اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی زمین بہت خوبصورت لگتی ہے جب یہ فصلوں سے لہلہاتی ہے۔ باغوں میں رنگارنگ پھلوں سے اپنے حسن کو دوبالا کرتی ہے۔ اپنی فضاؤں میں نیلی، پیلی، سرخ اور سیاہ چڑیوں کو اڑانے کے لیے ہواؤں کے ہلکے ہلکے مرغولے چلاتی ہے۔ ہوا کی انہی لہروں کے ذریعے پرندوں کے چہچہے اور بلبلوں کے نغمے ہمارے کانوں تک پہنچاتی ہے۔ دریاؤں، ندی نالوں اور آبشاروں کو اپنے سینے پر اس طرح بہنے دیتی ہے کہ وہاں اُگے ہوئے رنگ برنگے پھول دماغ کو تروتازہ کر دیتے ہیں۔ ان ندی نالوں کے ٹھنڈے یخ پانی میں جب ٹراؤٹ مچھلی پتھروں سے دائیں بائیں ہوتی ہوئی آگے بڑھتی جاتی ہے تو شفاف پانی میں بڑا خوبصورت منظر دکھائی دیتا ہے۔ وہ اُدھر کا سفر کرتی ہے جدھر سے پانی آ رہا ہوتا ہے‘ یعنی پانی کے مخالف رخ پر تیرتی ہے۔ پانی چونکہ نرم اور سیال مادہ ہے‘ اس لیے ٹراؤٹ اس میں بہتی ہوئی اس کی اُلٹی سمت میں بھی آسانی سے آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ وہ اتنی سمجھدار ہے کہ پتھروں کے ساتھ اپنا سر نہیں پھوڑتی۔ سفر جاری رکھتی ہے۔
قارئین کرام! زمین کا یہ حسن ایک سوغات ہے اور اس سوغات کو پاکستان کے علاقے سوات میں کئی بار دیکھ چکا ہوں۔ زمین کا یہ حسن سال میں دو بار اجڑتا ہے اور دو بار اپنی بہاریں دکھاتا ہے مگر یہ معمول کا عمل ہے۔ ہم اس پر دھیان نہیں دیتے۔ زمین اور اس پر نمایاں ہونے والے اس حسن کا خالق ہمیں یاد دلانا چاہتا ہے کہ دیکھ میرے بندے! اس عارضی اور فانی حسن میں کہیں مجھے فراموش نہ کر دینا۔ میں نے تیرے لیے اِک ایسی جنت بھی تیار کر رکھی ہے کہ جو سدابہار ہے۔ اس کے لیے زوال نہیں ہے۔ یہ جو تیرا جسم ہے یہ زوال پذیر زمین کا حصہ ہے۔ یہ عنقریب اسی کے ذرّات میں ڈھل کر ذرّات بن جانے والا ہے۔ تیرا روحانی وجود اس عارضی حسن کی حامل زمین سے پرواز کر کے میرے پاس آنے والا ہے۔ اس پرواز کو جب تو بھول جاتا ہے تو پھر میں یاددہانی کے لیے اس زمین پر تجھے اس طرح جھنجھوڑ کر جگاتا ہوں جیسے گہری نیند میں غافل آدمی کو جگایا جاتا ہے۔ جھنجھوڑ کر جگانے کا یہ عمل دس، بیس، چالیس سال بعد اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ میرے پیارے بندے تو جاگ جائے۔ میں نے تیرے لیے آخرت کا جو گلستان اور اس میں تیرے لیے جو محل بنایا ہے‘ اسے کہیں تُو بھول نہ جائے۔
قارئین کرام! ہر ایک کے دیکھنے کی ادا مختلف ہے۔ آج سے تین دن قبل میں سوات میں تھا۔ دامانہ، مدین اور بحرین وغیرہ کے اجڑے ہوئے علاقوں کو اسی نظر سے دیکھ رہا تھا جس نظر سے ہم سب کا خالق ہمیں دکھانا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر بہت مہربان ہیں۔ مولا کریم نے یاد دہانی تھوڑے سے علاقے میں کرائی ہے۔ زیادہ تر علاقے کو محفوظ رکھا ہے۔ مالی نقصان کچھ زیادہ ہوا ہے۔ جانی نقصان البتہ ان علاقوں میں انتہائی کم ہوا ہے۔ واضح رہے کہ پانی میں ڈوب کر مرنے والے کو ہمارے حضور کریمﷺ نے شہادت کی نوید سنائی ہے۔ دعا ہے کہ میرے پاکستان میں جہاں بھی ہمارے پیارے پانی کی نذر ہوئے ہیں‘ اللہ تعالیٰ انہیں شہادت کا درجہ دے کر فردوسِ بریں کے باغات اور محلات کا مکین بنا دے،آمین!
