انڈیا کے کچھ شرارتی شریر (اجسام ) ایسے ہیں جو شرم و حیا سے عاری ہیں۔ بھارت کی ایک سیاسی پارٹی ہے جو اس وقت حکمران جماعت ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اس کا نام ہے۔ ایک لفظ میں اسے ''بھاجپا‘‘ کہا جاتا ہے۔ نریندر مودی اس وقت بھارت کا وزیراعظم ہے۔ یہ نام ایسا نام ہے جو کمزوروں پر ظلم کی علامت ہے۔ نریندر مودی اور اس کی حکمران پارٹی کی ایک ترجمان ہے۔ یہ ایک خاتون ہے جس کا نام نوپورشرما ہے مگر اس نے بے شرمی اور بے حیائی کی تمام حدوں کو پار کرلیا۔ ایک ٹی وی پروگرام میں اس نے محسن انسانیت‘ رحمۃ للعالمینﷺ کا تذکرہ ایسی بے ادبی سے کیا کہ شرما کے اندر سے شرم و حیا بھاگ نکل کھڑی ہوئی اور پیچھے صرف بے شرمی رہ گئی۔ اس پر انڈیا کے 20 کروڑ سے زائد مسلمانوں کی جانب سے رد عمل کا اظہار ہوا تو اس اظہار کو تنکے کے برابر بھی وقعت نہ دی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ نوپور شرما کے ساتھ بی جے پی کے بڑے چھوٹے لوگوں نے اظہارِ یکجہتی کرنا شروع کردیا۔ بی جے پی دہلی میڈیا سیل کا انچارج نوین کمار جندال بھی بے شرمی کے میدان میں کود پڑا اور اس نے بھی نوپور کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا ٹویٹ کردیا۔ اب نوپور شرما انتہائی بے شرمی کے ساتھ مزید دلیر ہوگئی۔ اس نے کہا: پارٹی کا سربراہ امت شاہ بھی میرا ہمدرد ہے‘ وزیر اعظم مودی بھی میرے ساتھ ہیں اور باقی بھی۔ اس کے بعد بڑے چھوٹے لیڈر نوپورشرما کے گھر جانے لگے۔ ایسی تمام خبریں عرب میڈیاپر جب پہنچیں تو رد عمل آنا شروع ہوگیا۔
ہندوؤں کا ایک کاروباری مگر سود خور طبقہ ہے جس کو ''بنیا‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اس نظریے کا حامل ہے کہ ''چمڑی جائے مگر دمڑی نہ جائے‘‘۔ یعنی جسم کی کھال بے شک ادھڑ جائے مگر ہاتھ میں جو پیسہ ہے‘ وہ نہیں جانا چاہئے۔ نوپور شرما کی مکروہ جسارت کے باعث ہندو بنیے کے ہاتھ سے پیسے نے پھسلنے کا پروگرام بنایا اور ابتدا ہوئی خلیجی ریاست عمان سے۔ وہاں کے مفتی اعظم فضیلۃ الشیخ احمد بن حمد الخلیلی کا ایک سرکاری بیان شائع ہوا جس میں انہوں نے کہاکہ رسول کریم حضرت محمدﷺ او رآپ کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کی توہین کی گئی ہے۔ یہ توہین بھارت کی حکمران پارٹی بی جے پی نے کی ہے۔ یہ شرمناک توہین زمین کے مشرقوں اور مغربوں کے تمام مسلمانوں کے خلاف اعلانِ جنگ ہے لہٰذا تمام مسلمان ایک جسم بن کر حرمتِ رسولﷺ کے دفاع کے لیے اٹھ کھڑے ہوں تاکہ اس توہین اور بے حرمتی کو روکا جا سکے۔
قارئین کرام! اس اعلان کے ساتھ ہی عمان کے دارالحکومت مسقط اور دیگر شہروں میں انڈین مصنوعات کا بائیکاٹ شروع ہوگیا۔ آج سے کوئی 25 سال قبل میں جب وہاں گیا تھا تو سارے عمان میں ہندو تاجر چھا ئے ہوئے تھے۔ اب تو ان کا کاروبار اور بھی زیادہ ہوچکا ہے؛ چنانچہ جب اس کاروبار کو دھچکا لگا اور وہاں کے کاروباریوں نے شور مچانا شروع کیا تو انڈیا میں واویلا مچ گیا۔ ساتھ ہی کویت نے ایک مضبوط اقدام کیا اور انڈیا کے ساتھ اس کے کاروباری معاہدے تک خطرے میں پڑنا شروع ہوگئے۔ ہندو ملازم فارغ ہونے لگ گئے۔ بڑے بڑے شاپنگ مالز سے انڈین مصنوعات فوراً ہٹادی گئیں۔ کویت میں موجود بھارتی افراد نے واویلا مچایا تو اس کے اثرات انڈیا بھی پہنچنا شروع ہوگیا۔ قطر میں بھی ایسے ہی سخت ترین اقدام شروع ہوگئے۔ سعودی عرب بھی میدان میں آگیا۔ بحرین ا ور یو اے ای میں بھی اقتصادی رد عمل شروع ہوگیا۔ دوسرا کام یہ ہوا کہ مذکورہ ملکوں نے انڈین سفرا کو طلب کیا اور سخت احتجاج کیا۔ مصر اور یمن بھی اب میدان میں آ گئے۔ پاکستان، افغانستان، ایران اور انڈونیشیا نے بھی شدید مذمت کی۔ جی ہاں! البتہ اصل کام عربوں نے کیا۔ بنیے کے ہاتھ میں جو دمڑیاں تھیں‘ وہ مٹھی میں دبی ریت بن گئیں اور ان کے سرکنے کا آغاز ہوگیا۔ بنیا تلملانے لگ گیا۔
انڈین چینلز اور سوشل میڈیا چیک کیا تو وہاں ہاہاکار مچی ہوئی تھی۔ وہ اینکرز جو نوپورشرما اور نوین کمار جندال جیسے بے شرم ملعونوں کا دفاع کر رہے تھے‘ وہ یکدم پینترا بدلنے لگے کہ مودی سرکار کی انتہا پسندی دیش کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ اربوں ڈالر کا سرمایہ ڈوبنے جا رہا ہے۔ وہاں کے لاکھوں بے روزگاروں کا کیا ہوگا؟ مودی سرکار بھی تڑپنے اور پھڑکنے لگی۔ مفتی احمد بن حمد خلیلی کا بیان ڈرائونے خواب دکھانے لگا کہ مزید مفتیانِ کرام بول پڑے تو تب کیا ہوگا؟ اب نوپر شرما کو فوراً اس کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ چھ سال کے لیے بی جے پی سے نکال دیا گیا۔ نوین کمار جندال کو زندگی بھر کے لیے پارٹی سے فارغ کردیا گیا۔ مزید دبائو بڑھا تو نوپورشرما کے گھر پولیس بھیج دی گئی۔ کہا گیا کہ سکیورٹی دی گئی ہے۔ ساتھ ہی کہا کہ اسے پولیس تھانے بلایا بھی جا سکتاہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر اقتصادی دبائو مزید بڑھتا گیا تو نوپور شرما اور جندال کو گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے‘ ان پر مقدمہ بھی چلایا جا سکتاہے؛ چنانچہ دبائو برقرار رہنا چاہئے تاکہ ایسی معلون اور مکروہ حرکت کی آئندہ کسی کو جرأت نہ ہو۔ کالم لکھے جانے تک آخری بات یہ سامنے آئی ہے کہ نوپور شرما نے کہ دیا ہے کہ وہ تمام دھرموں (مذاہب) کی عزت کرتی ہے، یعنی اس نے اپنا بیان واپس لے لیا ہے مگر اس حرکت پر جومطالبہ کیا جا رہا ہے‘ وہ سزا کا ہے۔ مسلمان مضبوط ہوکر بڑھیں‘ اقتصادی اور سفارتی دبائو ڈالتے جائیں تو مودی بھی ہاتھ جوڑ کر معافی مانگے گا۔ مسلمانوں بالخصوص کشمیریوں پر ظلم کا مداوا بھی ہوگا، وہ مظلوم انڈین مسلمان اور وہ مظلوم کشمیری مسلمان‘ جو حضورﷺ کا کلمہ پڑھنے کے جرم میں ظلم و جبر کا شکار ہیں‘ ان کو بھی سکھ کا سانس ملے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ!
