یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے! اس کینیڈین بزرگ کی عمر 85 سال تھی۔ طبیعت خراب ہونے پر اسے ہسپتال لایا گیا۔ ڈاکٹر اجمل زیمار نے اس بزرگ کے مرض کو ڈھونڈنا شروع کیا تو پتا چلا کہ اس کی کھوپڑی اور دماغ کے درمیان خون کے کچھ لوتھڑے جم گئے ہیں۔ ڈاکٹر اجمل زیمار‘ جو دماغ کے مختلف شعبوں اور ریڑھ کی ہڈی کے سرجن ہیں‘ پی ایچ ڈی ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ جنرل نیوروسرجن کی حیثیت سے 20 سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ اس بزرگ کا آپریشن کیا اور لوتھڑے نکال دیے گئے۔ مریض تندرست ہونا شروع ہوگیا۔ تیسرے دن اس نے ڈاکٹر اجمل اور ان کی ٹیم کے افراد سے گفتگو کی۔ اس عمر میں بھی اس کے تمام جسمانی اعضا درست تھے اور اپنا کام کر رہے تھے۔ مریض کی میڈیکل ہسٹری کے مطابق اسے کبھی دل کا دورہ نہیں پڑا۔ نہ اسے کبھی دل کی کوئی تکلیف یا عارضہ لاحق ہوا۔ چوتھے دن اس مریض کو جھٹکے لگنے شروع ہوگئے۔ کینیڈا کی University of Louisville کے پروفیسر ڈاکٹراجمل زیمار حیرا ن ہوئے کہ ان کے مریض کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟
ڈاکٹر زیمار نے اپنی ٹیم کے ڈاکٹروں کے ساتھ مشورہ کیا اور EEG مشین کو دماغ کے ساتھ فٹ کردیا۔ دل کی حرکتوں پر بھی نظر رکھنا شروع کردی گئی۔ مریض متواتر ایک ہفتے تک چھوٹے بڑے جھٹکوں کا شکار رہا۔ مکمل طور پر دل بندہونے سے 30 سیکنڈ قبل دماغ نے اپنی لہروں کو تیزی سے چھوڑنا شروع کردیا۔ ای ای جی مشین مریض کے تمام لمحات کو ریکارڈ کر رہی تھی۔ اب دل نے اپنی دھڑکن بند کردی۔ وہ موت سے دوچار ہوگیا مگر دماغ سے نکلنے والی لہریں متواتر نکل رہی تھیں۔ مشین بتلا رہی تھی کہ دماغ سے ڈیلٹا (Delta) تھیٹا (Theta) ایلفا (Alpha) اور بیٹا (Beta) لہریں (Brain Waves) متواتر نکل رہی ہیں۔ سائنسی زبان میں ان لہروں کو Brain Oscillations بھی کہتے ہیں۔
ڈاکٹر زیمار کہتے ہیں کہ بزرگ مریض زندگی سے موت کی وادی میں جب داخل ہوا تو اس کی مکمل ریکارڈنگ ہمارے سامنے تھی۔ میڈیکل کی تاریخ میں ایسا پہلی بار اور حادثانی طور پر ہوا تھا۔ یاد رہے ! بچہ جب ماں کے شکم میں ہوتا ہے تو اس کا دماغ اس وقت گیما لہریں (Gama Waves ) چھوڑنا شروع کردیتا ہے‘ جب اس میں روح ڈالی جاتی ہے۔ یہ عمل جنین کی 42 ایام عمر کے بعد شروع ہوتا ہے۔ 43ویں یا 44 ویں دن شروع ہو جاتا ہے۔ گیما اور دیگر لہروں کے نکلنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دماغ میںیاد داشت کے نظام نے کام کرنا شروع کردیا ہے۔ موت تک یہ عمل جاری رہتا ہے۔ ڈاکٹر زیمار کہتے ہیں موت کے بعد بھی لہروں کا نکلنا ہمارے لیے چیلنج ہے کہ ہم زندگی کی از سر نو تشریح کریں کیونکہ مریض کی یادداشت کا نظام دل کے مکمل طور پر بند ہونے سے 30 سیکنڈ قبل‘ پہلے کی نسبت بہت تیز ہوگیا تھا۔ مزید حیران کن بات یہ تھی کہ یہی یاد داشت کا نظام دل کی موت کے 30 سیکنڈز بعد تک بہت ہی زیادہ تیز تھا۔ ایسی حالت اس وقت ہوتی ہے جب کوئی سونے والا گہرے خواب دیکھ رہا ہوتا ہے اور وہ اپنی یادداشتوں کے دہرانے کے عمل سے گزر رہا ہوتا ہے۔ سائنسی حقیقت ہمارے سامنے تھی کہ ہمارا 85 سالہ مریض موت سے پہلے اور موت کے بعد ایسی حالت سے گزر رہا تھا۔
یہ حقیقت اب میڈیکل سائنس کی حقیقت ہے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر اجمل زیمار مزید کہتے ہیں کہ
It implies that as people die their last thoughts are a replay of events from their lives.