سوات میں میری رشتہ داری ہے۔ یہ قائم اس طرح ہوئی کہ آج سے کوئی نو سال قبل میرے ہم زلف سلیم خان کے چھوٹے بھائی تنویر کا وہاں رشتہ ہو گیا۔ لاہور سے بارات لے کر ہم سوات میں گئے تو چکدرہ سے میں نے اپنے دوست سیّاف خان کو اپنے ہمراہ لے کر باراتی بنا لیا۔ تنویر کا نکاح میں نے پڑھایا تھا۔ لاہور اور سوات میں محبت کے رشتے اس قدر بڑھے کہ خاندانی محبتوں کے مناظر لاہور اور سوات میں اپنی خوشبو دینے لگ گئے۔ مگر لوگو! جس طرح باغوں اور بہاروں کی رونقیں عارضی ہیں۔ اسی طرح خاندانوں کی رونقیں بھی عارضی ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تنویر کو دو بچے عطا فرمائے۔ بڑی بیٹی ہے اور چھوٹا بیٹا ہے۔ ایک سال قبل ان بچوں کے باپ تنویر کو کینسر کے جان لیوا مرض نے گھیر لیا۔ وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ پچھلے سال میں اس کاجنازہ پڑھا رہا تھا۔ ایک نیا خاندان‘ جس کا آغاز سوات میں میرے نکاح پڑھانے سے ہوا تھا‘ اس خاندان کے سربراہ کا اختتام لاہور میں میرے جنازہ پڑھانے اور اس کی میّت کو قبر میں اتار کر اس کے لیے دعائے مغفرت کرنے سے ہوا۔ مگر جس طرح باغات اجڑتے ہیں اور پھر بہاریں دینے لگتے ہیں‘ اسی طرح انسانی خاندان بھی اجڑتے ہیں اور دوبارہ آباد ہو کر بہاریں دینے لگتے ہیں۔ تنویر اپنے رب کریم کے پاس چلا گیا۔اس کی بڑی بیٹی اب آٹھ برس کی ہے۔ بیٹا احمد سات سال کا ہو گیا ہے۔ ان کے نانا مشتاق صاحب سوات کے ایک سکول کے ہیڈ ماسٹر ہیں۔ ان کی رہائش گاہ کے اندر ‘ڈھلوان میں مکئی کا کھیت اور ایک چھوٹا سا باغ ہے۔ اس باغ میں سیب، آڑو، انار، آلو بخارا، خوبانی اور انجیر وغیرہ کے درخت ہیں۔ اس ڈھلوانی باغ میں جاپانی پھل کے درخت یوں لدے پھندے تھے کہ جیسے درختوں کے ساتھ سرخی مائل نارنجی یاقوت لگے ہوئے ہیں۔ باقی پھلوں کا موسم تو زوال پذیر ہو کر اختتام کا شکار ہو چکا تھا مگر سارے سوات میں ہر جانب جاپانی پھل خوب دیکھنے کو مل رہے تھے۔ لاہور اور ملک کی دیگر منڈیوں میں لے جانے کے لیے یہ پھل کچا ہی توڑ لیا جاتا ہے اور پھر پیک کر دیا جاتا ہے۔ میں نے ہاتھ بڑھایا اور ایک پکے ہوئے جاپانی پھل کو توڑا۔ اس کی لذت ہی نرالی تھی۔
مشتاق صاحب کے ڈھلوانی باغ کی دیوار کو سیلابی پانی چھو کر گزرتا رہا مگر زیادہ آگے نہیں بڑھا۔ یہاں سے نیچے کے جو گھر تھے‘ وہ سیلاب کی نذر ہو گئے ہیں۔ گورنمنٹ سکول صفحۂ ہستی سے مٹ گیا ہے۔ بعض گھر بچ گئے ہیں مگر ان کے کئی حصے منہدم ہو گئے ہیں۔ جو کمرے بچے ہیں‘ وہ مٹی اور ریت سے بھر گئے ہیں۔ میں اپنے ساتھ گرم کپڑے، چادریں،خشک دودھ اور نقدی وغیرہ لے کر گیا تھا۔ پانچ ہزار روپے پر مبنی پیکیج بھی بنائے تھے۔ اپنے دوستوں ہارون خان اور ضیاء الدین خان کو ہمراہ لے لیا۔ اس لیے کہ وہ اسی علاقے کے ہیں۔ مشتاق صاحب کے گھر کو ان چیزوں کا مرکز بنایا۔ ان کا خاندان کافی بڑا ہے۔ وہ اپنے خاندان کے سربراہ کی حیثیت رکھتے ہیں؛ چنانچہ ان کی نگرانی میں سب کچھ تقسیم کیا گیا۔ میری اہلیہ محترمہ بھی میرے ہمراہ تھیں۔ وہ متاثرین کے گھروں میں گئیں۔ ان کے ہمراہ مشتاق صاحب کے خاندان کی خواتین بھی تھیں۔ انہوں نے گھر گھر جا کر خدمت کی۔ اس بچی کا احوال بھی مجھے بتایا کہ جس نے جہیز کا سامان خود محنت کر کے تیار کیا تھا مگر وہ سب ریت اور مٹی ملے ہوئے کیچڑ کی نذر ہوچکا تھا۔ میں ہارون خان اور ضیاء الدین کے ہمراہ اس وادی میں بھی گیا جہاں پتھروں کا سیلاب آیا تھا اور سب کچھ اپنے ساتھ بہا کر لے گیا تھا۔ میں مدین اور بحرین کے بازاروں میں گیا جہاں دریا بہتا ہے۔ اس بلڈنگ کی چھت پر بھی بیٹھا رہا کہ جس کے نیچے کی دو منزلیں پتھروں اور مٹی ریت سے بھر گئی تھیں اور اس کی چھت ہی اب زمین کی نئی سطح ہے۔ بحرین سے کالام تک کا سفر انتہائی مشکل ہے۔ یہ سفر کئی گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ تین سے پانچ گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ جگہ جگہ پاک فوج کو سلام پیش کیا کہ انجینئرنگ کور نے پل وغیرہ بنائے ہیں۔ بند سڑکیں اس طرح کھولی ہیں کہ بھاری پتھر ہٹا کر پہاڑ کے دامن میں پتھریلی مٹی تراش کر سڑکیں اور راستے بنائے ہیں۔ خدمت کے لیے کئی افراد اور تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ ضرورت کافی زیادہ کی ہے۔ مقامی افراد کی نشاندہی پر ہم سے جو ہو سکا کیا‘ مگر ضرورت بہرحال کہیں زیادہ کی ہے۔
واپسی کا سفر اختیار کیا تو مشتاق صاحب اور ان کے گھر والے مجھے اور میری اہلیہ سے تقاضا کرنے لگے کہ چند روز مزید ان کے ہاں قیام کیا جائے۔ تنویر کے دونوں بچے بیگم صاحبہ سے چمٹ رہے تھے۔ احمد کہہ رہا تھا کہ میں نے لاہور جانا ہے۔ سوات میں نہیں رہنا یہاں سیلاب آتا ہے۔ میں نے ان بچوں کو گود میں بٹھایا اور پیار کیا۔ دوبارہ آنے کا وعدہ کیا۔ مشتاق صاحب جاپانی پھل توڑ رہے تھے۔ ہماری گاڑی‘ جو ان کے گھر میں کھڑی تھی‘ اس میں پھل رکھ رہے تھے۔ بتایا گیا کہ یہ چین کا ہزاروں سال پرانا پھل ہے۔ وہاں سے جاپان میں گیا اورجاپان سے پاکستان میں سوات اور چترال کے علاقوں میں کاشت ہوا۔ انسانی خلیات کو نقصان پہنچا کر جو عناصر کینسر پیدا کرتے ہیں‘ مذکورہ پھل ان عناصر کے سامنے رکاوٹ بن جاتا ہے۔ یہ بڑھتی عمر کے اثرات کو کم کرتا ہے۔ بلڈ پریشر‘ جو دل کی بیماری کا باعث بنتا ہے‘ کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔ قوتِ مدافعت کو بڑھاتا ہے۔ الرجی کو کم کرتا ہے۔ اس میں وٹامن اے اور سی ہے۔ آنکھوں کے نور کو بڑھاتا ہے۔
قارئین کرام! میری گود میں تنویر مرحوم کے دو پھل اور آنکھوں کے نور تھے۔ ان کے نانا درختوں کے پھلوں کی جانب متوجہ تھے۔ حقیقت یہ ہے ہم وہاں سے نکل آئے ہیں مگر دل کا درد ساتھ لے کر آئے ہیں۔ اے حکمرانو! سیاست دانو! تم مجھے کہیں دکھائی نہیں دیے۔ آؤ! سیاست کو کچھ عرصہ کے لیے روک دو۔ یہ خدمت کی سیاست کا وقت ہے۔ اسے ہی کرو۔ دل کی زمین پر خدمت ہی سے پھلوں کا باغ اُگے گا۔