اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری اور محبوب رسولﷺ کے چار دوست بنائے‘ یہ خاص الخاص دوست تھے۔ دو آسمان پر اور دو زمین پر۔ آسمان پر جو دو تھے وہ حضرت جبرائیل علیہ السلام اور حضرت میکائیل علیہ السلام تھے۔ جب حضورﷺ معراج کے موقع پر جنت کی سیر فرما رہے تھے تو دونوں آپﷺ کے دائیں بائیں تھے۔ اسی طرح زمین پر حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ آپﷺ کے دو دوست تھے جو آپﷺ کے دائیں بائیں ہوتے تھے۔ روضۂ اطہر زمین پر ہے تووہاں بھی یہ دونوں دوست حضورﷺ کے ساتھ ہیں۔ یہ دونوں دوست اس دنیا سے رخصت ہوئے تو 63 سال کی عمر میں رخصت ہوئے یعنی دونوں کی عمریں بھی حضورﷺ کی عمر مبارک کے مساوی تھیں۔
اسلامی دور کے آغاز میں حضرت عمرؓ ایسے اولین حکمران ہیں جو احتجاج کی صورت میں شہید ہوئے ہیں۔ جس نے آپؓ کو شہید کیا وہ مسلمان نہیں تھا۔ آپؓ کی شہادت کا پس منظر یہ ہے کہ اُس زمانے میں دنیا کی دو سپر پاورز تھیں۔ ایک مسیحی رومی سپر پاور اور دوسری فارس کی مجوسی سپر پاور۔ حضرت عمرؓ نے دونوں کو فتح کر لیا اور یوں آپؓ واحد اسلامی سپر پاور کے حکمران بن گئے۔ لاکھوں کی تعداد میں غیر مسلم غلام تھے جو اسلامی دنیا میں اپنے جان و مال کے تحفظ کے ساتھ رہ رہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے فیصلہ فرمایا تھا کہ کوئی غیر مسلم غلام مدینہ منورہ میں نہ رہے گا۔ اگر کوئی مدینہ منورہ میں رہنا چاہتا ہے تو لازم ہے کہ وہ مسلمان ہو۔ حضرت مغیرہؓ بن شعبہ جو عراق کے گورنر تھے‘ نے حضرت عمرؓ کو خط لکھا کہ میرے پاس ایک غلام ہے‘ یہ ایران کے علاقہ نہاوند کا رہنے والا تھا۔ یہ صنعتی کاریگر ہے‘ لوہار ہے‘ نقاش بھی ہے اور آٹا پیسنے والی چکیاں بنانے کا ماہر ہے۔ دارالحکومت میں یہ کاریگر مفید رہے گا؛ چنانچہ حضرت عمرؓ نے اجازت دے دی۔ یہ بدبخت شخص مدینہ میں آ گیا اور خوب کمائی کرنے لگ گیا۔ اپنی کمائی میں سے بطورِ جزیہ کچھ حصہ یہ حضرت مغیرہؓ کو بھی دیتا تھا۔ اس نے یہ بھی مشہور کر رکھا تھا کہ وہ ہوا سے چلنے والی چکی بھی بنائے گا۔ اس غلام کا نام فیروز تھا۔ ''ابولؤلؤ‘‘ اس کی عُرفیت تھی۔ ایک دن یہ حضرت عمرؓ کے پاس آیا اور شکوہ کیا کہ مجھ سے لیا جانے والا خراج بہت زیادہ ہے۔ حضرت عمرؓ نے جب اس کی آمدن کا پوچھا تو وہ کافی زیادہ تھی۔ آپؓ نے فرمایا: یہ تو مناسب ہے۔ اس پر وہ دل میں حسد اور غصہ لے کر واپس چلا گیا۔ ایک دن امیر المومنینؓ اس کے پاس سے گزرے تو ہوا سے چلنے والی چکی کا پوچھا۔ منہ بسور کر اور ماتھے پر سلوٹیں ڈال کر کہنے لگا: ہاں! ایسی چکی چلے گی کہ دنیا میں اس کے تذکرے ہوں گے۔ امیر المومنینؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: اس نے مجھے دھمکی دی ہے۔ قربان جائوں امیر المومنین کے حوصلے اور اسلامی کردار پر کہ شک کی بنیاد پر انہوں نے اسے گرفتار نہیں کروایا۔
