اللہ تعالیٰ ہی عالم الغیب ہے‘ وہی جانتا ہے کہ غیب کے جہان سے کب اور کون سا منظر زمینی سکرین پر نمودار ہوگا اور ایسا اَنمٹ نقش چھوڑ جائے گا جو تاریخ میں سنگِ میل بن جائے گا۔ افغانستان کے شہر غزنی سے سلطان محمود غزنوی ہندوستان میں آیا تھا۔ جنوبی ہند کے مغرب میں بھی اس نے معرکہ آرائی کی تھی۔ جب واپس گیا تو کتنے ہی افغان یہیں بس گئے اور پھر ہندوستان بھرمیں پھیل گئے۔ سلطان محمد غوری‘ جنہیں تاریخ شہاب الدین کے نام سے یاد کرتی ہے‘ بھی ہندوستان آیا تھا۔ اس کے ساتھ جو لشکر تھا‘ اس میں سے بھی کتنے ہی افغان‘ پٹھان ہندوستان میں بس گئے تھے۔ مغلوں کی حکمرانی جب زوال کا شکار ہوئی تو میسور میں سلطان ٹیپو حکمران بن گئے اور شیرِ میسور کہلائے۔ سلطان فتح علی خان ٹیپو مسلمانوں اور ہندوؤں کا مشترکہ ہیرو ہے اور یہ اس لیے مشترکہ ہیرو ہے کہ اس نے انگریزوں کے خلاف معرکہ آرائی کی تھی۔ میسور کا نام اب بھارتی حکومت نے ''کرناٹک‘‘ کر دیا ہوا ہے۔ یہ بھارت کی ایک ریاست ہے۔ میسور اس کا اب ایک شہر ہے۔ اس کا نواحی ضلع منڈیا ہے۔ بحرِ عرب کے کنارے پر یہ جو علاقے آباد ہیں‘ یہاں خاصی بڑی تعداد میں مسلمان رہتے ہیں۔ ان مسلمانوں میں اچھی خاصی تعداد پٹھان مسلمانوں کی ہے۔
یہیں کرناٹک کے محمد حسین خان بھی ایک غیرت مند مسلمان ہیں۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے بیٹی دی‘ جس کا نام انہوں نے ''مسکان خان‘‘ رکھا۔ مسکان کا مطلب مسکراہٹ ہے۔ انڈیا کی مذکورہ ریاست میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے ایک مہم چل رہی تھی کہ مسلمان طالبات برقع اور سکارف پہن کر سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نہ آئیں۔ بعض اداروں میں پرنسپلز نے No Entry کے بورڈ بھی آویزاں کر دیے۔ اس پر مسلمانوں میں تشویش تھی، حکمران جماعت بی جے پی نے بھی اپنے تعصب کا اظہار کیا اور ہندو طلبہ بھگوا کیسری شالیں گلے میں لٹکا کر مسلم طلبہ کے خلاف سڑکوں پر آنے لگ گئے۔ مسلمانوں کو بھی اپنے حق کے لیے میدان میں نکلنا پڑ گیا۔ مسلمانوں نے کرناٹک ہائیکورٹ سے بھی رجوع کیا اور چھ طالبات نے ایک پٹیشن دائر کر دی۔
آٹھ فروری کی صبح مسکان خان حسبِ معمول اپنے کالج 'مہاتما گاندھی میموریل‘ میں گئی تو آئوٹ سائیڈر ہندو طلبہ نے اسے روکنے کی کوشش کی مگر دلیر مسکان خان اپنے کالج کے استاد او رایک دو طلبہ کی مدد سے اندر داخل ہوگئی۔ جب وہ کالج پہنچی تو اس نے اپنی سکوٹی پارک کی‘ برقع پہنے اور نقاب کیے وہ آگے بڑھی تو تمام وہ لڑکے جو کالج گیٹ کے باہر کھڑے تھے کہ کسی مسلم طالبہ کو برقع اور سکارف و نقاب کے ساتھ اندر نہیں جانے دیں گے‘ سیخ پا ہوگئے کہ ایک مسلمان طالبہ ان کے درمیان سے گزر کر دلیری کے ساتھ کیسے اندر چلی گئی۔ اب یہ ہندو طلبہ کا ہجوم‘ جس میں چند ایک مذکورہ کالج کے سٹوڈنٹس بھی تھے‘ گیٹ سے اندر آگئے اور کیسری رنگ کی بھگوا شالیں پہنے ہوئے جے شری رام کے نعرے لگاتے ہوئے مسکان کے پیچھے دوڑے۔ مسکان خان نے ڈرنے کے بجائے ان کا سامنا کیا اور ان کی جانب رخ کرکے ''اللہ اکبر‘‘ کے نعروں سے ان کو جواب دینے لگی۔ اس نے اپنی پوری قوت سے مسلسل اللہ اکبر کے نعرے لگائے۔ ساتھ ہی برقع اور حجاب کے بارے میں واضح کیا کہ یہ ہماری عزت اور غیرت ہے‘ ہم اسے نہیں چھوڑیں گے۔ یہ بدتمیز نوجوان ناشائستہ اشارے کرتے رہے مگر غیرت مند مسکان خان‘ جو نہتی اور اکیلی تھی‘ گھبرائی نہیں، ڈری نہیں اور مسلسل مقابلہ کرتی رہی۔
چند ماہ قبل ایک 65 سالہ مسلم بزرگ کو بھی ایک ایسے ہی جتھے نے 'جے شری رام‘ کے نعرے لگانے پر مجبور کیا تھا مگر اس نے اللہ کا نام لیا تو اس کو مار مار کر لہولہان کردیا گیا۔ مسکان کے سامنے یہ منظر بھی تھا مگر وہ ڈٹی رہی اور اللہ اکبر کہتی رہی۔ قبل اس کے کہ یہ غنڈے گندے ارادے سے اسے پکڑتے‘ کالج کے اساتذہ درمیان میں آگئے اور مسکان خان کو کالج میں لے گئے مگر وہ پھر بھی مقابلہ کرتی‘ نعرے لگاتی ہوئی آگے بڑھتی گئی۔ وہ بھاگی نہیں‘ بس چلتی رہی اور کالج کی عمارت میں داخل ہوگئی۔ اس نے مقابلہ بھی کیامگر نقاب کو اپنے چہرے سے گرنے نہیں دیا۔ اس کے کردار سے سارے کرناٹک کے مسلمان طلبہ احتجاج کے لیے باہر نکلنے لگ گئے۔ جمعیت علمائے اسلام ہند کے صدر مولانا محمود مدنی نے مسکان کے لیے پانچ لاکھ روپے کے انعام کا اعلان کیا ہے۔ انڈین مسلمانوں کے معروف سیاسی لیڈر اسد الدین اویسی بھی خوب بولے۔ ایسے حالات میں کرناٹک کے اندر تین دن کے لیے تمام تعلیمی ادارے بند کردیے گئے ہیں۔
مسکان خان کی دلیری کا نتیجہ یہ نکلا کہ کرناٹک ہائی کورٹ میں چیف جسٹس نے چھ مسلم طالبات کے جس کیس کو ہفتہ بھر بعد کی تاریخ دی تھی‘ کی سماعت کے لیے فوراً عدالت لگالی۔ مسلمانوں کی طرف سے محمد طاہر ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔ انہوں نے کہا: برقع اور نقاب ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔ قرآن مجید کی سورہ نور میں اس کاحکم موجود ہے‘ ہماری بچیوں کو پردے سے روکنا ہمارے دینی شعار میں مداخلت ہے۔ پردے سے روکنا بھارت کے آئین کے بھی خلاف ہے کہ جس میں مذہبی آزادی کی گارنٹی دی گئی ہے۔یہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بھی خلاف ہے کہ وہ مسلمانوں کے مذہبی آزادی کے اس حق کو تسلیم کر چکی ہے۔ اس پر کرناٹک کے چیف جسٹس نے قرآنِ مجید منگوایا۔ محمد طاہر ایڈووکیٹ نے سورہ نور کی تلاوت کی اور اس کا ترجمہ بیان کیا۔ رب کریم کا ارشاد گرامی ہے ''(اے رسول!) مومن عورتوں کو کہہ دیںکہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں۔ اپنی آرائش (یعنی زیور کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں مگر جو اس میں سے کھلا رہتا ہے۔ اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں اور اپنے خاوند اورباپ، اور خسر (شوہر کے باپ )اور بیٹوں اور اپنے خاوند (کے کسی دوسری بیوی سے) بیٹوں اور اپنے بھائیوں اور بھائیوں کے بیٹوں (بھتیجوں)، اپنی بہنوں کے بیٹوں (بھانجوں) سے۔ اپنی (ہی قسم کی) عورتوں اورلونڈی غلاموں کے سوا، نیز ان خدام کے جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں یا ایسے لڑکوں کے جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں (غرض ان لوگوں کے سوا) کسی پر اپنی زینت اور (سنگار کے مقامات) کو ظاہر نہ ہو نے دیں اور اپنے پائوں کو زمین پر اس طرح مت ماریں کہ اس سے ان کی وہ زینت نمایاں ہو کہ جسے وہ چھپاتی ہیں۔ اے مومنو! سب کے سب اللہ کی طرف رجوع رکھو۔ (ایسے کردار اپنائو) تو فلاح پا جائو گے۔ تم میں سے جو مرد اور خواتین نکاح کے بغیر ہیں‘ ان کے نکاح کردو۔ تمہارے غلاموں اور کنیزوں میں سے‘ جو اچھے کردار کے ہیں‘ ان کے بھی نکاح کر دو۔ اگر وہ فقیر ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے مالدار کردے گا۔ اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ (النور : 31 تا 32)
انسانی معاشروں میں یہ ہے وہ نور اور روشنی کہ جسے قرآنِ مجید اپنے ماننے والوں میں دیکھنا چاہتا ہے۔ کرناٹک ہائی کورٹ میں مندرجہ بالا دونوں آیات کی تلاوت سن کر چیف جسٹس ''مسٹر ریتوراج اواستھی‘‘ نے مثبت ریمارکس دیے۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی آزادی پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ الغرض ! مسکان خان کی دلیری اور بہادری نے سارے بھارت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ویسے تو کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں مسلم طلبہ اور طالبات ''Hijab is our Honor, Hijab is our Respect‘‘ کی تحریریں لکھ کر کتبے نمایاں کر رہے تھے کہ حجاب سے ہی ہماری عزت اور ہمارا احترام وابستہ ہے مگر اس احترام کو مسکان خان کی دلیری، جرأت اور بہادری نے صرف انڈیا ہی نہیں‘ سارے جہان میں چار چاند لگادیے ہیں۔ یاد رہے ! بھارت وہی ملک ہے جسے دنیا کا ''ریپ کیپٹل‘‘ کہا جاتا ہے‘ جہاں جبر کے ساتھ بچیوں کے ساتھ ریپ ہوتا ہے اور پھر ان کا قتل کر دیا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں اس حیوانیت میں بھارت ون نمبر ملک ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ بیشتر کیسز بھی ملزمان نے یہ کہا کہ لڑکیوں کے لباس نے ان کے جذبات کو مشتعل کیا۔ مسلمان طالبات‘ جو شرم و حیا کے زیور سے آراستہ ہیں یا وہ ہندو طالبات‘ جو اپنی فطرت پر لبیک کہتے ہوئے شرم و حیا کو اوڑھنا بچھونا بناتی تھیں‘ وہ اس طرح کے کیسز سے کافی حد تک محفوظ تھیں اور محفوظ ہیں۔ سورہ نور کا یہی نورانی پیغام ہے جس کی نورانی مسکراہٹ نے کرناٹک ہائی کورٹ کو منور کیا ہے کہ عورت کی مسکان اور مسکراہٹ اس کے محرم رشتے داروں کے لیے ہے‘ غیروں کے لیے نہیں۔ بیٹی مسکان خان کی دلیری کو ہمارا سلام ہے کہ اس کی دلیری کی وجہ سے کرناٹک ہائی کورٹ میں قرآنِ مجید کی سورہ نور کا نور پھیلا اور فرقانِ حمید کی آیات پر تبسم کا اظہار ہوا۔اللہ اکبر!