اللہ تعالیٰ کی قدرت... میں کئی سالوں سے حبیب الرحمن صاحب کو جانتا ہوں۔ چیچہ وطنی کے علاقے میںجب بھی جانا ہوا‘ عموماً تقریر کرتے ہوئے انہیں اپنے سامنے پایا۔ چند دن قبل اللہ تعالیٰ نے ایسا موقع بنایا کہ میں ان کے ساتھ چائے پی رہا تھا۔ دیگر احباب بھی موجود تھے۔ پتا چلا کہ وہ پاک فوج سے لانس نائیک کی ذمہ داریوں سے ریٹائر ہوئے تھے۔ وہ 1945ء میں پیدا ہوئے تھے۔ اب ماشاء اللہ ان کی عمر 78 سال ہوچکی ہے۔ لمبے قد، مضبوط جسم ، سفید داڑھی کے ساتھ وہ بڑے وجیہ لگ رہے تھے۔ جب مجھے ان کی زبانی معلوم ہواکہ وہ 1971ء میں ڈھاکہ میں تھے اور جنگی قیدی بن گئے تھے تو میں نے ایامِ اسیری کے بارے میں سوال کر ڈالا۔ میرا سوال کرنا تھا کہ ان کی آنکھوں سے چھم چھم آنسو گرنا شروع ہو گئے۔ مجلس میں سناٹا چھا گیا۔ طبیعت سنبھلی تو فرمانے لگے۔ ہم 800 قیدی تھی جو ڈھاکہ سے گرفتار ہوئے۔ ہمیں ''داناساگر‘‘ کے کیمپ نمبر 54 میں رکھا گیا تھا۔ ہم نے وہاں دو سال ایک ماہ اور 28 دن قید کاٹی۔ انڈیا کا وہ علاقہ انتہائی گرم اور خشک تھا۔ چھت ٹین کی چادر کی تھی۔ پنکھا چلتا تو یوں محسوس ہوتا تھا جیسے جہنم سے نکلنے والی گرم لُو کو ہم پر پھینکا جا رہا ہے۔ ایسے ماحول میں شب و روز گزرتے رہتے تو کوئی بات نہ تھی مگر ایک دن ہمارے ایک انتہائی نیک ساتھی کو بغیر کسی وجہ کے کافی مارا گیا۔ پائوں اس قدر زخمی ہو گئے کہ ان کے پائوں کے نیچے روئی باندھی جاتی‘ تبھی وہ چل پاتے تھے۔ یہ ظلم پاکستان پہنچا تو ہماری حکومت کے شدید احتجاج پر سارا عملہ تبدیل ہوگیا۔ بعض اوقات آٹے کے تھیلے آتے تو ان میں پسائی کے ساتھ قصداً چونا ملا دیا جاتا۔ اس وجہ سے ہمارے کئی لوگوں کے گردے خراب ہوگئے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ کوکنگ آئل کی جگہ موبل آئل بھیج دیا گیا۔ ہمارے باورچیوں نے ڈھکن کھولے اور دیگوں میں موبل آئل ڈال دیا۔ جب ہم آٹھ سو بندوں نے وہ کھانا کھایا تو سب بیمار پڑ گئے۔ کسی کو پیچش، کسی کو ہیضہ اور بعض لوگ بخار کا شکار ہوکر مسلسل قے کر رہے تھے۔ جب آئل کے ڈبے دیکھے گئے تو پتا چلا کہ وہ موبل آئل تھا۔ الغرض! انڈیا کے ظالم فوجیوں نے بے بس قیدیوں پر ظلم کی حد کر ڈالی۔ وہ کسی سے ناراض ہوتے تو قمیص اتروا کر اسے شدید گرمی میں دھوپ میں بٹھا دیتے۔
قارئین کرام! یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سابقہ مشرقی پاکستان کے لوگ بنگلہ دیش بناکر زندگی کو پرسکون بنانے میں کامیاب ہوگئے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے میں لگ بھگ27 سال قبل بنگلہ دیش گیا تھا۔ وہاں پر عام آدمی کی زندگی کو دیکھ کر ترس آتا تھا۔ ہر جانب سائیکل رکشے تھے۔ ٹھہرے ہوئے پانیوں کے اوپر بانس کے گھر تھے۔ جھگیوں کا کوئی شمار نہ تھا۔ میں ایک روپیہ دے کر ڈیڑھ ٹکہ حاصل کرتا تھا۔ پاکستان میں زندگی گزارنے کا عمومی معیار میں نے وہاں کے عمومی معیار سے کئی گنا بہتر پایا۔ البتہ آج کی صورتحال یہ ہے کہ بنگلہ دیش کا ٹکہ ہمارے دو روپے کے برابرہوچکا ہے۔ وہاں کی جو معیشت ہے‘ اس کی کامیابی کی ہمارے لوگ باتیں کرتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ سب معاشی گورکھ دھندے ہیں۔ کرنسی کی ویلیو سے لوگوں کے معیارِ زندگی کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ سوال یہ ہے کہ جناب والا! ایک جاپانی ین پاکستانی ڈیڑھ روپے کے برابر ہے، اسی طرح افغانستان کا ایک افغانی بھی پاکستان کے دو روپے کے برابر ہے‘ یہاں میرا ایک سوال ہے کہ کیا افغانستان کا رہائشی معیار پاکستان سے بہتر ہوچکا ہے؟ نہیں جناب! بالکل نہیں! افغانستان کے لوگ آج بھی پاکستان آنے کے لیے بے تاب ہیں جبکہ یہاں سے جا کر افغانستان میں بسنے کا کوئی پاکستانی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ یہی بنگلہ دیش کا حال ہے کہ ہمارا معیارِ زندگی آج بھی بنگلہ دیش کے لوگوں کے عمومی معیارِ زندگی سے کئی گناہ بہتر اور شاندار ہے۔
تازہ عالمی سرویز کی رپورٹوں کے مطابق دنیا کے انتہائی غریب ترین ملکوں میں بنگلہ دیش اور بھارت سرفہرست ہیں۔ یاد رہے! انڈیا کی معیشت دنیا کی مضبوط معیشتوں میں سے ایک ہے مگر اس کے عوام کی زندگی کا معیار میرے وطن عزیز کے باسیوں کے معیار کے مقابلے میں انتہائی پست ہے۔ غریب ترین ملکوں میں بھارت اور بنگلہ دیش کے ساتھ جن ملکوں کو مزید شامل کیا گیا ہے‘ ان میں نائیجیریا اور کانگو جیسے افریقی ملک شامل ہیں۔ رپورٹ یہ ہے کہ بنگلہ دیش اور انڈیا کے لوگ 2030ء تک اس غربت سے نہیں نکل سکتے۔ ہم اہلِ پاکستان کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہمارا معیارِ زندگی برصغیر کے تمام ملکوں سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ بعض لوگ دیوالیہ ہونے کے حوالے سے سری لنکا کی بات کرکے مایوسی پھیلاتے ہیں۔ اللہ جانتا ہے میں نے 2005ء میں سونامی کے سلسلے میں سری لنکا بھی دیکھ رکھا ہے۔ میں اس موازنے کو نام نہاد دانشوروں کی کم علمی ہی کہہ سکتا ہوں۔کہاں پاکستان اور کہاں سری لنکا! کم فہم آنکھیں کہاں جا اٹکیں۔
جہاں تک 1971ء کے سانحہ کی بات ہے تو یہ حادثہ اور غمگین سانحہ عسکری نہیں بلکہ سیاسی تھا۔ میرے پڑوس میں محترم میجر (ر) اظہر صاحب رہتے ہیں۔ وہ مذکورہ سانحہ کے متاثرین میں سے ایک ہیں۔ قید کاٹ کر آئے ہیںمگر آخرت پر ایمان، شوقِ شہادت اور پاکستانیت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اس سانحے کے پیچھے بین الاقوامی سازش بھی تھی۔ ان شیروں کو لڑنے کا موقع ہی کب ملا تھا۔ پھر مشرقی پاکستان پورے بھارت سے گزرنے کے بعد آخری کنارے پر تھا۔ دونوں خطوں میں لگ بھگ ایک ہزار کلومیٹر کا فاصلہ تھا اور یہ سب کا سب بھارت پر مشتمل تھا۔ ہمارا فوجی ہیڈ کوارٹر راولپنڈی میں تھا اوربھارت نے فضائی حدود کے استعمال پر بھی پابندی لگا رکھی تھی۔ آج کے حالات اورہیں۔ پاکستان جغرافیائی طور پر ایک اکائی ہے۔ ہر علاقہ فوجی چھائونی کی دسترس میں ہے؛ چنانچہ ہم نے دیکھ لیا کہ جنرل ضیاء الحق کے دور سے لے کر آج تک‘ بھارت نے جتنی بھی کوششیں کیں کہ علیحدگی کی تحریکیں کھڑی کرکے سانحہ 71ء کو دہرایا جائے‘ وہ تمام کی تمام بری طرح ناکام ہوئیں۔ دہشت گردی پھیلانے کی کوششیں ''آپریشن راہِ نجات‘‘، ''ضرب ِعضب‘‘ اور حالیہ ''رد الفساد‘‘ کے سبب ناکام ہوئیں۔ ایئر سٹرائیک کی کوشش کی گئی تو ان کا پائلٹ ''ابھینندن‘‘ ہمارے ہاتھ لگا۔ ہم نے چائے پلا کر اسے واہگہ بارڈر کے راستے ان کے حوالے کردیا۔ یہ ہماری حکومت اور ہماری افواج‘ خصوصاً پاک فضائیہ کے حوصلے، صبر اور برداشت کی عظمت ہے۔ صحابی رسول حضرت ثمامہؓ بن اثال‘ جو یمامہ کے حکمران تھے‘ کو حضور سرکارِ مدینہﷺ نے عزت کے ساتھ رہا کردیا تھا حالانکہ ثمامہ کے لوگ غزوۂ خندق میں مشرکین مکہ کے ہمراہ ہوکر ریاست مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے آئے تھے۔ حضور کریمﷺ کے اعلیٰ اخلاق کا رزلٹ یہ نکلا کہ ثمامہ مسلمان ہوکر صحابی رسول بن گئے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ میں سمجھتا ہوں جنرل ضیاء الحق مرحوم جو ایمان ، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کا سلوگن دے گئے تھے‘ پاک فضائیہ نے اس پر عمل کرکے حضور کریمﷺ کے کریمانہ اخلاق کی سنت کو زندہ و تابندہ کردیا؛ چنانچہ جو لوگ بنگلہ دیش کے سانحے کو سامنے رکھ کر موجود پاکستان کی بقا کے بارے میں مایوس کن باتیں کرتے ہیں‘ تبصرے اور تجزیے کرتے ہیں وہ جغرافیائی، تاریخی اور موجودہ زمینی حقیقتوں سے بالکل ناآشنا ہیں۔
لیبیا، عراق، یمن اور شام وغیرہ جیسے ممالک جو آج المیوں کا شکار ہیں‘ پہلے ان کی افواج کا شکار کیا گیا تھا۔ یاد رہے! پاک افواج کے شاہین خود اپنے دشمن کے لیے شکاری ہیں۔ 1971ء کے سیاسی سانحہ کو چھوڑ کر‘ 74 سالہ پاک فوج کی تاریخ اس پر گواہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور رحمت کے ساتھ یہی حقیقت بقائے پاکستان کی ضمانت ہے۔ لہٰذا میری گزارش ہے کہ تمام مذہبی وسیاسی جماعتیں اپنی سیاست ضرور کریں مگر افواجِ پاکستان کے ادارے کو بیچ میں مت رگیدیں۔ شکوے‘ شکایتیں بجا مگر جس طرح سابق ڈی جی آئی ایس پی آر آصف غفور صاحب نے کہا تھا کہ ہم بھی قوم کا حصہ ہیں‘ ہم سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں ‘آپ ہم سے شکوے کریں مگر شہیدوں اور غازیوں کے ادارے کے وقار کو ملحوظِ خاطر رکھیں۔ میں کہتا ہوں کوئی شدید انداز اپنانا چاہیں تو ذمہ داران کے ساتھ ملاقات میں اپنائیں۔ فون کردیں‘ خط لکھ دیں۔ خیر خواہی اسی کا نام ہے۔ ہم سب کی خیر اسی میں ہے کہ بلندی اور کوہان کی عظمت کو داغدار نہ کیا جائے۔ حضور کریمﷺنے فرمایا: اسلام کی کوہان اور چوٹی جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ پاکستان کو اگرمیں ایک انتہائی معزز شخصیت کہوں تو اس کی پگڑی او رٹوپی کا نام پاک فوج ہے۔ مجھے کسی سے ہزار شکوے ہوں‘ مگر میں اس کی پگڑی کی جانب میلی آنکھ سے دیکھ بھی نہیں سکتا۔