"AHC" (space) message & send to 7575

دو شیطانوں کو کنکر کون مارے گا؟

اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں یہ حاجی لوگ۔ یہ مہمان حج کے جن اعمال کو سر انجام دیتے ہیں‘ ان میں سے ایک اہم عمل شیطان کو کنکریاں مارنے کا ہے۔ حاجی مزدلفہ کے میدان میں ا للہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے کرتے ہیں۔ اسی لیے وہ کنکریاں بھی وہیں سے اٹھاتے ہیں۔ منیٰ کے میدان میں قربانی کی جاتی ہے‘ وہاں سے بھی کنکریاں اٹھائی جاتی ہیں۔ جب یہ کنکر شیطان کو مارا جاتا ہے تو ''اللہ اکبر‘‘ کہا جاتا ہے، یعنی شیطان بھاگے گا تو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے بھاگے گا۔ شیطان کو کنکریاں مارنے کے لیے تین علامتی مقامات ہیں۔ ان کو جمرات کہا جاتا ہے۔ جمرۃ کا معنی دہکتا ہوا کوئلہ ہے۔ چونکہ شیطان کا تعلق جنات سے ہے اور جنات کی پیدائش آگ کے شعلے سے کی گئی ہے لہٰذا علامتی مقام کا نام ''جمرہ‘‘ اس لیے ہے کہ اللہ کا مہمان اپنے دشمن کو کنکر مار رہا ہے۔ شیطان اس کا دشمن ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ مہمان اپنے دشمن شیطان کوپہچان چکا ہے۔ اب وہ اس کے بہلاوے اور پھسلاوے میں نہیں آئے گا۔ زندگی بھر اس کو کنکر مارتا رہے گا۔ منیٰ کے میدان سے کنکریاں بھی اٹھائے گا اور قربانی بھی کرے گا۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے جذبات اور مفادات کی قربانی دے کر شیطان کا سر پھوڑے گا۔ اسے زخمی کرے گا۔ اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دے گا۔
حاجی لوگ محدود تعداد میں‘ حج کے لیے مخصوص مقامات پر حج کا فریضہ ادا کریں گے مگر ایسا نہیں ہے کہ باقی مسلم امت خاموش بیٹھی رہے گی۔ وہ اپنے اپنے ملکوں اور علاقوں میں عید الاضحی کی نماز ادا کرے گی۔ نماز کے بعد قربانی کرے گی۔ ''اضاحی‘‘ کا معنی قربانیاں ہی تو ہے۔ شیطان کے وساوس کو ناکام کرکے ہی قربانی کے عظیم عمل کو سر انجام دیا جا سکتا ہے۔ ثابت ہوا کہ ساری امتِ مسلمہ ہی شیطان کو اپنا دشمن نمبر ایک سمجھ کر ناکام بنانے پر تلی ہوئی ہے‘ قربانی دینے کے لیے تیار بیٹھی ہے۔ یک جہت اور یکسو ہو چکی ہے۔ آپس میں بھائی بھائی بن چکی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے‘ کسی حاجی او رکسی قربانی کرنے والے کا کردار سنورا نہیں ہے تو اس نے حج اور عید قربان کے مقصد کو قربان کر دیاہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ‘ جنہوں نے دس سال حضور کریمﷺکی خدمت کی، مدینہ کے دس سالوں میں وہ سفر و حضر میں حضور کریمﷺ کی خدمت میں حاضر رہے‘ مدینہ منورہ کی ایک نواحی بستی کا حال بیان کرتے ہیں کہ ''حضور کریمﷺ اپنے صحابہ کرام کے ہمراہ اس بستی کے قریب سے گزرے تو کیا دیکھا کہ کچھ لوگ پتھر اٹھا نے کی ورزش کر رہے تھے۔ اللہ کے رسولﷺ نے پوچھا کہ یہ لوگ کیونکر ایسا کر رہے ہیں تو صحابہ نے عرض کیا کہ یہ لوگ پتھر کا وزن اس لیے اٹھا رہے ہیں تاکہ جسمانی طور پر مضبوط ہوجائیں (اور کشتی، کبڈی یا لڑائی میں اپنے مخالف پر غالب آجائیں) اس پر حضور اکرمﷺ نے فرمایا: کیا میں آپ لوگوں کو ایسے شخص کے بارے میں نہ بتائوں جو ایسی ورزش کرنے والے سے کہیں بڑھ کر طاقتور ہے؟ ایسا شخص وہ ہے جو غصہ آنے پر اپنے آپ کو قابو میں کرلیتا ہے‘‘۔ قارئین کرام! اسی سفرمیں یا کسی اور سفرمیں دوبارہ ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ اس کے راوی بھی حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی ہیں‘ وہ بتاتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جو کشتی کر رہے تھے۔ (حضورﷺ نے اس دنگل میں سے دین سمجھانے اور کردار سازی کرنے کے لیے پھر سوالیہ انداز اپناتے ہوئے پوچھا) یہ جم غفیر یا ازدحام کیسا ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یہ فلاں (معروف) پہلوان ہے‘ جو بھی اس سے کشتی کرتا ہے یہ اسے چاروں شانے چت کردیتا ہے۔ اس پر اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایک ایسے شخص کے بارے میں نہ بتائوں جو اس (معروف و مشہور) پہلوان سے کہیں بڑھ کر مضبوط ترین پہلوان ہے۔ (یاد رکھو!) وہ ایسا شخص ہے کہ اس پر کسی آدمی نے ظلم ڈھا دیا اور وہ اپنے غصے کو پی گیا۔ غصے کو پینے والا جیت گیا۔ وہ اپنے شیطان کے خلاف بھی جیت گیا اور اپنے مقابل کے شیطان کے خلاف بھی جیت گیا۔ (سلسلہ صحیحہ: 3295)
اللہ کے آخری رسول حضور کریمﷺ نے ایک بار صحابہ کرام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: تم میں سے ہرایک کے ساتھ ایک جن (شیطان) کی ڈیوٹی لگادی گئی ہے۔ صحابہ کرام نے پوچھا: اے اللہ کے رسولﷺ! آپ کے ہمراہ بھی ایسے کسی جن کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے؟ فرمایا: ہاں میرے ساتھ بھی ایسا ایک جن لگا ہوا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے میری مدد فرمائی لہٰذا (میری دعوت پر) وہ مسلمان ہوگیا ہے۔ اب وہ میرے ساتھ خیر اور بھلائی ہی کی بات کرتا ہے۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ہر شخص کے ساتھ ایک جن (شیطان) لگا ہوا ہے اور فرشتوں سے ایک فرشتہ بھی ڈیوٹی پر لگا ہوا ہے۔ (مسلم : 2814)۔
لوگو! ہمارے حضور کریمﷺ کا عظیم اخلاق اور مشفقانہ دعوت ہے کہ جس جن کی آپ کے ساتھ ڈیوٹی لگی‘ وہ حضور کا امتی بن گیا۔ حضور کریمﷺ کا تابع فرمان اور فرمانبردار بن گیا۔ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھنے والا بن گیا۔ خیر خواہی کرنے والا بن گیا۔ اللہ تعالیٰ کی اپنی حکمتیں ہیں۔ حضور کریمﷺ ایک بار جنوں کی وادی میں جنوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے بھی تشریف لے گئے تھے۔ جی ہاں! ان کی نمائندگی بھی حضور ﷺ کے پاس ہی موجود تھی۔ آپﷺ تمام انسانوں اور تمام جنات کے لیے قیامت تک کے لیے آخری رسول ہیں۔ آپﷺ کی مجلس میں جہاں حضرت جبرئیل اور دیگر فرشتے ہوتے تھے‘ ابوبکر و عمر ‘ عثمان و علی اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہوتے تھے‘ وہیں نیک اور فرمانبردار جنات بھی ہوتے تھے۔ کیا بات تھی ہمارے حضورﷺ کی مجلس کی نورانیت اور برکات و تجلیات کی۔ سبحان اللہ!
بات یہ ہے کہ ہم میں سے ہر انسان کے ساتھ شیطان ہے جو شرارتیں کرتا ہے‘ وسوسے ڈالتا ہے‘ غضب میں مبتلا کرتا ہے‘ گمراہی کی طرف لے کر جاتا ہے۔ قربان جائوں مولا کریم کے توازن اور میزان پر کہ ہر انسان کے ساتھ ایک فرشتہ بھی مقرر ہے جو خیر او ربھلائی کے مشورے دیتا ہے۔ کون کس کا مشورہ مانتاہے‘ یہ ہر شخص کی فطرت اور کردار پر منحصر ہے اور پھر اسی کے مطابق رزلٹ نکلتا ہے۔ ہمارے حضورﷺ کو کس طرح کے کردار کا مومن مطلوب ہے‘ اس حوالے سے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ آگاہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضورﷺ کی مجلس میں حاضر ہوا اور پوچھنے لگا: اے اللہ کے رسولﷺ! ہم اپنے غلام (خادم) سے کتنی بار درگزر سے کام لیں۔ حضورﷺ خاموش رہے۔ مذکورہ آدمی نے دوبارہ سوال کیا تو حضورﷺ پھر خاموش رہے۔ جب اس نے تیسری بار وہی سوال کیا تو رحمۃ للعالمین ﷺنے فرمایا: ہر روز ستر مرتبہ درگزر سے کام لو۔ (ابودائود، ترمذی، احمد : صحیح) دوبار خاموشی میں یہ پیغام ہے کہ اس معاملے میں بس خاموشی سے کام لو۔ اللہ اللہ! جب ہمارے حضورﷺ کا اپنے ہر امتی سے روزانہ ستر بار درگزر کا تقاضا ہے تو حضورﷺ کے درگزر کا کیا حال ہوگا؟ وہ تو یقینا رحمت ہی رحمت، صبر ہی صبر اور درگزر ہی درگزر ہے کہ جس کی رفعت ''سدرۃ المنتہیٰ‘‘ کو چھو رہی ہے۔ بے شمار درود وسلام ایسے حضور عالیشان پر۔
آیئے! اپنے معاشرے کا جائزہ لیں۔ عیدِ قربان پر جائزہ لیں کہ غیبتوں اور چغلیوں کی لت کے پیچھے کون ہے؟ دوسروں کی جاسوسی کرنے کے پیچھے کون ہے؟ بدگمانیوں کے پیچھے کون ہے؟ حسد کے پیچھے کس کی شرارتیں ہیں؟ ہر انسان کے ہمراہ شیطان ہے مگر جو اپنے شیطان کی باتیں مان کر مذکورہ حرکتیں کر رہا ہے۔ اپنے بھائیوں کو غصہ دلا رہا ہے۔ جس کو غصہ دلا رہا ہے وہ بھی غصے کا شکار تو ہو رہا ہے مگر غضب میں کوئی قدم اٹھانے کے بجائے صبر سے کام لے رہا ہے۔ وہ درگزر سے کام لے رہا ہے۔ اللہ اکبر! اس نے اپنے شیطان کو بھی شکست دے دی ہے اور اپنے مقابلے پر آنے والے شیطانی صفت رکھنے والے انسانی شیطان کو بھی شکست سے دوچار کردیا ہے۔ ہمارے حضورﷺ کا مطلوب ایسا ہی مسلمان اور مومن ہے جس نے دونوں شیطانوں کو شکست سے دوچار کر نا ہے۔ اپنے شیطان کو بھی چاروں شانے چت کرناہے اور دوسرے کے شیطان کو بھی زمین پر چت کر دینا ہے۔
سیاستدان جو معاشرے کی رہنمائی کرنے والے ہوتے ہیں وہ رہنمائی تبھی کر سکتے ہیں جب دونوں شیطانوں سے مقابلے میں فتح حاصل کرنے والے ہوں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ جو جس سیاستدان کو پسند کرتے ہیں‘ اس میں اگر مذکورہ کردار ہو توبراہ کرم مجھے بھی آگاہ کریں تاکہ میں بھی اس کی پارٹی کا جھنڈا تھام سکوں۔ اگر نہیں ہے کوئی تو مجھے اپنے پیارے رسولﷺ کے پرچم کے بعد کسی پارٹی کے پرچم کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان میری پارٹی ہے‘ اس کا پرچم میرا پرچم ہے۔یہی عید الاضحی کا پیغام ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں