اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی آخری کتاب قرآنِ مجید آگاہ کرتی ہے کہ تمام دماغ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ ان حقائق کا تذکرہ بعدمیں‘ پہلے ذرا سائنسی طور پر مادی دماغ کا جائزہ لیتے ہیں۔ قارئین کرام! یورپی ملکوں نے باہم مل کر چند سال قبل ایک منصوبہ بنایا تھا۔ اس منصوبے کا نام انہوں نے ''یورپین ہیومن برین پروجیکٹ‘‘ رکھا۔ جرمن ریسرچر جناب Katrin Amunts کو اس پروجیکٹ کا سربراہ بنایا گیا۔ اس ادارے کو پچھلے سال بڑی کامیابی ملی جب ''سائنس اینڈ انجینئرنگ جرنل‘‘ میں دماغ کا نیا نقشہ پیش کیا گیا۔ پروفیسر کیٹرن نے آگاہ کیا کہ یہ نقشہ ''مائیکروسکوپک‘‘ ہے، یعنی دماغ میں بہت سارے حصے ہیں‘ الگ الگ پورشن ہیں‘ یہ سارے حصے ایک دوسرے سے مختلف ہیں‘ ان کے کام مختلف ہیں‘ یہ باہم جڑے ہوئے بھی ہیں‘ ہر حصے کے ایک چھوٹے سے حصے کو مائیکروسکوپ کے تحت رکھا گیا پھر اس کا مادی اور سائنسی جائزہ لیا گیا۔ یوں سارے دماغ کا ایک تھری ڈی نقشہ بنایا گیا۔ اس پر دنیا بھر کے ریسرچر تحقیق کرنے لگ گئے۔ دماغی امراض کے ڈاکٹرز اپنے مریضوں کے علاج کرنے لگ گئے۔ یہ ریسرچ بھی سامنے آگئی کہ دوربینوں نے آسمانوں کی گہرائیوں کا نقشہ تیار کیا ہے۔ دونوں جگہ طریقہ ایک ہی ہے کہ خوردبین کے ذریعہ دماغ کے کھربوں حصوں میں سے چھوٹے چھوٹے حصوں کی تصاویر لی گئیں اور پھر سپر کمپیوٹر میں بڑا نقشہ بنایا گیا۔ آسمان کی دوریوں اور گہرائیوں کی تصاویر سپر دوربینوں کے ذریعے لی گئیں۔ اربوں کھربوں حصوں میںسے کروڑوں
حصے خاص کر کے وہاں کی تصاویر لے کر تاروں بھرے آسمان کی تصویر جاری کی گئی۔ حیران کن بات یہ تھی کہ دماغ اور آسمان کی تصاویر‘ دونوں باہم ایک جیسی تھیں۔ دونوں سپر کمپیوٹر میں تیار کی گئیں۔ اس سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ انسانی دماغ اور تاروں بھری کائنات کا خالق ایک ہی ہے کہ جس نے انسانی دماغ کو یہ صلاحیت عطا فرمائی کہ وہ آسمان کی جانب دیکھے اور اللہ تعالیٰ کی عظمتوں کے نظارے کرے۔ قارئین کرام! 25 سالوں کی محنت کا رزلٹ پچھلے سال آیا جو ہم نے آپ کے سامنے رکھ دیا۔ اگلے ایک سال میں جو ریسرچ آگے بڑھی ہے‘ اب وہ ملاحظہ ہو!
