اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآنِ مجید میں نیند کی حقیقت بیان فرما دی ہے۔ یہ الہامی انکشاف ہی حقیقی اور آخری حقیقت ہے؛ تاہم دماغی سائنس کے ماہرین عرصۂ دراز سے نیند پر تحقیق اور ریسرچ کر رہے ہیں۔ حال ہی میں آٹھ سالہ ریسرچ کے بعد ایک رپورٹ سامنے آئی ہے۔ یہ ریسرچ اسرائیل نے کی ہے۔ تل ابیب یونیورسٹی (Tel Aviv University) میں نیند پر آٹھ سال متواتر تحقیق کے بعد یونیورسٹی کے ''نیورو سائنس دان‘‘ جناب یوول نِر (Yuual Nir) نے اپنی ریسرچ کو بین الاقوامی جریدے (Nature Neuroscience) کے حوالے کیا اور انہوں نے اس ریسرچ کو شائع کیا ہے۔ جناب ڈیوڈ نیلڈ (David Nield) نے اس پر 15 جولائی 2022ء کو کالم لکھا جو ''سائنس الرٹ ڈاٹ کام‘‘ نے شائع کیا ہے۔ مسٹر یوول نِر کہتے ہیں کہ جب ہم سوتے ہیں تو:
Something mysterious happens within our brains, we Experience something similar to being awake.
کوئی طلسماتی شے ہمارے دماغ میں وقوع پذیر ہوتی ہے۔ ہم کسی ایسی چیز کا تجربہ کر رہے ہوتے ہیں جو جاگنے سے مشابہت رکھتا ہے۔
یعنی جس طرح جاگتے ہوئے ہم اپنی زندگی کے افعال و اعمال سے گزر رہے ہوتے ہیں‘ اسی طرح سونے کی حالت میں بھی ہم ایسے ہی کسی عملی تجربے سے گزر رہے ہوتے ہیں مگر یہ تجربات جاگنے کی نسبت بالکل مختلف ہوتے ہیں، یعنی جاگنے کے تجربے کے ساتھ مشابہت بھی ہے اور بالکل مختلف بھی ہیں۔
And Scientitsts are still trying to unpick exactly what's going on in that in- beteewn state.
اب سائنس دان کوشش کر رہے ہیں کہ ان دو حالتوں (جاگنے اور سونے) کے درمیان کی جو حالت ہے اس کی گرہیں اور گانٹھیں کھولیں اور معلوم کریں کہ حقیقت کیا ہے؟
قارئین کرام! انسانی دماغ میں کھربوں نیورونز ہیں۔ ہر دو نیورون کے درمیان اس وقت بجلی جیسی ایک چمک پیدا ہوتی ہے جب دماغ میں کوئی خیال یا سوچ پیدا ہوتی ہے۔ اس چمک کو Detect بھی کر لیا گیا ہے۔ کھربوں نیورونز میں پیدا ہونے والی اس چمک کو synapseکہا جاتا ہے۔ یہ لشکارے اس وقت کھربوں سے بھی کہیں زیادہ تعداد میں پیدا ہوتے ہیں جب انسان بہت زیادہ سوچ و بچار کرتا ہے۔ پھر سوچ و بچار کے مطابق ان کی اقسام ہیں۔ نیورونز کی بھی اقسام ہیں اور لشکاروں کی بھی اَن گنت اقسام اور انواع ہیں۔ دماغی سائنس دانوں نے اس پر جو ریسرچز کی ہیں وہ سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ حالیہ ریسرچ اسرائیل سے سامنے آئی ہے۔ یہ ریسرچ ابھی جاری رہے گی۔ ہر ریسرچ حیرتوں کے سمندر میں ڈوبتی چلی جائے گی مگر آخری حقیقت وہی ہے جو حضرت محمد کریمﷺ پر نازل ہونے والے قرآن مجید نے بتائی ہے۔
اسرائیلی ریسرچ بتاتی ہے کہ:
That during sleep sound related signals quicly decay in the brain in fact, they stay stronger and richer than we thought.
آواز سے متعلق جو سگنلز ہیں‘نیند کے دوران وہ دماغ میں تیزی کے ساتھ زوال پذیر ہو جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس قدر ہم سوچتے ہیں وہ (ہمارے سوچنے کی دماغی رفتار) سے کہیں بڑھ کر مضبوط اور اعلی ترین پیمانے کے حامل ہیں۔
جی ہاں! مذکورہ بات اس ٹیم کے دوسرے سائنسدان جناب حنا حیات (Hanna Hayat) نے کی ہے۔ قارئین کرام! سوچوں اور تفکر و تدبر وغیرہ کے پیچھے یعنی برقی لشکاروں کے پیچھے ایلفا (Alpha) اور بیٹا (Beta) لہریں (Waves) ہوتی ہیں۔ جن کی پاور سائنسی زبان میں 10-30HZ ہے۔ یہ لہریں کہاں سے آتی ہیں یا کہاں سے کنٹرول کی جاتی ہیں‘ یہ ہے وہ اصل بات جو اس آٹھ سال کی ریسرچ کا خلاصہ ہے۔ انگریزی جملہ ملاحظہ ہو:
These wavers are controlled by feedback from higher up in the brain.
