اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے انسانی زبان کو طرح طرح کے ذائقوں سے نوازا ہے؛ تاہم تمام ذائقوں کو بنیادی طور پر دو ذائقوں میں محدود کیا جا سکتاہے۔ یہ دو ذائقے ''میٹھا‘‘ اور ''کڑوا‘‘ ہیں۔ لذیذ ذائقے اور خوشگوار خوشبوئیں انسان کو فرحت اور تازگی کا احساس دلاتے ہیں جبکہ کڑوے کسیلے ذائقے اور بدبوئیں انسان کے مزاج پر انتہائی برے اثرات ڈالتے ہیں‘ اسے نفرت کا احساس دلاتے ہیں۔
موت بھی ایک ذائقہ ہے؛ یہ میٹھا بھی ہے اور کڑوا بھی۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے موت کو ذائقہ قرار دیا ہے۔ ارشاد فرمایا ''(میرے رسول) آپ سے قبل ہم نے کسی انسان کو دائمی زندگی نہیںدی۔ آپ (اس دنیا میں) نہیں رہیں گے تو یہ (مشرکین وغیرہ ) کیسے ہمیشہ رہیں گے؟ ہر جان نے موت کا ذائقہ چکھ کر رہنا ہے۔ (انسانو! یاد رکھو) ہم تمہیں بری اور اچھی حالت کی آزمائش میں مبتلا کرتے رہتے ہیں۔ آخر کار تم سب نے ہماری ہی طرف واپس آکر رہنا ہے‘‘(الانبیاء: 35)۔ قارئین کرام! مندرجہ بالا آیت میں ہر انسان کے لیے دو پیغام ہیں کہ اگر وہ دنیا کی آزمائشی زندگی میں کامیاب ہوگیا تو دنیا سے اگلے جہان کی جانب جاتے ہوئے موت کا ذائقہ میٹھا ہوگا اور اگر وہ ناکام ہوگیا تو یہ ذائقہ کڑوا او ربدبودار ہوگا۔
دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ موت کے ذائقے کی بابت کچھ یوں ارشاد فرماتے ہیں ''ہر جان موت کا ذائقہ چکھنے والی ہے۔ قیامت کے دن تم لوگوں کو تمہاری مزدوری پوری پوری ادا کردی جائے گی۔ جو شخص آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا‘ وہ کامیاب ہوگیا۔ دنیا کی زندگی کی حقیقت بس اسی قدر ہے کہ دھوکے میں مبتلا کرنے والے وسائل سے استفادے کی داستان ہے‘‘ (آل عمران : 185)۔ تیسری جگہ اللہ تعالیٰ ذائقے کی بات اس طرح ارشاد فرماتے ہیں ''ہر جان موت کا ذائقہ چکھنے والی ہے‘ پھر تم سب لوگوں کی واپسی ہماری ہی طرف ہے۔ وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے‘ انہیں ہم ضرور بالضرور جنت میں ایسے بلند و بالا محلات عطا فرمائیں گے کہ جن کے نیچے نہریں چل رہی ہوں گی۔ وہ یہاں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ (نیک) اعمال کرنے والوں کا کیا خوب اجر ہے۔ ان لوگوں نے (مشکلات) پر صبر کیا اور توکل و بھروسہ اپنے رب پر ہی کرتے رہے‘‘ (سورۃ العنکبوت : 57 تا 59)۔
قارئین کرام! آیئے اب موت کے میٹھے ذائقے کا ایک منظر ملاحظہ کرتے ہیں: مولانا محمود عباس رحمہ اللہ اپنے علاقے میں ایک بڑے زمیندار تھے۔ رائس مل بھی انہوں نے بنا رکھی تھی۔ دین کے عالم اور خدا ترس انسان تھے۔ انہوں نے پتوکی شہر میں مسجد اور مدرسہ اپنے خرچ پر بنوایا۔ مدرسے میں بچے قرآنِ مجید حفظ کرنے لگے۔ اپنی بنائی ہوئی مسجد کا نام انہوں نے ''مسجد مدینہ‘‘ رکھا۔ یہاں وہ خطبۂ جمعہ دینے لگے۔ ایک دن اپنے رب کے حضور ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے لگے: مولا کریم! احرام باندھے ہوئے اپنے گھر میں موت عطا فرما۔ 55 سال ان کی عمر تھی۔ 3 سال قبل جب وہ عمرے پر گئے ہوئے تھے‘ احرام باندھا ہوا تھا اور کعبے کا طواف کر رہے تھے۔ پانچ چکر لگائے تو اپنے بیٹے جواد سے فون پر بات کرنے لگے۔ کہنے لگے: جمعہ کی نماز کا ٹائم ہوا چاہتا ہے‘ باقی دو چکر نمازِ جمعہ کے بعد لگائوں گا، اوراللہ نے چاہا تو بعد میں بات کروں گا۔ اب حرم میں مؤذن کی اذان کے الفاظ ''اللہ اکبر‘‘ گونجے تو فون بند ہوگیا۔ مولانا اپنے کزن کے ساتھ آگے بڑھے۔ اذان کے بعد کی دعا پڑھتے پڑھتے حرم کے صحن میں بیٹھے‘ بغل میں دبائے ہوئے جائے نماز کو تکیہ بنایا اور سیدھے لیٹ گئے۔ کوئی تین‘ چار منٹ لیٹے ہوں گے کہ ان کے ہمراہ موجود ان کے کزن نے بازو کو ہلاتے ہوئے انہیں اٹھنے کا کہا مگر مولانا محمود کی دعا قبول ہوچکی تھی۔ ان کا جسم حرم شریف میں تھا اور روح بیت المعمور کی جانب محوِ پرواز تھی۔
یاد رہے کہ حضور نبی کریمﷺ کے ایک فرمان کے مطابق خانہ کعبہ کی سیدھ میں بالکل اوپر ساتویں آسمان پر بیت المعمور ہے۔ یہاں روزانہ 70 ہزار فرشتے طواف کرتے ہیں۔ جس 70 ہزار کی جماعت نے پہلے دن طواف کیا تھا‘ قیامت کے دن تک اس کی باری دوبارہ نہیں آئے گی۔ ہمارے حضور کریمﷺ نے یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ٹیک لگائے دیکھا تھا۔ خانہ کعبہ کے صحن میں روح قبض ہوگی تو آسمانوں کی جانب سمت بیت المعمور ہوگی۔(ان شاء اللہ)۔
مولانا کو دیکھ کر حرم کی پولیس فوراً آگئی۔ حرم شریف کے ڈاکٹر بھی آگئے اور چیک کرنے کے بعد بتایا کہ حاجی صاحب کو فوت ہوئے تقریباً دس منٹ ہوچکے ہیں، یعنی حاجی مولانا محمود عباس جونہی لیٹے تھے‘ فوراً مولا کریم نے بلالیا تھا۔ وہ جسمانی طور پر توانا ، تندرست اور میڈیکلی مکمل فٹ تھے مگر اخلاص کے ساتھ کی ہوئی دعا قبول ہوچکی تھی۔ سر کے نیچے جو تکیہ تھا‘ وہ جائے نماز کا تھا۔ جس پر حرم میں قیام کے آثار تھے، رکوع تھا، سجدوں کے نقوش تھے‘ اب وہی سر کے نیچے تھی۔ حرم کا فرش تھا‘ کعبے کا سایہ تھا‘ جمعۃ المبارک کا دن تھا اور نمازِ جمعہ کا وقت تھا۔ فرشتہ آیا‘ سر کے پاس بیٹھا اور اللہ کے بندے محمود عباس کو لے گیا۔ بیت اللہ شریف میں ان کو غسل دیا گیا‘ وہیں کفن پہنا دیا گیا۔ امامِ کعبہ نے جنازہ پڑھا دیا۔ یہ کورونا کے آغاز سے پہلے کا منظر تھا۔ حرم میں لاکھوں لوگ تھے۔ پھر مکہ مکرمہ میں ہی انہیں دفن کردیا گیا۔ پچھلے جمعہ کو میں مولانا محمود عباس رحمہ اللہ کے گھر میں بیٹھا تھا۔ ان کی مسجد مدینہ میں خطبۂ جمعہ دینے گیا تھا۔ ان کے بیٹے عزیزم جواد نے مجھے سارا واقعہ سنایا او رپھر اس واقعے کی وڈیو بھی دکھائی۔ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کیا قابلِ رشک موت ہے۔
