یہ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کائنات کا خالق ہے‘ زندگی اور موت اسی کی تخلیق ہے۔ قرآنِ مجید اور اس سے پہلے الہامی کتب تورات‘ انجیل اور دیگر صحائف کا بھی یہی پیغام ہے مگر گزشتہ ایک صدی ہونے کو آئی ہے‘ ملحد سائنسدانوں نے اس کا انکار کر رکھا تھا۔ یہ لوگ اپنے انکار کو سائنسی حقائق کا لباس زیب تن کراتے تھے لیکن اب یہ لباس جدید ترین سائنسی حقائق ہی سے تار تار ہو چکا ہے۔ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ یہ لباس پرانا اور بوسیدہ بھی ہو چکا ہے‘ جگہ جگہ سے اس طرح پھٹ چکا ہے کہ اسے پیوند لگانا بھی ناممکن ہو گیا ہے کیونکہ الحادی لباس کی جو بوسیدگی ہے‘ اس کے دھاگے اپنے قریب المرگ ہونے کی اطلاع دے رہے ہیں۔
برطانیہ کی ساؤتھ ایمپٹن (Southampton)یونیورسٹی کا ایک پروجیکٹ ہے جسے Human Consciousness Project کہا جاتا ہے۔ اس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سام پارنیا (Sam Parnia) ہیں جو گزشتہ کئی سالوں سے اس پروجیکٹ کو چلا رہے ہیں۔ وہ ہزاروں قریب المرگ مریضوں پر تجربات کر چکے ہیں۔ ایک کتاب بھی لکھ چکے ہیں جس کا عنوان ہے: What Happens When We Die۔ یعنی جو پروجیکٹ ہے اس کا نام ''انسانی روح یا شعور کا پروجیکٹ‘‘ ہے اور جو کتاب لکھی گئی ہے اس کے عنوان کا مطلب ہے کہ ''جب ہم مرتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟‘‘ یاد رہے! اس اہم ترین پروجیکٹ کے ساتھ دنیا کی اہم ترین یونیورسٹیاں اور ان کے ریسرچرز‘ جو پی ایچ ڈی پروفیسرز ہیں‘ وابستہ ہیں۔ یوں دماغ اور دل کے سینکڑوں عالمی سائنسدان ''موت کے بعد زندگی‘‘ جیسے اہم ترین تجربات ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔
ڈاکٹر سام پارنیا کے ساتھ مل کر نیورو ماہرین کی ایک ٹیم نے اب واضح کر دیا ہے کہ موت کے وقت یادداشت کی جو ریسرچ ہے‘ یہ سائنسی طور پر ثابت ہو گئی ہے۔ جن اداروں اور یونیورسٹیوں میں یہ تحقیق ثابت ہو چکی ہے ان میں سے چند بڑے اور اہم ترین نام درج کر رہا ہوں۔ اس کے بعد اسی کالم میں ''یادداشت کی تازہ ترین سائنسی ریسرچ‘‘ پر گفتگو ہوگی۔ -1 ہارورڈ یونیورسٹی -2 یونیورسٹی آف لندن -3 یونیورسٹی آف ساؤتھ ایمپٹن -4 یونیورسٹی آف کیلیفورنیا -5 ورجینیا کامن ویلتھ یونیورسٹی -6 میڈیکل کالج آف وسکونسن -7 یونیورسٹی آف ورجینیا۔
