قرآنِ مجید کی ''سورۃ الاخلاص‘‘ میں اللہ تعالیٰ کی جو صفات بیان ہوئی ہیں ان میں پہلی صفت یہ ہے کہ وہ احد یعنی ایک ہے۔ دوسری صفت اس کے بے نیاز ہونے کی ہے اور تیسری صفت یہ ہے کہ نہ اس نے کسی کو جنم دیا ہے اور نہ ہی وہ کسی سے جنم دیا گیا ہے۔
سورج ایک 'سٹار‘یعنی ستارہ ہے جو پیدا کیا گیا ہے، دلچسپ سائنسی حقیقت یہ ہے کہ سورج کے پیٹ (Atmosphere) میں پیدائش کا عمل ہر لمحے جاری رہتا ہے۔ سورج کے پیٹ کی کھال انتہائی گرم ہے۔ انسانی کھال کی طرح اس کی بھی اوپر تلے تین تہیں ہیں۔ بڑی تہہ کا نام ''فوٹو سفیئر‘‘ ہے، دوسری کو ''کرومو سفیئر‘‘ کہتے ہیں جبکہ تیسری کا نام ''کورونا‘‘ ہے۔ امریکہ نے سورج کی حقیقت کو معلوم کرنے کے لیے ایک مشین سورج کے پاس بھیجی اس کا نام ''پارکر سولر پروب‘‘ ہے۔ چند ہفتے قبل اس مشین نے سورج کے شکم یا پیٹ کی کھال کو ٹچ کیا تو امریکہ کے خلائی ادارے ''ناسا‘‘ کے سائنسدانوں نے بڑی مسرت کا اظہار کیا کہ انسانی تاریخ میں ہم وہ پہلے لوگ ہیں جن کی مشین نے سورج کو چھوا کیا ہے۔ بتایا یہی ہے کہ سورج کی کھال بہت گرم ہے۔ کھال کے اندر سے ہوکر باہرآجانا بہت بڑی کامرانی ہے‘ اس لیے کہ مشین پگھلنے سے بچ گئی ہے۔ سورج کی کھال اگرچہ دنیاوی آگ سے لاکھوں کروڑوں گنا زیادہ گرم ہے مگر یہ کھال بہر حال مادی کھال ہے۔ ایٹم کے چھوٹے ذرات‘ جو ایٹم کے بچے ہیں‘ انہی پر یہ کھال مشتمل ہے۔ پیٹ میں جاکر دیکھنا ابھی بہت مشکل اور ناممکن ہے کیونکہ وہاں ہر لمحے انتہائی گرما گرم بچے پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ ہائیڈروجن ایک گیس ہے‘ اس کے بے شمار بچے ایٹمی دھماکوں سے وجود میں آتے ہیں۔ ان بچوں کو ہیلیم گیس کے بچے بھی کہہ سکتے ہیں۔ الغرض! سورج کے شکم میںہر لمحے یہ بچے ہائیڈروجن سے جنم لے کر ہیلیم میں اور ہیلیم سے جنم لے کر ہائیڈروجن کے بچوں میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ یوں جنم دینے اور جنم لینے کا عمل سورج کے پیٹ میں ہر آن ہوتا رہتا ہے۔
ہمارے دیہات میںایک کھیل کھیلا جاتا ہے جسے کبڈی کہا جاتا ہے۔ کبڈی کے کھلاڑی نے دوسرے کے علاقے میں جاکر ہاتھ لگانا ہوتا ہے اور جس کھلاڑی کو ہاتھ لگادیا جائے اس نے اسے پکڑنا ہوتا ہے۔ امریکہ کا کھلاڑی جس کانام ''پارکرسولر پروب‘‘ ہے وہ سورج کی کھال کو ہاتھ لگا کر اسی کے گرد گھوم رہا ہے اور سورج بے چارا کچھ بھی نہیں کر سکا۔ وہ بڑا بے بس ہے۔ اس سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ سورج اور زمین کی بناوٹ ایک جیسی ہے۔ جس طرح کبڈی کھیلنے والے دو بندوں کا وجود گوشت سے بنا ہوا ہے‘ اسی طرح سورج اور زمین کا وجود ایک جیسے ذیلی ذرات کا بنا ہوا ہے۔ دونوں پیدا ہوتے رہتے اور مرتے رہتے ہیں اور مرنے سے قبل بچے بھی جنم دیتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے زمین پر زمینی ذرات سے ایک مصنوعی سورج بنانے کی کوشش شروع کی ہوئی ہے۔ یہ کوشش امریکا، روس، بھارت، جاپان، برطانیہ اور فرانس وغیرہ بھی کر رہے ہیں مگر چین سب سے بازی لے گیاہے۔
