روس کے صدر کا نام ولادی میر پوتن ہے۔ ولادی میر کا معنی دنیا کا حکمران ہے‘ گریٹ پاورہے۔ امن کا حکمران‘ شفاف اور مشہور بھی وکی پیڈیانے بتایا ہے۔ روس اور مشرقی یورپ کی سلاوی نسل سے اس کا تعلق ہے۔ آرتھوڈوکس فرقے کے مسیحی لوگوں کے ہاں ولادی میرمذہبی طور پر انتہائی تقدس کا حامل نام ہے۔ اس نام کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ یوکرین کے شہر کیف کا یہ پرنس یعنی شہزادہ تھا۔ یہ حکمران بن گیا۔ یہ آرتھوڈوکس مسیحی تھا۔ اسے آرتھوڈوکس کی دنیا میں ولی کامل کہاجاتا ہے۔ اس نے داڑھی رکھی ہوئی تھی۔ ہاتھ میں تلوار اور سر پر خود تھا۔ قسطنطنیہ جو آرتھوڈوکس کا مرکز تھاوہاں 988ء میں گیا اور آرتھوڈوکس روحانی اولیاء کرام نے اس کو بپتسمہ (Baptize) کیا۔ ایک خاص مسیحی عمل ہے جس میں روحانی بزرگ کسی کو مقدس پانی سے غسل دیتے ہیں‘ اس کے سر پر تیل ملتے ہیں۔ ولادی میروہ پہلاآرتھوڈوکس حکمران ہے جس نے قسطنطنیہ (Constantinople) میں بپتسمہ لیا۔ ولادی میر نے مشرقی یورپ میں پہلا آرتھوڈوکس مسیحی مرکز یوکرین کے دارالحکومت کیف میں بنایا۔ روس کے موجودہ صدر ولادی میر پوتن اپنا روحانی رشتہ ولادی میر سینٹ (ولی) کے ساتھ جوڑتے ہیں۔صدر پوتن دریائے اردن میں بپتسمہ لے چکے ہیں۔ یاد رہے! دریائے اردن میں بپتسمہ لینا انتہائی مقدس گردانا جاتا ہے۔ صدر پوتن گلے میں صلیب پہنتے ہیں اور تقدس کے طور پر چرچ میں صلیب کے سامنے جاتے ہیں تو ہاتھ کے اشارے سے اپنے سینے پر صلیب بھی بناتے ہیں یعنی وہ سیاسی طور پر حکمران ہیں تو مذہبی طور پر پختہ آرتھوڈوکس مسیحی ہیں۔
جی ہاں! تب یوکرین ایک بڑاملک اور انتہائی مضبوط پاور تھی۔ مذہبی طو رپر بھی قسطنطنیہ نے اسے اپنی نمائندگی کا پروانہ دے دیا تھا۔ حالات نے کروٹ لی اور 1240ء میں چنگیز خان کے جنگجوؤں نے یوکرین کو تباہ کردیا تو کیف کمزور پڑ گیا جبکہ روس طاقتور ہوتا چلا گیا۔ آخر کار روس نے 1686ء میں یوکرین کا مغربی علاقہ‘ کیف سمیت فتح کرلیا۔ اسی طرح یوکرین اپنے دارالحکومت کو گنوا کر انتہائی چھوٹی اور کمزور سی ریاست رہ گیا۔ اسی سال یعنی 1686ء میں جب روس پر جو حکمران بادشاہت کرتا تھا اسے زار کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ ان کی خواہش پر قسطنطنیہ کے آرتھوڈوکس چرچ نے کیف کی جگہ ماسکو کو روحانی اتھارٹی دے دی؛ چنانچہ کیف کا اعزاز ماسکو شہر کو حاصل ہوگیا۔ اس کے بعد روس میں زار شاہی کا دور ختم ہوا اور کمیونسٹ انقلاب آگیا۔ یہ ایک نظریہ تھا جو خالق کے وجود کا منکر تھا؛ چنانچہ 70 سال تک روس اور اس میں شامل مشرقی یورپ کے تمام ممالک سرکاری طور پر الحادی بن گئے۔ 1979ء میں صدر بریز نیف نے افغانستان پر قبضہ کر لیا تو یہاں روس کے خلاف جدوجہد شروع ہوئی جس سے روس کو شکست ہوئی۔ وہ یہاں سے نکلا تو وسط ایشیا کی چھ مسلمان ریاستیں اور یورپ کے 10 کے قریب ملک آزاد ہوگئے۔ ان سب ملکوں میں روس سمیت‘ مذہب واپس لوٹ آیا۔ یوکرین بھی آزاد ہوگیا۔
