"AHC" (space) message & send to 7575

رمضان کا اولین الہام اور سائنسی انکسار

اللہ تعالیٰ کی شان کہ ایٹم اس قدر چھوٹا ہوتا ہے کہ انسان کی آنکھ اسے دیکھ نہیں سکتی مگر اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات کو انہی ایٹموں سے بنایا ہے۔ مولا کریم کی قدرت کا اگلا نظارہ یہ ہے کہ اس ایٹم میں مزید چھوٹے ذرات ہیں۔ مزید حیران کردینے والی خبر یہ ہے کہ اس کے بعد ہر ذرے کے اندر ذرات ہیں۔ عقل کو چکرا دینے والی حقیقت یہ ہے کہ یہ سلسلہ ختم نہیں ہو رہا۔ مثال کے طور پر ''LHC‘‘ (The Large Hadron Collider) کی جو لیبارٹری ہے اور دنیا کی سب سے بڑی لیبارٹری ہے‘ وہاں دس سال قبل ہگزبوزون نامی ذرے کا انکشاف ہوا تھا۔ اس کو ''خدائی ذرے‘‘ کا نام دیا گیا کیونکہ ایٹم کو اسی ذرے کے کردار سے مادی صورت ملتی ہے۔ یہ ایسا ذرہ ہے جو مادی ذرے کو وجود دیتا اور غائب ہو جاتا ہے۔ یہ ایک سیکنڈ میں کروڑوں بار ظاہر ہوتا اور غائب ہوتا ہے۔
فرانس اور سوئٹزر لینڈ کی سرحد پر واقع LHC کی لیبارٹری نے اس ذرے کو گزشتہ دس سالوں کی جدوجہد کے بعد قابو کیا مگر قابو کرنے کی مدت ایک سیکنڈ کا کوئی لاکھواں حصہ تھی۔ اس میں تجربہ کیا تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ اس میں ایک جوڑا موجود ہے۔ یہ دو (Cones) کی شکل میں ہے۔ بالکل وہی شکل کہ جو آئس کریم کی کون کی ہوتی ہے۔ قارئین کرام! سرن کی لیبارٹری سے متعلق جناب ''Analopes‘‘ نے 31 مارچ 2022 ء کو اس کا انکشاف کیا۔ خدائی ذرے کے کوندار جوڑے کی شکلیں دکھائیں تو میری زبان پر بے ساختہ قرآنِ مجید میں خالقِ کا ئنات کا یہ فرمان آ گیا''پاک ہے وہ ہستی کہ جس نے تمام جوڑے پیدا فرمائے‘‘۔( یٰسین:36) جی ہاں!''ازواج‘‘ کا معنی اقسام بھی ہے یعنی ذرات کے جوڑوں کی بے شمار اقسام ہیں۔ ہگزبوزون یعنی خدائی ذرے کے جوڑے کو ''ڈبلیو اور زیڈ‘‘ کے نام دیے گئے ہیں۔ چائے کی ایک قسم کا نام ''لپٹن‘‘ ہے۔ یہ نام ایک ذرے کے نام پر رکھا گیا ہے۔ لپٹن کے اندر ایک ذرہ ہے اس کا نام میون (Moun) ہے۔ خدائی ذرے کا اس کے اندر بھی ایک کردار ہے۔ اسی طرح سب سے چھوٹے ذرات ''کوارکس‘‘ ہیں۔ ان کے اندر بھی ''خدائی ذرہ‘‘ اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ یاد رہے! خدائی ذرے کے کردار سے ہی مادے کو مضبوطی اور بڑھوتری ملتی ہے۔ خدائی ذرے کو خدائی ذرہ کہا ہی اسی لیے گیا ہے کہ اس ذرے کا اگر ہماری دکھائی دینے والی کائنات میں کردار ختم ہوجائے تو یہ ساری کائنات لمحہ بھر میں اپنا وجود کھو بیٹھے اور عدم یعنی Nothingness میں چلی جائے۔ قارئین کرام! آیت الکرسی میں اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ''القیوم‘‘ ہے یعنی اللہ تعالیٰ ہی اس کائنات کو عدم میں جانے سے روکے ہوئے ہے، وہ اس کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ اس کے وجود کو سنبھالے ہوئے ہے۔
''بلو م برگ ڈاٹ کام‘‘ نے 24 دسمبر 2021ء کو جناب Justin Bachman کا ایک مضمون شائع کیا جس میں اس نے لکھا کہ 25 دسمبر 2021ء کو جیمز ویب ٹیلی سکوپ سورج کے گرد چکر لگانے کے لیے روانہ کی جا رہی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ 25 ارب ڈالر کی لاگت سے بننے والی جیمز ویب ٹیلی سکوپ ان لمحوں کو دیکھے جب کائنات کا آغاز ہوا اور ساتھ ہی وقت کا آغاز ہوا‘ تو کیایہ Beginning of the time کو دیکھ سکے گی؟ قارئین کرام! اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں کہ یہ دیکھ سکے گی یا نہیں‘ البتہ جس خالق نے اس کائنات کو وجود بخشا‘ اس نے آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل فرما دیا۔ ''کیا انسان پر زمانے میں سے کوئی ایسا وقت بھی گزرا ہے کہ جب وہ کوئی قابل ذکر شئے ہی نہ تھا، کیا شک ہے کہ ہم نے انسان کو ایک باہم ملے ہوئے قطرے سے پیدا کیا تاکہ ہم اس کو آزمائش سے گزاریں؛ چنانچہ ہم نے اسے سننے والا اور دیکھنے والا بنادیا‘‘۔ (الدھر: 1 تا 2) اللہ اللہ! مذکورہ سورت کے نام یعنی دہر کا معنی ہی ٹائم اور وقت ہے یعنی جب ٹائم کی پیدائش کے ساتھ ذرات بن رہے تھے تو تب انسان نہ تھا۔ انسان یعنی زندگی بعد میں وجود میں آئی۔