مولانا محترم مرحوم نے جو دعا مانگی تو حضور کریمﷺ کی اس حدیث شریف کوپڑھ کر دعا مانگی تھی کہ ''ایک شخص حضور نبی کریمﷺ کے ہمراہ عرفات کے میدان میں کھڑا تھا۔ وہ اپنی سواری (اونٹنی) سے گرا اور اس کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ وہیں فوت ہوگیا۔ حضور کریمﷺ نے حکم ارشاد کیا کہ اس کو پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو‘ دو کپڑوں میں کفن پہنادو۔ اسے خوشبو نہ لگانا‘ نہ اس کا سر ڈھانپنا۔ یہ قیامت کے دن لَبَّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لاَ شَرِیْکَ لَکَ... کہتے ہوئے اٹھے گا۔ (صحیح بخاری: 1268، صحیح مسلم: 1206)۔
قارئین کرام! قرآنِ مجید میں موت کا ذائقہ چکھنے والی آیت تین بار دہرائی گئی ہے۔ کالم کے آغاز میں ہی ہم ان تینوں کا تذکرہ کر چکے ہیں۔ یہ ذائقہ حضور کریمﷺ کے صحابی کے لیے کس قدر میٹھا تھا‘ حضور اکرمﷺ نے اس کا تذکرہ خود بیان فرما دیا۔ مٹھاس کے اعتبار سے سب سے میٹھی شئے شہد ہے۔ قرآنِ مجید میں ''النحل‘‘ کے نام سے ایک سورت مبارکہ ہے جس کا معنی شہد کی مکھی ہے۔ اسی سورت میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے آخری لمحات کا نقشہ کھینچا ہے اور واضح کیا ہے کہ وہ منظر کس قدر عزت و تکریم کا حامل ہوتا ہے؛ گویا وہ اپنے اندر شہد کی مٹھاس لیے ہوئے ہوتا ہے۔ فرمایا ''ان لوگوں (کے آخری لمحات کی) کیا ہی بات ہوتی ہے کہ جب فرشتے ان کو لینے آتے ہیں تو وہ (گفتار و کردار میں انتہائی) پاک صاف اور سچے کھرے ہوتے ہیں‘ تب فرشتے ایسے لوگوں کو ''السلام علیکم‘‘ کہتے ہیں۔ (ساتھ ہی یہ خوشخبری سناتے ہیں) جنت میں داخل ہوجائو۔ ان اعمال کے بدلے میں جو تم لوگ کیا کرتے تھے‘‘ (النحل :32)۔ قارئین کرام! یہ ہے موت کا وہ میٹھا ذائقہ جس کا ذکراللہ تعالیٰ نے شہد والی سورت میں کیا ہے۔
یاد رہے! میں اپنے ایک گزشتہ کالم میں اُس 80 سالہ بزرگ کا تذکرہ بھی کر چکا ہوں کہ جو ساری زندگی مسجد کے خادم رہے‘ جب فوت ہونے لگے تو اپنے بیٹوں‘ بیٹیوں کے درمیان بیٹھے ہوئے‘ کہنے لگے: ادھر ادھر ہوجائو‘ وہ آگئے ہیں۔ پھر ''وعلیکم السلام ‘‘ کہا اور روح پرواز کر گئی۔ جی ہاں! ایسی نعمت ان نیک لوگوں کو ملتی ہے کہ جن کی زبان اور کردار سے دوسرے لوگ محفوظ رہتے ہیں۔ فرشتے سلامتی کی دعا یعنی سلام اُن کو پیش کرتے ہیں جنہوں نے نہ کسی کی عزت کو مجروح کیا‘ نہ غیبت کی‘ نہ جاسوسیاں کیں‘ نہ کسی کے مال کو ہڑپ کیا‘ نہ حرام کھایا‘ نہ ملاوٹ کرکے لوگوں کی صحت کو برباد کیا‘ نہ دھوکے سے مال بنایا‘ نہ دنیا کی خاطر کسی کی جان کو ضائع کیا۔ ان کے لیے زندگی کا آخری دن اور آخری لمحہ انتہائی میٹھا ہوتا ہے۔ موت کا ذائقہ انتہائی لذیذ ہوتا ہے کہ ادھر اللہ تعالیٰ کے فرشتے سلام کرتے ہیں اور ساتھ ہی فردوس کے بالاخانوں میں محل دکھاتے ہیں کہ جس کے دروازے پر اگلے جہان کی گھر والی منتظر کھڑی ہوتی ہے۔