے حاکم رہے۔ یہ حضرت معاویہؓ کے زمانے تک زندہ رہے اور 80 سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ آپؓ دمشق کے نواحی علاقے ''مزہ‘‘ میں دفن ہوئے۔
ہمارے پاکستان میں علاقائی لوک رقص ہوتے ہیں جو پٹھان، سندھی، بلوچ اور پنجابی سبھی کرتے ہیں۔ پنجابی میں اسے ''گھمبر‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح سعودیہ میں ہاتھوں میں تلوار تھام کر ایک باوقار قسم کا رقص ہوتا ہے۔ ''دحیۃ‘‘ کا معنی ایسے ہی ایک عربی رقص کا ہے جس میں دو گروپ آمنے سامنے کھڑے ہو کر لوک رقص کرتے ہیں اور ہر گروپ میں ایک شخص شاعری کرتا ہے۔ یوں ''دَحَا‘‘ سے ''دحیہ‘‘ کے دو معانی سامنے آئے۔ زمین کی بناوٹ انڈے جیسی ہے اور وہ رقص کرتی ہے۔
قارئین کرام! میں اپنی آج کی ریسرچ پر غور و فکر کرتا رہا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام ہمارے حضورﷺ کے پاس اللہ کا الہام (وحی) لے کر آئے تو حضرت دحیہ کلبیؓ کی شکل میں آئے اور بتا گئے کہ زمینی کی بناوٹ بیضوی بھی ہے اور وہ جھومتی کودتی بھاگ بھی رہی ہے۔ ''الدحیہ‘‘ کے نام سے عرب تقریبات میں لوک رقص آج بھی سعودی عرب کے شمالی علاقے، اردن، عراق، جزیرہ نما سینا، فلسطین، شام اور بعض خلیجی ریاستوں میں ہوتا ہے۔ لیبیا اور فلسطین میں آج بھی انڈوں کو ''الدُحیٰ‘‘ کہا جاتا ہے اور جس جگہ مرغی انڈے دیتی ہے اسے ''مدحیٰ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یاد رہے! زمین کے بنیادی طور پر تین حصے ہیں، اس کا درمیانی حصہ یعنی خط استوا ایسے پیٹ کی طرح ہے جو آگے کو بڑھا ہوا اور پھولا ہوا ہے۔ شمالی سرا قطب شمالی کہلاتا ہے اور جنوبی سرا قطب جنوبی کہلاتا ہے۔ انڈے کے بھی یہی تین حصے ہیں۔ درمیان کا حصہ پھولا ہوا ہے۔ یہ ''خط استوا‘‘ ہے جبکہ اوپر نیچے کے دونوں سرے شمالی اور جنوبی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں غور کرتا رہا اور ''سبحان اللہ‘‘ کا ورد کرتا رہا کہ یہ بالکل حسنِ اتفاق نہیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام حضرت دحیہؓ کی صورت و شکل میں اللہ کی وحی لے کر آیا کرتے تھے بلکہ یہ تو ایک طے شدہ ربانی پروگرام تھا کہ اہلِ زمین کو آگاہ کیا جائے کہ یاد رکھو! زمین کی شکل اور رقص (گردش) حضرت دحیہؓ کے نام جیسی ہے۔
اب ہم حضورﷺ کے دوسرے صحابی کو یاد کرتے ہیں۔ یہ ابو دحداح انصاریؓ ہیں۔ طبرانی، مسند احمد اور مسند ابو یعلیٰ میں صحیح سند کے ساتھ مذکور ہے کہ جب قرآن میں یہ پیغام آیا کہ کون ہے جو اللہ تعالیٰ کو قرضِ حسنہ دے؟ تو حضرت ابودحداحؓ اپنے باغ میں آئے جس میں کھجوروں کے چھ سو درخت تھے‘ باغ میں ان کے بیوی بچے بھی تھے، انہوں نے اپنی اہلیہ کو آواز دی: اے ام دحداحؓ!انہوں نے جواب میں لبیک کہا تو بولے: بچوں کو لے کر باہر آ جائو‘ میں نے یہ باغ اللہ تعالیٰ کو قرض میں دے دیا ہے۔ اللہ اللہ! حضور کریمﷺ نے جنت کے باغ کی خوشخبری دے دی۔ میرے حضورﷺ کے جانثار صحابہ کیسے عظیم لوگ تھے کہ حضرت ابو دحداحؓ باغ میں داخل ہی نہیں ہوئے کہ جب دے دیا تو اب داخلہ کیسا؟ اب تو اُم دحداحؓ ہی بچوں کے ہمراہ باہر آئے گی۔ اور اُم دحداحؓ کی عظمت کو سلام کہ وہ بھی بخوشی بچوں کو لے کر باہر آ گئیں کہ اب اللہ کو دے دیا ہے‘ جنت میں ہی باغ لیں گے اور اللہ سے لیں گے۔
قارئین کرام! میں نے امام جمال الدین المعروف ابن منظور رحمہ اللہ کی ڈکشنری ''لسان العرب‘‘ کھولی تو اس میں ''دَحَا‘‘ مادے سے ''الدحداح‘‘ مرد ہے اور ''الدحداحۃ‘‘ عورت ہے اور عربی میں یہ نام اس کا رکھا جاتا ہے جس کا چہرہ ''مستدیر‘‘ ہو یعنی گولائی میں ہو مگر ایسی گولائی کہ جو قدرے بیضوی ہو اور اس پر خشکی نہ ہو بلکہ ملائمت اور تری ہو۔اللہ اللہ! یہی تو زمین ہے کہ جس کی ساخت اور بناوٹ بیضوی ہے۔ اس کا ستر فیصد حصہ پانی ہے اور پانی میں لزوجیت یعنی ملائمت ہے اور باقی 30 فیصد خشکی ہے اس میں بیشتر حصہ زرعی، سر سبز اور باغوں بہاروں پر مشتمل ہے مگر حضرت ابو دحداحؓ نے یہاں دل نہیں لگایا‘ دل جنت کی زمین پر ہی لگایا، جی ہاں! یہ دو صحابہ کرامؓ ایسے ہیں کہ جن کے نام ''دحا‘‘ کے عربی لفظ سے ماخوذ ہیں اور عرب میں چلتے چلے آ رہے ہیں۔ یہی لفظ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں نازل فرمایا اور واضح کیا کہ زمین کی ساخت اور بناوٹ بیضوی ہے۔ گولائی میں ہے، ملائم اور تربتر ہے۔
''لسان العرب‘‘ میں ''دحا‘‘ سے ''ادحوۃ‘‘ کا لفظ ہے جس کا معنی ''مبیض النعام فی الرمل‘‘ ہے یعنی شتر مرغ کے انڈے ریت میں ہوتے ہیں۔ مادہ شتر مرغ ریت میں جس مناسب جگہ پر انڈے دیتی ہے اسے ''مدحیٰ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ''دحا‘‘ سے ''اُدحیٌ‘‘ ہے۔ عربی میں یہ لفظ چاند کی منزلوں پر بولا جاتا ہے کیونکہ وہ منزلیں شتر مرغ کے انڈوں سے مشابہہ ہیں۔ قارئین کرام! اب ہم ''لسان العرب‘‘ کی مندرجہ بالا دونوں تعریفوں کو سامنے رکھتے ہیں اور آگے چلتے ہیں تو نظر یہ آتا ہے کہ ''وائیجر1‘‘ ، ''وائیجر2‘‘ اور ''حبل سپیس دور بین‘‘ نے خلا کی گہرائیوں سے جو تصاویر لی ہیں، انہوں نے بتایا ہے کہ خلا تو کپڑے کی بُنت کی طرح ہے۔ سمندر اور ریگستان کی لہروں اور سلوٹوں کی طرح ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں آسمان کی قسم کھا کر فرماتے ہیں کہ وہ ''ذات الحُبُک‘‘ جالی دار ہے۔ جی ہاں! چاند بھی جالی دار بُنت میں 29 اور 30 دن اپنی منزلوں میں چلتا ہے اور زمین، سورج اور باقی سیارے‘ ستارے بھی اسی طرح چل رہے ہیں۔ عرب لوگ پیٹ کے پھیلائو کو ''دحو‘‘ کہتے ہیں اور شتر مرغ کے انڈے کو بھی ''دحو‘‘ کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ زمین میں ''دحو‘‘ ہے۔ ساڑھے چودہ سو سال بعد آج کی زمینی پیمائش یوں سائنسی علم بن کر سامنے آیا کہ انڈے کی طرح لمبوتری زمین شمالاً اور جنوباً 12713 کلومیٹر ہے۔ شرقاً غرباً 12756 کلومیٹر ہے۔ یعنی اس کا پیٹ پر جانب ہر جانب سے بڑھا ہے۔ یہ اپنے محور پر 1670 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی ہے۔ اس گھمائو میں بھی یہ زاویے بدلتی چلی جاتی ہے اور ساتھ ساتھ سورج کے گرد بھی زاویے بدل کر چکر لگا رہی ہے۔ جی ہاں! ڈبل رقص اور کئی زاویوں کے ساتھ۔ ''دحیۃ‘‘ کا یہی مطلب ہے اور جب اس رقص کو خلا سے خلا بازوں نے دیکھا تو ایک روسی خلانورد مسلمان ہو گیا اور جو غیر مسلمان تھے وہ ''اوہ مائی گاڈ!‘‘ پکار اٹھے اور جو مسلمان تھے وہ اب تک گیارہ ہیں‘ وہ اس کے جھومنے کے حسن کو دیکھ کر ''سبحان اللہ‘‘ بے ساختہ کہتے چلے گئے۔
عرب خاتون یا عرب نانبائی جب روئی پکانے کے لیے آٹے کا پیڑا بناتے ہیں تو اسے ''دھی الخبار العجینۃ‘‘ کہا جاتا ہے۔ غور فرمائیے! دونوں ہتھیلیوں کے درمیان جب پیڑا بنتا ہے تو قدرے بیضوی شکل اختیار کرتا ہے۔ جی ہاں! اس پیڑے کے اندر مکھن، کوئی چٹنی، بیسن اور اناردانہ وغیرہ بھی ڈالا جا سکتا ہے۔ جب یہ روٹی بنے گی تو پھیلے گی، کچھ سامان روٹی کی پرتوں کے اندر رہ جائے گی۔ کچھ باہر نکل آئے گا۔ جناب والا! ایسی روٹی بھی کھائیے اور یاد رکھئے، زمین بھی یہی کچھ ہے۔ بہت کچھ اس کے اندر ہے اور بہت تھوڑا اس کے باہر ہے۔ اندر کی دولتوں پر سپر پاوروں کے درمیان گریٹ گیمیں چل رہی ہیں۔ میں ان گیمز کو دیکھتا ہوں تو مستقبل میں انسانیت پر کڑے وقتوں کو دیکھ کر خائف بھی ہوتا ہوں اور خوش بھی ہوتا ہوں ان مومنوں پر کہ جن کا زمین کے خالق پر ایمان ہے اور قرآن اور صاحبِ قرآن حضرت محمد ذیشانﷺ پر ایمان ہے۔ وہ اس دنیا کو چھوڑیں گے تو جنت کی زمین ان کی منتظر ہوگی۔ اے اللہ کریم! ایمان کے ساتھ موت کی التجا ہے۔