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ لوگ جونہی مرتے ہیں‘ ان کے آخری خیالات (نظریات و عقائد) ان کی زندگیوں کے واقعات کو دہراتے ہیں۔
لوگو! سائنسی طور پر ثابت ہوا کہ 85 سالہ بزرگ جسمانی اعضا کی صحت کے حوالے سے تندرست تھا۔ موت کا فرشتہ آیا‘ اس نے دل کو ہاتھ ڈالا مگر اس قدر کہ 85 سالہ بزرگ ''نزع‘‘ کی حالت میں چلا گیا۔ اس کو جھٹکے لگتے رہے مگر فرشتے نے روح کو نہیں نکالا۔ ڈاکٹر اجمل زیمار اور اس کی ٹیم کے اعلی ترین ڈاکٹرز بے بس تھے۔ بس EEG مشین اپنی ریکارڈنگ میں مصروف تھی۔ وہ میڈیکل ایڈ دے رہے تھے۔ اس کے علاوہ وہ بے بس تھے!
قرآنِ مجید اس منظر کو سورۃ القیامہ میں یوں بیان کرتا ہے ''ہرگز نہیں ( جو تم لوگ لمبی زندگی اور اس کے لمبے منصوبے بنائے بیٹھے ہو‘ یہ پورے نہ ہوں گے) جب (جان) ہنسلی کی دونوں ہڈیوں تک پہنچ جائے گی تو بس یہی کہا جائے گا کہ ہے کوئی دم کرنے والا۔ (مرنے والا) یقین کامل کرنے والا ہوتا ہے کہ (دنیا اور اس کے تمام منصوبوں) کو چھوڑنے کا وقت آپہنچا ہے۔ اتنے میں پنڈلی پنڈلی کے ساتھ لپٹ جائے گی۔ (یقینا یہی موت کا) دن (اے بندے) تیرے (اپنے)رب ہی کی طرف لوٹنے کا وقت ہے‘‘۔ (القیامہ : 26 تا 30)
قارئین کرام! یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انسان کی یادداشت کا نظام تیز ترین ہوجاتا ہے۔ پوری زندگی کا ڈیٹا اس کے سامنے آجاتا ہے۔ فلم اس قدر تیز ترین رفتار سے چلتی ہے کہ چند سیکنڈ میں وہ اپنی 50 ، 60 ، 70 یا 80 سالہ زندگی کی کارکردگی کو دیکھ لیتا ہے۔ قرآن و حدیث کے فرمودات بتاتے ہیںکہ ایسا واقعہ اور منظرہر انسان کے ساتھ دوبار ہوگا؛ ایک بار اس وقت جب وہ زندگی اور موت کی کشمکش میںہوگا‘ اور دوسرا اس وقت ہوگا جب وہ قیامت کے دن اپنی قبر سے اٹھے گا۔ اس دنیا پر جو ہماری آنکھیں لگی ہیں‘ یہ دھوکے اور فریب پر مر رہی ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کی ہدایات کو پس پشت ڈال رہی ہیں۔ آخرت کی کوئی فکر نہیں‘ بس اسی جہان کی دھوکا بازی پر مر مٹ رہی ہیں۔ ان کے بارے میں فرمایا: (موت کے اس منظر اور قیامت کے نظارے سے اے انسان) تو غفلت میں تھا۔ ہم نے تجھ سے (تیری دنیا کے) پردے ہٹا دیے‘ تیری (روح کی) نظر آج کس قدر تیز ہے ؟ (ق:22)
ڈاکٹر اجمل زیمار اپنی EEG مشین کا ریکارڈ دیکھتے جا رہے ہیں‘ وہ دس بارہ دن کا ریکارڈ چیک کر رہے ہیں۔ ان کی ٹیم کے ڈاکٹرز بھی دیکھ رہے ہیں۔ حیران ہوتے جا رہے ہیں‘ پریشان ہوتے جا رہے ہیں کہ بندے کا شعور مرنے سے ذرا قبل بڑھ گیا۔ مرنے کے بعد اور بڑھ گیا۔ یہ تو بہت زیادہ تیز ہوگیا ہے۔ لوگو! میں پوچھتا ہوں کہ کم فہمی اور تھوڑے شعور والی یہ دنیا کی زندگی اصل زندگی ہے یا تیز ترین شعور والی اگلے جہان کی زندگی اصل زندگی ہے؟ ہاں ہاں! آخر کار! ڈاکٹر اجمل زیمار کے منہ سے نکلا یہ جملہ اس وقت میڈیکل سائنس کی دنیا میں ہلچل مچائے ہوئے ہے۔ جملہ ملاحظہ ہو!
I think there's something mystical and spiritual about this whole near death experience.
میری سوچ یہ ہے کہ اس موقع پر کوئی ایسی چیز ضرور ہے جو نہ سمجھ آنے والی اور روحانی شئے ہے جو اس قریب المرگ تجربے سے متعلق ہے۔ (بی بی سی نیوز‘ واشنگٹن‘ 23 فروری 2022ء)
قارئین کرام! اسی کا نام تو ملک الموت ہے۔