یوکرین کے علاقے میں 1921ء اور 1942 ء میں تحریکیں چل چکی تھیں کہ یوکرین کو روس آزاد ی دے۔ ساتھ ہی روحانی مرکز بھی ماسکو سے واپس کیف میں منتقل کیا جائے۔ دونوں بار تحریکیں ناکام ہوگئیں۔ 1992ء میںسوویت یونین کے ٹوٹنے پر یوکرین تو آزاد ہوگیا مگر یوکرین کی روحانی حیثیت بحال نہ ہوئی؛ چنانچہ اب آزاد یوکرینیوں نے روحانی آزادی کی تحریک چلادی۔ یہ تیسری بار بھی ناکام ہوگئی۔اپریل 2018ء میں یوکرین کے صدر پیٹرویوروسینکو تھے۔ انہوں نے قسطنطنیہ یعنی ترکی کے شہر استنبول میں آرتھوڈوکس چرچ کے سربراہ بارتھولومیو سے رابطہ کیا اور درخواست کی کہ ہمارا ابتدائی‘ اولین اور تاریخی روحانی مقام بحال کیا جائے۔ بارتھولومیو نے یاد دلایا کہ اصل مرکز ماسکو میں ہے اور ہمارے بزرگ پیٹریاچ کرل اور ان کے جانشین پیٹریارچ الیگزی نے روس اور یوکرین کے درمیان روحانی تعلق کو مضبوط کرنے کے لیے دونوں چرچوں کو آپس میں جوڑ دیا تھا یہ جوڑ جڑا رہنا چاہیے کیونکہ انہی کے اس کارنامے پر ماسکو اور کیف کے چرچوں کو پیٹریارچ چرچ کہا جاتا ہے۔ ماسکو مرکز ہے اور کیف اس کی شاخ ہے۔ یوکرینی صدر نے اصرار کرکے تاریخی دلائل دیے کہ اولین پروانہ کیف کو دیا گیا تھا۔ اب بارتھولومیو نے دنیا بھر میں آرتھوڈوکس کے چودہ مراکز کے سربراہوں کے ساتھ رابطہ کیا اور مشورے کے بعد فیصلہ دے دیا کہ کیف کے آرتھوڈوکس چرچ کی اولین حیثیت کو بحال کردیا گیا ہے یعنی اب مشرقی یورپ میں آرتھوڈوکس کے دو مراکز بن گئے۔ ماسکو اور کیف برابر ہوگئے۔ روس کے وارے میں یہ بات نہیں تھی کیونکہ سیاسی لحاظ سے یوکرین میں نیٹو کا عمل دخل بڑھ رہا تھا۔ دوسری طرف یورپ کا اثر و رسوخ بڑھ رہا تھا تو مذہبی لحاظ سے ایک ہی نسل‘ سلاوی اور ایک ہی مذہب آرتھوڈوکس کے ماننے والے روحانی طور پر بھی الگ الگ ہوچکے تھے۔ صدر پوتن کو یہ بات بھی کھائے چلے جا رہی تھی کہ مذہبی میدان میں بھی کیف کا چرچ مدر چرچ کی حیثیت حاصل کر چکا ہے کیونکہ اس کا اولین پروانہ بحال ہوچکا ہے۔ ماسکو اب درحقیقت دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔ مزید یہ ہوا کہ جنوری 2019ء میں مقدس پروانے کی بحالی کے ساتھ ہی مصر کے شہر سکندریہ‘ یونان اور قبرص کے آرتھوڈوکس مقدس گرجوں نے بھی کیف کے مقدس گرجے کے اولین تقدس کے تصدیق نامے جاری کردیے۔ اس سے کیف کے چرچ کا درجہ ماسکو سے مزید بڑھ گیا۔ اس پر ماسکو کے پیٹر یارچ نے بارتھولومیو سے احتجاج کیا کہ ہم تمہارے فیصلے کو نہیں مانتے۔ تم نے ہمارے درمیان اپنے فیصلے کے ذریعے پھوٹ ڈال دی ہے۔ تم نے ہمارے روحانی اتحاد اور یگانگت کو تباہ کردیاہے۔ جواب میں بارتھولومیو نے ماسکو کے پیٹریارچ کے احتجاج اور دبائو کو مسترد کردیا اور کیف کے پیٹریارچ جنابِ فیلارٹ نے اس پر مسرت کا اظہار کیا۔
روس کے صدر جو نام کے اعتبار سے پہلے ولادی میر ہیں بعد میں پوتن ہیں‘ وہ سیخ پا ہوتے چلے گئے ۔وہ تو پہلے ہی 2014ء میں یوکرین کی بندرگاہ کریمیا پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کر چکے تھے۔ آٹھ سال بعد مارچ 2022ء میں ولادی میر پوتن یوکرین پر حملہ کر چکے ہیں‘ اپنے ساتھ ملنے والے دو علاقوں کو الگ ریاستیں قرار دیا اور اب یوکرین سارے کو اپنا علاقہ قرار دے کر قبضہ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
راقم نے گزشتہ کالم میں آرتھوڈوکس مسیحیت اور اریسیین کا تعارف کروایا تھا۔ اب آرتھوڈوکس کے چرچوں کا تعارف کروا رہا ہوں۔ مقصد یہ ہے کہ میرے وطنِ عزیز کے حکمران اور وزارت خارجہ کے ذمہ داران جب تک سیاسی‘ مذہبی اور تاریخی حقائق سے واقف نہ ہوں گے روس ‘ یورپ اور امریکہ کے بارے میں نہ خارجہ پالیسی کے درست ترین خدوخال کو سمجھ سکیں گے اور نہ ہی گفتگو میں کامل اور بہترین علم کے ساتھ مکالمہ کر سکیں گے؛چنانچہ بحمد اللہ میں نے بڑی محنت کے ساتھ پچھلا کالم بھی تحریر کیا اور موجودہ بھی اور آئندہ بھی لکھتا رہوں گا۔ (ان شاء اللہ) ہمارے تجزیہ نگاروں کو سیاسی تجزیوں کا خوب تجربہ ہے‘ وہ مجھ سے بہتر جانتے ہیں‘ مگر روس اور یوکرین کے درمیان مذہبی حقائق کو بھی جاننا ازحد ضروری ہے اس لئے اسلام اور مسیحیت کی مذہبی اور سیاسی حقیقت کے دریچوں کو کھولنا لازم ہے۔ پوری تصویر تبھی سامنے آئے گی اور یہی میری کوشش ہے؛ چنانچہ دریچوںکو کھولنے میں اہلِ علم جہاں میری کوئی غلطی محسوس کریں ان کی توجہ پر شکریہ اداکرکے اصلاح کروں گا۔ مسلمان اور مسیحی اہلِ علم سے اس کی توقع رکھتا ہوں۔ آخر پر اپنے رب کریم کے حضور اس دعا کے ساتھ اجازت چاہوں گا کہ اللہ تعالیٰ ہم سب انسانوں کو امن کی نعمت عطا فرمائے‘ ہمارے حضور حضرت محمد کریمﷺ سارے جہانوں کے لیے رحمت کا پیکر بن کر تشریف لائے‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مسیحا بن کر تشریف لائے اورختم المرسلین جناب احمدﷺ کی تشریف آوری کی خبر دے کر گئے۔ انسانی امن زندہ باد۔