اللہ کے آخری رسول حضور کریمﷺ پر قرآنِ مجید نازل ہوا تو اس کا آغاز ہی اللہ تعالیٰ کے تعارف سے ہوا۔ قرآنِ مجید کی پہلی سورۃ میں بتایا گیا کہ وہ ''رب العالمین‘‘ ہے، یعنی وہ تمام جہانوں، تمام انسانوں اور تمام جانداروں کی پرورش فرمانے والا ہے۔ وہ سب کا رب ہے۔ اسی رب العالمین نے قرآنِ مجید میں اپنے آخری رسول کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ''ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے سراسر رحمت بنا کر بھیجاہے‘‘۔ اُس دور کے عرب معاشرے میںغلاموں پر ظلم ہوتاتھا‘ انہیں حقیر سمجھا جاتا تھا۔ ہمارے حضورﷺ کو بھی ایک غلام ملا تھا اور اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی طرف سے ملا تھا۔ وہ مکہ کی امیر ترین خاتون تھیں۔ اس غلام کا نام زیدؓ بن حارثہ تھا۔ حضور کریمﷺ نے اس کے ساتھ اس قدر محبت و شفقت کا سلوک فرمایا کہ اسے اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا۔ یاد رہے قرآنِ مجید میں حضورﷺ کے کسی صحابی کا نام نہیں؛ حضرت ابوبکرؓ صدیق، حضرت عمرؓ فاروق کا نام نہیں۔ حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علی المرتضیٰؓ کا بھی نام نہیں۔ نام ہے تو صرف حضرت زیدؓ کا۔ پھر ہم کیوں نہ کہیں کہ اللہ رب العالمین نے غلام کے ساتھ اپنے حبیبﷺ کی محبت کا ایسا خیال کیا کہ زید کے نام کو قرآنِ مجید کا حصہ بنا کر قیامت تک کے اسے تلاوتِ قرآن میں شامل کر دیا۔ جی ہاں! جس مجسم رحمت پیغمبرﷺ نے غلام کو ایسا رتبہ دیا کہ اسے آقا بنادیا‘ اس رسول اعظم کی توہین پوری انسانیت کی توہین ہے۔ برہمن چونکہ دلتوں کی توہین کرتا ہے‘ اسے کیاپتا کہ غلاموں اور کمزور بے بسوں کے آقا حضورﷺکی کیاشان ہے؟ نوپورشرما ذرا بے شرمی کی گندی دلدل سے باہر نکلے‘ دیکھے وہ منظر کہ جب زید کے والد اور چچا کئی سالوں بعد اپنے گمشدہ بچے زید کا پتا معلوم کرکے اسے لینے آئے تو حضورﷺ نے فرمایا: زید سے پوچھ لو اور اسے لے جائو۔ وہ تو ساتھ پیسے بھی لائے تھے کہ وہ دیں گے اور زید کی آزادی خرید لیں گے مگر کہاں حضورﷺ کی ذاتِ عالی اور کہاں دمڑیوں والی سوچ؟ اے ہندوؤ! یہ سرکارِ مدینہﷺ کے اخلاقِ عالیہ کے خلاف ہے۔ فرمایا: لے جائو اسے۔ باپ اور چچا نے جب زید سے پوچھا تو حضرت زیدؓ نے کہا: زندگی گزاروں گا تو حضورﷺ کے ساتھ۔ سلام ایسے نبی پر‘ درود کروڑ بار ایسے حضورﷺ پر۔
عربی میں ''رقیق‘‘ انتہائی نرم شئے کو کہا جاتا ہے۔ دودھ ، دہی ، مکھن نرم یعنی رقیق ہوتے ہیں۔ آخری حج کے موقع پر خطبہ دیا تو تین بار فرمایا: لوگو! ''ارقاء کم‘‘ اپنے غلاموں کا خیال کرنا‘ جو خود کھاتے ہو‘ وہی ان کو کھلانا‘ جو خود پہنتے ہو‘ وہی ان کو پہنانا۔ (الصحیحہ: 740) یعنی ان کے ساتھ مکھن کی ملائی کی طرح نرمی رکھنا۔ لوگو! جن کو اپنے ہم مذہب شودروں پر ظلم کرنے سے شرم نہ آئے۔ عیسائیوں اور سکھوں پر ظلم کرنے سے شرم نہ آئے۔ مظلوم کشمیریوں اور بھارتی مسلم اقلیت پر ظلم کرنے سے شرم نہ آئے۔ برہمن اور شودر و دلت کی ذات پات کو باقی رکھنے پر شرم نہ آئے‘ ان کو شرم کیسے دلائی جائے کہ وہ حضور جیسی پُر رحمت ذات کے حوالے سے حدِ ادب کا خیال رکھیں؟ اب پتا چلا کہ ان کو شرم دلائے گی تو دمڑی کی درگت ہی شرم دلائے گی۔
کانپور سے بی جے پی طلبہ ونگ کے سرکردہ رہنما نے توہین کی تو فوراً گرفتار کر لیا گیا۔ یوپی کا معتصب ہندو وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ گرفتاری کے موقع پر موجود تھا۔ یہ منظر دمڑی کے جانے کے ڈر سے ہی بنا ہے‘ وگرنہ کہاں؟