دنیا کے اعلیٰ ترین اداروں میں ایک مشین کا استعمال کیا جاتا ہے جسے Electroencephalogram کہا جاتا ہے۔ اس کا مخفف EEG ہے۔ اسے دماغ پر فِٹ کر دیا جائے تو ''گیما ریز‘‘ نکلتی ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ موت کے وقت یہ لہریں بہت زیادہ نکلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ بندہ جب مر جاتا ہے‘ اس کا دل بند ہو کر دماغ کو آکسیجن کی سپلائی بند کر دیتا ہے‘ انسانی نبض ختم اور ڈوب جاتی ہے تو انسانی دماغ کا وہ حصہ‘ جس میں یادداشت یعنی Memory سٹور ہوتی ہے‘ اس کے کام کی رفتار سینکڑوں گنا بڑھ جاتی ہے۔Activity انتہائی تیز ہو جاتی ہے۔ انسان کی زندگی بھر کی فلم اس کے سامنے آ جاتی ہے۔ رفتار اس قدر تیز ہوتی ہے کہ مرنے والا انسان زندگی اور موت کے مابین اور موت کے بعد تک‘ چند سیکنڈز میں اسے دیکھ لیتا ہے۔ یہ ایسے تجربات ہیں جو واضح کرتے ہیں کہ زندگی ختم نہیں ہوتی بلکہ ایک نئے انداز سے شروع ہوتی ہے۔ جی ہاں! موت کے بعد زندگی اب کوئی نظریہ نہیں رہا بلکہ ایک سائنسی حقیقت ہے۔
قارئین کرام! اب ہم ڈاکٹر سام پارنیا کے تجربات کو مرحلہ وار پیش کر رہے ہیں اور یہ مرحلے اپریل 2019ء سے لے کر حالیہ اپریل یعنی 2022ء تک کے ہیں۔ ملاحظہ ہو۔ 24اپریل 2019ء کو انہوں نے کہا: قریب المرگ انسانوں پر تجربات اب سائنس فکشن کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ 3ستمبر 2021ء کو ڈاکٹر سام پارنیا نے کہا: اب پتا چلا ہے کہ
Why Some Scientists Think Consciousness Persists After Death.
(بعض سائنسدان کیوں یہ سوچ رکھتے تھے کہ موت کے بعد شعور (روح) اپنا وجود برقرار رکھتی ہے)۔
قارئین کرام! میری تقریروں میں یہ گفتگو موجود ہے اور ان کے احباب کے ساتھ بھی‘ جن کے ساتھ میں تعزیت کرتا تھا۔ جب کوئی اپنے فوت شدہ کسی پیارے کے دورئہ دل کی بات کرتا تھا تو میں کتاب و سنت کی روشنی میں کہتا تھا: ارے بھائی! جب موت کا وقت آتا ہے تو فرشتہ دل کو ہاتھ ڈال لیتا ہے‘ اسی کا نام دل کا دورہ ہے۔ یہی بات آج ڈاکٹر سام پارنیا کہہ رہا ہے کہ
Cardiac arrest is not a heart attack! But represents the final stage of a disease or event that causes a person to die.
(دل کا دورہ ہارٹ اٹیک نہیں بلکہ یہ تو مریض کی زندگی کی آخری سٹیج کی نمائندگی کرتا ہے یا ایسا وقوعہ ہے جو کسی بندے کے مرنے کا سبب بن رہا ہے)۔ اللہ اللہ! یعنی موت طے شدہ ہے اس نے آنا ہی ہے‘ دل کے دورے وغیرہ محض اسباب ہیں۔
برطانیہ کا معروف اخبار ''دی ٹیلیگراف‘‘ اپنی رپورٹ دیتے ہوئے لکھتا ہے ''اب تو قریب المرگ تجربات سائنسی طور پر کنفرم ہو گئے ہیں‘‘۔ یعنی موت کے بعد زندگی اب کوئی نظریاتی خیال نہیں رہا بلکہ یہ ایک سائنسی حقیقت ہے اور وہ بھی ایسی حقیقت جو کنفرم ہو چکی ہے۔
قارئین کرام! آئیے اب ہم آپ کو ڈاکٹر سام پارنیا کے تازہ ترین جملوں سے آگاہ کیے دیتے ہیں، 7اپریل 2022ء کو انہوں نے کہا:
The recalled experiences surrounding death are not consistent with hallucinations, illusions or psychedelic drug induced experiences.