تازہ ریسرچ جو ادارہ سامنے لے کر آیا ہے یہ ایک امریکی ادارہ ہے۔ اس کا نام Max planck Institute for Biological Intelligence ہے۔ ''سائنٹیک ڈیلی ڈاٹ کام‘‘ نے 8 اپریل 2022ء کو تازہ ترین ریسرچ کو سامنے لاتے ہوئے آگاہ کیا کہ جہاں دونیورون ملتے ہیں کہ جب دماغ سوچنے میں مصروف ہوتا ہے‘ وہاں اس وقت بجلی کی ایک چمک پیدا ہوتی ہے جسے سائنسی زبان میں Synapse کہتے ہیں۔ تازہ ریسرچ سے ثابت ہوا ہے کہ یہ چمک صرف انسان ہی نہیں بلکہ تقریباً ہر جاندار کے دماغی نیورونز میں پیدا ہوتی ہے۔ میں کہتا ہوں سائنس اب بھی پیچھے ہے۔ اس نے Almost کا لفظ استعمال کیا ہے کہ قریب قریب جانداروں کی ہر قسم۔ جبکہ قرآنِ مجید جو ساڑھے چودہ سو سال قبل حضرت محمد کریمﷺ پر نازل ہوا‘ اس نے ببانگ دہل اعلان کیا کہ ایسا عمل ہر جاندار کے دماغ میںہوتا ہے‘ کیسے ہوتا ہے؟ ابھی تھوڑا آگے چل کر عرض کرتا ہوں۔
قارئین کرام ! مذکورہ synapses پہلے دکھائی نہیں دیتے تھے۔یہ الیکٹرون مائیکروسکوپ سے بھی نظر نہیں آتے تھے۔ اب یہ نظر آگئے ہیں۔ یہ بات بتائی ہے جناب الیگزینڈر بورسٹ نے جو ''بیالوجیکل انٹیلی جنس فائونڈیشن‘‘ کے ڈائریکٹر ہیں۔ نیورونز انہی synapses کے ذریعے باہم پیغام رسانی کاکام کرتے ہیں۔ ان الیکٹریکل synapsesکو کیمیکل کی چمک دمک بھی کہا جاتا ہے۔ دماغی سائنس دان ان سے اچھی طرح واقف ہیں۔
اللہ اللہ ! مذکورہ synapsesکے بعد اب ایک نئی قسم دریافت ہوئی ہے۔ الیگزینڈر کی ٹیم کے ایک ممبر سائنسدان جناب جارج امر (George Ammar) نے بتایا کہ یہ جو نئی قسم ہے‘ یہ دماغ کے ہر سیل کے کنکشن میں چھپی ہوئی ہے۔ ہم اس نئی قسم کے بارے میں ابھی کچھ بھی نہیں جانتے۔ اس کے بارے میں ہمارا علم زیرو ہے۔ دماغ میں اور اس کے معاملات میںا س نئی قسم کا حقیقی کردار کس قدر ہے‘ کچھ معلوم نہیں۔ یہ جو خاص قسم ہے اس کے بارے میں بس اس قدر معلوم ہوا ہے کہ یہ نئی قسم دو نیورونز کے درمیان براہِ راست رابطہ کرتی ہے۔
نیورونز کی بھی بے شمار اقسام ہیں۔ ان کے سوئچ ہوتے ہیں جو آف اور آن ہوتے رہتے ہیں۔ نیورونز کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو synapses کی پرانی قسم کے عمل دخل کے بغیر ہی آف آن ہوتے رہتے ہیں۔ یہ کیسے ہوتے ہیں‘ اس کا علم نہیں ہو سکا تھا کہ ایک نئی قسم سامنے آگئی ہے۔ synapseکی جو نئی قسم ہے‘ یہ خاص الخاص قسم ہے اور یہ ہر جاندار کے ہر قسم کے دماغ میں پائی جاتی ہے۔ سبحان اللہ!
ہمارے حضور کریمﷺ پر نازل ہونے والے قرآنِ کریم نے ساڑھے چودہ سو سال قبل آگاہ فرمادیا۔ ملاحظہ ہو ''میں نے تو اپنے اللہ پر توکل کرلیا ہے جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے۔ کوئی چلنے والا ایسا جاندار نہیں ہے مگر اللہ اس جاندار کی پیشانی (دماغ) کو پکڑے ہوئے ہے‘‘۔ (ہود :56) یاد رہے! سورہ ہود مکی سورت ہے۔ یہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔ ہمارے حضورکریمﷺ نے مکہ کے منکرین اور مشرکین کو ہزاروں سال قبل گزرے ہوئے پیغمبر ہود علیہ السلام کی بات بتائی کہ انہوں نے اپنے زمانے کے منکر مشرکوں کو کہا تھا کہ ہر جاندار کا دماغ اللہ تعالیٰ کے کنٹرول میں ہے۔ میرا توکل اس دماغی کنٹرول والے رب کریم پر ہے۔ ''لہٰذا تم سارے مل جائو‘ ایک اللہ کے سوا سب مل کر میرے خلاف چالیں چل لو‘ مجھے کچھ بھی مہلت نہ دو (جائو جو کرنا ہے کرلو)‘‘۔ (ہود:55)
اس نئی قسم کے بارے میں ایک جملہ بڑا قابل غور ہے۔ ملاحظہ ہو:
To Flow from one cell to the next without a detour.
''یہ جو نیو Synapse ہے‘ یہ ایک سیل سے اگلے سیل کی جانب کسی چکر یا متبادل راستے کے بغیر ہی رواں دواں رہتا ہے‘‘۔ اللہ اللہ! ابھی تو اس نئی پرت کو معلوم کرتے کرتے نجانے کتنا ٹائم اور کتنے سال لگیں گے‘ اس کے بعد کتنی نئی اقسام سامنے آئیں گی جن کو معلوم کرنے کے لیے نجانے کتنی دہائیاں‘ کتنی صدیاں اور کتنے ہزاروں سال درکار ہوں گے۔ آخر کار! رمضان المبارک میں نازل ہونے والے قرآنِ حکیم کو مانے بغیر چارہ نہ ہو گا۔
قارئین کرام! اب دماغ سے متعلق حضور کریمﷺ کی بتائی ایک دعا کا تذکرہ کرنے لگا ہوں۔ حضورﷺ نے فرمایا ''جو بھی شخص (دماغی) غم، ملال اور دکھ کا شکار ہو‘ وہ مذکورہ دعا مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کا دکھ اور غم دور کر دے گا‘ اس کی تنگی کو وسعت سے تبدیل کر دے گا‘‘۔ صحابہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسولﷺ! کیا ہم اس کی تعلیم لے لیں؟ فرمایا: بہتر تو یہ ہے کہ جو اس کو سنے وہ آگے بتائے۔ ''اے اللہ میں تیرا بندہ ہوں‘ تیرے بندے کا بیٹا ہوں‘ تیری بندی (اپنی ماں) کا بیٹا ہوں‘ میری پیشانی (دماغ) تیرے ہاتھ (کنٹرول) میں ہے‘ میرے بارے تیرا فیصلہ جاری ہے' میرے بارے آپ کا فیصلہ سراسر عدل ہے‘ میں آپ سے آپ کے ہر اس نام کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں جو آپ کا اسم گرامی ہے‘ آپ نے اسے پسند فرمایا یا اس کا علم اپنی مخلوق میں سے کسی کو دیا‘ اسے اپنی کتاب میں نازل کیا یا اسے اپنے علم غیب میں رکھنے کو بہتر جانا کہ آپ میرے دل کی بہار قرآنِ مجید کو بنا دیں۔ اسے میرے سینے کا نور بنا دیں‘ میرے غم کو دور اور میری دکھی سوچ کے خاتمے کا باعث بنا دیں۔ (مسند احمد: 3712، سلسلہ صحیحہ: 199)
قارئین کرام! غموں اور دکھوں کے مداوا کے لیے قرآنِ مجید کی تلاوت اور حضور کریمﷺ کے تعلیم کردہ عربی الفاظ کے ساتھ مذکورہ دعا کریں۔ رمضان میں بھرپور فائدہ اٹھانے کی اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔ آمین!