''اللہ کے رسول حضرت محمد کریمﷺ انسانی تاریخ کے وہ واحد عظیم جرنیل ہیں کہ جن کی لڑی گئی تمام جنگوں میں رحمت کا پہلو نمایاں ترین ہے‘‘۔ یہ اظہار ہے رچرڈ اے جبریل (Richard A. Gabriel) کے نظریے کا‘ جو 16دسمبر 1942ء کو امریکہ میں پیدا ہوئے اور آج کل کینیڈا میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ 80 سال کی عمر پا چکے ہیں۔ امریکی فوج میں بھرتی ہوئے اور ایک آفیسر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد یہ امریکہ کے آرمی وار کالج میں تاریخ اور سیاست کے پروفیسر بن گئے۔ اس کے بعد ان کی خدمات میرین کارپس یونیورسٹی آف امریکہ کے حوالے کر دی گئیں۔ وہاں سے فارغ ہوئے تو کینیڈا کی حکومت نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ یہ ٹورنٹو میں رائل ملٹری کالج میں پروفیسر بن گئے۔ یہ ڈیفنس کالج ٹورنٹو میں ڈیفنس سٹڈی کے انچارج بنا دیے گئے۔ رچرڈ اے جبریل اب تک چالیس کتابیں لکھ چکے ہیں۔ 2016ء میں ان کی ایک کتاب سامنے آئی جس کا عنوان تھا: "God's Generals"۔ ''اللہ تعالیٰ کے جرنیل‘‘ نامی اس کتاب میں وہ انتہائی پُرامن تین شخصیات کا تذکرہ کرتے ہیں۔ سب سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا‘ جو اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر رسول اور پیغمبر ہیں۔ وہ اپنی غلام قوم بنی اسرائیل کو فرعونیوں کی غلامی سے نکال کر راتوں رات بحرِقلزم پار کر کے وادیٔ سینا میں لے گئے تھے۔ یہ کوئی جنگ نہیں تھی‘ انہوں نے اپنی قوم کو آزادی دلائی تھی۔ یہ آزادی ہجرت کی صورت میں تھی۔ وادیٔ سینا میں یروشلم کی سخت جان، مشرک اور ظالم قوم کے خلاف حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو جنگ کے لیے تیار کیا مگر جب عملاً جنگ کا وقت آیا تو تھوڑے سے مخلص لوگوں کے علاوہ ساری قوم نے اپنی مخالف سخت جان قوم کے خلاف لڑنے سے انکار کر دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام انتہائی بہادر اور عظیم جرنیل تھے مگر انہیں مخالفین سے لڑائی کا موقع نہیں ملا۔ یہ قصہ قرآنِ مجید میں مذکور ہے کہ بنی اسرائیل کو اس جنگ میں یقینی فتح کی نوید بھی سنائی گئی تھی مگر پھر بھی وہ جنگ پر آمادہ نہ ہوئے اور اللہ اور اس کے جلیل القدر پیغمبر کی نافرمانی کی۔ اسی نافرمانی کی پاداش میں چالیس سال تک وہ وادیٔ سینا میں بھٹکتے رہے اور یروشلم نہ جا سکے۔
قارئین کرام! دوسری جس شخصیت کا رچرڈ اے جبریل نے تذکرہ کیا‘ وہ بدھ مت کے بانی گوتم بدھ کی شخصیت ہے۔ انہوں نے اپنے دور میں ایک جنگ کودیکھا۔ دونوں طرف سے ہزاروں لوگ مارے گئے، بے شمار عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہو گئے۔ ہر طرف لاشوں کے انبار اور زخمیوں کی چیخیں تھیں۔ بدھا یہ منظر نہ بھلا سکے؛ چنانچہ ایک دن وہ اپنا محل‘ علاقہ اور بیوی بچوں کو چھوڑ چھاڑ کے جنگل میں جا بسے۔
رچرڈ اے جبریل نے اللہ کی اس زمین پر جس آخری عظیم ترین جرنیلی شخصیت کا تذکرہ کیا ہے وہ ختم المرسلین حضرت محمد کریمﷺ ہیں۔ رچرڈ اے جبریل کے اپنے الفاظ ملاحظہ ہوں:
Muhammad (s.a.w) Islam's First Great General shows us a Warrior never before Seen in Antiquity. A Leader of an all new religious movement who in a single decade fought eight major battles led eighteen raids, operations. ''حضرت محمد کریمﷺ اسلام کے وہ پہلے ایسے عظیم جرنیل ہیں جو ہمیں ایسے جنگی جرنیل نظر آتے ہیں کہ قدیم (انسانی تاریخ میں) کبھی بھی ایسا جرنیل نہیں دیکھا گیا۔ مکمل طور پر ایک ایسی مذہبی تحریک کے لیڈر کی حیثیت سے آپﷺ اس طرح نمایاں ہوئے کہ صرف دس سالوں میں آپﷺ نے آٹھ بڑی جنگیں لڑیں اور اٹھارہ مہمات اور آپریشنز کی قیادت فرمائی‘‘۔
قارئین کرام! رچرڈ اے جبریل مزید لکھتے ہیں:
Experienced of these Men (Moses And Budda) in war not been so successfull.
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور جناب گوتم بدھ جیسی شخصیات کا تجربہ جنگ میں اتنا کامیاب نہیں رہا۔
قارئین کرام! غور کیجئے کہ پروفیسر رچرڈ اے جبریل‘ جو امریکی فوج میں آفیسر رہے‘ جنگی تاریخ کے مؤرخ ہیں‘ وار ہسٹری کے پروفیسر ہیں‘ انسانیت(Humanity) اور اخلاقیات (Ethics) کے بھی پروفیسر ہیں‘ وہ 74 سال کی عمر میں تین شخصیات پر ایک کتاب لکھتے ہیں اور اس کتاب میں حضور نبی کریمﷺ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ آج وہ 80سال کے بزرگ ہیں‘ امریکی اور کینیڈین حکومت کی سربراہی میں وہ اپنی ریسرچز پیش کر چکے ہیں اور حضورﷺ کو تاریخِ انسانی کا سب سے بڑا جرنیل قرار دے چکے ہیں مگر اس عظمت میں جو سب سے بڑی سچائی انہوں نے درج کی‘ چند ماہ قبل‘ 20فروری 2022ء کو سامنے آئی جب انہوں نے 80سال کی عمر میں حضورﷺ کے بارے میں کہا کہ ''آپﷺ عبقری اور کریم تھے‘‘۔ یعنی آپﷺ کی جنگوں میں جہاں جرنیلی ذہانت انتہائی باکمال تھی‘ وہیں اس جرنیلی میں رحمت و کرم کا بھی سمندر مؤجزن تھا۔ جی ہاں! مولا کریم تو ساڑھے چودہ سو سال قبل آگاہ فرما چکے ''پیارے محبوب! ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے سراسر رحمت بنا کر بھیجا ہے‘‘ (القرآن) صرف انسانی زندگی کے جہان کو ہی سامنے رکھا جائے اور پھر اس زندگی کے ایک شعبے ''جنگ‘‘ کو نگاہوں میں لایا جائے تو اس میں بھی رحمت ہی رحمت ہے۔ ہم گزشتہ تاریخ کی بات نہیں کرتے‘ صرف حالیہ ایک صدی کی بات کرتے ہیں۔
پہلی عالمی جنگ 28جولائی 1914ء کو شروع ہوئی اور 11نومبر 1918ء کو ختم ہوئی۔ اس سوا چار سالہ جنگ میں 90لاکھ فوجی مارے گئے اور 50 لاکھ شہریوں کا قتل ہوا۔ لاکھوں شہری نسل پرستی میں مارے گئے۔ لاکھوں بھوک اور بیماری کے سبب ہلاک ہوئے۔ یوں شہریوں کے مارے جانے کی تعداد فوجی ہلاکتوں کے قریب ہو گئی یعنی مجموعی طور پر ایک کروڑ اسّی لاکھ افراد اس جنگ میں مارے گئے۔ جن عورتوں کے ساتھ ریپ ہوا ان کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے صرف 21سال بعد دوسری عالمی جنگ شروع ہو گئی۔ یہ 1939ء میں شروع ہوئی اور 1945ء میں ختم ہوئی۔ اس سات سالہ جنگ میں آٹھ سے نو کروڑ افراد قتل ہوئے۔ زیادہ تعداد عام شہریوں کی تھی۔ لاکھوں لوگ نسل پرستی کی وجہ سے مار دیے گئے۔ لاکھوں عورتوں کا ریپ کیا گیا۔ جاپان کے دو شہروں‘ ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکہ نے ایٹم بم گرائے جس سے یہ دونوں شہر صفحۂ ہستی سے مٹ گئے۔ یاد رہے کہ دونوں جنگوں کو شروع کرنے والے امریکہ، روس، یورپ کے ممالک اور جاپان وغیرہ جیسے ممالک تھے۔ دوسری عالمی جنگ کو ختم ہوئے اب 77سال گزر گئے ہیں۔ اس پون صدی میں جو انفرادی جنگیں ہوئیں ان میں زیادہ تر مسلمان ظلم کا شکار ہوئے۔ میرے رب کریم کی شان ہے کہ آج دنیا کی سپر پاور کہلانے والے امریکہ کے ایک فوجی افسر اور وار پروفیسر کی طرف سے اعلان ہوتا ہے کہ انسانی تاریخ میں کوئی ایسا جرنیل نہیں گزرا جس کی جرنیلی میں رحمت کا عنصر ہو۔ ایسی ہستی تو صرف ایک ہی ہے اور وہ حضرت محمد کریم رحمت دو عالمﷺ ہیں کہ جن کی جرنیلی زندگی میں رحمت ہی رحمت ہے۔
اس وقت روس اور یوکرین کے مابین گزشتہ چھ ماہ سے جنگ جاری ہے۔ دونوں ملک آرتھوڈکس مسیحی ہیں۔ دونوں کی نسل بھی یکساں ہے‘ یعنی دونوں East Slavic نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ دونوں کی زبان بھی ایک جیسی ہے مگر روس یوکرین کو ایٹم بم گرانے کی دھمکی دے چکا ہے۔ یوکرین کی شہری آبادی تباہ کی جا رہی ہے۔ روس کی پشت پر چین اور اس کے دوست ممالک ہیں۔ یوکرین کے پیچھے امریکہ اور یورپ کھڑے ہیں۔ اللہ کرے کہ یہ جنگ ایٹمی جنگ اور عالمی جنگ نہ بنے وگرنہ انسانی بربادی کی داستان کروڑوں کے ہندسے کو عبور کر کے ارب کی حد پر دستک دے کر مزید آگے بھی بڑھ سکتی ہے۔ ہمارے حضور کریمﷺ تمام جہان والوں کے لیے سراسر رحمت ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکہ اور کینیڈا نے حضور کریمﷺ کو پُررحمت جرنیلِ اعظم تسلیم کیا ہے تو جنگ کے دوران حضورﷺ کی پُرامن اور پُررحمت تعلیمات اور عملی کردار کو اپنانا بھی ضروری اور لازم ہے۔ روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے حضور کریمﷺ کی عزت و حرمت کے تحفظ کے سلسلے میں بڑا اچھا بیان دیا تھا۔ ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ اس جنگ کو فوراً بند کیا جائے۔ امریکہ کے صدر جوبائیڈن کی خدمت میں بھی گزارش ہے کہ وہ روس کو اس کی سلامتی کا یقین دلائیں تاکہ دونوں جانب سے امن کی راہ ہموار ہو۔
جب تک جنگ جاری ہے‘ حضور کریمﷺ کے جنگی فرامین اور تعلیمات پر مکمل طور عمل کیا جائے۔ -1 آپﷺ نے اپنے کمانڈروں کو ہدایت دی کہ کسی بچے کو قتل نہ کیا جائے۔ -2 کسی عورت کو قتل نہ کیا جائے۔ -3 کسی مزدور کو قتل نہ کیا جائے۔(نوٹ: روزی روٹی کمانے والا ہر شخص مزدور ہے) -4 کسی عبادت گاہ پر حملہ نہ کیا جائے۔ -5 جو لوگ عبادت گاہوں میں عبادت کر رہے ہوں ان کو کچھ نہ کہا جائے۔ -6 بوڑھوں کو کچھ نہ کہا جائے۔ -7 جو ہتھیار پھینک دیں اور سرنڈر کر دیں‘ انہیں بھی کچھ نہ کہا جائے۔ -8 فصلوں، کھیتوں اور باغات وغیرہ کو نہ اجاڑا جائے۔ -9 آگ لگا کر انسانی، حیوانی اور نباتاتی زندگی کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ -10 قیدیوں کے ساتھ نرمی اور ان کے انسانی حقوق کا احترام کیا جائے۔ قارئین کرام! امن ہو یا جنگ‘ سارا جہان حضورﷺ کی سیرت کے سائے ہی میں ہو گا رحمت کے سنگ!