30 مارچ 2002ء ''نیوسائنٹسٹ‘‘ میںایک مضمون شائع ہوا۔ تھامس لیوٹن (Thomas Lewton) نے یہ مضمون لکھا۔ وہ کینیڈا کے ایک معروف سائنسدان کی تازہ ریسرچ کو لے کر آئے۔ اس سائنسدان کا نام لی سمولن ( Lee Smolin) ہے۔ وہ ''واٹر لو‘‘ کے شہر میں نظریاتی فزکس کے ادارے سے منسلک ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ''ہمارے دماغ مادے کے بنے ہوئے ہیں مگر ہم اس دماغ سے جو سوچتے ہیںوہ غیر مادی ہے۔ اب '' The Question is How?‘‘۔ (سوال یہ ہے کہ یہ کیسے؟) یہ جو شعور (Consciousness) ہے‘ ہم مادی اصطلاحات میں اس کی وضاحت نہیں کر سکتے۔ ہم کس جگہ پر جائیں کہ وہاں ہمیں اس نقطۂ نظر کا جواب مل سکے۔ جناب لی سمولن مزید کہتے ہیں کہ! We will never make sense of the universe's mysteries۔ (ہم کائناتی عجائبات کی تفہیم کو ہرگز ممکن نہیں بنا سکیں گے) پھر ہمیں سوچنا ہوگا کہ آخر یہ جو کائنات ہے‘ یہ کس چیز سے بنائی گئی ہے؟
قارئین کرام! حالیہ رمضان المبارک سے محض پانچ دن قبل سائنس دانوں نے اپنی بے بسی کا اظہار کردیا۔ مادی سائنس کے انکسار کو واضح کردیا ہے۔ سائنسدان لاجواب ہوئے ہیں تو جواب رمضان کے مہینے میں ہے۔ ''یہی وہ مہینہ ہے جس مین قرآنِ مجید نازل کیا گیا ہے‘‘ (البقرہ : 185) ''سورہ محمد‘‘ میںہے کہ ''اسے حضرت محمد کریم پر نازل کیا گیا‘‘۔ ''سورہ علق‘‘ کا آغاز یوں ہوتا ہے۔ ''(میرے رسول) پڑھو! اپنے اس رب کے نام سے جس نے پیدا کیا‘‘۔ جی ہاں! ساری کائنات اور اس میں ہر ہر چیز کو اس نے پیدا کیا۔ کچھ بھی نہ تھا۔ خالق کا حکم تھا۔ قرآنِ کریم کہتا ہے کہ خالق نے ''کن‘‘ کہا اور کائنات وجود میں آگئی۔ ''سورہ علق‘‘ کی دوسری آیت میں آگاہ فرمایا ''انسان کو جونک (جیسے خون کے لوتھڑے) سے پیدا کیا‘‘۔ جی ہاں! جس نے ''کن‘‘ کہہ کر کائنات بنائی‘ ذرات بنائے‘ وہ ذرات ٹھنڈے ہوکر مٹی بنے‘ اس مٹی کے ساتھ پانی ملا تو زندگی وجود میںآئی۔ یوں مردہ یعنی بے جان مادے سے زندگی کو خالق نے وجود بخشا۔ اس زندگی میں شعور پیدا کیا تو خالق نے کیا۔ شعور کی بے شمار اقسام ہیں۔ اعلیٰ ترین شعور سے حضرتِ انسان کونوازا۔ تمام قسم کے شعور اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں۔ فرمایا ''وہی (اللہ) ہے جو ہر جاندار کی پیشانی کو پکڑے ہوئے ہے‘‘۔ (ہود:56) یعنی اس مادی دماغ میں جو شعور ہے وہ اللہ کے ہاتھ میں ہے؛ چنانچہ رمضان المبارک کے مہینے کا پیغام یہ ہے کہ جو انسان اپنا تعلق اپنے خالق سے وابستہ رکھے گا‘ وہی کامیاب ہوگا۔ لاچاروں کے سوال کا جواب قرآنِ مجید میںہے جو حضرت محمد کریمﷺ پر الہام فرمایا گیا۔ قارئین کرام! آئیے! رمضان میں قرآنِ حکیم کا مطالعہ کریں‘ تلاوت کریں‘ ترجمے کے ساتھ تلاوت کریں۔ ہمارے حضورﷺ ہر سال رمضان میں حضرت جبرائیلؑ کے ساتھ ایک قرآن ختم فرمایا کرتے تھے۔ زندگی کے آخری رمضان میں حضورﷺ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ دو مرتبہ قرآن کا دور مکمل فرمایا۔ سکون اور نجات کا نسخہ اسی قرآنِ مجید میں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں