اللہ کے آخری رسول حضور کریمﷺ بطحا کی وادی میں تشریف فرما تھے۔ مکہ کے ابتدائی دعوتی دور میں مسلمان ہونے والے صحابہ کرام آپﷺ کے ہمراہ تھے۔ مشہور عرب پہلوان رکانہ بھی یہیں موجود تھا۔ اس وادی میں بکریوں کا ایک ریوڑ اس کے ہمراہ تھا۔ اسے حضور کریمﷺ کی خدمت میں لایا گیا کہ شاید وہ مسلمان ہو جائے۔ رکانہ نے اللہ کے رسول کو مخاطب کر کے کہا: اگر ہو سکے تو آپ مجھ سے کشتی کر لیں؟ وہ عرب کا سب سے بڑا اور طاقتور پہلوان تھا۔ اسے بالکل توقع نہ تھی کہ حضورﷺ اس کی پیشکش کو قبول فرما لیں گے۔ حضور کریمﷺ نے اس کا چیلنج قبول کرتے ہوئے فرمایا: جیتنے پر مجھے کیا دو گے؟ کہنے لگا: یہ بکریاں دے دوں گا۔ کشتی کا آغاز ہوا۔ حضو ر کریمﷺ نے اسے پکڑا اور چند لمحوں میں چاروں شانے چت کر دیا۔ بکریاں حضورﷺ کے حوالے ہو گئیں۔ رکانہ کو یقین نہ آ رہا تھا کہ وہ شکست کھا گیا ہے۔ کہنے لگا: اے محمدﷺ! کیا آپ دوبارہ مجھ سے کشتی کریں گے؟ فرمایا: اب کے کتنی بکریاں دے گا؟ کہنے لگا: پہلے جتنی ہی دوں گا۔ رکانہ تکرار کرتے ہوئے کہے جا رہا تھا: اے محمد(ﷺ)! اللہ کی قسم کھاتے ہوئے کہتا ہوں کہ آج تک میرے پہلو کو کوئی پہلوان زمین کے ساتھ نہیں لگا سکا۔ مقابلہ ہوا تو وہ دوسری بار بھی شکست کھا گیا اور بکریاں حضور کریمﷺ کے حوالے کر دیں۔ (تیسری بار بھی مقابلہ ہوا تو وہ شکست کھا گیا) وہ کہنے لگا: آپ جیت تو گئے ہیں مگر میں اسلام قبول نہیں کروں گا؛ چنانچہ اللہ کے رسولﷺ نے رکانہ کی بکریاں اسے واپس کر دیں۔ (ارواع الغلیل للالبانی: 1503، اسنادہ صحیح)
مندرجہ بالا واقعے کی روایت محدثِ عصر علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ بیہقی شریف کے حوالے سے ''ارواع الغلیل‘‘ میں لائے ہیں۔ ویسے اس واقعے کو امام ابودائود اور امام ترمذی بھی اپنی سنن (حدیث کی کتابوں) میں لائے ہیں۔ امام بخاری نے اپنی کتاب تاریخِ کبیر میں بھی یہ واقعہ درج کیا ہے لیکن وہاں اس کی سند میں ضعف ہے۔ لہٰذا قارئین کرام! میں مذکورہ واقعہ اس سند سے لایا ہوں جو صحیح ہے۔
یاد رہے! بعض مورخین نے لکھا ہے کہ رکانہ نے اسی وقت اسلام قبول کر لیا تھا مگر علامہ ابن عبدالبر، امام ابن اثیر اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رکانہ اس وقت نہیں بلکہ فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوا تھا اور پھر مدینہ منورہ میں رہائش اختیار کر لی تھی۔ رکانہ ہاشمی خاندان کا فرد تھا یعنی وہ حضور کریمﷺ کے خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ مدینہ منورہ میں اس نے اپنی بیوی سہیمہ بنت عمیر کے ساتھ زندگی گزاری۔ حافظ ابن عبدالبر نے بکریوں کی تعداد تین سو لکھی ہے۔ تین بار مقابلہ ہوا۔ تینوں بار رکانہ کو شکست ہوئی۔ حضور کریمﷺ نے 300 بکریاں اسے واپس کر دیں۔ حضور کریمﷺ کی تمنا تو یہ تھی کہ رکانہ مسلمان ہو جائے مگر حضورﷺ کی یہ خواہش فتح مکہ کے موقع پر پوری ہوئی۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے کشتی کے کھیل کو اسلام کی دعوت کے لیے استعمال کیا۔ بطحا کی وادی میں صحابہ کرام اور رکانہ کے مشرک ساتھیوں نے اس دنگل کا براہِ راست نظارہ کیا۔ دنگل کیا تھا‘ بس ہمارے حضور کریمﷺ نے تینوں بار اس کو پکڑا اور زمین کے ساتھ لگا دیا۔ تینوں بار کی کشتی میں صَرف ہونے والا ٹائم مشکل کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ایک منٹ ہو گا۔
1976ء کی بات ہے‘ میں لاہور کے ایک مدرسے ''تقویۃ الاسلام‘‘ میں زیرِ تعلیم تھا۔ چند منٹ کے فاصلے پر موہنی روڈ ہے جہاں بھولو برادران کا اکھاڑہ تھا۔ عصر کے بعد وہ اکھاڑے میں باہم زور آزمائی کرتے تھے۔ اسلم عرف اچھا پہلوان اور اکرم عرف اکّی پہلوان کو میں نے یہیں دیکھا۔ اسلم پہلوان کا قد چھ فٹ کے قریب تھا۔ دونوں بھائی گورے چٹے‘ انتہائی طاقتور اور خوبصورت تھے۔ وقت گزرتا چلا گیا۔ دنیا میں پہلوانی کی ایک نئی قسم نمایاں ہو چکی تھی جسے ریسلنگ کہا جاتا ہے۔ ایک جاپانی پہلوان اس میدان کا کنگ بن کر دنیا میں معروف ہوا تھا۔ ریسلنگ پہلوانی میں یہ ورلڈ چیمپئن کا اعزاز حاصل کر چکا تھا۔ ہمارے لاہور کے اکرم پہلوان عرف اکّی نے اس پہلوان کو چیلنج کیا۔ جاپانی لوگ عموماً چھوٹے قد کے اور گورے چٹے ہوتے ہیں مگر یہ جو جاپانی پہلوان تھا‘ جس کا نام انتونیو انوکی تھا‘ اس کا قد چھ فٹ تین انچ تھا۔ چوڑی چھاتی، خوبصورت اور انتہائی باوقار انسان تھا۔ اس نے اکی پہلوان کا چیلنج قبول کر لیا۔ لاہور کے اکھاڑے میں ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں اس نے اکی پہلوان کے کندھے اور گردن کو اپنی مخصوص تکنیک کے ساتھ ایسا قابو کیا کہ اکی جو شہ زوری میں ہاتھی جیسی قوت رکھتا تھا‘ پھڑک اور تڑپ کر اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا مگر اپنا کندھا انوکی کی گرفت سے آزاد نہ کرا سکا، اسی کشمکش میں کندھے کا جوڑ نکل گیا۔ اکی اب بے سدھ پڑا تھا۔ انوکی مقابلہ جیت چکا تھا۔ وہ پریس کانفرنس آج بھی میری نظروں کے سامنے ہے جب انوکی صحافیوں کے جھرمٹ میں گفتگو کر رہا تھا تو اکی کا 17 سالہ بھتیجا ''جھارا پہلوان‘‘ بدلہ لینے والی نظروں سے انوکی کی جانب دیکھ رہا تھا۔ یہ منظر انوکی کے دماغ میں بیٹھ گیا۔ زبیر عرف جھارا اسلم عرف اچھا پہلوان کا بیٹا تھا۔ اب خاندان نے اس پر متواتر تین سال محنت کی۔ موہنی روڈ کے اکھاڑے میں وہ شیر جیسی چال سے آتا اور خوب محنت کرتا۔ 20 سال کی عمر میں اس نے انتونیو انوکی کو دوبارہ چیلنج دیا۔ پاکستان میں ہی یہ مقابلہ ہوا۔ پانچ راؤنڈ ہوئے۔ ریفری کشمکش میں تھا کہ کسے فاتح کہے۔ انتونیو انوکی نے اپنے دل سے پوچھا اور خود ہی ریفری بن گیا۔ اس نے جھارا کا ہاتھ پکڑا اور اسے فاتح قرار دے دیا۔ جسمانی قوت کے اعتبار سے جھارا جیت چکا تھا مگر انوکی کے سمندر جیسے دل نے جو کردار ادا کیا‘ اس نے انوکی کو اخلاقی میدان کا بادشاہ بنا دیا۔ کھلاڑی کھیل کے میدان کا ہو یا علم وہنر کی فیلڈ کا‘ وہ جنگ کے میدان میں ہو یا سیاست کے میدان میں‘ جس میں برداشت اور عدل کا پیمانہ ڈانواں ڈول ہو جائے وہ مردِ میدان نہیں۔ انتونیو انوکی برداشت اور عدل کے میدان کا پہلوان تھا۔
امام ابو بکر احمد بن عمرو البزار (المتوفیٰ 292ھ) اپنی مسند میں ایک حدیث شریف لائے ہیں۔ یہ حدیث دو واقعات پر مشتمل ہے مگر سند ایک ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ ''حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ ایسے نو جوانوں کے پاس سے گزرے جو پتھر اٹھا (کر ورزش کر) رہے تھے۔ حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام سے پوچھا کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ جواب میں عرض کیا گیا کہ یہ اپنے جسموں کو مضبوط کر رہے ہیں۔ فرمایا: مضبوط ترین وہ ہے جو غصہ و غضب کے وقت اپنے آپ کو کنٹرول میں کر لیتا ہے‘‘۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر (دوسرے موقع پر) ایسی جگہ سے ہوا جہاں لوگوں کا ایک جم غفیر تھا اور وہاں کشتی ہو رہی تھی۔ حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پوچھنے پر صحابہ کرام نے بتایا: یہاں ایک پہلوان ہے‘ یہ جس کسی سے بھی کشتی کرتا ہے اسے چاروں شانے چت کر دیتا ہے۔ اس پر حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تم لوگوں کو ایک ایسے پہلوان کے بارے میں نہ بتائوں کہ جو اس پہلوان سے بھی کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ آگاہ ہو جائو! یہ وہ پہلوان ہے کہ اس پر کسی نے ظلم و زیادتی کر ڈالی اور یہ جوابی اقدام کے بجائے غصے کو پی گیا۔ یہ وہ پہلوان ہے جس نے ( اخلاقی میدان میں) اپنے مخالف کو چاروں شانے چت کر دیا۔ اس نے اپنے شیطان پر بھی غلبہ پا لیا اور مدمقابل کے شیطان کو بھی مغلوب کر ڈالا۔ (الصحیحۃ للبانی: 3295)
انتونیو انوکی 1943ء میں جاپان کے شہر یوکوہاما میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ بدھ مت کے پیروکار تھے۔ ان کی فطرت سلیم تھی۔ یہ جاپانی پارلیمنٹ کے ممبر بن گئے۔ یہ جاپان کے امیر ترین افراد میں سے ایک تھے۔ جاپان کی حکومت نے ان کو ''امن کا سفیر‘‘ بنا دیا۔ یہ دنیا کے مختلف ملکوں اور گروہوں کے مابین لڑائیاں بند کرانے کی جدو جہد کرنے لگ گئے۔ دنیا کے جو غریب ترین علاقے تھے‘ یہ وہاں جا کر خدمت کرنے لگ گئے۔ اپنی دولت یتیموں، بیوائوں اور مسکینوں پر خرچ کرنے لگ گئے۔ 1990ء میں عراق کے اندر ایک سو جاپانی لوگ یرغمال بن گئے تو جاپان کی جانب سے یہ عراق گئے۔ وہاں صدر صدام حسین سے ملے۔ صدام حسین نے انہیں اسلام کی دعوت دی۔ یہ کربلا کی جامع مسجد میں گئے اور وہاں امام مسجد سے حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کا سنا تو مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا اور اپنا نام محمد حسین انوکی رکھ لیا۔ عراق کے صدر صدام حسین نے فوراً جاپانیوں کو یرغمالیوں سے چھڑوا کر جاپان روانہ کر دیا۔ پاکستان میں زبیر عرف جھارا فوت ہوگئے تو محمد حسین انوکی پاکستان آئے۔ جھارا کی وفات پر تعزیت کی اور جھارا کے بھتیجے ہارون عابد کو اپنے ساتھ جاپان لے گئے تاکہ اسے مضبوط پہلوان بنا دیں۔ وہ پاکستان میں کثرت سے آنے لگے۔ یہاں ریسلنگ پر انہوں نے بہت پیسہ خرچ کیا۔ لمبا کرتا‘ سفید عمامہ پہنے جب وہ پورے خشوع و خضوع کے ساتھ قدرے جھکے ہوئے نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو بہت خوبصورت لگتے۔ حالیہ ماہِ ربیع الاول کا آغاز ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے پناہ محبت کرنے والا‘ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے کردار پر فدا ہونے والا‘ اپنا نام محمد حسین انوکی رکھنے والا اپنے اللہ تعالیٰ کے پاس چلا گیا۔ وہ آخر وقت تک جاپانی پارلیمنٹ کے ممبر تھے۔ جاپان میں پاکستان کے سفیر بنے ہوئے تھے۔ آخری مہینوں میں وہ سخت بیمار تھے۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکے تھے۔ ہر انسان کا آخرکار یہی مقدر ہے۔ کامیاب مقدر اس کا ہے جو ایمان اور عمل صالح کی دولت سے مالا مال ہو گیا۔ محمد حسین انوکی یہ دولت لے کر گیا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے فردوس عطا فرمائے۔ میرے ملک کے سیاسی کھلاڑیوں کو حلم و حوصلے کا زیور زیب تن فرما دے۔