اللہ تعالیٰ اپنے بندے حضرت الشیخ ناصر الدین البانیؒ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقام عطا فرمائے۔ انہوں نے جب صحیح احادیث پر مشتمل اپنی کتاب کا آغاز فرمایا تو پہلا عنوان یوں لکھا: ''مستقبل اسلام کا ہے‘‘۔ اس کے بعد جو پہلی حدیث لائے وہ یہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: رات اور دن کا اختتام نہ ہوگا یہاں تک کہ لات اور عزیٰ (کے بتوں) کی عبادت (دوبارہ) کی جائے گی۔ اس پر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے عرض کی: اے اللہ کے رسولﷺ! جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمادی ''وہ اللہ جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق دے کر بھیجا کہ اللہ تعالیٰ اس دین کو تمام مذاہب پر غالب کر دے‘ چاہے مشرک کتنا ہی ناپسند کیوں نہ کریں‘‘ (التوبہ: 33) تب میں نے تو یہی سمجھا تھا کہ لات و عزیٰ کی عبادت کا معاملہ ختم ہو گیا۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ چاہیں گے یہ غلبہ ہوگا۔ (صحیح مسلم: 2907، سلسلہ احادیث صحیحہ: 3)
قارئین کرام! معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام مہدی کی آمد سے پہلے بگاڑ اس حد تک ہوجائے گا کہ لات و منات نامی بزرگوں کی وہ مورتیاں‘ جن کی پوجا مشرکین مکہ کیا کرتے تھے‘ کی پوجا پھر سے شروع ہوجائے گی مگر اسلام کے غلبے کا زمانہ امام مہدی کے دور سے شروع ہو گا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول پر اپنے نقطۂ عروج پر پہنچ جائے گا۔ تمام ادیان کا مستقبل ختم ہوجائے گا اور پوری زمین پر صرف اور صرف اسلام ہوگا لہٰذا دنیا میں مستقبل صرف اسلام کا ہے۔ اس کے بعد شیخ ناصر الدین البانی جو حدیث شریف لائے ہیں‘ وہ اس طرح ہے کہ حضور کریمﷺ نے فرمایا: بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین کو سکیڑکر میرے سامنے اس طرح کردیا کہ میں نے اس کے مشرقوں اور مغربوں کو دیکھ لیا۔ بلاشبہ میری امت کی حکمرانی عنقریب وہاں وہاں تک پہنچے گی جہاں تک میرے لیے زمین کو سکیڑ کر دکھایا گیا ہے۔ مجھے سرخ اور سفید دو خزانے بھی دکھائے گئے ہیں۔ (صحیح مسلم:2889)
زمین کو سکیڑنے یا سمیٹنے کا جو لفظ حضور کریمﷺ نے استعمال فرمایا وہ ''زویٰ‘‘ کا لفظ ہے۔ عربی ڈکشنریوں ''معجم المعانی‘‘اور '' قاموس عربی‘‘ میں اس کا مطلب چہرے کو پھیرنا یا گھمانا ہے۔ کاغذ کے اوراق کو لپیٹنا یا الٹ پلٹ کرنا بھی مراد ہے۔ جدید عربی ڈکشنری ''معجم اللغۃ العربیۃ المعاصرہ‘‘ میں اس کا مطلب یوں ہے کہ کیمرے کے ذریعے ایسے مناظر کو سامنے لایا جائے کہ ان کو تمام انواع اور باریکیوں کے ساتھ دیکھا جا سکے۔ قاموس عربی میں ''زواہ الدھر‘‘ کا مطلب ہے کہ اس نے زمانے یعنی ٹائم کو گھما دیا۔ لوگو! عربی زبان کی عظمت اور فصاحت پر غور فرمائو کہ ہمارے حضور کریمﷺ نے جو لفظ استعمال فرمایا‘ وہ آج کی جدید سائنس سے کہیں آگے ہے‘ اس طرح کہ خلا میں بُنے ہوئے کپڑے کی طرح کا آسمان‘ کہ جس میں ٹائم شامل ہے اور اس میں زمین گھومتی ہے توٹائم اور وقت کا پتا چلتا ہے۔زمین کے مناظر کو اللہ کے رسولﷺ نے اپنے رب کریم کے دکھانے پر اس طرح دیکھا کہ سرخ خزانہ (فارسی ریڈ ہائوس) اور قیصرِ روم کا دارالحکومت قصرِ ابیض (وائٹ ہائوس) حضور کریمﷺ کی امت کے ہاتھوں فتح ہوئے۔خزانے ملے اور ان کی حکمرانی کے علاقوں پرمسلم حکمرانی قائم ہو گئی۔
