اللہ کے رسولﷺ حرمِ مکی میں تشریف لائے تو کعبہ کے اندر جانے کو دل چاہا۔ آپﷺ نے عثمان بن طلحہ سے چابی مانگی۔ کعبہ کی چابی اُن کے پاس تھی۔ یاد رہے بابِ کعبہ کے پہلے کلید بردار حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کو از سرِ نو تعمیر فرمایا تو اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو کعبہ کا متولی اور کلید بردار بنایا ۔جس کے پاس کعبہ کے دروازے کی چابی ہو اسے عربی میں ''صاحب المفتاح‘‘ کہا جاتا ہے۔ فارسی میں ''کلید بردار‘‘ اور اردو میں ''چابی بردار‘‘ کہا جاتا ہے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی چند نسلوں میں یہ چابی موجود رہی اور پھر وہ وقت آ گیا جب مکہ میں آباد قبیلے بنو جرھم نے یہ چابی چھین لی۔ ان کی کئی نسلوں میں چابی رہی اور پھر یہ چابی عرب کے قبیلے بنو خزاعہ نے حاصل کر لی۔ بنو خزاعہ کے بعد مکہ کی سرداری جناب قُصی کے ہاتھ میں آئی تو وہ عرب کے ایک بڑے سردار بن کر ابھرے جنہوں نے حاجیوں کے لیے سہولتیں فراہم کیں۔ انتہائی بلند اخلاق اور دانش میں صاحبِ کمال تھے۔ یہ اللہ کے رسولﷺ کے جدّ امجد ہیں۔ اب چابی ان کے پاس آ گئی۔ عراق کے صدر مرحوم صدام حسین بھی جناب قُصی کی اولاد میں سے تھے اسی لیے انہوں نے اپنے بڑے بیٹے کا نام قُصی رکھا تھا۔ جی ہاں! جناب قُصی سے یہ چابی ان کے بڑے بیٹے عبدالدار کو مل گئی۔ عبدالدار سے پانچویں پشت میں اب یہ چابی بنو شیبہ قبیلے میں عثمان بن طلحہ کے ہاتھ میں تھی جبکہ اللہ کے رسولﷺ جناب قصی کے دوسرے بیٹے عبد مناف کی اولاد میں سے تھے۔ عبدمناف کا بیٹا ہاشم مکہ کا سردار اور کعبہ کا متولی بنا۔ جناب ِہاشم کے بعد یہ منصب ان کے بیٹے جناب عبدالمطلب کو ملا اور عبدالمطلب ہمارے حضور کریمﷺ کے دادا محترم تھے۔ اب آتے ہیں واپس اسی جگہ پر جہاں سے ہم نے گفتگو کا آغاز کیا کہ حضورﷺ نے یہ چابی عثمان بن طلحہ سے مانگی تو صرف کعبہ میں عبادت کے لیے مانگی مگرعثمان بن طلحہ نے چابی دینے سے انکار ہی نہ کیا بلکہ گفتگو کا انداز بھی توہین آمیز اور نامناسب اختیار کیا۔ اس پر اللہ کے رسولﷺ نے نہایت صبر سے کام لیا اور فرمایا ''وقت آنے والا ہے۔ تم اس چابی کو میرے ہاتھ میں دیکھو گے۔ تب میں جسے چاہوں گا یہ چابی دوں گا۔ اس پر عثمان بن طلحہ بولا: ایسا دن اگر دیکھنے کو ملا تو وہ قریش کی ذلّت کا دن ہو گا۔ وہ برباد ہو جائیں گے۔ آپﷺ نے جواب میں فرمایا: وہ دن قریش کی بہبود اور عزت کا دن ہوگا‘‘ (المغازی للواقدی: 267/2)
قارئین! پھر وہ دن آ گیا جب قریش نے ہمارے حضور کریمﷺ کو مکہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ عثمان بن طلحہ تو پہلے ہی یقین کیے بیٹھا تھا کہ قریش کا اقتدار بھلا کیسے زوال پذیر ہو سکتا ہے اور اب تو یقین مزید پختہ ہو گیا کہ حضورﷺ ہجرت فرما گئے مگر حضورﷺ کو مکہ چھوڑے صرف آٹھ سال ہی ہوئے تھے کہ آپﷺ فتح مکہ کے موقع پر یہاں تشریف لے آئے۔ آپﷺ اسلامہ بن زیدؓ کی اونٹنی پر سوار تھے۔ حضورﷺ نے اونٹنی کو کعبہ کے صحن میں بٹھایا۔ اس کے بعد عثمان بن طلحہ کو طلب فرمایا۔ اسے کہا: چابی دے دو۔ عثمان بن طلحہ اپنی ماں کی طرف بھاگا۔ اس سے چابی مانگی تو ماں نے انکار کر دیا (کہ چابی حضورﷺ کے حوالے کی جائے) اس پر عثمان بن طلحہ نے کہا: اللہ کی قسم! تجھے یہ چابی مجھے دینا ہو گی وگرنہ تلوار میری پشت سے پار ہو جائے گی۔ اب ماں نے چابی فوراً دے دی۔ عثمان بن طلحہ (دوڑتا ہوا) حضورﷺ کی خدمت میں چابی لے کر آ گیا۔ آپﷺ نے چابی واپس عثمان بن طلحہ کے حوالے کر دی۔ (صحیح مسلم: کتاب الحج: 3232)