موت کو گھیرے ہوئے یادداشت کے جو تجربات ہیں‘ یہ فریبِ نظر‘ نشے کا اثر یا سائیکی پرابلم نہیں (بلکہ) اس سے بڑھ کر کچھ اور چیز ہیں۔ جی ہاں! اب بقول ڈاکٹر سام پارنیا: Global scientific team publishes consensus statement and new guidelines۔ (ڈاکٹروں کی عالمی سائنسی ٹیم متفقہ بیان شائع کر چکی ہے اور نئی لائیڈ لائن دے چکی ہے)۔ اللہ اللہ! گائیڈ لائن یہی ہے کہ موت کے بعد ایک نئی زندگی ہے۔ جب یہ نئی زندگی ہے تو گائیڈ لائن انتہائی ناکافی اور ادھوری ہے۔ اصل گائیڈ لائن تو یہ ہے کہ اس اگلی زندگی کا مالک کون ہے؟ وہ زندگی کیسی ہے؟ وہ انتہائی بری اور بھیانک بھی ہو سکتی ہے اور بہترین‘ خوشحال اور مزے دار بھی ہو سکتی ہے؟ یہ گائیڈ لائن کہاں سے ملے گی؟ جی ہاں! یہ گائیڈ لائن ہمارے حضورکریمﷺ پر نازل ہونے والے قرآنِ کریم سے ملے گی۔
حضرت ابوہریرہؓ کی روایت کے مطابق‘ ایک روز ابوجہل نے اپنے ساتھیوں سے کہا: لات اور عزیٰ کی قسم! میری موجودگی میں اگر محمد نے (مسجد الحرام میں اپنے رب کے حضور) سجدے میں سر رکھا تو میں اسے کچل دوں گا۔ ایک روز حضور کریمﷺ نے نماز شروع کی تو ابوجہل برے ارادے سے آگے بڑھا تو پھر ایڑیوں کے بل پیچھے کو بھاگا۔ وہ اپنے چہرے کو بچا رہا تھا۔ لوگوں نے پوچھا: کیا ہوا؟ کہنے لگا: میرے اور اس (حضور کریمﷺ) کے درمیان آگ کا گڑھا تھا‘ ہولناک منظر تھا‘ پَر تھے۔ حضور کریمﷺ نے فرمایا: پَر(دراصل ) فرشتے تھے‘ وہ میرے قریب آتا تو (پَروں والے) فرشتے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے۔ (صحیح مسلم: 2797)
مولا کریم نے کیا خوب فرمایا:یہ باز نہ آیا تو ہم پیشانی کے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹیں گے۔ جھوٹی، گناہ گار پیشانی سے پکڑ کر (سزا دیں گے)‘‘ (العلق: 15 تا 16) ہاں ہاں! یہ باز نہیں آیا۔ میرے حضور کریمﷺ سے لڑنے میدانِ بدر میں جا پہنچا اور وہیں قتل ہوا۔ہمارے حضور کریمﷺ کافروں کی لاشوں کے قریب تشریف لائے اور ان سے مخاطب کر کے فرمایا: تمہارے رب نے جو وعدہ تم سے (اخروی سزا) کا کیا تھا‘کیا تم نے اب اسے سچا پا لیا؟ اس پر حضرت عمرؓ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! کیا یہ سنتے ہیں؟ ان میں تو روح ہی نہیں رہی۔ فرمایا: اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہ لوگ میری باتوں کو تم سے زیادہ سن رہے ہیں‘‘۔ (صحیح بخاری:3976)
لوگو! EEG نے آج انکشاف کیا جبکہ میرے حضورﷺ نے صدیوں قبل بتا دیا تھا کہ مرنے کے دوران اور بعدمیں بھی کچھ ٹائم تک‘ جب تک اللہ چاہے‘ مردے سنتے ہیں۔ ثابت ہوا اگلی زندگی کی کامل گائیڈ لائن حضورﷺ کا قرآن اور فرمان ہے۔ جو اس گائیڈ لائن کو نظر انداز کرے گا وہ موت کا شکار ہوتے ہی شدید ترین کبھی نہ ختم ہونے والی سزا کا شکار ہو جائے گا۔