یہ لہریں ایک فیڈ بیک کی جانب سے کنٹرول کی جا رہی ہوتی ہیں۔ دماغ میں ایسا عمل اعلیٰ ترین سٹیشن کی جانب سے ہی ہوتا ہے۔
یاد رہے (Higher up) کا ترجمہ اعلیٰ حکام بھی کیا جاتا ہے‘ اس کا ترجمہ گریٹر رینک یا گریٹر سٹیشن بھی ہے۔ یعنی دماغ کا تعلق بہت اوپر کے مقام سے ہے‘ اعلیٰ ترین حاکم سے ہے یا ایک بہت ہی عظیم‘ کسی ایسے مرکز سے جہاں سے دماغ کنٹرول کیے جاتے ہیں۔ قارئین کرام! آیئے! اب وہ حقیقت ملاحظہ کرتے ہیں جو حتمی اور آخری حقیقت ہے۔ یہ بیان ہوئی ہے اس کتاب میں جو اللہ رب العزت کی آخری کتاب ہے اور جو حضرت محمد کریمﷺ پر نازل ہوئی ہے۔ ارشاد فرمایا: ''وہ اللہ ہی تو ہے جو موت کے وقت نفوس کو قبضے میں لے لیتا ہے اور وہ جو موت سے دوچار نہیںہوئے‘ ان کے نفوس کو نیند میں بھی قبض کرتا ہے۔ پھر اس نفس (روح) کو روک لیتا ہے جس پر حتمی موت کا فیصلہ کر دیتا ہے۔ اور دوسری (روح) کو ایک مقرر وقت تک کے لیے واپس بھیج دیتا ہے۔ اس (سونے جاگنے کے سسٹم میں) بڑی نشانیاں ہیں ایسے لوگوں کے لیے جو غور و فکر (تحقیق اور ریسرچ) کرتے ہیں‘‘۔ (الزمر: 42) اللہ اللہ! ثابت ہوا کہ انسان کی زندگی روح یا نفس کے ساتھ بندھی ہوئی ہے۔ وہ جسم کے اندر ہے تو زندگی رواں دواں ہے۔ وہ جسم میں نہیں ہے تو زندگی کا اختتام ہے۔ نیند موت سے مشابہت رکھنے والی چیز ہے۔ یہ اس قدر اہم ہے کہ اس میں خلل پیدا ہو جائے تو انسانی جسم بیماری کا شکار ہونے لگ جاتا ہے۔ بہت زیادہ خلل واقع ہو جائے تو انسان دماغی اور نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔ نیند نہ آئے یا انسان کو سونے نہ دیا جائے تو بعض اوقات وہ پاگل بھی ہو جاتا ہے۔ اس کے دماغی نیورونز ناکارگی کا شکار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ''جو بھی کوئی چلنے والا جاندار ہے اس کے ماتھے (دماغ) کو اللہ ہی پکڑے ہوئے ہے‘‘۔ (ہود :56)
لوگو ! تل ابیب کے یہودی سائنسدان ساری انسانی ریسرچ کو سامنے رکھ کر مزید بس اس قدر آگے بڑھنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ دماغی لہروں کا کنٹرول ایک ایسے نظام سے ہے جو اعلیٰ ترین ہے‘ اعلیٰ حکام سے ہے جو Greater Rank کا حامل ہے۔ حضرت محمد کریمﷺ نے بذریعہ وحی اور الہام آج سے تقریباً ساڑھے چودہ سو سال قبل بتا دیا تھا کہ انسان ہی نہیں چلنے والا ہر جاندار‘ وہ سمندری مچھلی ہو یا ہوا میں اڑنے والا پرندہ‘ خشکی پر چلنے والا کوئی جاندار ہو یا کائنات میں کہیں بھی موجود کوئی مخلوق‘ اس کا دماغ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ خالق کائنات کے قبضے میں ہے۔ سکون ملے گا تو اس رب کے ساتھ وابستہ ہوکر ملے گا جس کے ہاتھ میں نفس اور روح ہے۔ جس کے قبضے میں زندگی اور موت ہے۔ جس کے قبضے میں ہر دل اور ہر دماغ ہے۔ یہی حتمی اور آخری سچائی ہے جو آخری رسول حضور کریمﷺ پر نازل ہونے والی آخری کتاب یعنی قرآنِ مجید میں بیان کی گئی ہے۔