اللہ تعالیٰ نے ہمارے حضور کریمﷺ کی چار صفات قرآنِ مجید کی ایک آیت میں یکجا بیان فرمائی ہیں۔ یہ صفات درحقیقت ذمہ داریاں بھی ہیں۔ ان صفات اور ذمہ داریوں کا ذکر کرنے سے قبل ضروری سمجھتا ہوں کہ جو الفاظ اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب میں استعمال ہوئے ہیں، ان کا مفہوم بیان کر دوں۔ ''معروف‘‘ ایسا لفظ ہے جو عربی زبان سے اردو میں آیا ہے۔ عُرف اور تعارف کے الفاظ بھی اردو میں استعمال ہوتے ہیں۔ سب کا مطلب و مفہوم جان پہچان ہے۔ معروف کا مطلب یہ ہے کہ جان پہچان کروا دی گئی ہے۔ یعنی ہر اچھائی کی پہچان انسان کی فطرت میں ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ میرے حبیبﷺ 'معروف‘ کا حکم دیتے ہیں یعنی معاشرے کی اصلاح کے لیے قانونی احکامات یا نصیحت کی جو باتیں کرتے ہیں وہ انسان کی فطرت کا تقاضا ہیں۔ دوسرا لفظ ''مُنکر‘‘ ہے۔ یہ عربی زبان کا لفظ ہے۔ قرآن نے اسے کئی مقامات پر بیان کیا ہے۔ اسی سے ہمارے اردو میں ''انکار‘‘ کا لفظ ہے‘ یعنی ایسی شئے یا عمل جس کو اپنانے سے انسانی فطرت انکار کرے وہ ''منکر‘‘ ہے۔ اس کے معنی میں اجنبیت بھی ہے یعنی ایسا عمل جس میں انسانی فطرت کے اندر اجنبیت کا احساس ہو‘ وہ منکر ہے۔ ''اِصر‘‘ کا معنی بوجھ ہے۔ ایسا بوجھ جس سے انسان کی گردن ٹوٹ جائے یا ریڑھ کی ہڈی کا مہرہ اپنی جگہ سے ہٹ جائے۔قرآنِ کریم نے چوتھا لفظ ''اَغْلال‘‘ استعمال فرمایا ہے۔ اس کا معنی ''زنجیریں‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: میں نے ایک ایسا نبی اور رسولﷺ دنیا میں بھیجا ہے ''جو معروف کا حکم دیتے ہیں اور منکر سے منع کرتے ہیں۔ پاک چیزوں کو لوگوں کے لیے حلال اور ناپاک کو حرام ٹھہراتے ہیں اور ان لوگوں کے بوجھوں کو اتارتے ہیں اور ان زنجیروں کو اتار پھینکتے ہیں (جن میں یہ لوگ جکڑے ہوئے ہیں) ۔(سورۃ الاعراف: 157)
20 سالہ جدوجہد کے بعد جب امریکی اور نیٹو افواج شکست کھا گئیں‘ انڈیا کے منصوبے ناکام ہو گئے‘ افغانستان غیر ملکی افواج اور مداخلت کاری سے آزاد ہو گیا‘ افغان طالبان وہاں کے حکمران بن گئے تو ہمارے وزیراعظم جناب عمران خان نے خوب فرمایا کہ ''افغانستان کی زنجیریں ٹوٹ گئیں‘‘، جب زنجیریں ٹوٹتی ہیں تو انسانیت اپنی فطرت کی طرف پلٹنا شروع کر دیتی ہے۔ افغانستان میں انسانیت اپنی فطرت کی جانب یوں تیزی کے ساتھ پلٹی ہے کہ اس کے پلٹنے کا تذکرہ بین الاقوامی اداروں نے اس طرح کیا ہے کہ افغان معاشرے میں نوے فیصد جرائم ختم ہو گئے ہیں۔ کتنے عرصے میں؟ صرف ایک مہینے میں۔ جی ہاں! صرف 30 دنوں میں! اس کی وجہ یہ ہے کہ آج سے 20 سال قبل افغان طالبان کی چھ سالہ حکمرانی کا تجربہ افغانوں کے سامنے ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ عدل کی راہ میں کوئی پتھر نہیں۔ نہ کسی کی سفارش کا پتھر ہے‘ نہ کسی کی مضبوط شخصیت کا پتھر اور نہ ہی کسی رشوت کی کوئی اینٹ سدِ راہ ہے لہٰذا شفاف عدل میں سزا ملنا یقینی ہے۔ یہ ہے وہ پس منظر جس نے ایک مہینے میں جرائم کی شرح کو نوے فیصد تک گرا دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اگر چاہتے ہیں کہ 2023ء کے الیکشن میں جیت جائیں تو پھر انہیں اپنی باقی ماندہ دو سالہ مدت کو عادلانہ کارکردگی کا پس منظر بنانا ہو گا۔ کیسے بناتے ہیں‘ یہ ان کے وژن اور بصیرت کا امتحان ہے۔
چند دنوں سے میں نتھیا گلی اور اس کے مضافات میں ہوں۔ حالیہ تحریر بھی نتھیا گلی سے لکھ رہا ہوں۔ ہمارے وزیراعظم عمران خان صاحب کو نتھیا گلی کا پُر فضا مقام انتہائی محبوب ہے۔ انہوں نے یہاں تجاوزات کو ختم کیا ہے‘ صفائی ستھرائی اور سڑک کی بہتری کا اہتمام کیا ہے۔ ایک بڑے ہوٹل کا سنگ بنیاد بھی رکھا ہے۔ انہوں نے یہاں اپنی توجہ کا ارتکاز کیا تو روڑے اٹکانے والے نہ روڑے اٹکا سکے اور نہ کوئی اینٹ اور پتھر سنگ راہ بن سکا مگر اسی نتھیا گلی کے ایک مقامی باشندے‘ جو ایک تاجر ہیں‘ یہاں بزنس کیا اور ایبٹ آباد میں گھر بنا یا‘ بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی‘ میری تقریروں اور تحریروں کے فین ہیں۔ ان کا بڑا بیٹا سول انجینئر ہے۔ انہوں نے نتھیا گلی میں اپنی زمین پر ایک درمیانے درجے کا ہوٹل بنایا‘ بیٹے سے کہا: تم ملازمت کرو‘ میں ہوٹل چلاتا ہوں۔ بیٹے کو ملازمت مل گئی مگر جب وہ کرسی پر بیٹھا تو اسے آگاہ کیا گیا کہ ہر مہینے تمہیں اپنے افسرانِ بالا کو دو لاکھ دینا ہوں گے۔ اس نے کہا: میری تنخواہ چالیس ہزار ہے‘ ڈیڑھ لاکھ میں اپنے گھر سے کیسے دوں؟ جواب ملا: یہ ہمارا نہیں‘ تمہارا مسئلہ ہے۔ یعنی اپنے نیچے سے تم رشوت کا مال اکٹھا کرو‘ دو لاکھ اوپر پہنچائو اور اپنے لیے بھی لاکھ، دو لاکھ جمع کرو۔ ان کا بیٹا ایک صالح نوجوان ہے‘ اس نے مذکورہ واقعہ اپنے باپ کو سنایا اور کہا: میں ہوٹل چلائوں گا۔ اس ہوٹل کو اب سول انجینئر بیٹا چلا رہا ہے۔ میں ان کے ہوٹل میں دونوں باپ بیٹا سے مذکورہ واقعہ سن رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ نتھیا گلی کی جزوی تبدیلی ایک محدود سے علاقے کی تبدیلی ہے۔ ملکِ خداداد پاکستان میں نظام تبدیل نہیں ہوا‘ یہ نظام تبدیل ہو گیا ہوتا، رشوت خوروں کو نتھ ڈال دی گئی ہوتی تو نتھیا گلی میں سول انجینئر میرے ملک کا دیانتدار افسر بنتا، اگر نظام یہی رہا تو ہمارا وطن عزیز بددیانتوں کے شکنجے میں مزید جکڑتا چلا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ باقی ماندہ دو سالوں میں کیا وزیراعظم کے ہاتھوں سے یہ زنجیریں ٹوٹ پائیں گی یا مضبوط تر ہو جائیں گی۔ محترم وزیراعظم کو اپنی سیاسی بقا کی خاطر جلد فیصلہ کرنا ہوگا۔
حضور کریمﷺ کی مبارک سنت تھی کہ جمعۃ المبارک کی دو رکعتوں میں ''سورۃ الاعلیٰ‘‘ اور ''سورۃ الغاشیہ‘‘ کی تلاوت فرماتے تھے۔ ''سورۃ الاعلیٰ‘‘ کی آخری آیات میں سے دو آیات کا ترجمہ اس طرح ہے ''بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت کی زندگی بہتر اور (ہمیشہ کے لیے) باقی رہنے والی ہے‘‘۔ (الاعلیٰ:16تا 17) قارئین کرام! معلوم ہوا کہ انسان اپنی فطرت سے انحراف کر کے آخرت کے مقابلے میں دنیاوی فائدے کو ترجیح دیتا ہے۔ یہ اس کی عادت ہے۔ اس عادت کو صرف دو چیزیں بدل سکتی ہیں۔ 1: اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہی کا خوف، 2: دنیا میں عادلانہ نظام کے تحت سزا ملنے کا خوف۔ یاد رہے! جس معاشرے میں دونوں چیزیں موجود ہوں‘ وہ دنیا میں ہی جنت کا ایک نمونہ بن جاتا ہے اور اس کے برعکس جس معاشرے میں دونوں عنقا ہو جائیں وہ انسانی جانوروں کا معاشرہ بن جاتا ہے۔ آج کے حالات میں پہلے سے کہیں بڑھ کر میرے وطن عزیز اور اس کے باسیوں کو دونوں چیزوں کی اشد ضرورت ہے۔ ان کی فراہمی اچھی حکمرانی کی ذمہ داری ہے۔ میرے تجزیے کے مطابق ہمارا معاشرہ مندرجہ بالا دونوں اصولوں میں سے 10 فیصد سے 20 فیصد تک خیر اور بھلائی کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اور یہ قطعی ناکافی ہے۔ اچھی حکمرانی کے لیے اسے اگلے دو سالوں میں 50 فیصد سے اوپر لے جانا ہو گا وگرنہ ہمارا معاشرہ سڑاند زدہ ہو کر معاشرتی بدبو میں اتنا آگے چلا جائے گا کہ دنیا میں بدنامی کا سمبل بن جائے گا۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں اچھی حکمرانی کے لیے فوری اور دور رس اقدامات کرنا ہوں گے۔
پاکستان جیسے رقبے کے حامل لگ بھگ 20 ممالک جتنی بڑی سپر پاور کے حکمران حضرت فاروق اعظمؓ تھے۔ مدینہ منورہ میں گشت فرما رہے تھے‘ ایک گھر سے دو عورتوں کے جھگڑے کی آواز آئی تو دروازے کے ساتھ کان لگا دیا۔ ماں اپنی بیٹی کو کہہ رہی تھی: دودھ میں پانی ملا دو۔ بیٹی نے کہا: اماں! امیر المومنین نے ملاوٹ سے منع کر رکھا ہے۔ ماں نے کہا: رات کے اندھیرے میں امیر المومنین کہاں دیکھتے ہیں؟ بیٹی نے کہا: امیر المومنین نہیں دیکھتے‘ اللہ تو دیکھ رہا ہے۔ امیر المومنین اگلے روز دونوں ماں بیٹی کے پاس تشریف لے گئے اور مذکورہ لڑکی کو اپنی بہو بنا لیا۔ اسی نیک طینت بچی کی اولاد سے حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز پیدا ہوئے۔ بتانا چاہتا ہوں کہ مدینے کے معاشرے میں زمانہ فاروق اعظمؓ کا ہے‘ اس کے باوجود ایک گھر میں‘ معاشرے میں‘ نیکی اور بدی کے درمیان کشمکش موجود ہے۔ ماں ،بیٹی‘ دونوں کا اپنے رب پر ایمان بھی ہے اور امیر المومنین کا ڈر بھی۔ ماں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اللہ کو مانتی ہے، نماز پڑھتی ہے، ذکر اذکار بھی کرتی ہے مگر ترجیح دنیا ہے۔ آج اس سے کہیں بری حالت ہماری حکمران اشرافیہ کی ہے۔ مسلمان ہیں، اللہ پر ایمان ہے، قرآن کی تلاوت بھی کرتے ہیں، روزے بھی رکھ لیتے ہیں مگر چونکہ ترجیح دنیا ہے لہٰذا ظلم بھی کریں گے، نا انصافی بھی کریں گے، جھوٹ بھی بولیں گے، بددیانتی اور رشوت خوری بھی کریں گے۔ ان کی بدقسمتی یہ ہے کہ دنیا کی محبت میں ان کے ہاں اللہ کا خوف باقی نہیں اور حکمران کا ڈر سرے سے نہیں۔ اس لیے کہ نظام ہی سڑاند زدہ ہو چکا ہے۔ دوسری جانب فاروق اعظمؓ کے زمانے کے نوے‘ پچانوے فیصد گھر بہترین تھے۔ پانچ‘ دس فیصد گھروں میں سے ایک گھر کی ماں ٹیڑھا راستہ اختیار کرتی ہے تو مقابلے میں اس کی اپنی بیٹی ہی خیر کی قوت بن کر کھڑی ہو جاتی ہے۔
محترم وزیراعظم پاکستان عمران خان صاحب! گزارش یہ ہے کہ 22 کروڑ میں سے آپ کی حکمرانی میں ایسے کتنے آپ کے وکیل ہیں جنہوں نے اللہ سے ڈر کر کرپشن کی زنجیریں کاٹیں‘ جنہوں نے آپ کے نظامِ انصاف سے ڈر کر ظالموں کو نتھ ڈالی اور انہیں ایسی گلی میں دھکیلا کہ جہاں سزا کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔ سوچتے جائیے! ہم آپ کی کامرانی کے لیے دعا گو ہیں کہ 22 کروڑ کو عمل کے جگمگاتے تارے نظر آئیں۔