زمین پر جو زندگی ہے وہ نباتاتی ہے یا حیوانی اور انسانی ہے۔ اس کا بیشتر انحصار سورج کی روشنی پر ہے۔ سائنسدان کوشش کر رہے ہیں کہ ہم شمسی تواناائی سے بھی بجلی پیدا کر رہے ہیں تو کیوں نا وہ کچھ کرلیا جائے جو سورج کے پیٹ میں ہوتا ہے۔ اس کے لیے ''ری ایکٹر‘‘ بنائے گئے ہیں۔ باقی ملکوں کے ری ایکٹرز کو کم کامیابی ملی ہے‘ چین کی سائنس اکیڈمی میں ''پلازما‘‘ کا جو ادارہ ہے اس کے سربراہ مسٹر گونگ نے گزشتہ جمعہ کو اعلان کیا کہ ہم نے ایک ٹریلین ڈالر کے خرچے سے جو ری ایکٹر بنایا تھا اس میں توانائی کے پلازما کو زیادہ دیر تک باقی رکھ کر کامیابی حاصل کرلی گئی ہے۔ الیکٹرون، نیوٹرون اور پروٹون کے محلول کو پلازما کہا جاتا ہے۔ یہ اس طرح کا سورج تیار نہیں ہورہا جو آسمان میں ہے‘ دراصل اس جیسی ٹیکنالوجی کو ری ایکٹر میں اختیار کرکے توانائی پیدا کی جائے گی اور دنیا کو بجلی دی جائے گی۔ مکمل کامیابی کے لیے ابھی کئی دہائیوں کا مزید وقت چاہیے۔ 2060ء تک ہو سکتاہے کہ کچھ کامیابی ملنے پر دنیا کی موجودہ بجلی میں سے ایک فی صد بجلی اس مصنوعی سورج سے مل سکے۔ البتہ یہ ثابت ہوگیا کہ زمین اور سورج دونوں مخلوق ہیں‘ دونوں کے عناصر ایک ہیں اور دونوں کا خالق ایک ہے۔
اللہ تعالیٰ کی آخری الہامی کتاب قرآنِ مجید حضرت محمد کریمﷺ پر نازل ہوئی۔ اس میں اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے ''رات‘ دن اور سورج‘ چاند اللہ تعالیٰ کے (بے شمار) نشانات میں سے نشان ہیں‘ لہٰذا سورج اور چاند کو مت سجدہ کرو‘ اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے ان کو پیدا فرمایا ہے‘‘۔ (حم السجدہ :27)
اللہ کے رسولﷺ ریاستِ مدینہ منورہ کے حکمران ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو چاند سے کہیں بڑھ کر خوبصورت اور حسین و جمیل بیٹا عطا فرمایا۔ کوئی ڈیڑھ سال کی عمر میں یہ بچہ‘ جس کا نام حضور کریمﷺ نے ابراہیمؓ رکھا تھا‘ فوت ہوگیا۔ اسی روز سورج کو گرہن لگ گیا۔ لوگوں نے کہنا شروع کردیاکہ چونکہ سورج اور چاند کو گرہن اس وقت لگتاہے جب دنیا میں کسی بڑے شخص کی موت ہوتی ہے یا کوئی بڑی ہستی جنم لیتی ہے‘ لہٰذا حضور کریمﷺ کے لخت جگر ابراہیمؓ کی وفات پر سورج گرہن لگا ہے۔ اس پر حضور اکرمﷺ نے لوگوں کو جمع کیا اور خطاب کرتے ہوئے فرمایا ''سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ ان کو (وقتی طو رپر بے نور کرکے) اللہ تعالیٰ (بندوں کو خبردار کرتے ہوئے) ڈراتے ہیں۔ آگاہ رہو! یہ دونوں کسی کی موت اور پیدائش پر گرہن کا شکار نہیںہوتے‘‘۔ (بخاری: 1014)۔
لوگو! غور کرو‘ ساڑھے چودہ سو سال قبل حضرت رسول اکرمﷺ نے لوگوں کو علمی اور سائنسی حقیقت بتا کر خبردار کردیا کہ یہ دو نشان اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور وقتی طو رپر بے نور ہوئے ہیں۔ یہ مستقل طو رپر قیامت کے دن بے نور ہوکر مرجائیں گے لہٰذا ان کی عبادت مت کرو۔ عبادت اللہ تعالیٰ کی کرو جس نے ان کو پیدا فرمایا۔ کرنے کاکام یہ ہے کہ سورج‘ چاند گرہن کے وقت نماز کا اہتمام کرو؛ چنانچہ حضور کریمﷺ نے سورج گرہن پر لمبی نماز کی امامت فرمائی۔
میں کہتا ہوں اس موقع پر مسلم ممالک کے سربراہان کا فرض بنتا ہے کہ وہ چین کو اس کے کارنامے پر مبارکباد دیں اور ساتھ ہی ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دیں۔ چین میں سورج کی عبادت کی جاتی ہے۔ جاپان میں بھی سورج کی عبادت کی جاتی ہے۔ انہیں دعوت دینے کی ضرورت ہے کہ سائنس کے میدان میں آپ دنیا کے اہم ممالک ہیں مگر سورج کی عبادت غیر سائنسی اور غیر علمی ہے۔ تم سورج کے وجود کو زمین پر ایک لیبارٹری میں جو بنا رہے ہو تو ایک انتہائی چھوٹا سا بچہ ہی بنا سکو گے تو کیا اپنے ہاتھوں سے جنم دیے ہوئے کی عبادت بھی کروگے؟ باپ کے بعد بچے کی بھی پوجا کروگے ؟ یاد رکھو! ہم سب کا خالق اللہ ہے۔ معبود وہ ہے جو ''لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَد‘‘ ہے۔
بھارت میں بھی سورج کی پوجا ہوتی ہے۔ انڈیا میں لگ بھگ 25 کروڑ مسلمان اس اللہ کی عبادت کرتے ہیںجو ''لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَد‘‘ ہے۔ انتہائی متعصب نریندر مودی اب ان کی نسل کُشی کا پروگرام بنا چکا ہے۔ دنیا بھر کے اخبارات اور میڈیا کے ادارے بتا رہے ہیں کہ 25 کروڑ مسلمانوں کے قتل عام کا پروگرام آخری مرحلے میں داخل ہورہا ہے۔ آخری مرحلے سے پہلا مرحلہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو توحید سے ہٹا کر شرک میں جبر کے ساتھ داخل کیا جائے؛ چنانچہ اس کا آغاز مظلوم کشمیریوں سے کر دیا گیا ہے۔ ''سوریا نمسکار‘‘ یعنی سورج کی پوجا کے نام سے انڈیا کے مرکزی ادارے ''ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ‘‘ کی طرف سے آرڈر جاری کیا گیاہے کہ تمام تعلیمی اداروں میں ''ماکارسنکرانتھی‘‘ کی مشق کی جائے۔ اس میں جسم کے 12 پوز بنائے جاتے ہیں جو شمسی سال کے 12 مہینوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ پہلے پوز کا نام ''پرانا ماسانا‘‘ ہے۔ اس کو انگریزی میں Prayer Pose کہا جاتا ہے۔ یاد رہے! مسلمان تو اپنے آخری رسولﷺ پہ نازل ہونے والے قرآنِ مجید او رآپﷺ کی سنت کے پابند ہیں۔ وہ جان دے دیں گے مگر اپنے رب کریم کو جو ''لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَد‘‘ہے‘ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے۔ صرف اسی کے سامنے عبادت کے وہ پوز بنائیں گے جو حضرت محمد کریمﷺ نے نماز کے قیام، رکوع اور سجود و جلسہ کی صورت میں بتائے ہیں۔
بھارت کے موجود حکمران اپنے پرانے ہندوتوا نظریے ''شدھی‘‘ پر اتر آئے ہیں۔ شدھ کا مطلب ہے کہ غیر ہندوؤں خصوصاً مسلمانوں کو ہندو بنا کر شدھ یعنی پاک او رپوتر کیا جائے۔ پاکستان کے حکمرانون کی ذمہ داری ہے کہ بھارت کے حکمرانوں کو بتا دیا جائے کہ تمہارا طرزِ عمل یو این کے چارٹر کے خلاف ہے‘ غیر انسانی ہے اور صریحاً دہشت گردی ہے۔ دنیا کو بھی آگاہ کیا جائے اور واضح پیغام دیا جائے کہ ان لوگوں نے اگر شدھ کرنے پر عمل کیا تو پاکستان ان کو '' سدھ‘‘ کر دے گا۔
پاکستان زندہ باد! پاک فوج پائندہ باد!