قارئین کرام! عثمان بن طلحہ گھبرائے ہوئے تھے‘ مگر جب انہوں نے حضورﷺ کے فرمان اور پیشگوئی کو پورا ہوتے ہوئے دیکھ لیا تو فوراً اسلام قبول کر لیا۔ اس پر حضورﷺ نے عثمان بن طلحہؓ کو مخاطب کر کے فرمایا ''عثمان! یہ چابی سنبھال لو‘ آج (فتح کا جو) دن ہے یہ نیکی اور عہد کو پورا کر دینے کا دن ہے۔ پکڑ لو اس چابی کو یہ مستقل طور پر‘ ہمیشہ کے لیے ہے۔ تم سے اس چابی کو جو چھینے گا وہ ظالم ہو گا۔‘‘ (المغازی للواقدی: 838/2 معجم کبیر طبرانی: 8395)
جس کے پاس چابی ہو اسے ''سادن‘‘ کہا جاتا ہے‘ جبکہ کعبہ کے دروازے کو کھولنے اور بند کرنے کی خدمت کو ''السیدان‘ کہا جاتا ہے۔ سدانت کی یہ ذمہ داری آج تک حضرت عثمان بن طلحہؓ کی اولاد کے پاس ہے۔ سدانت کا معنی خدمت ہے۔ لوگو! ہمارے حضورﷺ نے عثمان بن طلحہ سے مکی زمانے میں جوفرمایا وہ فتح مکہ کے موقع پر پورا ہوا اور عثمان بن طلحہ کو چابی دیتے ہوئے جو فرمایا وہ گزشتہ ساڑھے چودہ سو سالوں سے آج تک پورا ہوتے ہوئے ہم سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ جس طرح حضورﷺ نے چابی اپنے ہاتھ میں لے کر عثمان بن طلحہ کو دی تھی اسی سنت پر آج تک عمل ہو رہا ہے۔ جب کوئی سادن یعنی چابی بردار فوت ہوتا ہے تو چابی حکمران کے پاس چلی جاتی ہے اور وہ نئے سادن کے حوالے کرتا ہے۔ 2013ء میں امیر مکہ شہزاد ہ خالد بن فیصل بن عبدالعزیز نے یہ چابی نئے سادن عبدالقادر شیبی کے حوالے کی تھی۔ یہ فوت ہوئے تو ان کے بھتیجے ڈاکٹر صالح الشیبی کے حوالے کر دی گئی۔ آج کل یہی سادن ہیں اور حضرت عثمان بن طلحہؓ کی اولاد سے ہیں۔ میں کہتا ہوں دنیا میں بے شمار فاتحین آئے مگر ان کی فتح کے تدکرے صرف تاریخ کے اوراق میں ہیں۔ حضورﷺ ایسے فاتح ہیں کہ آپﷺ کی فتح آج تک زندہ اور تازہ ہے اور فتح کی زندگی کی دلیل عثمان بن طلحہ کی اولاد کے ہاتھ میں کعبہ کی چابی ہے۔ یہ ہمارے حضورﷺ کے اعلیٰ ترین اخلاق کی بھی دلیل ہے جو چابی کی صورت میں آج تک عثمان بن طلحہ کی اولاد کی صورت میں زندہ اور تازہ ہے۔ یہ وہ خصوصیت ہے جو تاریخِ انسانی میں صرف ایک ہستی کو حاصل ہے اور وہ صاحبِ خُلق عظیم ہستی حضرت محمد کریمﷺ ہیں۔
لوگو! واپس پھر ساڑھے چودہ سو سال قبل کعبہ کے دروازے کے سامنے اپنے ذہن کے تصور کو لے جاتے ہیں۔ عثمان بن طلحہ نے دروازہ کھولا ہے۔ اندر سے تمام بتوں کو باہر پھینکا گیا ہے۔ کعبہ کو اندر سے دھویا گیا ہے۔ اب حضورﷺ اندر تشریف لے گئے ہیں۔ بخاری اور مسلم میں ہے کہ حضورﷺ فاتح مکہ کے ہمراہ حضرت اسامہ بن زیدؓ اور حضرت بلالؓ اندر گئے ہیں۔ یہ دونوں حضورﷺ کے ہمراہ چلتے ہوئے آئے ہیں۔ مکہ کی اشرافیہ کے لیے اک پیغام تھا کہ جن کو تم غلام کہتے ہو۔ حضورﷺ کی زندگی میں جو فتح کا سب سے عظیم دن آیا۔ خوشی و مسرت کا دن آیا۔ اس دن میرٹ پر اعزاز اور میڈل ملا تو غلام زید ؓ کے بیٹے اسامہ ؓکو ملا۔ دوسرا غلام جو ماریں کھانے والا تھا وہ بلالؓ تھے۔ ان کو اعزاز اور میڈل ملا۔ یہ دونوں جونہی حضورﷺ کے ہمراہ اندر داخل ہوئے۔ عثمان بن طلحہؓ نے جھٹ سے دروازہ بند کر دیا۔ دروازہ حضورﷺ کے حکم کے ساتھ ہی یقینا بند ہوا۔ اب کعبہ کے اندر حضورﷺ ہیں۔ ان کے ساتھ دو غلام ہیں۔ جانثار اور قربان ایسی غلامی پر۔ تیسرا وہ ہے جو حضورﷺ کے عظیم اخلاق کی یادگار ہے۔ یہ تازہ مسلمان ہے۔ نام اس کا عثمانؓ ہے۔ میں کہتا ہوں کہاں پھرتے ہیں آج کے حکمران جو دعویٰ کرتے ہیں اپنی حکمرانی میں حضورﷺ کی غلامی کا مگر قیدی ہیںاقربا پروری کے۔ بے چارے مارے ہوئے ہیں مصلحتوں کے۔ حمزہ چھوڑ تذکرے ان کے۔