تیسری حدیث اس طرح ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا ''یہ دین بہر صورت وہاں وہاں پہنچ کر رہے گا جہاں جہاں رات اور دین پہنچتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کوئی مستقل اور عارضی گھر نہیں چھوڑیں گے مگر اس میں اللہ تعالیٰ اس دین کو داخل فرمادیں گے‘ چاہے غالب کے غلبے کے ساتھ ایسا کریں یا کمزور کی کمزوری کے ساتھ ایسا کریں۔ ایسا غلبہ کہ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ اسلام کو غلبہ عطا کریں گے اور ایسی کمزوری کہ اس کے ذریعے کفر کو ذلیل کردیں گے‘‘۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ: 3) جی ہاں! آج سمارٹ فونز کا زمانہ ہے‘محلات ہوں یا حکومتی ایوان‘ ان میں کمپیوٹر اور موبائل فون موجود ہیں۔ ہر گھر میںہر فرد کے پاس موجود ہے۔ وہ گھر جو عارضی ہیں‘ وہ خیمے ہوں‘ کنٹینرز کے گھر ہوں‘ ریل گاڑیاں، جہاز اور کاریں وغیرہ ہوں‘ ہر جگہ موبائل موجود ہے۔مریخ پر بستیاں بنانے کا پروگرام ہے تو سورج وہاں بھی طلوع اور غروب ہوتا ہے۔ خلائی سٹیشن پر خلانورد موجود ہوتے ہیں‘ رات دن کا منظر وہاں بھی ہوتا ہے۔ جہاں بھی رات دن پہنچتے ہیں‘ روشنی اور اندھیرا ہوتا ہے وہاں انسان موجود ہے تو اس کے پاس موبائل یا کمپیوٹر اور اس جیسے دوسرے کمیونیکیشن آلات موجود ہیں اوریہ ہیں تو انہیں کھولنے سے جہاں دنیا بھرکی خبریں ملتی ہیں‘ اسلام کی خبر بھی ملتی ہے اور آج دنیا بھر میں سب سے زیادہ پھیلنے والادین اسلام ہی ہے اور جس ذریعے سے یہ سب سے زیادہ پھیل رہا ہے وہ ذریعہ موبائل کا ہے۔ مسلمان دنیا میں کمزور ہیں مگر ان کی کمزوری کو یہ موبائل فون قوت میں بدل رہا ہے۔ اس قدر کہ حرمتِ رسولﷺ کے تحفظ میں روسی صدر پیوٹن بولتے ہیںتو کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو بھی بولتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ شانِ رسالت مآب میں گستاخی اور توہین ناقابلِ قبول ہے۔ جی ہاں! کمزوروں کی کمزوری کو آئینی اور قانونی تحفظ ملنا شروع ہوچکا ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ تحفظ کی اس چادر کو پھاڑنے کا کردار خارجی دہشت گرد ذہن کرتا ہے مگر وہ ناکام ہونا شروع ہوگیا ہے۔ بطورِ مثال ایک واقعہ عرض کر رہا ہوں‘ ملاحظہ ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک بندی ہے‘ امریکا میں رہتی ہے‘ 30 سال کے لگ بھگ اس کی عمر ہے۔ اس نے اپنا نام عائشہ رکھ لیا ہے۔ عائشہ بتاتی ہیں کہ ان کا بچپن تھا جب ان کے والدین نے روس سے ہجرت کی اور امریکا میں رہنے لگ گئے۔ ماں مسیحی تھی جبکہ والد یہودی تھے۔ وہ بچپن میں چرچ جایا کرتی تھیں اور بائبل پڑھتی تھیں۔ بائبل کا آغاز کائنات کی پیدائش سے ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے چھ دنوں میںجو‘ جو بنایا اس کی تفصیل بائبل کی ابتدائی31 آیات پر مشتمل ہے۔ دوسرا باب شروع ہوتا ہے تو دوسرے باب کی آیت نمبر2 کا انگریزی ترجمہ یوں ہے:
By the seventh day God had finished the work he had been Doing, So on the seventh day he rested from all his work.