فیروز نے ایک دو دھاری خنجر تیار کیا‘ زہر میں اس کو بجھایا اور زہر آلود دل اور خنجر لے کر اندھیرے میں اس وقت نمودار ہوا جب حضرت عمرؓ نے فجر کی نماز کی امامت کراتے ہوئے ''اللہ اکبر‘‘ کہا۔ اس ظالم نے آگے بڑھتے ہوئے حضرت عمرؓ پر تین وار کیے۔ ایک ناف کے نیچے اور دو ناف کے اوپر لگے۔ لوگوں نے اس کو پکڑنا چاہا تو اس نے نمازیوں پر بھی حملہ کر دیا۔ 13 نمازی زخمی ہو گئے جن میں سے سات بعد ازاں شہید ہو گئے۔ ایک نمازی نے پیچھے سے اس پر چادر پھینک کر اسے گرایا تو اس نے اپنے ہی خنجر سے خود کو زخمی کر لیا؛ تاہم یہ گرفتار ہو گیا۔ یہ شخص چاہتا تو حضرت عمرؓ کے پاس حاضر ہو کر فیصلے پر نظر ثانی بھی کروا سکتا تھا مگر اس نے اپنے اندر حسد کی آگ میں جل کر احتجاج کا پُر تشدد راستہ اختیار کر لیا اور حضورﷺ کی مسجد میں دہشت گردی کا اندوہناک حادثہ کر ڈالا۔ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ قانونی راستے کے بجائے غیر قانونی راستہ اختیار کیا تو اسلامی تاریخ میں ایک غیر مسلم مجوسی نے اختیار کیا۔
حضرت عمرؓ جو اپنے محبوب رسول اکرمﷺ کے مصلیٰ پر زخمی پڑے تھے‘ نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے پوچھا: دیکھو مجھ پر قاتلانہ حملہ کرنے والا کون ہے؟ انہوں نے کہا: فیروز مجوسی۔ اس پر حضرت عمرؓ نے کہا: ''الحمد للہ الذی لم یجعل موتی علی رجل مسلم‘‘ شکر اس اللہ کا کہ جس نے کسی مسلمان کے ہاتھوں میری موت نہیں لکھی۔
پھر فرمایا: ''الحمد للہ الذی لم یجعل میتی بید رجل یدعی السلام‘‘ اس رب کا شکر کہ اس نے مجھے کسی ایسے شخص کے ہاتھوں موت نہیں دی کہ جو اسلام کا دعویٰ کرتا ہے۔ امیر المومنینؓ نے یوں بھی اپنے جذبات کا اظہار فرمایا: ''الحمد للہ الذی لم یجعل میتی علی رجل یحاجنی بلا الہ الا اللہ یوم القیامۃ‘‘ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میری موت ایسے آدمی کے ہاتھوں سے نہیں کروائی کہ جو قیامت کے دن مجھ سے ''لا الہ الا اللہ‘‘ کے کلمہ کے واسطے سے (معاف کرنے) کی بات کرے۔
چوتھا جملہ یوں ارشاد فرمایا: ''الحمد للہ الذی جعل میتی علی ید رجل لم یسجد للہ سجدۃ‘‘ اس اللہ کا شکر ہے کہ جس نے میری موت کسی ایسے بندے کے ہاتھوں سے نہیں ہونے دی جس نے اللہ کے سامنے ایک بھی سجدہ کیا ہو۔
قارئین کرام! ثابت ہوا کہ حضرت عمرؓ کو سب سے بڑھ کر فکر یہ تھی کہ کہیں کسی مسلمان نے تو پُر تشدد احتجاج کا راستہ اختیار نہیں کر لیا؟ انہیں اپنے زخموں کی فکر نہ تھی‘ زہر آلود خنجر کے زہر سے جو شدید ترین تکالیف تھی اس کی پروا نہ تھی۔ حضور کریمﷺ کے مصلیٰ پر خونِ فاروقی بہہ رہا ہے۔ فاروق اعظمؓ کو اس کی فکر نہ تھی۔ فکر تھی تو اس بات کی تھی کہ جو کلمے ''لا الہ الا اللہ‘‘ میں میرے ساتھ رشتہ رکھتا ہے‘ کہیں اس نے اس رشتے پر خنجر تو نہیں چلا دیا۔ ایسا ہو گیا تو حضور کریمﷺ کی امت کا کیا بنے گا؟ یہ تو اسلامی رشتے کو خنجر سے کاٹ کر پُر تشدد زہریلے راستے پر چل نکلیں گے۔ میں تو دنیا سے چلا جائوں گا مگر یہ سلسلہ کیسے رکے گا؟ اور جونہی انہیں معلوم ہوا کہ ایسا نہیں ہے تو وہ اپنے رب کریم کا بار بار شکر ادا کرتے رہے اور چار جملوں میں سے ہر جملہ نئے انداز سے ارشاد فرماتے رہے۔ (یہ جملے ڈاکٹر سلمان العودہ اپنے انسائیکلوپیڈیا میں لائے ہیں۔ دوسرا معتبر حوالہ ''الفتح: 79-7‘‘ ہے۔ حقیقت یہ ہے آج حکمرانانِ پاکستان اور مسلمانانِ پاکستان کو غور کرنا چاہیے کہ وہ کس راستے پر چل رہے ہیں؟
اندرا گاندھی کو اس کے دو سکھ محافظوں نے قتل کیا تو کانگریس کی حکمرانی میں ایک ہی رات میں دس ہزار سکھوں کو قتل کر دیا گیا۔ گلے میں ٹائر ڈال کر وہ سکھوں کو آگ لگاتے رہے۔ ہندو بلوائیوں نے وہ ظلم کیا کہ اس ظلم کے نتیجے میں نفرت کی جو آگ اٹھی‘ آج تک وہ انڈیا کو بھسم کرنے کے در پے ہے۔ یہ کام ہندو اکثریت نے سکھ اقلیت کے ساتھ کیا۔ جی ہاں! ہم پاکستانی مسلمان ہیں مگر ہم نے کیا کیا؟ محترمہ بینظیر بھٹو راولپنڈی کے ایک جلسے کے بعد قاتلانہ حملے میں اپنے اللہ کے پاس چلی گئیں۔ میں ان دنوں اندرونِ سندھ کے ایک قصبے میں جلسے کے لیے موجود تھا۔ آناً فاناً ہر شے پلٹ گئی۔ مسلمانوں نے مسلمانوں پر حملے شروع کر دیے۔ بسوں سے اتار کر لوگوں کو قتل کیا گیا‘ دُکانیں لوٹ لی گئیں‘ ٹرک اور ٹرالوں کے سامان لوٹ لیے گئے‘ گھروں کو آگ لگا دی گئی۔ اربوں مالیت کا نقصان ہوا اور کتنے بے گناہ مارے گئے‘ کوئی اندازہ نہیں۔ جنابِ آصف علی زرداری کا کردار اس وقت لائقِ تحسین بن کر سامنے آیا جب انہوں نے ''پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگایا۔ یہ نعرہ نہ لگتا تو نجانے ہم اپنے مسلمان ہم وطنوں کے ساتھ کیا کرتے؟
لوگو! امیر المومنینؓ کو جب مسجد نبوی سے گھر لایا گیا تو طبیب کو بلایا گیا۔ نبیذ یعنی کھجوروں کا شربت پلایا گیا تو وہ ویسے ہی پیٹ پر موجود زخم سے باہر سے نکل آیا۔ طبیب کو معلوم ہو گیا کہ انتڑیاں کٹ چکی ہیں۔ اب طبیب اور صحابہ کرامؓ نے حضرت عمرؓ سے امت کے لیے وصیت کی درخواست کی۔ صحیح بخاری کے ''کتاب الجزیہ‘‘ میں امام بخاری حدیث لاتے ہیں۔ جزیہ کا تعلق غیر مسلموں سے ہے۔ جی ہاں! امیر المومنینؓ کو حضورﷺ کی مسجد میں مسلمانوں کی فکر تھی کہ وہ پُر تشدد احتجاج کے راستے پر نہ چل پڑیں، انہیں ریاست میں موجود تمام غیر مسلموں کی فکر لاحق ہو گئی کہ کہیں میری شہادت واقع ہونے پر انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے۔ مسلمان یہ کہتے ہوئے ان پر نہ پل پڑیں کہ انہوں نے ہمارے پیارے رسولﷺ کے پیارے دوست کو شہید کر دیا، لہٰذا آپؓ نے وصیت کرتے ہوئے فرمایا: ''اوصیکم بذمۃ اللہ فانہ ذمۃ نبیکم‘‘ اے مسلمانو! میں تم کو (ذمیوں یعنی غیر مسلم یہودی، مسیحی، مجوسی وغیرہ کے حقوق کی پاسداری کے ضمن میں) اللہ تعالیٰ کے ذمہ کی وصیت کرتا ہوں۔ یاد رکھنا! یہ تمہارے رسولﷺ کا اٹھایا ہوا ذمہ (حفاظت) ہے‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب الجزیہ)
سوچوں میں پڑا ہوا ہوں‘ میرے وطن عزیز جیسے بیس‘ پچیس ملک ہوں تو اتنے بڑے رقبے پر حکمرانی تھی حضرت عمرؓ کی۔ ان کی وصیت گھر گھر کس نے پہنچائی کہ اس قدر بڑے رقبے کی حامل ریاست میں کسی ایک غیر مسلم‘ بالخصوص مجوسی (آگ پرست) کو خراش تک نہ آئی۔ کسی نے انہیں سخت لفظ تک نہ کہا اور میرا ملک چھوٹا سا، جدید ٹیکنالوجی کا حامل‘ سکیورٹی کا حامل ادارہ پولیس اور پالیسی ساز حکمران بے بس کیوں؟ خلاصۂ کلام یہ کہ حضرت عمرؓ اپنے رسولﷺ کی اطاعت میں پختہ ترین تھے اس لیے اللہ ان کا دوست اور حامی تھا۔ ہم اس نعمت سے محروم ہیں اس لیے بھٹکے ہوئے آہو کی طرح صحرا میں چھلانگیں لگاتے پھرتے ہیں مگر منزل نہیں ملتی۔ اپنے جن اسلاف سے بچھڑ چکے ہیں‘ ان کا ساتھ نہیں ملتا۔ اے کاش! پولیس اور تحریک لبیک کے کارکنان‘ مسلمانوں کا خون پُر تشدد مظاہروں میں سڑکوں پر نہ بہتا۔ جو ہوا‘ سو ہوا۔ دعا ہے کہ اب حضرت عمرؓ کا کردار میرے ملک کا مقدر ہو،آمین یا رب العالمین!