کتھے میر علی‘ کتھے تیری ثنا
گستاخ اکھیاں کتھے جا اڑیاں
سابق سادن ڈاکٹر عبدالقادر شیبی مرحوم دلائل دے کر بتاتے ہیں کہ اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کی یہ آیت نازل فرمائی تھی یعنی حضرت جبریل علیہ السلام ہمارے حضورﷺ کے پاس یہ پیغام لائے تھے۔ فرمایا''بلا شبہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتے ہیں‘ کہ جو (حکومتی ذمہ داریوں) کی اہلیت رکھتے ہیں یہ امانتیں ہیں‘ ان کے حوالے کرو۔‘‘ (النساء: 58) قارئین کرام! اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت میں اپنے پیارے رسولﷺ کے ذریعے جمع کا صیغہ استعمال کر کے پوری امت کو حکم دیا ہے کہ جس طرح میرے حبیبﷺ نے چابی حوالے کرتے ہوئے اہلیت کو مد نظر رکھا اسی طرح میرے حبیبؐ کا کلمہ پڑھنے والو! تم بھی اہلیت اور میرٹ کو ہی سامنے رکھنا۔ ڈاکٹر محمد ال زلفہ سعودی مجلسِ شوریٰ کے ممبر ہیں‘تاریخ ان کا خصوصی موضوع ہے وہ کہتے ہیں: کعبے کی چابی کی ایک تاریخی اہمیت بھی ہے اور دینی اہمیت بھی ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر سبز رنگ کے ساتھ چابی میں کھدائی کی گئی ہے اور مذکورہ آیت کو لکھا گیا ہے یعنی دوسرے لفظوں میں کعبہ کی چابی کا پیغام یہ ہے کہ اہلیت اور میرٹ کا سختی کے ساتھ خیال رکھا جائے گا تو معاشرہ سبز یعنی خوشحال ہو جائے گا۔ امن و سکون بھی ملے گا اور اگر اہلیت اور میرٹ کو ذبح کر دیا جائے گا۔ مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا جائے گا تو ایسے معاشرے کو بددیانتی کا تالا لگ جائے گا اور وہ نہیں کھلے گا جب تک کہ اہلیت اور میرٹ کو اختیار نہیں کیا جائے گا۔ یاد رہنا چاہیے پیسے کی کرپشن بھی دنیا و آخرت کی ہلاکت ہے مگر میرٹ اور اہلیت کی کرپشن کہیں بڑی کرپشن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کرپشن سے بچنے کا الہام و پیغام آسمان سے آیا ہے اور پھر اس پیغام کو کلیدِ کعبہ کی زینت بنا دیا گیا۔ چونکہ ہر مسجد کی سمت کعبہ کی جانب ہے لہٰذا امت نماز کی سمت کے ساتھ میرٹ کی سمت کا بھی خیال رکھے گی تو کامیاب ہوگی۔
کالم کے اختتام پر تجویز ہے کہ وطن عزیز کے تمام شعبوں میں اور اداروں میں ایسی اصلاحات کی جائیں کہ میرٹ پر فیصلے یقینی ہو جائیں جس کا فیصلہ میرٹ پر نہ اترے اور وہ چیلنج کے ساتھ ثابت ہو جائے تو ایسا فیصلہ کرنے والے کو سزا ہو جائے۔ ہر سرکاری دفتر میں ایسا قلم دان ہو کہ ''کلید کعبہ‘‘ کی شبیہ ہو۔ وہیں سے جب قلم ہاتھ میں لے کر کوئی افسر یا حکمران فیصلہ لکھے گا تو ضمیر ضرور جاگے گا۔ شاید اسی سے ہماری اصلاح ہو جائے اور سبز رنگ کا پرچم ِپاکستان خوشحالی کا عملی شعار بن جائے اور سفید رنگ ہمیں امن دے جائے۔ ہر فیصلہ کرتے وقت حضور سرکار مدینہﷺ کی سیرت مبارک ہمارے کردار کو شفاف بنا دے۔ پاک وطن کو زندہ باد اور پائندہ باد بنا دے۔