ترجمہ: ساتویں دن خدا نے اپنا کام مکمل کر لیا۔ (کائنات کی پیدائش کا وہ کام) جو وہ کر رہا تھا؛ چنانچہ اپنے سارے کام سے فارغ ہوکر اس نے ساتویں دن آرام فرمایا۔
عائشہ سوچنے لگ گئیں کہ اگر کائنات کا خالق آرام کرتا ہے تو جب میں بے آرام جائوں گی‘ بے سکونی کی کیفیت سے دوچار ہوجائوں گی‘ کام کی تھکاوٹ مجھے بے چین کردے گی تو جو خود تھکاوٹوں سے دوچار ہے‘ وہ میری بے چارگی کیسے چارہ گری میں تبدیل کرے گا۔ ان کے ذہن میں یہ سوال ابھرنے لگا کہ میں کسی اپنے جیسے کو اپنا خالق اور خدا کیوں مانوں۔ وہ کہتی ہیں کہ میں سالوں یہ بات سوچتی رہی‘ جواب ڈھونڈتی رہی مگر یہ جواب نہ چرچ سے ملا۔ میری ماں‘ جو مسیحی تھی‘ سے بھی نہ ملا۔ باپ یہودی تھا‘ اس سے بھی نہیں ملا۔ میں سکول‘ کالج‘ یونیورسٹی میں پڑھتی چلی گئی مگر کہیں سے کوئی جواب نہ ملا۔ آخر کار! میں نے ایسے خدا کا انکار کردیا۔ امریکا میں ملحدوں کی کوئی کمی نہیں‘ یہ کروڑوں میں ہیں۔ اب اس تعداد میں میرا بھی شمار ہونے لگا تھا۔
الحاد کے بعد مگر میں ایک نئی نفسیاتی مصیبت کا شکار ہوگئی۔ ''میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ بنانے والے نے مجھے کیوں بنایا؟ کیا موت آنے پر میرا انجام حتمی خاتمہ ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر زندگی گزارنے کی جدوجہد کا مقصد لاحاصل ہے؟‘‘۔ میرے دل و دماغ میں یہ سوال پیدا ہوتے تو اندر سے ہی ایک آواز اٹھتی کہ مخلوقات میں موجود نقائص سے پاک کوئی ایسی مقدس ترین ہستی ہو جس کے سامنے میں اپنے من کے دکھڑے رکھوں‘ وہاں سے مجھے ایسا جواب ملے کہ میرے اندر کی تلاطم خیز موجوں کو قرار ملے۔ مسلمانوں سے مجھے ویسے ہی نفرت تھی کہ یہ دہشت گرد ہوتے ہیں‘ خودکش بمبار ہوتے ہیں‘ عورتوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتے ہیں‘ ایسا سب کچھ ان کو اسلام سکھاتا ہے لہٰذا ادھر کارخ کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا؛ چنانچہ میں نے سوچ بچار کے بعد بدھ ازم کے ماننے والوں کے ساتھ رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ امریکہ میں موجود ان کے مذہبی رہنمائوں کے پاس گئی تو بدھا کی مورتی کی پوجا کی دعوت نے دل کو کرچی کرچی کردیا۔ ہندوؤں کے مندر میں گئی تو بھگوان خرید کر گھر میں رکھنے کا کہا گیا۔ سوچنے لگ گئی اور ساتھ ہی ہنس دی کر ڈالروں میں خریدا ہوا ہنومان کا بت مجھے میرے سوالوں کا جواب دے گا؟ پریشانی اب مجھے یہاں سے سیدھی گھر لے گئی۔ ایک دن اسلام پر ریسرچ کرتے ہوئے گوگل کے ذریعے قرآنِ مجید پڑھنے لگی۔ سورۃ النساء کی چند آیات کا ترجمہ انگریزی میں پڑھا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ یہ تو میرے دل کی آواز ہے جس کے ساتھ قرآنِ پاک کی آواز ہم آہنگ ہو رہی ہے۔ میں آگے بڑھتی چلی گئی‘ قرآنِ مجید کے مختلف اقتباسات کا مطالعہ کرتی چلی گئی۔ قرآنِ پاک نے دل کے تمام بند دریچوں کو کھول دیا۔
''اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں‘ وہ از خود زندہ اور قائم رہنے والا ہے۔ اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند اس کے پاس پھٹکتی ہے‘‘۔ اس عظیم آیت (آیت الکرسی) کا اختتام یہاں ہوتاہے کہ ''اُسے آسمانوںاور زمین کی حفاظت کسی تھکاوٹ کا شکار نہیں کرتی، (کیسے کرے؟) وہ تو انتہائی بلند و بالا اور بہت عظیم ہستی ہے‘‘۔ عائشہ کہتی ہیں کہ میں نے بیٹھے بیٹھے اسی نشست میں کلمۂ شہادت پڑھ لیا اور دائرہ اسلام میں داخل ہو گئی۔